ایک زمانہ تھا کہ ہمارے یہاں ڈاکیے، پینٹر اور ریل بابو جیسے معاشرتی کرداروں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی، لوگ ان کے بارے میں نہ صرف عزت و احترام کا جذبہ رکھتے تھے بلکہ انھیں پسند بھی کرتے تھے، جب بھی ان میں سے کسی کے بارے میں بات چھڑتی تو بات کرنے والوں کا لب و لہجہ ہی بدل جاتا ، یوں جیسے وہ ان کی جگہ خود کو دیکھ رہے ہوں۔ گویا ان معاشرتی کرداروں کو افسانوی اہمیت حاصل تھی، لوگ ان کو دیکھنا اور ملنا چاہتے تھے۔
ڈاکیاجسم پر خاکی وردی پہنے، خطوط سے بھرا بیگ سنبھالے، سائیکل پر سوار جہاں سے گزرتا تھا ہر کسی کی نظر اس پر ہوتی تھی۔ گویا لوگ اس کے منتظر ہوں، بلکہ بہت سے تو ڈاک بابو یا چچا ڈا کیا کی آواز دے کر متوجہ کرتے تاکہ اگر ان کا کوئی خط یا منی آرڈر وغیرہ اس کے پاس ہے تو وہ انھیں دے جائے، ایسے میں ڈاکیا مسکرا کر اشارے سے خط نہ ہونے کے بارے میں بتاتا ہوا گزر جاتا تھا اور اگر خط یا منی آرڈر موجود ہو تو فوراً رک کر ان کے حوالے کرتا تھا۔ ڈاکیا معاشرے میں کتنا اہم اور پسند کیا جانے والا کردار تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکیے پر نظمیں لکھی گئیں جیسے
دیکھو ڈاکیا آیا ہے
ساتھ اپنے خط لایا ہے
یہ نظم بچوں کے نصاب میں شامل تھی ۔ اسی طرح ڈاکیے پر گیت لکھے گئے جیسے ملکہ ترنم نور جہاں کا گایا ہوا مشہور گیت
چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے
حال میرے دل کا تمام لکھ دے
ڈاکیے پر فلمیں بھی بنائی گئیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ڈاکیا معاشرے کا ایک اہم فرد بن جاتا ہے حتیٰ کہ بہت سی لڑکیاں اسے پسند کرنے لگتی ہیںاور بہت سی اسے اپنا رازداں بنا لیتی ہیں اور اپنے چاہنے والے کو اسی سے خط لکھواتی ہیں ۔ ڈاکیا بھی ان کے راز کو راز رکھتا ہے۔ مگر جہاں اسے کسی گڑ بڑ کی بھنک ملتی ہے تو ان لڑکیوں کو سمجھاتا ہوا بھی نظر آتا ہے اور ماں باپ کی عزت کو سب سے اہم قرار دیتا ہے۔
دور دراز علاقوں کی تو بات ہی مت پوچھیے وہاں تو ڈاکیے کو ہیرو کا سا مقام حاصل تھا ، کیونکہ وہاں کے لوگوں کا دوسرے ملکوں، شہروں یا علاقوں میں رہنے والوں سے رابطہ اسی کے ذریعے ہوتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں ٹیلی فون یا دوسرے ذرائع رسل و رسائل عام نہ تھے، اگر کسی کے گھر میں ٹیلی فون کی سہولت ہوتی تھی تو پورے علاقے میں اس کی شہرت ہوتی تھی، وہ فون صرف اس گھر کا ہی نہیں گویا پورے محلے کا ہوتا تھا، کیونکہ رابطے کے لئے پورے محلے نے وہی فون نمبر اپنے عزیز، رشتہ داروں کو دیا ہوتا تھا اور وہ گھر والے بے چارے مروتاً کسی کو نہ بھی نہیں کر سکتے تھے اور رات ہو یا دن ہو جس کا فون آتا تھا اسے بلانے پر مجبور ہوتے تھے، آخر تعلق بھی تو نبھانا پڑتا تھا ، دل چاہے یا نہ چاہے۔
موبائل فون عام ہونے کی وجہ سے اب یہ صورتحال نہیں رہی۔ اس زمانے میں تعلیم عام نہ ہونے کی وجہ سے دیہاتوں کے رہنے والوں کی اکثریت ان پڑھ تھی ، اگر کسی گائوں میں کوئی پڑھا لکھا فرد ہوتا تو اس سے بہت زیادہ عزت و احترام سے پیش آیا جاتا تھا ، بعض بے روزگار پڑھے لکھے افراد تو خط یا درخواستیں وغیرہ لکھنے اور پڑھ کر سنانے کو بطور پیشہ اپنا لیتے تھے اور گائوں میں باقاعدہ وکیلوں کی طرح میز کرسی لگا کر بیٹھ جاتے تھے مگر ایسا بہت کم دیہاتوں میں ہوتا تھا۔
