یہ سمجھنا غلط ہے کہ سبھی خواتین کو بننے سنورنے اور سجنے سے دل چسپی ہوتی ہے کیوںکہ ایک فی صد خواتین ایسی نہیں بھی ہوتیں۔۔۔ یہ وہ خواتین ہیں جو اپنی خوب صورتی کے لیے صرف خدائی انتظام پہ انحصار کرتی ہیں باقی کی ڈھارس بندھانے کے لیے جابجا بنے بیوٹی پارلرز اپنی خدمات پیش کرتے ہیں، جہاں سے ری کنڈیشنڈ ہونے کے بعد بعض اوقات شکل اس حد تک بدل جاتی ہے کہ کسی مرمت شدہ چہرے والی کے بیوٹی پارلر سے باہر آنے کے بعد خود اس کا شوہر یہ پوچھ رہا ہوتا ہے ’’بہن! اندر پوچھ کے بتائیں زبیدہ کے میک اپ میں اور کتنی دیر لگے گی؟‘‘
جس عمل کا نام میک اپ ہے، اس کی دنیائے نسوانیت میں اہمیت آکسیجن کے بعد سب سے زیادہ ہے، کیوںکہ یہاں نظام تنفس اور نظام تسکین ہم پلہ ہوتے ہوتے رہ گئے ہیں اور جسے کسی وقت عالم نسواں کے غالب آجانے کے بعد حقوق انسانی میں سب زیادہ اہم کا درجہ مل جانا یقینی ہے۔
بیوٹی پارلر درحقیقت جسمانی حسن کا ورکشاپ ہے جہاں میک اپ کسی عفیفہ کی زندگی میں جوہری دھماکے جیسی تبدیلیاں لانے کا سبب بن سکتا ہے اور قبرستان کے بعد بیوٹی پارلر ہی وہ دوسرا مقام ہے کہ جہاں کبھی زبان کو تالو سے نہ لگانے والی پرکالائیں بھی مکمل سکوت و سکتے میں دکھائی دیتی ہیں کہ انہیں بنام میک اپ خاموشی و متانت کا کوبرا سانپ سونگھ جاتا ہے۔ یہ مقام وہ ہے کہ جو انسان کو یہ سمجھنے کا عرفان عطا کرتا ہے کہ ’’غرض انسان کو کہاں تک مجبور و بے بس کردیتی ہے۔‘‘ اسے ہم سزا بالرضاء بھی کہہ سکتے ہیں۔
اسی کایا پلٹ قسم کی خاصیت کے باعث بیوٹی پارلروں میں عموماً ایسی معمروبوسیدہ خواتین کا بھی تانتا سا بندھا رہتا ہے کہ جو وہاں عمر رفتہ کو آواز دینے اور گئے دنوں کا سراغ پانے کی مہم پہ کمربستہ ہوتی ہیں، خاصا بھاری تاوان ادا کرتی ہیں چُنی کاکی سی نظر آنے کے لیے۔
یہ الگ بات کہ اس کڑی مشقت کے باوجود کھوئی جوانی بھی ہاتھ نہیں آ پاتی اور وہ معمر ہونے کا وقار بھی کھودیتی ہیں۔
دیکھا جائے تو بیوٹی پارلر والے دلہنوں کی ہمت بندھانے کا سبب ہیں کہ اسی باعث کبھی کبھی تو دلہن کا گھونگھٹ اٹھاتے ہی دلہا کی گھگھی بندھ جاتی ہے۔ شاید اسی لیے اب حجلۂ عروسی میں دودھ کا بڑا والا گلاس رکھنے لگے ہیں۔
شوہروں کی بڑھتی آمدنی اور خواتین کی بڑھتی مجبوریوں کے باعث وہاں کام کا رش بہت بڑھتا جارہا ہے جس کی وجہ سے اکثر جگہ میک اپ کے نام پہ بھگدڑ سی مچی رہتی ہے اور اسی ہبڑدبڑ کی وجہ سے اکثر بیوٹی پارلرز میں طوفانی رفتار سے نمٹائی گئی دلہن کی آنکھیں کہیں ہوتی ہیں تو مسکارا کہیں اور اسی طرح لپ اسٹک بھی ضرورت سے زائد رقبے پہ جلوہ گری کرتی ہے اور ہونٹ ادھر ادھر پڑے ہوئے سے لگتے ہیں۔ اکثر تو عجلت میں ضرورت کی ماریوں کے سر پہ بالوں کی ایسی ہمالیائی ڈھیری سی بنادی جاتی ہے کہ جیسے کوئی آتش فشاں لاوا اگلنے کو ہے۔
