امریکی ریاست ورجینیا میں بلیورج نامی پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ایک تاریک اور نم دار گودام میں بل مارٹن بھورے رنگ کے پلیٹس (Pellets) سے بھری ٹوکری اٹھا کر کنکریٹ کے ایک بڑے حوض میں انڈیلتا ہے۔
ڈنر پلیٹ کے سائز کی ، سفید رنگ کی موٹی تازی تلاپیا (مچھلیوں کی قسم) پانی کی سطح پر ابھرتی ہے۔ مارٹن دنیا میں تلاپیا مچھلی کی ان ڈور فارمنگ کرنے والوں میں سب سے بڑا نام ہے۔ مچھلیوں کو خوراک دیتے ہوئے مارٹن کا چہرہ وفورمسرت سے چمک رہاتھا۔ وہ ہر روز بارہ ہزار پائونڈز کے قریب تلاپیا واشنگٹن سے لے کر ٹورنٹو تک پھیلے اپنے مراکز سے ایشیائی منڈیوں کو برآمد کرتا ہے۔ وہ مسلسل نئے مچھلی فارم بنائے جارہاہے۔ وہ پولٹری انڈسٹری کو اپنے سامنے مثال کے طورپر رکھتاہے۔ اس کی مچھلیاں اس سے خوش رہتی ہیں۔ کیسے بھلا؟ مارٹن کاکہنا ہے: ’’مچھلیاں جب خوش نہیں ہوتیں تو مرنے لگتی ہیں،تاہم میں نے اب تک مچھلیوں کا ایک ٹینک بھی نہیں گنوایا‘‘۔
یہ ایک جھلک ہے امریکا میں ایکواکلچرکی۔ محض فش فارمنگ ہی ایکواکلچرنہیں بلکہ دوسری سمندری مخلوق جو انسانی غذا میں شامل ہوتی ہے، کی فارمنگ بھی اس کا حصہ ہے۔ حیرت انگیز امریہ ہے کہ امریکا اور یورپ ابھی تک فش فارمنگ میں بہت پیچھے ہیں، دنیا میں فارمی مچھلیوں کی پیداوار میں براعظم ایشیا کا حصہ 92فیصد سے زائد ہے۔ اس براعظم کی صورت حال بھی خاصی دلچسپ ہے۔ یہاں ایسے ممالک( مثلاً پاکستان) بھی ہیں جہاں لوگوں کی بڑی تعداد کو یہی معلوم نہیں کہ ایکواکلچر ہے کیا؟ لیکن ایسے ممالک بھی ہیں جہاں مردوخواتین پورے جوش وخروش سے فش اور دیگرسی فوڈز کی فارمنگ میں جُتے ہوئے ہیں۔ چین کا کردار نہ صرف ایشیائی ممالک بلکہ مجموعی طورپر دنیا میں سب سے نمایاں ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش ایسے ممالک بھی پیچھے نہیں ہیں۔
ذرا!! بھارت کے کرشن کی کہانی پڑھئے، بھارتی ریاست راجستھان روہت گائوں کا یہ بے زمین کسان اب ایک خوشحال آدمی ہے کیونکہ وہ ٹھیکے پرتالاب لیتا ہے، مچھلیاں پالتا ہے اور خوب کمائی کرتاہے۔ ایگریکلچرل ٹیکنالوجی مینجمنٹ ایجنسی آف فشریز کی طرف سے ملنے والی تکنیکی تربیت کی وجہ سے کرشن دوسروں سے مسابقت کرنے کے لئے پر اعتماد اور فش فارمنگ کے ذریعے معقول کمائی کر رہا ہے۔ روہت گاؤں میں چند تالاب موجود ہیں جو دیہی زندگی کے کئی قسم کے مقاصد کو پورا کرتے ہیں۔ ان میں سے تین تالاب 2002 میں سات سال کی مدت کے لیے بائیس سو روپے کے عوض کرشن کو ٹھیکے پر ملے۔
شروع میں اپنی تمام تر کوشش اور خواہش کے باوجود وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہتاتھا۔ البتہ جب ایگریکلچرل ٹیکنالوجی مینجمنٹ ایجنسی نے کرشن پر دست شفقت رکھاتو قسمت کی دیوی بھی مہربان ہونے لگی۔ فش فارمنگ کی تربیت اس کیلئے بہت مددگار ثابت ہوئی۔ اس بے زمین آدمی کے ایک تالاب کا رقبہ ایک اعشاریہ پانچ ہیکٹر ہے، گزشتہ سال اسے ایک لاکھ روپے کا منافع ملا۔اس نے مچھلیوں کی نشوونما اور تندرستی کا خیال رکھا اور آکسیجن کی مناسب سطح کو برقرار رکھنے کے لیے وقتاًفوقتاً ماہرین کی مدد بھی لی۔ بے زمین کرشن کواب روزگار کی تلاش میں گاؤں چھوڑ کر شہر جابسنے کی ضرورت نہیں رہی۔
اب احسان علی کی کہانی بھی پڑھ لیجئے جو بنگلہ دیش کے ضلع بریسل کا رہائشی اور ایک عدد فش نرسری کا مالک ہے۔ اپنے سات افراد پر مشتمل گھرانے کی خاطر اس نے گزشتہ نوکری چھوڑی تاکہ کاشت کاری کاکام سنبھال سکے۔ فش نرسری آمدن میں اضافے کا ذریعہ بنی۔ کسی بھی قسم کی تربیت یا تجربے کے بغیر وہ اس سفر میں اکیلا تھا۔ نرسری سے ملنے والا منافع اگرچہ حوصلہ افزا نہ تھا مگروہ اسے چھوڑ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ یہ اس کی بڑے خاندان کے اخراجات پورے کرنے میں معاون تھا۔ جب مسلسل نقصان اسے یہ کام ٹھپ کرنے پر مجبور کرنے لگا، تب اس کی ملاقات ایک غیرملکی ادارے کے افسران سے ہوئی، وہ ایک پراجیکٹ کے تحت احسان جیسے لوگوں کو فنڈز مہیا کر رہے تھے۔
جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور مینجمنٹ کی مشق کی بدولت اس کی کہانی اب بدل چکی ہے۔اب وہ مچھلی کے بیج کا کامیاب اور پر اعتماد کاروبارکررہاہے۔ احسان نے اس کام کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی اور اسی پراجیکٹ کے لوگوں سے ہیچریز سے کارپ (میٹھے پانی کی مچھلی) کے معیاری بیج حاصل کرنا شروع کیے۔ تالاب کی تیاری، باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے سٹاک کرنا،مناسب خوراک اور کھادوں کا انتظام، درست وقت پر سیمپلنگ اور ہارویسٹنگ کے متعلق اس کے حاصل کردہ تازہ ترین علم کی بدولت خسارے میں پہنچ جانے والا اس کا کاروبار اب مثالی صورت اختیار کر چکا ہے۔ احسان ٹھیکے پر مزید دو تالاب حاصل کر کے اپنے کاروبار کی توسیع کا ارادہ رکھتا ہے۔
یہ دو ایسی کہانیاں ہیں جو انفرادی سطح کی ہیں، تاہم بھارت، بنگلہ دیش سمیت دیگر کئی ایشیائی ممالک میں اس سے بڑے پیمانے کی کہانیاں بھی آگے بڑھ رہی ہیں، صرف مچھلی کی فارمنگ ہی نہیں ہورہی بلکہ ایکواکلچر کو پورے کا پورا اختیارکیاجارہاہے۔ چین میں نیلاانقلاب بھرپوراندازمیں موج زن ہے۔ چینی کسانوں نے2500 سال پہلے چاول کے کھیتوں میں کارپ پالنا شروع کی تھی۔ لیکن اب یہاں کے دریاؤں، ندیوں اور سمندر کے ساحلوں پرقائم شدہ فش پینز کی بدولت ایکواکلچرکی سالانہ پیداوار42 بلین ٹن تک پہنچ گئی ہے۔
فارمرز اپنے تالابوں کو کارپ اور تلاپیا کی ایسی نسلوں سے بھر لیتے ہیں جن کی افزائش تیزی سے ہوتی ہے اور اسی مناسبت سے موزوں خوراک دی جاتی ہے۔ چین کی ’شنگھائی اوشن یونیورسٹی‘ کے فش جینیات کے ماہر لی سفاکو ’فادر آف تلاپیا‘ کہاجاتا ہے کیونکہ انہوں نے تیزی سے افزائش پانے والی مچھلی کی نسل متعارف کرائی جس کی سالانہ پیداوار 1.5 ملین ٹن ہے۔ یہ مچھلی زیادہ تر برآمد کی جاتی ہے۔
یقینا تیزی سے افزائش پانے والی مچھلیوں کوپالنا ہرکسی کی خواہش ہوتی ہے۔تاہم اس کے نتیجے میں بہت سے نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً آبی آلودگی۔ ما ہرین کاکہناہے کہ بیماری اور آلودگی پھیلائے بغیر ایکواکلچر کی افزائش اور بڑھوتری ممکن ہے۔ مارٹن کے پاس اس کابہت آسان حل ہے کہ سمندر یا جھیل میں پینزکی بجائے زمین پر ٹینکوں میں ماہی پروری کی جائے۔ان کے خیال میں نیٹ پینز میں سمندری جوؤں، بیماریوں، مچھلیوں کی اموات اور دیگر مسائل کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
مارٹن کی ’فش فیکٹری‘ میں مچھلی کو زندہ رکھنے کیلئے ایک واٹر ٹریٹ منٹ سسٹم ہوتا ہے جو ایک چھوٹے قصبے کی نسبت کافی بڑا ہوتا ہے،کوئلے سے بننے والی بجلی کا یہاں اہم کردار ہوتاہے۔ مارٹن 85 فیصد پانی دوبارہ ٹینکوں میں بھرتا ہے باقی کا15 فیصد پانی جس میں امونیا اور مچھلی کے فضلات کی خاصی مقدار ہوتی ہے مقامی سیویج پلانٹ میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ٹھوس فضلات کو گندگی کے گھڑوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔
ضائع شدہ پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلیے مارٹن زیر زمین پانی کے ذخیرے سے یومیہ آدھا ملین گیلن پانی نکالتا ہے۔ استعمال شدہ پانی کے 99 فیصد حصے کو دوبارہ قابل استعمال بنانا، کم کاربن والے مرکبات سے بجلی حاصل کرنے کیلئے فضلات سے میتھین کا حصول مارٹن کے اہداف میں شامل ہیں۔ وہ یکسوہے کہ ری سرکولیٹنگ سسٹم کا مستقبل میں اہم کردار ہوگا۔
وسطی امریکا کے ملک پاناما کے ساحل سے آٹھ میل کی دوری پر برین او ہینلن بالکل مختلف تدبیر اختیارکررہاہے۔ یہ شخص ہیرے جیسی بناوٹ کے مچھلی کے بہت بڑے پنجرے کوبیا مچھلیوں کو پالنے کے لئے استعمال کرتاہے۔ یہ پنجرے سطح سمندر سے 60فٹ نیچے ہوتے ہیں، اس کے پنجروں میں 40ہزارکوبیا مچھلیاں ہیں۔ اوہینلن تیسری نسل ہے ماہی پرورخاندان کی، وہ نیویارک شہر کی ایک مچھلی مارکیٹ میں پیدا ہوا، ادھرہی کھیلا کودا۔ اس کے والد اور چچا کہتے تھے کہ مستقبل فارمی مچھلی کا ہے۔
چنانچہ لڑکپن ہی میں، اس نے اپنے گھر کے تہہ خانوں میں، ٹینکوں میںسرخ سناپر(مچھلی ایک قسم)کی افزائش شروع کر دی تھی۔ اب پانامہ کے ساحلوں سے دور، وہ دنیا کا سب سے بڑا مچھلی فارم چلارہا ہے، اس کے پاس قریباً 200 ملازمین اور ایک بڑی ہیچری (وہ جگہ جہاں مچھلیوں کے انڈوں سے بچے نکالے جاتے ہیں) ہے، اوردرجن بھر دیوقامت پنجروں پر مشتمل چمک دار زرد رنگ کے بانس نما جہازی برتن جن میں دس لاکھ سے زیادہ کوبیامچھلیاں رکھنے کی گنجائش موجودہے۔
ساحل سے دورپانیوں میں ایکواکلچر کو برقرار اور فعال رکھنے کے اخراجات کافی زیادہ ہیں۔ اگرچہ سالمن کے ذخیرے ساحل کے پاس محفوظ غلافوں کے اندر چھوٹے چھوٹے پنجروں میں پرورش پا رہے ہیں جہاں سمندری لہریں بیس فٹ یا اس سے زیادہ کی بلندی سے اوہینلن کے پنجروں سے ٹکراتی ہیں ۔تاہم پانی کی آمیزش کا یہ طریقہ آلودگی اور بیماریوں سے بچائوکیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
روایتی سالمن فارم کے گنجان آباد پنجرے ہی نہیں بلکہ گہرے پانی میں موجود سٹاک بھی بہتے پانی کی لہروں سے مسلسل دھل رہے ہیں۔ ابھی تک ہینلن کو کوبیا کی اینٹی بائیوٹکس سے علاج کرنے کی ضرورت نہیں پڑی نہ ہی میامی یونیورسٹی کے محققین کو پینز کے باہر موجود مچھلی کے فضلات میں کسی بیماری کے ذرات ملے ہیں۔ اس کے خیال میں پانی کی لہروں کے ساتھ بہہ جانے والے پتلے فضلات سمندر میں موجود پلانکٹن (سمندری حیوانات و نباتات) کی خوراک بن جاتے ہیں کیونکہ ساحل سے دور والا پانی نیوٹرینٹس کی کمی کا شکار ہے۔
بھلے آپ ساحل سے دور پانیوں میں پنجرے میں مچھلیاں پالیں یا زمین پر فلٹرڈ ٹینکوں میں، بہرحال آپ کو انہیں خوراک دینی پڑے گی۔ مچھلیوں کو زمینی جانوروں پر ایک اہم فوقیت حاصل ہے، آپ کو انہیں نسبتا بہت کم کھلانا پڑتا ہے۔ مچھلی کو کم کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہ کولڈ بلڈڈ جاندار ہیں اور قوت اچھال رکھنے والے ماحول کی بدولت انہیں کشش ثقل کے خلاف کم مزاحمت کرنی پڑتی ہے۔ ایک پائونڈ کی فارمی مچھلی پالنے کیلئے اندازاً ایک پاؤنڈ ہی خوراک استعمال ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف ایک پاؤنڈ مرغی پالنے کے لئے دو پاؤنڈ خوراک درکار ہوتی ہے۔
جانوروں سے حاصل شدہ پروٹین کے ماخذ کے طورپر یہ9 بلین لوگوں کی ضروریات کو پورا کر سکتی ہے اور اس کی پیداوار کیلئے کم سے کم زمینی وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایکواکلچر خاص طور پر تلا پیا، کارپ اور کیٹ فش جیسے ہمہ خور(وہ جانور جو پودے اور گوشت دونوں کھاتے ہیں) آبی جانوروں کی پرورش ایک اچھا جوا محسوس ہوتی ہے لیکن متمول صارفین کی کچھ مرغوب فارمی مچھلیاں غیر مفید بھی ہوتی ہیں کیونکہ یہ پیٹو قسم کی ہوتی ہیں اور گوشت خور بھی۔ نشوونما کا تیز رفتار عمل کوبیا کو اچھا فارمی جانور ثابت کرتا ہے، اسے قدرتی مسکن میں چھوٹی مچھلیاں یا کرسٹیشنز (خول دار سمندری جانور) بطور خوراک دی جاتی ہیں جو بشمول او میگاتھری فیٹی ایسڈ( امراض قلب کے ماہرین کا پسندیدہ ) کے مختلف نیوٹرینٹس کا بہترین آمیزہ فراہم کرتا ہے۔
چین میں تانگ بادشاہت کے دور میں کسانوں نے کارپ مچھلی‘ بطخوں اور سبزیوں پر مشتمل گنجلک قسم کا پولی کلچر قائم کیا۔ اس پولی کلچر کے مطابق گھریلو فارمز قائم کئے جاتے تھے جہاں بطخوں وغیرہ کے فضلات کو تالابی الجی کی بہتر نشوونما کیلئے بطور کھاد استعمال کیاجاتا، یہ الجی کارپ کی خوراک بنتی، بعدازاں کارپ کو دھان کے کھیتوں میں چھوڑ دیا جاتا جہاں خود خوراک بننے سے پہلے یہ ہمہ خور مچھلی طاعون زدہ موذی کیڑوں مکوڑوں کو نگلتی۔ یہ کارپ پیڈی پولی کلچر چین کی روایتی خوراک مچھلی اور چاول کا صدیوں تک اہم حصہ رہا، صدیوں تک وہ لاکھوں چینیوں کی زندگی کا باعث بنا۔ یہ کلچر اس وقت بھی ملک کے سات ملین ایکٹر پر پھیلے دھان کے کھیتوں میں پروان چڑھ رہاہے۔
برٹش کولمبیا کے ساحل پر موجود ایک لمبی سی تنگ کھاڑی میں سٹیفن کراس نے ایک ذاتی پولی کلچر بنا رکھا ہے لیکن وہ مچھلی کی ایک ہی قسم کو پالتا ہے۔ یہ قسم شمالی بحر الکاہل کی باسی ہے۔ اسی چکنی سی مخلوق کو ’سیبل فش‘ یا ’بلیک کوڈ‘ کہتے ہیں۔ اس نے پینز سے نکلنے والے پانی کے بہاؤ کے نیچے گھونگوئوں، کستورا مچھلی، صدفی مچھلی اور میوسلز سے بھری ہوئی ٹوکریاں لٹکا رکھی ہیں۔ یہ سمندری جانور مچھلیوں کے فضلات پر پلتے ہیں۔ ان ٹوکریوں سے اگلے حصے میں وہ سوپ اور سوشی (نیم پختہ مچھلی کی جاپانی ڈش) کے علاوہ بائیو ایتھانول جیسے کیمیکل کی تیاری میں استعمال ہونے والی میٹھی بحری کائی اگاتا ہے۔
یہ آبی پودے فش پینز سے آنے والے پانی کو مزید فلٹر کرتے ہوئے باقی ماندہ نائٹروجن اور فاسفورس کے مرکبات کو پودے کی بافتوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ فش پینز سے80 فٹ نیچے سمندری تہہ میں موجود سی کوکمبر(سمندری مخلوق جو کہ چین اور جاپان میں لذیذ غذا سمجھی جاتی ہے) کسی طور پر بچ جانے والے بھاری نامیاتی فضلات کا صفایا کر دیتے ہیں۔کرس کہتا ہے کہ سیبل فش کو نکال کر اس کے فش فارمز پانی کو بڑے پیمانے پر فلٹر کرتے ہوئے اضافی خوراک اور منافع کا باعث بنتے ہیں۔
امریکی جزیرے روڈ (Rhode) کے رہائشی پیری راسو پولی کلچر کی بجائے مونو کلچر کے مالک ہیں لیکن وہ اپنے آبی جانوروں کو سرے سے کچھ کھلاتے ہی نہیں ہیں۔ اس کے باوجود انھوں نے ان جانوروں سے 12 ملین ڈالرز کمائے ہیں۔ راسو جھینگے پالتے ہیں۔ یہ جھینگے چکنائی کے کم ازکم اور اومیگا تھری کے زیادہ سے زیادہ تناسب سے بھرپور صحت مندانہ پیداوار دینے کے ساتھ ساتھ پانی کو اضافی نیوٹرینس سے بھی پاک کرتے ہیں۔ راسو اب میٹونک اوسٹر بار پر یومیہ آٹھ سو لوگوں کو بھگتاتا ہے۔
شمال سے کچھ میل پرے کیسکو بے کے شفاف سرد پانیوں میں مین (Maine) ریاست کے دو ملاح پاؤل ڈوبنز اور ٹولیف اوسلن فوڈچین کے مزید نچلے درجوں تک جا پہنچے۔ انہوں نے سن 2009ء میں امریکا کے پہلے کیلپ (بحری کائی کی قسم) فارم کا افتتاح کیا۔ پچھلے سال 30 ہزار فٹ کے علاقے میں کاشت کاری کی، انہوں نے کائی کی تین انواع حاصل کیں جو شدید سردی میں بھی یومیہ تین انچ تک نشوونما پانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ہسپتالوں، سکولوں اور ریستورانوں میں سمندری کائی کو بطور تازہ اور غذائیت سے بھرپور سبز سلاد اور پاستہ کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے۔ سمندری جھاڑی کی یہ صنعت مشرقی ایشیا میں پانچ بلین ڈالر سالانہ کا کاروبارکررہی ہے۔
اب آخر میں پاکستان کا ذکر کرتے ہیں کہ دنیا صرف مختلف انواع کی مچھلیوں ہی کی فارمنگ نہیں کررہی بلکہ وہ کائی تک کو اپنی غذائوں کے لئے نکال رہی ہے، عالمی سطح پر ایکواکلچر کے نتیجے میں پیداہونے والی آبی آلودگی پر مباحث ہورہے ہیں لیکن ہمارے یہاں ایکواکلچر کا شعورنہ ہونے کے برابر ہے۔ حالیہ برسوں میں تباہ کن سیلابوں نے پاکستان کی زراعت کو غارت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اب وقت آگیاہے کہ پاکستان بھی زراعت کے علاوہ خوراک کے دیگر ماخذ تلاش کرے۔ اس سلسلہ میں سنجیدگی سے ’نیلے انقلاب‘ میں شامل ہوناپڑے گا تاکہ خوراک کے بڑھتے ہوئے بحران سے نمٹا جاسکے۔
بنیادی طورپر پاکستانی معیشت کی جڑیں شعبہ زراعت سے منسلک ہیں اور ہمارے یہاں ایکواکلچر کا شعور نہ ہونے کے برابر ہے۔ شاید ہی کبھی کسی کے ذہن میں سوچ پیدا ہوئی ہو کہ ایکواکلچربھی ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ لہٰذاپاکستان میں ایکواکلچر کو متعارف کرانا آسان کام نہیں ہوگا۔ ہمسایہ ممالک میںیہ ایک ابھرتی ہوئی صنعت ہے۔2009ء میں، ایکواکلچر میں دنیاکے پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل آٹھ ممالک کا تعلق ایشیا سے تھاجو پروڈکشن میں آگے تھے۔ یہ ریکارڈ ابھی تک قائم ہے۔
پاکستان میں کوٹری کے مقام پر دریائے سندھ کے دہانے پر پانی کے بہائو کی وجہ سے ایکواکلچر کے قیام کے شاندار امکانات موجود ہیں۔ کراچی کے جنوب مشرقی علاقے میں موجود مینگرووز اور ایسچوریز(قدرتی آبی مساکن) اس سرگرمی کے لئے دنیا کے باقی مساکن سے کسی بھی طورپر کم اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ دیگرجگہیں جہاں پر ایکواکلچر کی صنعت کا قیام ممکن ہے ، ان میں سن میانی، کھورکلمت، پسنی گوادر اور جیوانی کے علاقے شامل ہیں۔
پاکستان میں سمندری حیات کی بڑی ورائیٹی موجود ہے جو ہربی وورز ہیں اور جنھیں ایکواکلچر میں کاشت کرکے نہ صرف ملک کی غذائی ضروریات کو پورا کیاجاسکتا ہے بلکہ برآمد کرکے مفید زرمبادلہ بھی کمایاجاسکتاہے۔ ہمارے ساحلوں پر موجود منفردآبی مسکن بین الاقوا می سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ایکواکلچر کے کامیاب آغاز کے لئے پاکستان اپنے قریبی دوست چین سے فنی معاونت آسانی سے حاصل کرسکتاہے۔ پاکستان کا آبی ماحول کوبیا جیسی مچھلی کے لئے بہت مناسب ہے جو اپنی تیزرفتار نشوونما کی خصوصیت کی بدولت دنیا بھر میں ایکواکلچر کی صنعت کا ابھرتاہواستارہ ہے۔
اک دھیان ادھر بھی!
نئے ’نیلے انقلاب‘ نے جہاں سستے ویکیوم پیکنگ میں جھینگے، سالمن اور تیلاپیا کو گروسری سٹور کے فریزروں تک پہنچایا، وہاں اس کے کچھ نقصان دہ پہلو بھی ہیں۔ مثلاً جانداروں کے مسکن کی تباہی،پانی کی آلودگی اور غذا کی حفاظت کے لئے خطرات۔ 80ء کے عشرے میں وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے فارمز کی تعمیر کی غرض سے دریائوں اور سمندر کنارے اگے ہوئے درخت مینگرووز کو اکھاڑدیا گیا ، یہاں اب جھینگے بڑی مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ نائٹروجن ، فاسفورس اورمری ہوئی مچھلیوں کی وجہ سے پیداہونے والی آلودگی ایشیا میں بڑا خطرہ بن کر پھیل رہی ہے۔
کچھ ایشیائی فارمرز اپنی مچھلیوں کی حفاظت کیلئے ایسی اینٹی بائیوٹکس اور حشرات کش ادویات کا استعمال کرتے ہیں جن کا استعمال امریکا،یورپ اور جاپان میں ممنوع ہے۔امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن(ایف ڈی اے) کے مطابق ایشیا سے آنے والی مچھلی کی کھیپوںمیں متعدد میں ممنوعہ مادے پائے گئے جن میں سے بعض کے بارے میں یقین ہے کہ وہ سرطان کا باعث بنتے ہیں۔ دنیا کے دوسرے حصوں میں قائم فش فارم بھی مسائل سے آزاد نہیں ہیں۔
پچھلے تین عشروں سے زائد کے عرصہ میں ناروے سے پیٹا گونیا تک قدیم چٹانی کھاڑیوں میں پھیلے ہوئے سالمن مچھلیوں کے ذخیروں پر مشتمل جدید سالمن انڈسٹری بیماریوں اورآلودگی کی آماج گاہ بن چکی ہے۔2012 میں سکاٹش سالمن فارمز کی 10فیصد مچھلی ضائع ہوگئی، سبب گلپھڑوں کی وہ بیماری تھی جو امیبا سے پیدا ہوتی ہے۔ جبکہ چلی کے علاقے میں2007 ء سے لے کر اب تک وبائی انیمیا نے دو بلین ڈالر مالیت کی سالمن مچھلیاں مار ڈالی ہیں۔2011 میں پھوٹ پڑنے والی ایک بیماری نے جنوب مشرقی افریقہ کے ملک موزمبیق کی جھینگا انڈسٹری کا تقریباً صفایا کر دیا۔
پاکستان اور ایکواکلچر
ماہی پروری کا پاکستانی معیشت میں نمایاں کردار ہے۔ ہمارے ساحلوں کی لمبائی تقریباّ 814 کلومیٹر ہے۔ سندھ اور بلوچستان کی ساحلی آبادی کا انحصار ماہی پروری پر ہے۔اس کے علاوہ یہ زرِمبادلہ کمانے کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہے۔ماہی پروری کی صنعت کا منتظم فش ڈویلیپمنٹ کمشنر (ایف۔ڈی۔سی) ہے جو مشترکہ طور پر محکمہ زرعت ،محکمہ خوراک اور محکمہ لائیو سٹاک کے ماتحت کام کرتا ہے۔ ایف۔ڈی۔سی پالیسیاں بنانے، منصوبہ بندی کرنے، صوبائی ماہی پروری کے محکموں اور قومی و بین الاقوامی ایجنسیوں کے درمیان معاونت جیسے فرائض سرانجام دیتا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل سمیت کئی یونیورسٹیاں ماہی پروری کی صنعت سے متعلق بنیادی نوعیت کی تحقیقات سرانجام دیتی ہیں۔ اس سب کے باوجود فش فارمنگ سے متعلق بہت سے وسائل کو بروئے کار لانا ابھی بھی باقی ہے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں صرف سمندری ایکواکلچرکی سالانہ پیداوار کی صلاحیت ایک ملین ٹن کے قریب ہے۔ پاکستان میں پائی جانے والی تجارتی پیمانے پر اہمیت کی حامل مچھلیوں کی کل ملا کر تین سو پچپن انواع ہیں۔ اس کے علاوہ قابلِ کاشت جھینگوں کی پندرہ اور لوبسٹر کی پانچ انواع بھی تجارتی اہمیت رکھتی ہیں۔
دوسری طرف دریائے سندھ صدیوں سے کانٹینینٹل شیلف کو غذائی مادوں سے بھر پور پانی مہیا کر رہا ہے۔ ملک میں ماورائے ساحل پانی کے ذخائر وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے ہیں جو کہ ایکواکلچر کے قیام کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ دریاؤں ،ڈیموں، ندی، نالوں اور جھیلوں سمیت یہ ذخائر ملک کے آٹھ میلن ہیکٹر کے رقبہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ محض سندھ میں سو سے زائد چھوٹی بڑی جھیلیں پائی جاتی ہیں جو کہ ایک لاکھ ہیکٹر کے رقبہ پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ماہی پروری کے لیے ان میں منچھر جھیل، ہالجی جھیل اور کینجھر جھیل اہم ہیں۔ ان میں سے صرف منچھر جھیل ہی مچھلیوں کی قریباّ دو ہزار اقسام کا مسکن ہے۔ پنجاب میں بہنے والی جھیلوں کا رقبہ سات ہزار ہیکٹر ہے۔
زرعی ملک ہونے کے ناتے ایکواکلچر پاکستان جیسے ملک کے لیے نئی چیز ہے۔ البتہ آبی وسائل کے پیشِ نظرملک میں اس صنعت کے قیام کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ 2006ء کے بعد ایکواکلچر کی پیداوار میں دس سے پندرہ ہزار ٹن کا اضافہ ہو اجو 2007ء میں بڑھ کر ایک لاکھ ٹن ہو گیا۔ پاکستان میں ساحلِ سمندر(میری کلچر) پر ایکواکلچرکا قیام ابھی تک ناپید ہے۔البتہ بعض غیرملکی اداروں کی مدد سے سن میانی میں قابلِ نوش جھینگوں کے میری کلچر کے قیام کی کوشش کی گئی ہے۔
کچھ سائنسی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں اوسٹرسمیت بہت سے کرسٹیشینزکی ہیچریز ( مچھلیوں کے بیج اگانے کی نرسریاں) کا قیام ممکن ہے۔ جبکہ اس وقت ملک میں اوسٹر کی ایک بھی ہیچری موجود نہیں۔ مزید برآں پاکستان کے شمالی علاقہ جات ٹراؤٹ کی کاشت کی اچھی خاصی صلاحیت رکھتے ہیں مگراس لحاظ سے پیداوار کا تناسب بہت کم ہے۔ ملک بھر میں بارہ ہزار سے زائد نئے فش فارم قائم کیے گئے ہیں۔ صرف پچاس ہزار افراد کا روزگار اس سیکٹر سے وابستہ ہے۔ کیونکہ ایکواکلچرکی پیداوار سے متعلق ماہرین کی محدود دستیابی اور مچھلیوں کی سستی خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے وسیع پیمانے پر اس صنعت کا قیام ابھی تک ممکن نہیں ہوا۔
ایکواکلچر کی دنیا
دنیا میں مچھلی کی پیداوارکا جائزہ لیاجائے تو سن1950ء میں 97فیصد مچھلیاں سمندروں اور دریائوں سے پکڑی جاتی تھیں، تب فارمی مچھلیوں کی پیداوارصرف3فیصد تھی۔80ء کی دہائی میں فارمی مچھلیوں کی پیداوار میں نمایاں اضافہ شروع ہوا۔ اس وقت فارمی مچھلیوں کی انڈسٹری کا حصہ 47فیصد تک پہنچ گیاہے۔ دلچسپ بات ہے کہ زیادہ تر فارمنگ براعظم ایشیا میں ہورہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق فش فارمنگ میں 90فیصد حصہ ایشیاء کا ہے۔ ایکواکلچر میں ایشیا باقی براعظموں سے کہیں آگے ہے۔ دنیا میں سی فوڈ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے میں اس براعظم کا کردار بھی بڑھ رہاہے۔
