معروف ادیب شمس الرحمن فاروقی زبانی کلامی تو انتظار حسین کو دور حاضر کا ممتاز ترین فکشن نگار مانتے ہیں لیکن تحریری گواہی کاان کی طرف سے ابھی انتظار ہے،ہاں!البتہ انتظارحسین کی تنقید اور بطورقاری بصیرت کا اعتراف وہ قلم سے کر چکے ہیں،جیسا کہ انتظارحسین کی کتاب’’علامتوں کا زوال‘‘ پر اپنے مضمون میں انھوں نے لکھا ’’انتظارحسین کی تنقیداسی لیے قیمتی ہے کہ وہ جگہ جگہ ایسی ہی insightsسے بھری ہوئی ہے جن پر پورے پورے مضامین نثار ہو سکتے ہیں۔‘‘
نامور شاعر ظفر اقبال کی ’’آب رواں‘‘پراپنے مضمون میں لکھتے ہیں: ’’انتظار حسین کا ذکرمیں نے اس لیے کیاکہ ان سے اچھا قاری کم ہی آج کے زمانے میںکسی کومیسرآئے گا۔وہ جتنے اچھے افسانہ نگار اور نثر نویس ہیں، اتنے ہی اچھے نقاد ہیں۔ اور کلاسیکی معاشرے، اس کی تہذیب،مفروضات اورتصورکائنات سے ان کی واقفیت گہری ہے۔یہی وجہ ہے کہ انھیں ظفراقبال کے کلام میں لطف آتاہے۔‘‘ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ شمس الرحمٰن فاروقی اور انتظار حسین کے تنقیدمیں گرومحمد حسن عسکری ہیں،جن کی تحریروں کو پہلے پہل پڑھ کر دونوں ہی ان کی علمیت کے اس قدر رعب میں آئے کہ نقاد بننے کاخیال ہی ذہن سے رفع کر دیا۔ انتظارحسین توفکشن کی طرف نکل گئے مگرشمس الرحمٰن فاروقی آدمی ہمت والے ہیں۔
اس لیے تھوڑا سنبھل کرنقاد بننے کا چیلنج قبول کیا اور پھر وہ وقت آیا کہ نقاد اور پھرآگے چل کرفکشن نگارکے طور پر اونچا مرتبہ پایا۔ بقول فاروقی ’’عسکری صاحب کے مطالعے کی وسعت نے شروع میں، میری بہت ہمت شکنی کی، اتنا پڑھنا، اور پھر اتنا دورجاکرکے مغرب کو دیکھنا اور پھراس کو مشرق سے بھی متعلق رکھنا تو میں نے سوچاکہ یہ تو میرے بس میں ہے ہی نہیں۔میں اس کو کیسے کروں گا۔‘‘
اس سے ملتے جلتے خیالات انتظارحسین کے ہیں ’’عسکری صاحب کے ساتھ جب کچھ وقت گزاراتومجھے احساس ہوا کہ نقاد تو میں نہیں بن سکتا۔ان کے علم و فضل سے میں اتنا متاثر اور مرعوب ہوا اوریہ جاناکہ نقاد بنناتواس شخص کو ہی زیبا ہے۔ اگر میں نقاد نہیں بن سکاتواس کی ذمہ داری عسکری صاحب پرعائد ہوتی ہے۔ ان کودیکھ کرہی مجھے محسوس ہواکہ اس قسم کی اہلیت مجھ میں کبھی پیدا نہیں ہوگی، اس لیے نقاد بننے کا خیال مجھے دل سے نکال دینا چاہیے۔‘‘
انتظارحسین کی تخلیقی شخصیت کا مرکز فکشن ہے،اوراس بات کو ان کے لفظوں میں بیان کیاجائے توکھونٹاان کا افسانہ وناول ہے اور باقی کے لکھے کوبشمول تنقید،وہ سیرکے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی کے زمرے میں ڈالتے ہیں۔’’علامتوں کا زوال‘‘ اور ’’نظریے سے آگے‘‘ میں تو وہ مضامین ہیں جو ادبی رسالوں کے اڈیٹروں کی فرمائش یا پھر وہ جو انھیں ادبی بحثوں کا چسکہ میدان ادب میں داخل ہوتے ساتھ پڑھ گیا تھا اس کے سلسلے میں لکھے۔
