کہا جاتا ہے کہ اداکاری کی صنف میں سب سے مشکل کام کامیڈی کرنا یا کسی کو ہنسانا ہوتا ہے۔ سنجیدہ اداکاری کے حوالے سے دنیا بھر میں کئی نام ور اور کام یاب اداکار گزرے ہیں، جنہوں نے ہر جگہ جہاں جہاں فلمیں دیکھی جاتی ہیں۔ اپنے فن کا لوہا منوایا ہے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سنجیدہ یا گمبھیر قسم کی اداکاری کرنے والے اداکار کامیڈی کرنے سے گھبراتا ہے، کیوں کہ اس کے نزدیک آرٹ کے میدان کی یہ صفت کسی خاص پرفارمینس کی محتاج نہیں ہوتی، کیوں کہ یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اسکرپٹ ہی مزاحیہ ہو تو کامیڈین اس میں کیا تیر مار لے گا، لیکن یہ خیال یا سوچ غلط ہے، کیوں کہ سنجیدہ اداکاری تو ہر کوئی کر ہی لے لیتا ہے لیکن مزاحیہ اسکرپٹ کے ساتھ اپنی فطری پرفارمینس سے لوگوں کو ہنسانا قدرت کی دین ہے۔
دنیا بھر کے شوبز میں کئی نام ور اور کامیاب کامیڈین گزرے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عام ایکٹر کی نسبت ایک کامیڈین کی ذاتی زندگی بحرانوں اور مشکلات میں گزرتی ہے اور ان ہی مشکلات سے تنگ آکر بسا اوقات کچھ فن کار اپنی زندگی کا خاتمہ بھی کرلیتے ہیں۔ یہی کچھ ہالی وڈ کے نام ور کامیڈین رابن ولیم کے ساتھ ہوا۔ اپنی مزاحیہ اداکاری سے سب کو گرویدہ کر رکھنے والے اس اداکار نے ڈپریشن سے تنگ آکر خود کشی کرلی۔
رابن ولیم نے11اگست 2014کو سان فرانسسکو میں واقع اپنے گھر میں بیلٹ گلے سے باندھ کر خود کو پھانسی دے دی۔ پولیس کی جانب سے 12اگست کو ایک آفیشل رپورٹ جاری کی گئی، جس کے مطابق رابن کی موت گلا یا دم گھٹنے سے ہوئی۔ رابن کی وصیت کے مطابق اس کے جسم کو جلا دیا گیا اور اس کی راکھ سان فرانسکو کے ساحل پر پھیلادی گئی۔ رابن نے خودکشی کیوں کی؟
اس کی واضح وجہ ابھی تک سامنے نہیں آپائی ہے۔ حالاں کہ وہ نجی زندگی، اولاد ، کیریر اور معاشی حالات کی جانب سے ہمیشہ مطمئن دکھائی دیتا تھا۔ البتہ یہ ضرور کہا جارہا ہے کہ اپنے قریبی حلقوں میں وہ اکثر نفسیاتی اور اعصابی تنائو کا شکار نظر آتے تھے۔ تحقیقی ادارے جانچ رہے ہیں کہ کس وجہ سے رابن ان حالت کا شکار ہوئے کہ انہوں نے خودکشی کرلی۔
ممکن ہے کہ اندرون خانہ وہ بہت سی الجھنوں یا مسائل کا شکار ہوں، لیکن دنیا بھر میں انہیں ایک عظیم کامیڈین تسلیم کیا جاتا تھا، جو اپنی بے ساختہ پرفارمنس اور حاضرجوابی سے سب کو اپنا گرویدہ کر لیتا تھا۔ ایک ایسے ہر دل عزیز ایکٹر کی خودکشی کسی سانحے سے کم نہیں۔ ایک ایسا ایکٹر جو ہر طرح کا موڈ بدلنے میں ماہر تھا، جو آڈینس کے دلوں پر راج کرتا تھا۔
یہ نام ور اور عظیم کامیڈین 21جولائی 1951کو امریکا کی ریاست شکاگو میں پیدا ہوا۔ رابن صرف ایک مزاحیہ اداکار ہی نہیں بل کہ وہ فلم پروڈیوسر اور اسکرین رائٹر بھی تھے۔ رابن کا بچپن ایک عام بچے ہی کی طرح گزرا۔ اسکول میں ہونے والے فنکشنز میں وہ اس دور کے مشہور اور کام یاب فن کاروں کی پیروڈی کیا کرتے اور سب ہی سے داد پاتے۔