یوں بھی ہوتا ہے کہ مسکراہٹ کی توفیق سے محروم خواتین کے گالوں سے سفاکی ہٹانے کی لیے ایک خصوصی جتن کیا جاتا ہے اور خوش اخلاقی کا وقتی تاثر ابھارنے کے لیے مسکراہٹ کے گڑھے یا چاہ ذقن دکھانے کے لیے ڈھیر سا مصالحہ لیپ کر اس میں دو مصنوعی گڑھے پیدا کردیے جاتے ہیں کہ جن میں بے چارہ دولہا پہلی ہی شب اپنے اوسان سمیت ایسا جا گرتا ہے کہ کبھی نہیں سنبھل پاتا۔ البتہ محبت کی شادی میں بیوٹی پارلر کو کوئی دوش نہیں دیتا جس کی وجہ عام طور پہ یہ ہوتی ہے کہ عام طور پہ محبوبہ کے چہرے کا ایک تل ہی دلہا کو بالآخر یہ دن دکھانے کی نوبت لاتا ہے۔۔۔ لیکن اگلے دن کی صبح منہ دھلنے پہ سب سے پہلے کم بخت وہی تل دھل دھلا کر ناپید ہوجاتا ہے۔
شادی اگر خاندان میں ہوئی ہو تو بیوٹی پارلر سے کروائے ہوئے میک اپ کے بل پہ اس دیکھی بھالی لڑکی سے کم ازکم شادی کے دن تو نجات مل ہی جاتی ہے، جہاں سے گویا شرطیہ تبدیل شدہ منہ ہاتھ لگتا ہے۔ اسی لیے اگر کسی وجہ سے رفیق سفر نہ بدل سکیں تو اس کا بیوٹی پارلر بہرحال بدلتے رہنا چاہیے۔ اس لحاظ سے بیوٹی پارلر کا شعبہ واحد ہے کہ جہاں دھوکادہی کو قانونی تحفظ میسر ہے۔
گو اس جدید دور میں میک اپ کے فن نے بھی کافی ترقی کی ہے، لیکن نہ جانے کیوں اب بھی بیوٹی پارلر سے میک اپ کرانے کے بعد جب کسی دلہن کو سرسری سا دیکھیں تو پہلی نظر میں تو وہ لازمی ایک کٹھ پتلی یا زندہ لاش سی سفید پڑی معلوم ہوتی ہے۔ حالاںکہ مصنوعی سازوسامان بھی ڈھیروں لادا جاتا ہے جیسے مورچھل جیسی لمبی لمبی مصنوعی پلکیں کہ گویا بار بار اٹھ کر آنکھوں کو پنکھا جھلتی ہوں (لیکن کوئی سادہ لوح اگر غفلت میں پنکھا ذرا تیز چلا دے تو پلکوں کے مورچھل کے یہ پر بہت دور جاگرتے ہیں مگر پھٹی پھٹی آنکھیں وہیں پڑی رہ جاتی ہیں)۔ شاید اسی لیے بیوٹی پارلر سے واپس آئی کوئی دلہن کھل کر کبھی ہنسنے یا بلبلا کر رونے کا رسک نہیں لے سکتی۔ بیوٹی پارلرز میں کیے گئے میک اپ کا ایک عجیب پہلو یہ بھی ہے کہ دونوں ہاتھوں میں بڑے بڑے ناخن بھی چپکا دیے جاتے ہیں کہ گویا کسی خونی مقابلے کی تیاری کے لیے چڑیل سے مستعار لیے ہوں جو کہ حفاظت خوداختیاری کا سنگین ہتھیار معلوم ہوتے ہیں۔
مختصراً یہ کہ کسی بیوٹی پارلر میں تعمیر کردہ یہ سارا نازک سا عروسی رنگ محل ہر آن یوں لگتا ہے کہ جیسے اب گرا کہ تب گرا، اور اسی کو سنبھالنے سنبھالنے میں وقت پر لگا کر اڑ جاتا ہے۔
The post بیوٹی پارلر؛حُسن کا ورکشاپ! appeared first on ایکسپریس اردو.