اب یہ جو مضامین کی تیسری کتاب جس پرہم بات کریں گے، اسے بھی ان کے تنقیدی عمل کا تسلسل جاننا چاہیے لیکن اس کا رنگ پہلی دوکتابوں سے اس واسطے الگ ہے کہ اس میں شامل زیادہ ترمضامین خطبات ،لیکچرز اور کلیدی مقالوں کی صورت میں سامنے آئے۔بیچ میں دوسرے رنگ کی تحریریں بھی ہیں۔کچھ کتابوں پرتبصرہ۔چند پیش لفظ۔’’اپنی دانست میں‘‘ ادب کی بات تو ہورہی ہے لیکن بیچ بیچ میں معاصرصورت حال کا بیان بھی درآتا ہے۔مثلاًطالبان کے ہاتھوں بچیوں کے اسکولوں کی تباہی کا رونا۔ سامراج کی گود میں پلوں کی طرف سے اب اسی کے بارے میںگھن گرج کا ذکر۔انتہاپسندی پررائے کا اظہار۔
نقاد انتظارحسین کا تخلیقی ادیب کے طورپرنقادوں سے اٹ کھڑکا رہا۔ نقادوںکوگمراہ کرنے کا دعویٰ بھی انھوں نے کیا ۔ قاری کی تربیت کا اہتمام بھی کرتے ہیں، اوراس کا ذریعہ بھی ان کی تنقیدی تحریریںبنتی ہیں۔معروف شاعراور’’ذہن جدید‘‘کے مدیرزبیررضوی کا کہنا ہے کہ اس وقت اردو میںانتظارحسین کے سواکوئی ادیب ایسا نہیں جو قاری کی تربیت کرتا ہو۔ہم نے ایک ملاقات میں پوچھا:وہ کیسے؟ توکہنے لگے کہ ’’علامتوں کا زوال‘‘اور’’نظریے سے آگے‘‘ کو پڑھ لیجے ،آپ کواپنے سوال کاجواب مل جائے گا۔
انتظارحسین کی ترقی پسندوں سے چھیڑ چھاڑادب میں ورود کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ ترقی پسندوں نے انھیں ہدف تنقید بنایا تو یہ بھی نچلے نہ بیٹھے۔ جب ایک بارا نھوں نے یہ کہہ دیا کہ کہانی لکھنا نانی اماں سے سیکھا تو ترقی پسندوں نے خوب شور مچایا۔ ترقی پسندوں سے یدھ میں نانی اماں کا یہ فرمودہ کام آیا کہ لڑائی کے وقت ایک آنکھ کھلی رکھو اور ایک آنکھ بند،اس لیے ترقی پسندوں سے اختلاف اپنی جگہ مگر اس تحریک کے نمایاں افراد سے ان کے تعلقات بھی رہے، سینگ اگر پھنسائے تو چھٹ بھیوں سے نہیں اور متھا لگایا بھی توصفدر میر جیسے علاموں سے، اس عمل میں ان کا یہ اصول کارفرما رہا ’’آدمی چھوٹا نہ ہو تو لڑنے میں مجھے کوئی مضائقہ نظر نہیں آتا۔ قدیم شجاعانِ عرب میدان میں اتر کر پہلے مقابل کا حسب نسب پوچھتے تھے، جب پتا چلتا کہ حریف حسب نسب والا ہے تو پھر اطمینان سے لڑتے تھے۔‘‘
لگتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتظارحسین نے ترقی پسندتحریک اوراس کے بڑوں کے بارے میں اپنے نقطۂ نظرکو ری وزٹ کیا ہے، جس کے نشان اس کتاب میں جابجا نظرآتے ہیں۔سجاد ظہیر،کرشن چندر، فیض احمد فیض، اورحسن عابدی جیسے ٹھیٹ ترقی پسندوں کے بارے میں ان کا لہجہ ہمدردانہ رنگ لیے ہوئے ہے۔ سجاد ظہیر پر کتاب میں ان کا عمدہ مضمون بعنوان ’’سجاد ظہیر،دودھ اورمینگنیاں‘‘شامل ہے۔وہ’’لندن کی ایک رات‘‘کے پیش لفظ سے یہ ٹکرانقل کرتے ہیں۔
