شادی ایک طرف نسل انسانی کی بقا کا ذریعہ ہے، تو دوسری طرف انسان کی جذباتی اور سماجی ضرورت بھی ہے۔ انسان اپنی سماجی اور نفسیاتی سطح پر شخصیت کی تکمیل اپنے شریکِ حیات سے مل کر ہی کر پاتا ہے۔ اسی لیے اس بندھن کی اہمیت ہر مذہب میں واضح کی گئی ہے۔
ہمارے معاشرے میں جہاں بہت سے مسئلے مسائل ہیں، وہیں ایک بہت اہم مسئلہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں کے اچھے رشتوں میں کمی کا بھی سامنے آرہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ دنیا میں لڑکیوں کے رشتے ختم ہو گئے ہیں، لیکن آج کل جو حالات لڑکے والوں نے پیدا کر دیے ہیں، ان کو دیکھ کے یہی گمان ہوتا ہے کہ تعلیم یافتہ لڑکیوں کے لیے اچھے رشتے واقعی ختم ہو کر رہ گئے ہیں۔
لڑکیوں کے رشتوں کے حوالے سے ہمارے ہاں کے مسائل اچھے خاصے پرانے ہیں، پہلے زمانے میں لڑکیوں کی شادی میں نہ ہونے یا تاخیر کی وجہ جہیز ہوتا تھا۔ یہی ہوتا تھا کہ والد کی آمدنی اتنی نہیں، بھائی اس قابل نہیں، اس لیے لڑکی والدین کی دہلیز پر ہی بیٹھی رہ گئی۔ ویسے بھی متوسط اور نچلے طبقے کے لوگوں کی اتنی آمدنی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی بیٹی کو جہیز میں عالی شان فرنیچر، خوب صورت کپڑے اور اس کے علاوہ اور بھی دوسری بہت سی اہم چیزیں دے سکیں۔ جس کی وجہ سے لڑکے والے رشتے سے انکا ر کر دیتے تھے، لیکن اب اگرچہ زمانہ بدل گیا ہے۔ لوگوں کی آمدنی، ان کے رہن سہن کا طریقہ، سب کچھ بدل گیا ہے۔ اسی لیے لوگوں کے خیالات بھی تبدیل ہو رہے ہیں، لیکن اس تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اس کے بعد مسائل کی نوعیت بھی بدلنے لگی ہے۔
آج جب لڑکی کے لیے کوئی رشتہ آتا ہے، تو وہ خوش ہونے کے بہ جائے گھبرا سی جاتی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اب سے لڑکے والوں کے درجنوں سوالات کا جواب دینا ہوگا اور اس کے احساسات کی پروا کیے بغیر اس پر تنقید بھی کی جائے گی۔ آج کل لڑکیوں میں اعلیٰ تعلیم کا رجحان بڑھ گیا ہے، تو والدین بھی یہی توقع کرتے ہیںکہ رشتہ بھی پڑھے لکھے گھرانے سے ہی آئے گا۔ ایسے میں اگر والدین کی سوچ درست بھی ثابت ہو جاتی ہے تواس وقت ان کی امیدیں چکنا چور ہو جاتی ہیں، جب لڑکے کی والدہ کا پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ لڑکی کا رنگ کیسا ہے؟ اس کی قد کاٹھ اور ڈیل ڈول کیسا ہے؟ اس صورت میں لڑکی کے گھر والوں کو کوئی جواب سجھائی نہیں دیتا۔
اب تو یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ جب لڑکی کو لڑکے کے گھر والے دیکھنے آتے ہیں تو وہ بہ جائے لڑکی سے یہ پوچھنے کے تمھاری تعلیم کتنی ہے، بلکہ یہ پوچھتے ہیں کہ تم نے کون سی یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔۔۔؟ اور تمھاری ’جی پی‘ کیا تھی۔۔۔؟ ذرا ہمیں اپنی ڈگری تو دکھاؤ۔۔۔؟
اس کے علاوہ کچھ لوگوں کا یہ نظریہ بھی ہوتا ہے کہ لڑکی پڑھی لکھی بھی چاہیے اور چھوٹی عمر کی بھی، لیکن یہ سوچ رکھنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ لڑکی اگر 18 سال کی ہو گی تو صرف انٹر پاس ہی ہوگی اور آج کے دور میں انٹر کوئی زیادہ پڑھائی نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ یا تو وہ اپنی سوچ بدل دیں یا پھر 22 سے 24 سال کی لڑکی دیکھیں۔اس کے ساتھ ساتھ آج کل لڑکی کے لباس کی جزئیات کی بنیاد پر بھی لڑکی مسترد کر دی جاتی ہے، مثلاً لڑکی نے ایسے کپڑے کیوں پہنے، قمیص ایسی ہونی چاہیے تھی، دامن ایسا ہونا ٹھیک ہوتا ہے، آستینیں ایسی ہوں، کپڑوں کا رنگ کیا ہو؟ دوپٹہ ہونا چاہیے تھا یا دوپٹہ کیوں اوڑھا ہوا تھا وغیرہ جیسے اعتراضات بھی ہوتے ہیں۔
