لوئیس کیپون کنگ جارج پنجم سکول، ہانگ کانگ کی طالبہ اور پول والٹ( بانس کود) کی کھلاڑی ہے۔
اس کی کہانی پڑھئے اور جھومئے کہ وہ کیسے اپنے آپ کو ناکامی اور مایوسی کی حالت سے نکالتی ہے اور ایک لچکدار بانس کا سہارا لے کر کیسے بلند فضا میں کودتے ہوئے ایسی کامیابی حاصل کرتی ہے جس کا اس نے خواب دیکھاتھا۔ یہ ایک خواب ہی تھا کہ جب ایک لچکدار بانس کا سہارا لیتی ہوئی ہوا میں بلندپرواز کرے گی، اوپر بادلوں کو دیکھتے ہوئے اس کا سانس رک جائے گا۔ کبھی وہ سوچتی تھی کہ کیا ایسا لمحہ اس کی زندگی میں آئے گا؟
اس کے والدین نے اس کی خوب ٹریننگ کرائی، اس پر اپنا بہت سا وقت خرچ کیا، اپنی کم آمدنی سے جتنی رقم بچاسکتے تھے، انھوں نے بچائی اور لوئیس کیپون کا یہ خواب پورا کرنے پر خرچ کرڈالی۔ انھوں نے اس کے لئے اپنا بہت سا وقت لگایا۔ انھوں نے ہرقسم کے حالات میں بیٹی کی ناکامیوں اور کامیابیوں پر اس کی خوب حوصلہ افزائی کی۔ جب وہ پہلی باراصل مقابلے کے لئے منتخب ہوئی تو وہ عجیب وغریب احساسات کا شکار ہوگئی، ان میں پریشانی بھی تھی اور جوش بھی۔جب کوچ سے پہلی ملاقات ہوئی تو اس نے کہا: ’’ لوئیس! تم اچھی ہو، لیکن تم اس سے بھی آگے جاسکتی ہو۔ہاں! اس سے پہلے تمہیں یہ ادراک کرنا ہوگا کہ کیا تم واقعی اپنا یہ خواب پورا کرناچاہتی ہو؟ آگے جانے کے لئے جو لگن درکار ہوتی ہے، کیا وہ تم میں موجود ہے؟‘‘
لوئیس ٹریننگ سیشن میں ہوتی تو اس کے دوست اسے پریکٹس کرتا دیکھنے آتے اور چلے جاتے تھے۔ وہ کہتی ہے کہ ٹریننگ سیشن کچھ زیادہ پرلطف مرحلہ نہیں ہوتاکیونکہ آپ اسے چھوڑ نہیں سکتے، آپ کوبہرصورت اس میں شریک ہوناپڑتاہے، اور جب اگلے دن کسی مقابلے میں شریک ہونے کے لئے سفر درپیش ہوتوپھر آپ کو جلد سونا بھی پڑتا ہے۔ جب مقابلوں کا موسم ہوتوآپ کو رات کا کھانا بور بھی کرتاہے، کیونکہ آپ کو دھیان رکھنا پڑتا ہے کہ جسمانی فٹنس کو یقینی بنانے کے لئے کیا کھایا جائے اور کیا نہیں۔ خیر یہ سب چلتا رہا۔
جب ایک روزٹریننگ کے دوران ٹخنے کی موچ آئی تو لوئیس کو لگا کہ اس کا کیرئیر جو ابھی شروع بھی نہیں ہواتھا، ختم ہوچکاہے۔ یہ سوچتے ہوئے کہ سارے خواب بکھر چکے ہیں، لوئیس گھنٹوں روتی رہی۔ مگر یہ فزیوتھراپسٹ ہی تھا جس نے اس کی خوداعتمادی کو بحال کیا، اس کا علاج کرتے ہوئے صبر وتحمل کے ساتھ اسے بہلاتا رہا۔ اس نے لوئیس کو اس کے خواب بہرصورت پورے ہونے کا یقین دلایا کیونکہ اس وقت تک ناکامی اور مایوسی اس لڑکی کے سامنے رکاوٹ بنتی جارہی تھی۔
شروع ہی سے لوئیس کے ساتھ ایسی ایک یا دوحریف کھلاڑی خواتین ہوتیں جو اس سے برتر ہوتی تھیں، ایسے میں ہرکوئی اسے یہی کہتا تھا کہ اسے سخت تربیت لیناہوگی، اپنی تکنیکس میں کمال حاصل کرناہوگا۔ واقعتاً اسے فاتح بننے کے لئے یہ سب کرنا تھا لیکن کسی بڑے مقابلے کے دوران ہمیشہ لوئیس سے کچھ نہ کچھ غلط ہوجاتا۔ اور ہرایسے موقع پر وہ سوچتی کہ سبب کیاہے؟کوئی پریشانی؟ کیا وہ حد سے زیادہ خوداعتمادی کا شکارتھی؟ یا پھر سیدھا سیدھا یہ کہ اس میں اپناخواب پورا کرنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی ؟