جن دیہاتوں میں کوئی پڑھا لکھا فرد موجود نہیں ہوتا تھا وہاں ڈاکیے کو خط پڑھ کر سنانے کا فریضہ بھی سرانجام دینا پڑتا تھا اور بہت سے لوگ تو لگے ہاتھوں اسی وقت جواب لکھوانے بھی بیٹھ جاتے تھے، یوں وہ دیہاتی گھرانوں کا راز داں بھی بن جاتا تھا مگر مجال ہے جو ایک گھر کی بات دوسرے کو بتاتا، وہ سب کے راز اپنے سینے میں چھپائے رکھتا ، اس کے ساتھ ساتھ وہ بہت سے معاملات میں بہترین مشیر بھی ثابت ہوتا تھا، کسی گھر میں رشتے کا مسئلہ ہو یا کسی قسم کا جھگڑا ہو وہ ہمیشہ سب کو صائب مشوروں سے نوازتا تھا ، تاہم جو لوگ زیادہ بات نہیں کرتے تھے ان سے بھی اس کا رویہ ہمیشہ اچھا رہتا کیونکہ وہ سمجھ رہا ہوتا تھا کہ گھر والے بات کو راز رکھنا چاہتے ہیں مگر بالآخر اس سے بات کرنا ہی پڑتی تھی کیونکہ خط کا جواب تو وہی لکھتا تھا۔
یوں مشورہ نہ دیتے ہوئے بھی وہ ان کے گھریلو معاملات سے واقف ہو جاتا تھا ، مگر وہ اس گھر کی بات اس گھر تک ہی رہنے دیتا تھا۔ اسی وجہ سے دیہاتوں میں ڈاکیے کو گائوں کے چوہدری جتنی اہمیت حاصل ہوتی تھی اور اس کی آئو بھگت میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جاتی تھی ۔ مگر ڈاکیے میں چوہدریوں جیسی کوئی خصلت نہ پائی جاتی تھی وہ ہمیشہ منکسر المزاجی اور خلوص کا مرقع نظر آتا، بڑی محبت سے سب سے بات کرتا تھا اور میلوں سائیکل چلا کر آنے کے باوجود کبھی شکوہ نہ کرتا تھا۔
یہ الگ بات ہے کہ اگر کوئی گھرانہ اسے اپنا جانتے ہوئے گھر میں پڑی جنس جیسے گندم، چاول یا کوئی پھل اسے دے دیتا تو وہ بھی بخوشی لے لیتا تھا کیونکہ وہ اسے جس اپنائیت سے دے رہے ہوتے تھے وہ نہ کرکے اس میں غیریت کی دیوار کھڑی کرنا نہیں چاہتا تھا، گویا یہ اس کے لئے گھر کی ہی بات ہو جیسے کوئی فرد اپنے گھر سے ہی کوئی چیز لے لیتا ہے۔ بہت مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ ڈاکیے کی حکمت عملی کی وجہ سے بہت سے گھرانوں کا نقصان ہونے سے بچ گیا، جیسے ایک واقعہ میں ڈا کیے نے ایک گھر کی بیٹی کا گھر اجڑنے سے بچا لیا اور خطوں میں پائی جانے والی ناچاقی کے بارے میں اس گھر والوں کو پتہ بھی نہ چلنے دیا اور اپنے سسرال والوں سے لڑ کر گھر آئی بیٹھی بیٹی کی طرف سے ایسے خطوط لکھے کہ اس کا شوہر جھگڑا بھول کر اسے لینے کے لئے خود ان کے گھر آن پہنچا۔
بھید تو تب کھلا جب وہ اپنے سسرال گئی اور اس کے شوہر نے بتایا کہ اس کی طرف سے لکھے گئے خطوط کی وجہ سے اس کا اور اس کی ماں کا دل پسیج گیا اور وہ اسے لینے گھر پہنچ گیا تب اس عورت کو یاد آیا کہ اس نے تو ڈاکیے سے خطوط بڑے غصہ بھرے لکھوائے تھے جبکہ اس نے اسے پتہ بھی نہ چلنے دیا اور اپنی طرف سے خطوط میں ایسی باتیں لکھ دیں کہ ان کا جھگڑا ختم ہو گیا، تب اسے یوں لگا جیسے وہ کوئی ڈاکیا نہیں بلکہ فرشتہ ہو جسے اللہ نے اس کی مدد کے لئے بھیجا تھا ۔
اسی طرح پینٹر کو بھی کسی دور میں بڑی اہمیت حاصل تھی، اس کے ہاتھ میں چھپا فن جب ظاہر ہوتا تھا تو کوئی نہ کوئی شہہ پارہ تخلیق ہو چکا ہوتا تھا ، سڑک کنارے یا کسی دکان میں رنگوں کے تخت پر جلوہ افروز پینٹر جب اپنے فن کے جوہر دکھا رہا ہوتا تھا تو وہاں سے گزرنے والا ہر فرد ایک مرتبہ رک کر ضرور کینوس پر نظر ڈالتا تھا کہ دیکھیں کیا منصہ شہود پر آنے والا ہے، ایسے میں پینٹر دنیا و مافیہا سے بے خبر تخلیق کے عمل میں ڈوبا رنگوں سے لائنیں کھینچنے میں مصروف ہوتا تھا، وہ آڑی ترچھی لائنیں دیکھتے ہی دیکھتے کسی خوبصورت عورت یا حسین منظر میں ڈھل جاتی تھیں۔