عام طور پر یہ بھی سُننے میں آتا ہے کہ لڑکے والوں نے ہر ہفتے یا اتوار کو شام کی چائے لڑکی والوں کے گھر پر رکھی ہوئی ہوتی ہے، بظاہر تو وہ لڑکی والوں سے زیادہ میل جول بڑھانے کے لیے ایسا کرتے ہیں، لیکن لڑکی والوں کی تو گویا جان پر بن آتی ہے کہ ابھی کچا رشتہ ہے، کہیں کچھ اونچ نیچ نہ ہو جائے۔
خاطر تواضع سے لے کر ملبوسات تک اہتمام کی زحمت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ایسا کرنا ایک متوسط گھرانے کے لیے یقیناً کافی مشکل بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی میل کا بیل بن کر خدانخواستہ رشتہ ختم ہو تو یہ نہایت تکلیف دہ بات ہوتی ہے، کیوں کہ اس دوران ایسا ہوتا ہے کہ لڑکی کو جب دیکھنے آتے ہیں تو اس کا سر سے پاؤں تک بغور جائزہ لیا جاتا ہے، جیسے وہ لڑکی نہیں، بلکہ کوئی کھلونا ہے اور پھر یہ کہہ کے انکا ر کر دیتے ہیں کہ لڑکی چلتی ہوئی اچھی نہیں لگتی یا لڑکی جوتے ٹھیک پہن کر ہمارے سامنے کیوں نہیں آئی۔۔۔
ایسا لگتا ہے کہ ہم جن اصولوں اور اچھی باتوں کی گردان ساری زندگی لگاتے رہتے ہیں، اس موقع پر سب کی سب پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہی نہیں کہ یہ سوچ اتنے اچھے گھرانے کے نظر آنے والے لوگ کر رہے ہیں۔ ان سب باتوں کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ لڑکی کو صرف اس لیے بھی مسترد کر دیا جاتا ہے کہ وہ گوری نہیں ہے، اس کا قد چھوٹا ہے، یہ موٹی ہے یا اس کا پہناوا ایسا ہے وغیرہ۔ یہاں تک کہ اتنی باریک بینی سے تنقید کی جاتی ہے، جس سے ایسا لگتا ہے کہ لڑکی کے کچھ احساسات نہیں اور وہ کوئی بے جان شے ہو۔
لڑکے والے یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ لڑکی اگر رنگت یا خوب صورتی میں ذرا کم ہے تو اس میں اس کا کیا قصور ہے۔ اس کی ذات پر اتنی آسانی سے طنز کے نشتر برسانے اس کے دل پر کیا گزرتی ہوگی؟ لڑکے والوں کو چاہیے کہ جب بھی کسی لڑکی کا انتخاب کریں، تو خدارا اسے ذاتی حوالوں سے نہ پرکھیں اور نہ ہی کبھی دل آزارانہ الفاظ سے کسی لڑکی اور اس کے والدین کا دل دکھائیں۔ پہلے والدین سے ملاقات رشتہ طے کرنے کے لیے کافی سمجھی جاتی تھی، لیکن اب لڑکا خود لڑکی کو دیکھنے آتا ہے اور برے رویے کے ساتھ لڑکی کو مسترد کردیتا ہے، جس کی وجہ سے لڑکی بہت زیادہ دل برداشتہ ہو جاتی ہے۔ ایسے واقعے کے بعد بہت سی لڑکیوں نے خود کو نقصان پہچانے کی بھی کوشش کی، جو نہایت خطرناک عمل ہے۔
یہ دنیا ہے، یہاں ایک موقعے کے ’لڑکے والے‘ بھی درحقیقت کسی نہ کسی موقع یا موڑ پر خود بھی لڑکی والے ہوتے ہیں، المیہ یہ ہے کہ انھیں اس موقع پر جو شکایات لڑکے والوں سے ہوتی ہیں، وہ خود لڑکے والے بن کر اس سے گریز کا سوچتے تک نہیں ہیں، پھر شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ اہم اپنے بھائی اور بیٹوں کے رشتے طے کرنے نکلیں تو اپنی بہن اور بیٹیوں کو بھی ذہن میں رکھیں، تاکہ کل کو خود بھی ایسے رویوں سے بچ سکیں۔ اس طرح ہی سماج میں بہتری اور ایک دوسرے کے لیے آسانیوں کا سفر آگے بڑھ سکتا ہے۔
The post تعلیمی کارکردگی اور نئی زندگی appeared first on ایکسپریس اردو.