پھر گزرتے وقت کے ساتھ معاملات میں بہتری آنا شروع ہوگئی ۔ لوئیس نے ایک ہاٹ فیورٹ کھلاڑی کو ایک مقابلے میں ہرادیا۔ نہ صرف اس مقابلے میں اسے شکست دی بلکہ باقی مقابلوں میں بھی اسے ناکام ونامراد کردیا۔اس وقت کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ لوئیس کی کامیابی حادثاتی ہے لیکن ایسے لوگ بھی تھے جو لوئیس کی ہمت بندھارہے تھے، حوصلہ بڑھا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ بالآخر تم اپنی صلاحیت منوانے میں کامیاب ہونے لگی ہو۔ حقیقت میں لوئیس اپنا لوہامنوانے لگی تھی۔
لوئیس کی کامیابی واقعتاً حادثاتی نہیں تھی ، ہاٹ فیورٹ اور دوسری کھلاڑی لڑکیاں اپنی صلاحیت میں بہترین تھیں لیکن تبدیلی کاعمل شروع ہوچکاتھا، لوئیس کے اندربھی کچھ تبدیل ہورہاتھا۔آخرکار اسے یقین ہونے لگاکہ اپنے خواب پورے کرنے کے لئے جو چیز درکار ہے وہ اس کے اندر موجود ہے۔ لوئیس نے حقیقتاً خود پر اعتمادکرناشروع کردیا تھا اور وہ آخر کار اپنی زندگی کے سب سے بڑے چیلنج اورمقابلے کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہوچکی تھی۔
اسے یقین تھا کہ اب اس کا وقت شروع ہوچکاہے۔ لہٰذا اب وہ اپنے خواب کی تعبیر پانے کے لئے پرعزم تھی۔ والدین اوردوستوں کی مدد، حمایت اور حوصلہ افزائی کی بدولت اس نے اپنے مقاصد کا تعین کرلیاتھا۔ اب ہرشے اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اب جیسے ہی وہ سٹیڈیم میں داخل ہوتی،سورج کی تمازت تمام بدحواسیوں کو پرے کردیتی تھی۔ حتیٰ کہ خود سے آگے نکلتی لڑکیوں کو دیکھ کر بھی اسے اب کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس خوداعتمادی کی موجودگی میں کوئی شے اسے کوئی نفع دے سکتی ہے نہ ہی نقصان پہنچاسکتی ہے۔
لوئیس سٹیدیم میں ہے۔ مقابلہ شروع ہونے میں ابھی کچھ لمحات باقی ہیں۔ وہ دماغی اور جسمانی طورپر تیارہے اورہجوم کی طرف دیکھتی ہے۔ اس کے والدین کا چہرہ دیکھو تو ایسے دکھائی دیتے ہیں جیسے وہ بیمار پڑنے والے ہوں۔ لوئیس کا کوچ اسکور بورڈ پر کچھ لکھ رہاہے۔ایسے میں باقی سب مناظر دھندلا گئے ۔ لوئیس بالآخر کودنے کے لئے چل پڑتی ہے۔ اور پھر وہ ہوجاتا ہے جس کے وہ خواب دیکھا کرتی تھی۔ سارا ہجوم ’لوئیس! لوئیس!!‘ پکارنے لگتا ہے۔ تالیوں کی ایک ہی تال میں بلندآواز۔ یہ بھی سچ ہے کہ شائقین کھلاڑی کے ساتھ ہوں تو یہ بات بہت مددگارثابت ہوتی ہے۔