’’یورپ میں کئی برس طالب علم کی حیثیت سے رہ چکنے کے بعداورتعلیم ختم کرنے کے بعد،چلتے وقت پیرس میں بیٹھ کر مخصوص جذباتی کشمکش سے متاثرہوکرسوڈیڑھ سوصفحے لکھ دینا اور بات ہے اورہندوستان میں ڈھائی سال مزدوروں ، کسانوںکی انقلابی تحریک میں شریک ہوکرکروڑوںانسانوں کے ساتھ سانس لینا اور ان کے دل کی دھڑکن سننادوسری چیزہے۔میں اس قسم کی کتاب اب نہیں لکھ سکتااورنہ اس کا لکھناضروری سمجھتاہوں۔‘‘
اب اس پران کا تبصرہ ہے ’’سن لیاآپ نے ۔وہی مضمون ہوا کہ بکری نے دودھ دیا، پھراس میں مینگنیاں کردیں۔‘‘سجاد ظہیرکے مذکورہ بالا بیان پرمحمد سلیم الرحمٰن ان کے ناولٹ پراپنے مضمون میں لکھتے ہیں: ’’بظاہرلگی لپٹی بات کوئی نہیں۔جوکہنا ہے دو ٹوک کہہ دیاہے۔لیکن اس بیان پرتھوڑاساغورکیا جائے تو مضمرات پر نظر جاتی ہے۔پہلے تویہ کہ یہاں لکھنے کے عمل کے بارے میں ایک ڈھکاچھپاسا تحقیری رویہ موجودہے۔فکشن نگاری کو ایک انفعالی سرگرمی گرداناہے جوعمل پسندی،سرگرم شراکت، فعال مشغولیت وغیرہ کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ انھوں نے صرف یہ بیان دیاہے کہ وہ’’لندن کی ایک رات‘‘ جیسی کوئی چیزلکھنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اس کے بعدفکشن نہیں لکھااورقاری یہ نتیجہ اخذکرنے میںحق بجانب ہوگاکہ تمہیدی نوٹ میں مذمت یا حقارت کا جوپہلوبین السطوردکھائی دیتاہے اس کا اطلاق ہرطرح کے فکشن پرمقصودہے۔‘‘
انتظارحسین کے مضمون نے لکھنؤمیں بیٹھے ترقی پسندعابد سہیل کو ناراض کیاتومحمد سلیم الرحمن کا لکھاحمید اختر کو خفا کر گیا۔ سجاد ظہیر نے جب ایک بار کہا کہ وہ ادب میں کوئی بڑا کام انجام نہیں دے سکے تو عصمت چغتائی نے پلٹ کر انھیں جواب دیا تھا: ’’آپ نہیں جانتے۔مگرآپ نے کچھ دروازے کھولے ہیں، کچھ کھڑکیاں توڑی ہیں۔ راستے دکھائے ہیں۔کیا یہ تخلیق نہیں۔‘‘ انتظار حسین نے اپنے مضمون میں عصمت چغتائی کے بیان کے حق میں دلائل دیے ہیں۔
’’اپنی دانست میں‘‘کے مصنف، کرشن چندرسے ادبی سفر کے آغازمیں متاثرہوئے، لیکن بعد میں ان سے متنفر ہوگئے مگر اب پھر لگتا ہے کہ پرانی محبت عود کرآئی ہے اس لیے وہ کرشن چندر کا مقدمہ لڑتے نظرآتے ہیں۔’’ہندوستان میں بعض نقاد منٹو اور بیدی سے عقیدت کے جوش میں کرشن چندرکے مرتبے کو گھٹانے پہ تلے نظرآتے ہیں۔کرشن چندرکے باقی امتیازات سے قطع نظریہ امتیازایسا ہے یعنی بیسویں صدی کے انقلاب انگیز طرز اظہار کواپنانے اوراردومیں متعارف کرانے کا امتیاز جس میں اس کا کوئی ہمعصرافسانہ نگاراس کا شریک نہیں ہے۔ باقی یہ نقاد اپنے طوطامینااڑاتے رہیں۔‘‘