اداکاری کا انھیں جنون کی حد تک شوق تھا۔ اسی لیے تعلیمی میدان میں وہ کوئی خاص کارنامہ سرانجام نہ دے سکے، کیوںکہ ان کی منزل ہولی وڈ تھا، جہاں وہ اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اسی لیے اسکول سے لے کر کالج تک رابن کا شمار کم گو اور شرمیلے لڑکوں میں ہوتا تھا، لیکن جب وہ اسکول یا کالج کے ڈراما فنکشن یا کسی اور پارٹی میں حصہ لیتے تو اپنی پرفارمنس سے سب ہی کو حیران کردیتے تھے۔
روبن کی ساری توجہ مزاحیہ اداکاری کی طرف تھی، کیوںکہ ان کے دوستوں نے انہیں اس بات کا احساس دلایا تھا کہ وہ اپنے چہرے کے تاثرات سے مزاحیہ اداکاری میں بہت کام لے سکتے ہیں، کیوںکہ مزاحیہ اداکاری میں جسمانی اتار چڑھائو کے ساتھ چہرے کے تاثرات کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ رابن کے دوستوں کا خیال درست ثابت ہوا۔ ان کے قریبی دوستوں میں سپرمین کا تاریخی کردار کرنے والے ادا کار کرسٹوفر ریوو بھی شامل تھے۔ ان دونوں کی دوستی اسکول کے زمانے سے چلی آرہی تھی۔
رابن ولیم نے اسٹینڈ اپ کامیڈین کے طور پر 1970میں سان فرانسکو اور لاس اینجلس میں اپنے شوبز کیریر کا آغاز کیا اور سان فراسسکو میں ان کا شمار نمایاں ترین کامیڈینز میں ہونے لگا۔ امریکن ٹیلی وژن کی سیریز mork and mindy میں انہوں نے مورک کا ٹائٹل رول کیا، جس سے ان کی شہرت میں اضافہ ہوا اور ان کے مداحوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ یہ1978 سے 1982کا عرصہ تھا۔ ولیم نے اسٹینڈ اپ کامیڈین کے ساتھ ساتھ فیچر فلموں میں بھی اپنے کیریر کو اسٹیبلش کیا۔
مورک اینڈ مینڈی اس وقت نوجوانوں کا پسندیدہ ترین پروگرام تھا اور اس شو کی مقبولیت نے کئی ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ اس شو کی کام یابی کی بنا پر رابن کو پہلی بار ٹائم میگزین کے ٹائیٹل پر چھاپا گیا تھا۔ ٹی وی پر رابن کے دیگر پروگرامز جو انہوں نے اسٹینڈاپ کامیڈین کے طور پر کیے ان میں off the wall1978،an evening with robin willam 1982اور robin willam live at the met 1986بے حد پسند کیے گئے تھے، لیکن جو مقبولیت مورک اینڈ مینڈی کو حاصل ہوئی۔ وہ کسی اور کو نہ مل سکی۔
1986میں ہونے والے 58 ویں اکیڈمی ایوارڈ کے لیے کو ہوسٹ کے فرائض بھی انجام دیے تھے۔ ٹی وی پر رابن نے بہت کام کیا۔ اس کی آخری پروگرام The crazy onesجسے سی بی سی والوں نے مئی 2013 میں اسٹارٹ کیا تھا۔ صرف ایک سیزن ہی ٹیلی کاسٹ ہوسکا بعدازاں اس پروگرام کو ختم کردیا گیا تھا۔
1977میں ولیم نے ایک کم بجٹ کی فلم Can i do it till i need glassesسے اپنے فلمی کیریر کا آغاز کیا۔ ٹی وی کا ایک کام یاب اور مقبول اداکار ہونے کے باوجود وہ فلموں میں بھی اپنی قسمت آزمانا چاہتے تھے، کیوں کہ ہالی وڈ ان کی منزل تھی۔ اس منزل تک پہنچنے کے لیے انہوں نے ٹی وی اور تھیٹر سے اپنی ایکٹنگ کا آغاز کیا تھا، تاکہ جب وہ فلموں میں جائیں تو ناتجربہ کاری کی بنا پر انہیں دھتکار نہ دیا جائے۔ ان کی پہلی فم کا ریسپانس کچھ خاص نہ تھا۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ وہ فلموں سازوں کی نظر میں آگئے۔ ہالی وڈ میں ان کی پہلی بڑی فلم popeye 1980 تھی، جس میں رابن نے پوپائے کا مرکزی رول کیا تھا۔
تجارتی سطح پر یہ فلم فلاپ ہوگئی تھی۔ اس کے بعد جن فلموں میں انہوں نے کام کیا وہ بھی خاطرخواہ کام یابی حاصل نہ کر سکیں۔ البتہ ان فلموں میں رابن کی پرفارمنس کو ضرور پسند کیا گیا۔ ان فلموں میں The world according the grap,The survivorsاور Club paradaise شامل ہی ۔ فلموں میں بریک تھرو رابن کو 1987کو فلم Good morning vietnamسے ملا۔ یہ فلم ویت نام میں ہونے والی جنگ پر بنائی گئی تھی۔ رابن کی یہ پہلی سپرہٹ فلم تھی اور اس فلم میں شان دار اداکاری پر انہیں اکیڈمی ایوارڈ کی بہترین اداکار کی کٹیگری کے لیے نام زد کیا گیا۔ اس کے بعد کام یابیوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔
ان کی کام یاب فلموں میں dead poets society,awakening,The fisher king,good will hunting,hook,alladin ,Mrs .doubtfire,jumanji,The birdcage,night at the museum happy feet شامل ہیں۔ رابن نے بوبی میک رفین کے ایک ویڈیو سونگ ’’ڈونٹ وری بی ہیپی‘‘ میں بھی کام کیا تھا۔ رابن ولیم کو بہترین اداکار کے طور تین بار اکیڈیمی ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا تھا، جب کہ انہیں صرف ایک بار فلم گڈ ول ہنٹنگ کے لیے بہترین معاون اداکار کا ایوارڈ دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ پورے کیریر میں رابن کو دو ایمی ایوارڈ، چار گولڈن، دو اسکرین گلڈ اور پانچ گریمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔1970 کے اختتام اور1980 کے آغاز میں اپنے قریبی دوست کی اچانک موت کے بعد رابن نے کوکین کا نشہ کرنا شروع کردیا تھا، کیوںکہ انہوں نے اپنے دوست کی بے وقت موت کو قبول نہیں کیا تھا۔
اس دور میں جب ان کا اپنا کیریر عروج پر تھا کوکین کا استعمال ان کے لیے ہر طرح سے نقصان دہ ثابت ہوسکتا تھا، لیکن انہوں نے کسی بات کی پرواہ نہیں کی۔ پھر کرسٹو فر ریوو نے انہیں سنبھالادیا اور انہیں مشورہ دیا کہ اگر وہ اس لعنت سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں تو باقاعدگی کے ساتھ ایکسرسائز شروع کردیں۔ رابن خود بھی اس نشے سے تنگ آگئے تھے۔ سو جلد ہی انہوں نے اپنی زندگی کا نئے سرے سے آغاز کیا اور پھر کام یابیوں کے اس سفر میں انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
رابن نے کئی اینی میٹڈ فلموں میں اپنی آواز کا استعمال کیا۔ انہیں ہر طرح کی آواز نکالنے میں ملکہ حاصل تھا۔ وہ ہالی وڈ کے بڑے بڑے اسٹارز کی آواز کی بیت شان دار نقل کیا کرتے تھے، جن میں رابرٹ ڈی نیرو، آرنلڈ شیوازنگر، سلویسٹر اسٹالن اور جیک نکولسن وغیرہ شامل ہیں۔
رابن ولیم نے تین شادیاں کیں۔ 1978میں انہوں نے پہلی شادی valerie velardi سے کی۔ اس وقت وہ سان فرانسکو میں بار ٹینڈر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ اپنی پہلے بیٹے کی پیدائش کے بعد رابن نے ایک کاک ٹیل ویٹریس michelle tish carter سے خفیہ تعلقات استوار کرلیے تھے۔ یہ تعلقات جب زبان زد عام ہوئے تو ولیم کی پہلی بیوی نے ان سے طلاق لے لی۔ طلاق کے بعد رابن نے دوسری شادی مارشا گریس سے 1984میں کی۔ 2010 میں مارشا نے رابن سے طلاق لے لی۔ ان دونوں کے دو بچے ہیں۔ ان کی تیسری شادی گرافک ڈیزائنر سوسن شینڈر سے ہوئی۔ یہ شادی اکتوبر 2011 میں ہوئی تھی۔