بعض اوقات ہم بغیر کسی وجہ کے، خود ترسی اور احساس محرومی کا شکار ہوتے ہیں، اردگرد کے لوگوں سے اپنا موازنہ کرنے میں اتنا ڈوب جاتے ہیں کہ اپنی زندگی میں موجود نعمتوں کو دیکھ نہیں پاتے۔ حالانکہ زندگی کی انمول خوبصورتی ہماری نظر کی منتظر ہوتی ہے لیکن اس خوبصورتی پر احساسِ کمتری کا پردہ پڑجاتاہے ۔ ہمیں چاہئے کہ آگے بڑھ کر ایسے پردے ہٹائیں اور زندگی کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوں۔ ہماری اگلی کہانی کا کردار بھی ایسی لطافتوں کو محسوس کرنے سے قاصر تھا۔پھر ایک دن پردہ ہٹا تو اس نے خود کو خوبصورتی اور شادابی کے درمیان پایا۔ یہ کردار ہے لم سیوک ہانگ۔
کہتی ہے‘ جب میں کم سن تھی تو اپنے گھر والوں کے ساتھ ملائشیا کے ایک چھوٹے سے قصبے لمبانگ کے مضافات میں، لکڑی کے بنے ٹوٹے پھوٹے گھر میں رہتی تھی۔ یہ لکڑی کی بنی ہوئی بیساکھیوں کے اوپر کھڑاتھا جس کی چھت تر چھی اور ڈھلوان دار زنک دھات کی نالی دارچادروں پر مشتمل تھی، اس کی وجہ سے دن کے وقت مکان کے اندر شدید گرمی پیدا ہوجاتی۔چھوٹے چھوٹے کمروں کا مختصر سا مجموعہ یہ گھر بمشکل ہمارے گھرانے کے تمام افراد کو اپنے اندرجگہ دے پاتا۔ والد ، والدہ اور گیارہ بچے۔ میں دوسرے نمبر پر تھی۔ ہم بچے اکثر ادھر ادھر بھاگتے اور جب کبھی کھیل کود کے دوران اودھم مچاتے تو سارا مکان ہلنے لگتا۔
’’مکان گرنے لگا ہے!!!!‘‘ میری امی چلاتیں۔
ایسا محسوس ہوتا جیسے ہم مستقلا اندھیرے میں رہائش پذیر ہوں۔ دن کے وقت قرب وجوار کے درخت سورج کی زیادہ تر روشنی کو روکے رکھتے اور راتیں ہمیشہ بدشگونی سے بھرا منحوس وقت محسوس ہوتیں۔ یہ 50ء کی دہائی کے اواخر یاپھر60ء کے اوائل کی بات ہے، تب ہمارے پاس بجلی کی سہولت بھی نہیں تھی۔ ہم مٹی کے تیل کے لیمپ جلاتے جو مدھم سی روشنی ہی پیدا کرسکتے تھے۔ ماں کی طرف سے منتقل ہونے والے جنوں بھوتوں کے وہموں کی وجہ سے رات کی سیاہی مزید بھیانک محسوس ہوتی۔
بدھ مت، تائو مت اور چینی آبائواجداد کے ملے جلے اعتقادات کے تحت پرورش پانے کے سبب ہم بھوتوں اور بھٹکی پھرتی خبیث بدروحوں کے وجود پر یقین رکھتے تھے۔ بعض اوقات کم عمری کی وجہ سے ہم تاریکی سے ہی خوفزدہ ہوجاتے، تب ماں خوف سے سنسناتی ہوئی آوازمیں پوچھتی:’’ تم لوگ اتنے خوف زدہ کیوں ہو؟ کیادیکھ لیاہے تم لوگوں نے؟‘‘ اگرچہ ہم نے کچھ دیکھانہیں ہوتاتھا مگرماں کے اس قسم کے سوالات ہمیں مزید خوفزدہ کردیتے۔ میرے نزدیک بھوت سے ملاقات سے بڑھ کر کچھ بھی بھیانک نہ تھا۔
تاریکی سے ڈر اور گھر کی گھٹیا حالت کے پیش نظر ہمارے دوست شاذونادر ہی ہمارے ساتھ کھیلنے آتے۔ ایک دفعہ میں نے اپنے ایک رشتہ دار کے بچوں کو یہ کہہ کر ڈرا دیا کہ ہمارا گھر آسیب زدہ ہے۔ ہم قصبے کے وسط میں واقع بڑے سے سرسبز میدان میںکھیلنے کو ترجیح دیتے۔ شام کا دھندلکا پھیلنے پر میں خوف کے احساسات کے ساتھ بادل نخواستہ گھر کو لوٹتی ۔