مضمون’’سرسید سے پہلے،سرسید کے بعد‘‘ کو اس مجموعے کا گل سرسبد سمجھنا چاہیے جس میں لڑکیوں کے اسکول جلانے کے واقعات پرلکھتے ہیں توکیا عجب نکتہ برآمد کرتے ہیں۔’’جب سوات سے لڑکیوں کے اسکولوں کے جلنے کی خبریں مستقل آتی چلی گئیں تومیں حیران ہواکہ یااللہ اس قبائلی علاقے میں آخرلڑکیوں کے کتنے اسکول تھے کہ سب مسلسل جل رہے ہیں مگر ختم ہونے میں نہیں آرہے۔ پھرمجھے خیال آیاکہ وہ جو شیخ عبداللہ نے علی گڑھ میں ایک چھوٹاسااسکول کھولا تھا اور جس میں مسلمان شرفااپنی بیٹیوں کو بھیجنے کے لیے تیارنہیں تھے، اس نے علی گڑھ سے نکل کردوردورتک کتنے گل پھول کھلائے ہیں اور اب مجھے اپنے یہاں کے اخباروں میں شائع ہونے والی ایک تصویریاد آرہی ہے۔
جب سوات میں امن و امان قائم ہوا اور نکلے ہوئے لوگ اپنے گھروں میں واپس پہنچے تواسکولوں کی لڑکیوں نے بھی اپنے اپنے اسکول کا رخ کیا۔مگروہ تواب جلے پھنکے کھڑے تھے۔ کچھ کھڑے تھے،کچھ ڈھے گئے تھے۔ایسے ہی ایک ادھ جلے ادھ ڈھئے اسکول کی ایک تصویر ’’ڈان‘‘ میں شائع ہوئی تھی، جومیرے تصورمیں اٹک کررہ گئی ہے۔چند طالبات بغلوں میں بستے دبائے جلے پھنکے درودیوارکے بیچ بہت خوش خوش نظر آرہی ہیں۔میں سوچ رہا ہوں کہ سرسید جیساتواب کوئی ہمارے بیچ نہیں ہے لیکن شاید علی گڑھ کی تعلیمی تحریک ابھی ان طالبات کے روپ میں زندہ ہے۔ کیا عجب سوات کے دور دراز علاقے کی انھی طالبات کے بیچ سے ڈاکٹررشید جہاں سے بڑھ کر کوئی رشید جہاں نمودار ہو جائے۔‘‘
یہ بات جانے کس گھڑی ان کے قلم سے نکلی جو اتنی جلدی پوری ہوگئی اوراس علاقے سے ملالہ یوسف زئی سامنے آگئی جس کی دلیری اورذہانت کے وہ بہت قائل ہیں ۔اس کتاب کا مطالعہ ان حضرات کو بھی کرنا چاہیے جو فکشن نگارکی حیثیت سے انتظار حسین کے ہاں ہونے والے ارتقاء کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ کس طریقے سے حقیقت نگاری کے اسلوب سے دامن چھڑا کر علامتی کہانی اوراس سے بڑھ کرکتھا کہانی کی روایت سے استفادہ انھوں نے کیا، ساری کہانی بیان کردی گئی ہے۔
نوبیل انعام یافتہ معروف دانشورامریتا سین نے اپنی کتاب “Identity and Violence: The Illusion of Destiny” میں یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ مخصوص شناخت یا تشخص پراصرارسے انتہا پسندی جنم لیتی ہے، اس لیے وہ مشترک شناخت اور تہذیبوں کے درمیان لین دین کے قائل ہیں۔ انتظار حسین بھی اسی نقطہ نظرکے موید ہیں۔ اور اس باب میں کھل کر بارہا اپنی رائے کا اظہار انھوں نے کیا ہے۔ یہ کتاب بھی ایسی معروضات سے خالی نہیں۔
