Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4424

’ایم کیو ایم‘ تحریک سے ’تنظیم‘ بن گئی، ڈاکٹر عمران فاروق پاکستان آنا چاہتے تھے!

$
0
0

ممکن ہے کہ ہمارے بیش تر قارئین عابد علی امنگ کو درس وتدریس اور اردو کے مباحثوں کے حوالے سے زیادہ جانتے ہوں، جو کہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں، کیوں کہ گذشتہ کئی برسوں سے وہ گوشہ نشیں اور سیاسی طور پر غیرفعال، لیکن اپنی ذاتی زندگی میں ایک بہت فعال زندگی گزار رہے ہیں۔۔۔

1987ء میں سیاسی سفر شروع کرنے والے عابد علی 2004ء کے ضمنی انتخاب میں ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کی جانب سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، اور 2008ء میں وہ درس وتدریس کی جانب لوٹ کر معاشی جدوجہد میں جُت گئے اور اب بھی ان کی کُل وقتی مصروفیت تدریس ہی ہے۔۔۔ وقت ملے تو ’مباحثوں‘ کے مختلف مقابلوں میں بطور منصف بھی فرائض انجام دیتے ہیں۔۔۔ کراچی میں ان کی جماعت 23 اگست 2016ء سے اپنے قائد سے الگ ہوکر ایک مختلف شکل اختیار کرچکی ہے، تاہم عابد علی امنگ کے سیاسی نظریات آج بھی ماضی سے کچھ زیادہ مختلف دکھائی نہیں دیتے۔ گذشتہ دنوں ہم نے ان سے ملاقات کے لیے وقت لیا اور کراچی کی سیاست، سیاسی حالات اور ’ایم کیو ایم‘ پر مختلف الزامات کے حوالے سے بہت تفصیل سے گفتگو کی، جس کا ایک خلاصہ آپ اگلی سطروں میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

اُن کے والد علی گڑھ سے تعلیم یافتہ اور ’آل انