اسلام آباد: جب چین کے صدر ڑی ینگ پیانگ کے دورہ پاکستان پرغیریقینی صورت حال کے بادل مسلسل گہرے ہورہے تھے تو اُس وقت حکم ران اور اپوزیشن جماعتیں مل کر اس دورے کو ہر حال میں ممکن بنانے کی بجائے دھرنے والوں کو بھر پور طریقے سے لتاڑنے اور دوسری طرف بے مذاکرات میں مصروف تھیں۔حالاں کہ اُس وقت بڑی واضح اطلاعات آ رہی تھیں کہ چینی صدر کا 14 سے 16 ستمبر تک کا طے شدہ دورہ پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مظاہروں اور سیاسی کشیدگی کے باعث منسوخ یا ملتوی ہوسکتا ہے۔ غیر جانب دارسیاسی تجزیہ نگار وں کے مطابق حکومت کے پاس اس دورے کو بچانے کے لیے تین ہفتے تھے اور اس دوران حکومت کے پاس اچھی حکم رانی ثابت کرنے کا یہ ایک نادر موقع تھا لیکن اُن دنوں کو حکومت نے دھرنوں کو جواز بنا کر ضائع کردیا گیا۔
بلکہ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ حکومت کو یقین تھا کہ چینی صدر ان حالات میں نہیں آئیں گے، اس لیے ان دھرنوں کوچینی صدر کے دورہ کی منسوخی سے منسلک کرنے کی حکمت عملی تیار کی گئی اور احسن اقبال کو اس پراپیگنڈہ کا ٹاسک دے دیا گیا۔ جب کہ اس موقع پر وزیر اعظم کے قومی سلامتی اور خارجہ امور کے مشیر سر تاج عزیر نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ چینی صدر کا دورہ منسوخ نہیں ہو گا ، البتہ یہ امکان موجود ہے کہ اس میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسے میں سب سے پہلے وزیر برائے منصوبہ بندی اور ترقیات احسن اقبال نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر پی ٹی آئی اور پی اے ٹی پر فوراً تنقید کرتے ہوئے قوم کو خبر دی کہ چینی صدر کا دورہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔
خارجہ امور کے مشیر اور منصوبہ بندی کے وزیر کے دو مختلف بیانات نے یوں قوم کو مخمصے میں ڈال دیا۔ اسی طرح جب مریم نوازشریف نے بھی اپنے ٹوئٹ میں عمران خان اور طاہرالقادری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آج عمران اور قادری کا ایجنڈا پورا ہو گیا ہے تو محب وطن پاکستانیوں کو ایک دھچکا لگا۔ ان اطلاعات کے بعد جہاں حکومتی پراپیگنڈہ والی بات درست محسوس ہونے لگی تو وہیںقوم شدید مخمصے کا شکار رہی۔
ان حالات میں فوری طور پرچینی سفارت خانے کا ردعمل سامنے آیا کہ انہیں صدر کے دورے کے منسوخ کیے جانے کا علم نہیں مگر وہ اسلام آباد کی صورت حال کا مسلسل جائزہ لے رہے ہیں۔ اس پر ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے میڈیا کو بتایا کہ صدر کے دورے کے شیڈول کو منسوخ یا تبدیل نہیں کیا جارہا۔ یاد رہے کہ یہ بیان اس وقت دیا گیا تھا جب چینی صدر کی سیکورٹی اور پروٹوکول پر مشتمل ایک اعلٰی سطحی ٹیم دورے کی تاریخوں کو حتمی شکل دینے کے لیے دو روز سے اسلام آباد میں موجود تھی۔ اس موقع پر چینی صدر کی آمد مکمل طور پر کنفیوژن کا شکار نظر آئی۔
اسی دوران عمران خان اور طاہر القادری نے چینی صدر ڑی جنگ پیانگ کے دورے کے موقع پر کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی اور دونوں نے چینی صدر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ چین پاکستان کا قریبی اور اصل دوست ہے۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے تو یہاں تک کہا کہ یہ دورہ ہماری وجہ سے نہیں بل کہ حکم رانوں کی نا اہلی کی وجہ سے ملتوی ہوا۔
انہوں نے کہا کہ دورہ ملتوی ہونے سے کئی روز پہلے میں نے بڑی وضاحت سے یہ کہہ دیا تھا کہ جب چینی صدر آئیں گے تو ہم اُن پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کریں گے مگر ان کے دل میں چور تھا، یہ ڈر رہے تھے کہ اگر چینی صدر نے پوچھ لیا کہ یہ لوگ پارلیمنٹ کے سامنے کیوں بیٹھے ہیں؟ تو چینی صدر کو ہم کیا بتائیں گے۔ سچ کہنا ان کی سرشت میں نہیں اور جب بھی یہ جھوٹ بولتے ہیں تو پکڑے جاتے ہیں۔
وجہ جو بھی ہو مگر ہوا وہ ہی جس کا سب کو ڈر تھا۔ چین کے صدر نے موجودہ سیاسی بحران کے پیش نظر پاکستان کا دورہ ملتوی کردیا جسے اب حالات بہتر ہونے کے بعد دوبارہ طے کیا جائے گا۔ سکیورٹی ٹیم نے وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کے حکام سے چینی صدر کے دورہ پاکستان کے سلسلے میں جب ملاقات کی تھی تو پاکستانی حکام کی جانب سے چینی صدر کی ٹیم کو لاہور میں ملاقات کی تجویز بھی دی گئی جسے سکیورٹی ٹیم نے یک سر مسترد کردیا۔
چین کے صدر اس اہم دورہ میں پاک چین مشترکہ تجارت سمیت دونوں ممالک کے درمیان دیگر اہم معاہدوں پر دست خط کرنے والے تھے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی موجودہ صورت حال کے پیش نظر سری لنکا کے صدر اور آئی ایم ایف کے وفد سمیت دیگر اعلیٰ حکام پاکستان کا دورہ ملتوی کرچکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق چینی صدر کے دورے کی نئی تاریخ کا تعین اب ایک ماہ بعد کیا جائے گا تاہم چینی سفارت خانے اور پاکستانی دفتر خارجہ نے اس بارے میں تصدیق کرنے سے انکارکیا ہے۔
واضح رہے کہ چین کے صدور اپنے دورہ پاکستان کے دوران ہمیشہ ایوان صدر میں قیام کرتے رہے ہیں لیکن ان دنوں اس سرکاری عمارت کے باہر دھرنے جاری ہیں۔ اس لیے جب پاکستانی حکومت نے چینی صدر کی سکیورٹی ٹیم کو متبادل کے طور پر لاہور میں ملاقاتوں کی تجویز دی تو سکیورٹی ٹیم نے پاکستانی حکام کو واضح کر دیا تھا کہ چین کے صدر موجودہ حالات میں پاکستان نہیں آ سکتے، دوسری بات یہ بھی ہے کہ لاہور گنجان آباد شہر ہے وہاں ملاقات نہیں ہو سکتی۔ اس کے بعد ہی چینی صدر کا دورہ ملتوی ہونے کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف اور صدر ممنون حسین کو بتایا گیا تھا۔ گو کہ دوسری جانب چینی سفارت خانے کے ترجمان نے کہا کہ چینی صدر کے دورے کی منسوخی کے حوالے سے خبریں بے بنیاد ہیں، ہمیں دورہ منسوخ ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
اسلام آباد کی صورت حال پاکستان کا نجی معاملہ ہے، ہم قریب سے صورت حال مانیٹر کررہے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ فریقین مسئلے کو جلد سے جلد حل کر لیںگے۔ اُدھر ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم چینی صدر کے دورہ کے ملتوی ہونے کی ابھی تصدیق نہیں کرسکتے۔ پانچ ستمبر کو سرتاج عزیز نے کہا کہ آیندہ چوبیس گھنٹوں میں صورت حال واضح ہو جائے گی، جو نہ ہو سکی تھی۔ مگر جب ترجمان پاک بحریہ نے بھی دورہ کے التوا کی تصدیق کی تو اُس وقت میڈیا اور عوام کو یقین ہواکہ دورہ واقعی ملتوی ہو چکا ہے۔
اطلاعات یہ تھیں کہ چینی صدر کے اس دورے کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان بتیس ارب ڈالر کے معاہدات ہونا تھے جن میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے پاور پلانٹ کے سمجھوتے بھی شامل ہیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان دس ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی امید کی جا رہی تھی مگر میڈیا میں آنے والے بیانات میں اربوں ڈالر کی اس سرمایا کاری کو حکومتی قرضے بھی کہا جا رہا ہے۔
چینی صدرکا دورہ پاکستان ملتوی ہونے پر سابق صدر آصف زرداری، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے افسوس کا اظہار کیا ۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ فریقین اسلام آباد میں بحران کوختم نہیں کراسکے اور یوں بدقسمتی سے بحران کے باعث چینی صدر کا غیرمعمولی دورہ ملتوی ہوگیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ چینی صدرکا دورہ ملتوی ہونا عمران خان اورطاہرالقادری کا قوم سے انتقام ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قوم عمران خان اورطاہرالقادری کوکبھی معاف نہیں کرے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دھرنوں نے پاکستان اورچینی حکومت کی ایک سالہ کوششوں پرپانی پھیردیا۔ تاحال چینی صدر کے ممکنہ دورے سے متعلق نہ تو نئی تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کی مزید تفصیلات بتائی گئی ہیں۔اس دورے کی ناکامی کوحکومت بہ طورپراپیگنڈہ استعمال کرتی رہی جو اُسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بہتر ی اسی میں ہے کہ اس دورے کی نئی تاریخوں کا اعلان کردیا جاتا تا کہ قوم کو دھرنوںسے ہونے والی فرسٹریشن کے دوران کوئی اچھی خبر سننے کو مل جاتی۔
آخر کا ر جب مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سر تاج عزیز نے جمعہ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے شرکا ء کو بتایا کہ چین کے صدر کا دورہ ملتوی ہوا ہے منسوخ نہیںہوا، تو بات واضح ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس اہم دورے کو ری شیڈول کرانے کے لیے تمام تر ممکنہ اقدامات کریں گے اور ملک کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔
کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی دارالحکومت میں دھرنوں کی صورت حال اور چینی صدر کے دورہ پاکستان کے ملتوی ہونے پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا اجلاس کے دوران دفتر خارجہ کے حکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کمیٹی کے اجلاس میں چینی صدر کے دورہ کے منسوخ ہونے کے باعث پاکستان کو پہنچنے والے سفارتی سطح پر نقصان اور باہمی تعلقات کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ پیش کریں، کمیٹی اراکین نے حکومت اور دھرنے دینے والی جماعتوں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے قائدین پر بھی زور دیا گیا کہ وہ اپنے معاملات جلد از جلد حل کریں۔
کمیٹی کو دی جانے والی بریفنگ کے دوران مشیر برائے امور خارجہ نے کہا کہ ہم چینی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ آئندہ کسی وقت چین کے صدر کے دورہ پاکستان کو ممکن بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ چینی حکام نے بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ چینی صدر جب اور جتنا جلد ممکن ہوا وہ پاکستان کا دورہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی چین کے وزیر خارجہ کے ساتھ 11 ستمبر کو شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن کے اجلاس کے موقع پر ملاقات ہو رہی ہے اور وہ چینی صدر کے دورہ پاکستان کے ری شیڈول ہونے پر بات چیت کریں گے۔کمیٹی اراکین نے اس موقع پر کہا کہ دفتر خارجہ سری لنکا اور مالدیپ کے صدور کے دورہ پاکستان کے ری شیڈول ہونے کے لیے بھی کام شروع کیا جائے ۔
پاک چین سفارتی تعلقات
اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں تین ایشوز ایشوز ایٹمی اثاثے‘ مسئلہ کشمیر اور پاک چین دوستی پر مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔ دنیا میں بہت سی تبدیلیاں آئیں مگر اس اتفاق میں تبدیلی نہ آسکی۔ اسی لیے پاکستان کا استحکام اور خوشحالی آج بھی چین سے قربت میں ہی ہے۔ پاک چین سٹرٹیجک تعلقات کے بعد اس وقت دنیائے سیاست میں کافی تبدیلیاں آ رہی ہیں جو بہت اہم ہیں۔ ایک بنیادی تبدیلی اور نئی حقیقت تو یہ ہے کہ اقتصادی و سیاسی قوت اور طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی جانب منتقل ہو رہا ہے۔
اگر انیسویں صدی برطانیہ کی تھی‘ بیسویں صدی امریکا کی تو اکیسویں صدی ایشیا کی ہو گی اور اب طاقت کا توازن یورپ اور امریکا سے نکل کر ہمارے خطے میں آ رہا ہے۔ آج سب سے مضبوط اور ابھرتی ہوئی نئی طاقت عوامی جمہوریہ چین ہے جو ہمارا ہمسایہ اور دیرینہ دوست ہے۔ دوسری بات جو اہم ہے کہ چین کی بڑھتی قوت اور پرامن طور پر نہایت تیزی سے آگے بڑھنے سے کچھ لوگ خائف ہو کر اب یہ کوشش کر رہے ہیں کہ چین کو کس طرح روکا جائے؟ اس مقصد کے لیے مغرب کے چند گروپ ہندوستان کو تیار کرنا چاہتے ہیں اور اس کی بنیاد 2005 میں بش انتظامیہ نے رکھی دی تھی جب ہندوستان کے ساتھ امریکا نے نیوکلیئر معاہدہ کیا۔
اس کا اصل مقصد چین کو ہندوستان کے مقابلے میں مضبوط کرنا تھا۔ اس حوالے سے ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہندوستان کی کوشش تھی کہ وہ سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بن جائے اور اس کی تائید امریکا‘ فرانس اور برطانیہ بھی کر چکے ہیں‘ تاہم چین نے پاکستان کا ساتھ دیا اور اس معاملے کو روکا ۔ چین نے ہمارا ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا ہے۔ امریکا کا عراق اور افغانستان کی جنگ کا ہر ہفتے کا خرچہ چار ارب ڈالر ہے۔ یعنی ہر ہفتے عراق اور افغانستان کی جنگ میں امریکا چار ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا پاکستان کو جو امداد دے رہا ہے‘ وہ ان کی عراق اور افغانستان کی جنگ کے تین ہفتے کا خرچہ ہے۔