اگر وہ پینٹر کسی گلی، محلے میں اپنا تخت لگائے بیٹھا ہوتا تو وہاں چھوٹوں، بڑوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو جاتا تھا، ہر کوئی تخلیق کے اس عمل کو دیکھ کر محظوظ ہو رہا ہوتا تھا ، اسی وجہ سے اسے عوام میں مقبولیت حاصل ہوتی تھی اس کی اسی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بچے بھی اس کی طرح تصاویر بنانا چاہتے تھے۔ پینٹر کا کمال یہ ہوتا تھا کہ وہ رنگوں سے نہ صرف تصویریں بناتا بلکہ خطاطی میں بھی مکمل مہارت رکھتا تھا اور نہ صرف فن پارے تخلیق کرتا تھا بلکہ تاجر طبقے کو اشتہاری بورڈ اور بینر بھی تیار کر کے دیتا تھا۔
اس زمانے میں جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے کی وجہ سے تصاویر بنانے اور لکھنے لکھانے کا سارا کام پینٹر ہی سر انجام دیتا تھا حتیٰ کہ اشتہار بھی وہ لکھ کر دیتا تھا تب وہ چھاپہ خانے میں شائع ہونے کے لئے بھیجا جاتا تھا، مگر اب پینا فلیکس کی ایجاد کی وجہ سے پینٹر کے پاس کام بہت کم رہ گیا ہے۔ پینٹر کسی زمانے میں فلم انڈسٹری کی جان ہوتا تھا ، چھوٹے بڑے ہر قسم کے بینر اور پوسٹر وہ دیکھتے ہی دیکھتے تیار کر دیتا تھا، دن رات کام کرنے کے باوجود اس کے پاس کام ختم ہونے میں نہیں آتا تھا، اب یہ حال ہے کہ بہت سے پینٹر کام نہ ہونے کی وجہ سے سینما گھروں میں چوکیداری یا پھر ریڑھیوں پر کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔
ڈاکیے اور پینٹر کی طرح ریل بابو ( ٹی ٹی) کی بھی اپنی ہی اہمیت ہوتی تھی، جس کی وجہ ریل گاڑی کا سفر تھا جس کے ساتھ بہت سے رومانوی پہلو جڑے ہوتے تھے اور ریل گاڑی کا اصل روح رواں ریل بابو ہوتا تھا جس کے ایک اشارے پر شور مچاتی بھاگتی دوڑتی ریل گاڑی رک جاتی تھی اور اسی کے اشارے پر اپنی منزل کی طرف بڑھتی تھی ۔ ادیبوں نے ریل گاڑی کی چھک چھک اور دور سے سنائی دینے والے ہارن کی آواز کا اپنی تحریروں میں بڑے افسانوی انداز میں ذکر کیا ہے۔
جب ذکر ریل گاڑی کا آتا ہے تو ریل بابو کو بھلا کون بھول سکتا ہے، کیونکہ ریل کا سارا سفر اسی کے تو مرہون منت ہوتا ہے ، اسی لئے اس کے افسانوی کردار اور اہمیت کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ جب ٹرانسپورٹ عام نہ تھی تو ریل گاڑی کی اہمیت بہت زیادہ تھی کیونکہ بہت سے علاقوں میں یہ سفر کا واحد ذریعہ ہوتا تھا، دور دراز علاقوں کے لوگ ریل گاڑی دیکھنے اور اس میں شوقیہ سفر کرنے کے لئے بھی سٹیشن آتے تھے، تب ہر کسی کی نظر ریل بابو پر ہی ہوتی تھی ، بچوں کے لئے تو وہ افسانوی اہمیت رکھتا تھا اس کے ہاتھ میں پکڑی جھنڈی یا سیٹی ان کی نظروں کا محور و مرکز ہوتی تھی۔ ٹرانسپورٹ کے ذرائع میں جدت آنے کی وجہ سے معاشرے کے اس اہم کردار کی اہمیت وہ نہیں رہی جو اس زمانے میں تھی۔
گزرتا وقت بہت سی چیزوں کو بدل دیتا ہے، کئی چیزوں کی اہمیت کم ہو جاتی ہے یا ان کی جگہ نئی چیزیں لے لیتی ہیں، اور ان سے منسلک افسانوی پہلو وقت کی دھول میں کھو جاتا ہے، ڈاکیے، پینٹر اور ریل بابو کے معاشرتی کرداروں کے ساتھ بھی یہی ہوا مگر یہ کردار اب بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اور اپنا کردار بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