’’اثرانداز ہونا اور اثر پذیر ہونا تہذیبوںکا ہمیشہ چلن رہا ہے۔اس عمل میں تہذیبیں پھلتی پھولتی ہیں اور توانائی حاصل کرتی ہیں۔‘‘ یا پھر ’’ کسی سیکولرسیاسی نظریے سے یک رنگی آئے ، یا مذہب کے حوالے سے ، بہرحال یک رنگ معاشرہ ایک سخت گیر معاشرہ ہوتا ہے،اس میں فرد کو اپنے حساب سے پرپرزے نکالنے کی آزادی نہیں ہوتی۔‘‘قومی شناخت کا بحران گذشتہ 68 برس سے ہمارا پیچھا کررہا ہے، اس پر رائے یوںدیتے ہیں ’’سچ پوچھو توکالاباغ ڈیم ہی ہماری قومی شناخت ہے یعنی اتفاق رائے نہ ہونے ہی میں ہماری قومی شناخت مضمرہے۔‘‘ ہند مسلم تہذیب میں روشن خیالی کی روایت بیان کرنے نکلتے ہیں تو کیسا کیسا حوالہ شاعری اورنثرسے ان کو یاد آتاچلاجاتا ہے۔
چینوا چیبے کے ناول ’’تھنگزفال اپارٹ‘‘ اوربیپسی سدھوا کے ناول ’’کروایٹرز‘‘کے اردو ترجموں پربھی مضامین شاملِ کتاب ہیں، جن میںناولوں کے بارے میں نکتہ آفرینی تو ہے مگراکرام اللہ اورمحمد عمر میمن کے ترجمے پررائے دینے سے وہ صاف دامن بچاگئے ہیں۔ منٹوکاذہنی قرب وہ نظیراکبرآبادی کے ساتھ تلاش کرتے ہیں کہ اس نے بھی اشرافیہ سے منہ مو ڑ کرعام خلقت سے ناتا جوڑا۔ قرۃ العین حیدرکے افسانے’’ قیدخانے میں تلاطم ہے‘‘ پرجو شاندارتحریر ہے وہ صرف انتظارحسین ہی لکھ سکتے تھے۔مسعود اشعر گلہ کرتے ہیںکہ ہمارے ہاں جو حالات ہے اس پرادب میں ایک ہولناک خاموشی کا احساس ہوتا ہے، اس پر وہ نسوانی شاعری سے تین نظموں کا حوالہ دے کراپنے دوست پر یوں گرجتے ہیں ’’تجھے اس کے باوصف ہمارے ادب میں سناٹا نظر آتا ہے۔
ادب میں عہد کی گونج اورکس طرح سنائی دیتی ہے؟‘‘ یہ کہنے کے بعد وہ توجہ دلاتے ہیں ’’اصل میں آج کا،اس صدی کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی تو ہے کہ میڈیا کے عروج کے ساتھ صحافت نے ہمارے دل ودماغ پربہت غلبہ حاصل کرلیا ہے۔ سو اب ہم اکثر و بیشترادب کو بھی صحافت کے ہی پیمانوں سے ناپنے کی کوشش کرتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ اب ہمیں ایسے ناول بہت اپیل کرتے ہیں جہاں مسائل و معاملات کا اظہار سیدھا صحافیانہ رنگ میں ہوتا ہے، یعنی صحافیانہ اظہار ہی اب ہمارے لیے ادبی اظہار کا مرتبہ رکھتا ہے اور اگر یہ اظہار انگریزی میں ہو تو پھر سرخاب کا پر لگ جاتا ہے۔‘‘