اس ضمن میں ایشیائی ممالک میں سب سے پہلا نام چین کاہے جو دوتین برس قبل تک، ایکواکلچر میں 55ملین ٹن کی پیداواردے رہاتھا۔یادرہے کہ ایشیا کی مجموعی پیداوار84ملین ٹن سے کچھ زیادہ ہے۔ سن2001ء سے اب تک اس میںاضافہ کی شرح 92فیصد ہے۔ یورپ کی پیداوارتقریباً تین ملین ٹن ہے ، سن2001ء سے اب تک وہاں اضافہ کی شرح28فیصد رہی۔ براعظم افریقہ کی پیداوار بہت کم یعنی1.69ملین ٹن ہے لیکن اضافہ کی شرح 215فیصد ہے۔امریکی براعظموں میں پیداوار3.26ملین ٹن جبکہ اضافہ کی شرح67فیصد ہے۔
فوڈ چین کیا ہے؟
کیاآپ جانتے ہیں کہ روزمرہ کی سرگرمیوں کو سرانجام دینے کے لئے ہمارا جسم توانائی کہاں سے حاصل کرتاہے؟ یقیناً آپ کا جواب ہوگا: خوراک۔ ہرطرح کے افعال کو سرانجام دینے کے لئے پہلے ہمیں توانائی درکارہوتی ہے۔ مثلاً اٹھنے، بیٹھنے، بولنے حتیٰ کہ سوچنے کے لئے بھی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے جو ہم خوراک کے اندرموجود کیمیائی بانڈز سے لیتے ہیں مگر یہ توانائی ایک ترسیلی سلسلہ کار کے ذریعے سورج سے ہماری خوراک تک پہنچتی ہے جسے سائنسی اصطلاح میں ’فوڈچین‘ کہتے ہیں۔ مثلاً گھاس گائے کھاتی ہے اور گائے کو انسان۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ زمین پر زیراستعمال ہرطرح کی توانائی کا اصل منبع سورج ہے لیکن زمین پر پہنچنے والی سورج کی کل حرارت کا صرف 1 فیصد حصہ ہی اس غذائی سلسلہ میں داخل ہوپاتاہے۔ پودے اس توانائی کو کیمیائی تعامل کے ذریعے خوراک کے کیمیائی بانڈز میں منتقل کرکے ہم تک پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ جانور جب ان پودوں کو کھاتے ہیں تو یہ توانائی ان جانوروں کی بافتوں میں منتقل ہوجاتی ہے۔ دلچسپ امریہ ہے کہ غذائی سلسلے میں نچلے درجوں سے اوپر کے درجات تک منتقلی کے دوران توانائی کا بیشتر حصہ جانوروں کی سرگرمیوں کی وجہ سے ضائع ہوجاتاہے۔
سورج سے حاصل ہونے والی ایک فیصد توانائی کا صرف دس فیصد حصہ ہی پودوں سے ہربی ووزر( براہ راست پودے کھانے والے جانور) میں منتقل ہوپاتاہے۔ اسی طرح ہربی وورز میں منتقل ہونے والی اس توانائی کا بھی صرف دس فیصد حصہ ان جانوروں میں منتقل ہوپاتا ہے جو ان ہربی وورز کو کھاتے ہیں۔ اسے ’ ٹن پرسنٹ‘ کا قانون کہتے ہیں لہٰذا ہم براہ راست پودوں سے خوراک حاصل کرتے ہیں تو ہم ’ٹن پرسنٹ‘ کے قانون کے تحت ہونے والے توانائی کے اس ضیاع سے بچ سکتے ہیں۔
اس کی سادہ سی مثال یوں دی جاسکتی ہے۔ گہیوں کا ایک کھیت اندازاً 200افراد کی غذائی ضروریات کو پورا کرسکتاہے جبکہ اسی کھیت پر صرف پانچ بکریاں پالنا ممکن ہے جو محض چالیس سے پچاس افراد کا پیٹ بھر سکتی ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی غذائی طلب کو پورا کرنے کے لئے ایسے ذرائع تلاش کئے جائیں جو سستے ، صحت مندانہ ہونے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ افراد کی غذائی ضروریات کو پوراکرسکیں۔