وقت گزرتا گیا، میں نوعمری کے دور کو پہنچی تو میری توہم پرستی شرم اور اضطراب میں تبدیل ہوچکی تھی۔ میری تمام سہیلیوں کے گھر بہترحالت میں تھے جہاں پانی اور فضلات کی نکاسی کے لئے نل مناسب طریقے سے لگے ہوئے تھے جبکہ ہمارے گھر میں سرے سے بیت الخلا ہی نہ تھا۔ ہم پیشاب دان استعمال کرتے تھے۔اگردوست کبھی پیشاب دان خالی ہونے سے پہلے اچانک آدھمکتے تو مجھے بہت خفت اٹھانی پڑتی۔ بعض اوقات پیشاب دان سامنے ہی دھونے والے کپڑوں کے بیچوں بیچ پڑے نظر آتے۔ اگر وہ بیڈروم میں کہیں چھپا کر رکھے ہوتے تب بھی مجھے یہی گمان ہوتا کہ میری سہیلیوںتک بدبو پہنچ رہی ہوگی۔
جب میں تیرہ سال کی ہوئی تو اسکول میں بھاگتے ہوئے ٹخنے میں موچ آگئی۔ میرے کینیڈین پرنسپل مسٹر سپارک مجھے گھر تک چھوڑنے آئے۔ ہم عین اس وقت گھر پہنچے جب میری چھوٹی بہن پیشاب دان خالی کررہی تھی۔ یہ سارا منظر بھرپور اذیت اورسلوموشن کے اندازمیں مکمل ہوا۔ چھوٹی بہن چلتی ہوئی گھر کے سامنے موجود گزرگاہ کو کاٹنے والے چھوٹے سے نالے تک آئی اور پیشاب دان وہاں خالی کردیا۔ سب کچھ واضح تھا… بہن… پیشاب دان… غلاظت ملا کناروں سے چھلکتاہوا پیشاب۔ میرا دل چاہ رہاتھا کہ کاش ! میں اس وقت کہیں اور ہوتی۔ میں پرنسپل صاحب کو خود سے برتر خیال کرتی تھی ۔ اگرچہ انھوں نے کچھ نہ کہا مگر مجھے لگا کہ وہ سوچ رہے ہوں گے:’’کیسا ناقص اور غیر مہذب گھرانہ ہے؟‘‘ میں تسلیم کرتی ہوں کہ زندگی ہمیشہ اذیت ناک نہیں ہوتی۔
ہم گھر کے اردگرد چھپن چھپائی اور دیگر مقامی کھیل کھیلتے ہوئے لطف اندوز ہوتے رہے تھے۔ کودنے کے لئے دیواریں شاندارتھیں۔ جب میں نوعمری کو پہنچی تو ہمیں بجلی کی سہولت بھی مل گئی ۔ ٹیوب لائٹ لیونگ روم کو روشن کرتی جبکہ بیڈرومز اور کچن میں الگ الگ بلب لگے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود مجھے اپنے گھر میں کچھ بھی اچھادکھائی نہ دیتا۔ میرے لیے یہ بدصورت، سڑا ہوا اور بھدا تھا۔ پھر جب میں سولہ سال کی ہوئی، میرے سکول کے کچھ اساتذہ ہمارے گھر آئے۔ یہ نئے چینی سال کا موقع تھا اور رواج کے مطابق ہمارا گھر کھلا تھا۔
جیسے ہی میرے آرٹ کے استاد میں داخل ہوئے تو انھوں نے کہا:’’تمہارا گھر بہت ہی خوبصورت مقام پر واقع ہے۔ مجھے گزرگاہ پر ہی رک کر اس کی تعریف کرنی پڑی۔ وہ تمام درخت اسٹیج کے پیچھے لٹکتے ہوئے پردے کی مانند تمہارے گھر کو تصویر جیسا دلفریب منظر بنادیتے ہیں۔ اپنے استاد کے ان تعریفی کلمات کے بعد پہلی مرتبہ میں نے اپنے گھر کو مسٹر ہوکے فنکارانہ نقطہ نظر سے دیکھا اور اسے بالکل مختلف پایا۔ وہ پردہ جس نے ہروقت مجھے اس خوبصورتی کو دیکھنے سے محروم رکھا ہواتھا، ہٹ گیا تھا۔ میں اب اپنے گھر کی اس طرح ستائش کررہی تھی جیسے میں کوئی پینٹنگ کا مضمون پڑھا رہی ہوں۔ اس روز میں نے پہلی دفعہ اردگرد پھیلے سرسبز پتوں کی بناوٹ اور شادابی کو محسوس کیا۔