داغ کے وہ اگر قائل ہوئے ہیں تو شاعری سے زیادہ جن باتوں کو دخل ہے، اس کے بارے میں آپ بھی جان لیں۔ ’’ایک اقبال کا مرثیہ داغ، اوردوسرے ان کی والدہ ماجدہ کا احوال شمس الرحمن فاروقی کے ناول میں پڑھ کر۔جسے ایسے طمطراق والی ماں نے جنا ہووہ چھوٹا بندہ تو ہونہیں ہوسکتا۔‘‘ آگے چل کربیان کرتے ہیں کہ شمس الرحمن فاروقی نے فکشن میں جو رنگ نکالا ہے وہ ایجاد بندہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے مولانا محمد حسین آزاد کی ’’آب حیات‘‘ہے، جس کو بھلے وقتوں میں انتظار حسین ناول قرار دے کرمحققوں کو اس سے دوررہنے کا مشورہ دے چکے ہیں۔
بڑے لکھنے والوں کے ادب کے بارے میں خیالات کوہمیشہ دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے کہ تخلیقی ادیب جس بلند سطح سے معاملاتِ ادب کو دیکھتے ہیں،نقاد کی آنکھ کی وہاں تک رسائی نہیں ہوتی۔ عصر حاضر پر نظردوڑائیںتو بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیبوں میں میلان کنڈیرا، یوسا اوراورحان پاموک کا نام فوراً ذہن میں آجاتا ہے ، جن کی فکشن سے ہٹ کرادب کے بارے میں نگارشات کو، جنھیںان ادبا کی ذہنی سرگزشت قراردیا جاسکتا ہے، بڑی پذیرائی ملی۔ اردو میں ایسی مثالیں کم کم ملیں گی، مگر انتظارحسین گزشتہ 65 برس سے تخلیق ادب کے ساتھ ساتھ ادب اورتہذیب سے جڑے معاملات پر اپنی رائے کا برابراظہارکر رہے ہیں،اس بات کے ثبوت میں ان کی تنقیدی کتابوں کوپیش کیا جاسکتا ہے۔
مضمون کا آغاز جید ادیب شمس الرحمن فاروقی کے ذکر سے ہوا تو اب اس کو ختم بھی ہم ’’اپنی دانست میں‘‘ کے بارے میں ان کی اس رائے پر کرتے ہیں۔ ’’یہ کتاب نہیں ہے، ایک عمر،بلکہ ایک عہد کے مطالعے ، غوروفکر، روشن فکری اور غیر جانبداری سے حاصل کردہ عقل وحکمت کا افشردہ اور عطرمجموعہ ہے۔‘‘ یہ کتاب سنگ میل پبلی کیشنزنے شائع کی ہے، جس کے بانی نیازاحمد مرحوم کے نام ہی اسے معنون کیا گیا ہے۔
’’اپنی دانست میں‘‘سے چند اقتباسات
٭تہذیب کوڈبیا میں بند کرکے تونہیں رکھا جا سکتا۔ اثر انداز ہونا اور اثر پذیر ہونا تہذیبوں کا ہمیشہ سے چلن رہا ہے۔ اس عمل میں تہذیبیں پھلتی پھولتی اور توانائی حاصل کرتی ہیں۔۔۔۔۔ ڈرنا چاہیے اس وقت سے جب کوئی قوم تہذیبی خوف میں مبتلا ہو جائے۔ یہ اس کے زوال کے آثار ہوتے ہیں۔
٭ ۔۔۔۔مگر اس دوران ہندی مسلمانوں نے پھر ایک خواب دیکھ لیا تھا۔ خیر اس مرتبہ وہ بہت اونچے نہیں اڑے۔ برصغیر ہی کی حدود میں ایک مملکت کے قیام کا خواب دیکھا۔ جلدی جلدی اس کی پرورش کی اور عجب ہوا کہ جلد اس خواب کی تعبیر بھی نکل آئی اور بیسویں صدی میں رونما ہونے والا یہ واحد خواب تھا جس نے صدی کی حد کو پھلانگ کر اکیسویں صدی میں قدم رکھا۔
٭ یہ جو تھرڈ ورلڈ لٹریچرکی نئی روایت بن چلی ہے تو ابھی خود بھی ایک ٹانگ پرکھڑی ہے۔ناول ، ناول، ناول دوسری ٹانگ شاعری کے نام والی کا کچھ ایسا پتانہیں چل رہا۔
٭کتنا اچھا تھاوہ زمانہ جب حافظے کو حافظہ سے راہ تھی۔کہانی سنانے والااپنے حافظے پراعتبارکرکے کہانی سناتا تھا۔سننے والوں کے حافظے پرپرکہانی نقش ہوجاتی تھی۔ مگر اب زمانہ اور ہے۔برا ہوپرنٹنگ پریس کا جس نے ہم سے ہمارا حافظہ چھین لیا ہے۔
٭محققوں پرزیادہ اعتبارنہیں کرنا چاہیے۔ابھرے ہوؤں کو ڈبونے اورڈوبے ہوؤں کو ترانے کے شوق میں وقتاً فوقتاًان ڈوبے ہوؤں کوبھی ترانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں، جن کا ڈوب جانا ہی شاعری کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ زمانہ اپنی ناانصافیوںکی تلافی کرتا رہتا ہے۔بس اس کے طریقے ذرا آڑھے ترچھے ہوتے ہیں۔
٭اچھا شعرہویااچھی نثراس کے بارے میں یہ بتانا مشکل ہوتا ہے کم ازکم میرے لیے کہ یہ اچھا ہے کیا۔ بس ایک فقرے پربات ختم کروں گا۔کسی بھلے وقت میں ٹی ای ہیوم کی نثری تحریروں کے کسی انتخاب میں، میں نے نثرپراس کا مضمون پڑھاتھا۔اب اس مضمون کی کوئی بات یاد نہیں۔بس اس کاایک فقرہ حافظے میں اٹکارہ گیا۔شایدبات کچھ اس طرح کہی گئی تھی کہ اچھی نثرمیں بیچ بیچ میں فقرہ اس طرح آتاہے جیسے پھنیرسانپ پھن پھیلاکرکھڑا ہوجائے۔
٭ابھی پچھلے دنوں پرانے انقلابی اورمیرے عزیزدوست حسین نقی نے ایک محفل میں ایسی تقریرکی کہ امریکی سامراج کی ساری سازشوں کو بے نقاب کردیا۔میں نے بعد میں اس عزیزسے کہا کہ حسین نقی!کیا تمھیں یہ خبرنہیں ملی کہ تمھاری طرزفغاں چوری ہوچکی ہے۔اب اسی سامراج کی گودمیں پلے ہوئے اس گھن گرج سے اس طرزفغاں کوبلند کررہے ہیں کہ وہ انہی کی ایجاد لگتی ہے۔اب میں تمھاری آوازکوان کی آواز سے الگ کیسے پہچانوں۔
٭عجیب بات ہے کہ جنھیںاپنی یادداشتیںاورآپ بیتی لکھنی چاہیے تھی،انھوں نے لکھی نہیں۔جنھیں نہیںلکھنی چاہیے تھی انھوں نے بڑھ چڑھ کرلکھی۔مولانا حسرت موہانی کوآپ بیتی لکھنی چاہیے تھی مگراس بزرگ نے نہیں لکھی۔چودھری خلیق الزماں کو نہیں لکھنی چاہیے تھی مگرانھوں نے لکھ ڈالی۔
٭ “Things Fall APart”کو ہم اس وقت بہترطورپرسمجھ سکتے ہیں،جب ہم اچیبے کے ادبی نقطہ نظرکو سمجھ لیں۔ اس نے اپنے ادبی نقطہ نظرکی وضاحت کرتے ہوئے ایک طالب علم کا ذکرکیا ہے جسے اس کی استانی نے موسم پرمضمون لکھنے کی ہدایت کی۔مضمون دیکھ کراستانی نے کہاکہ تم نے اپنے یہاں کے موسم کا ذکرکرنے کی بجائے انگلستان کے موسم کا ذکرکس خوشی میں کیا ہے۔اس نے جواب دیاکہ اپنے یہاںکے موسم کا ذکرکرتاتوکلاس کے لڑکے مجھ پر ہنستے۔ اچیبے کہتا ہے کہ ’’ادیب کی حیثیت سے یہ میرے فرائض میںشامل ہے کہ میں اس لڑکے کوبتاؤں کہ افریقہ کے موسم میں کوئی برائی نہیں ہے اور یہ کہ ناریل کا پیڑ بھی شاعری کا موضوع بن سکتا ہے۔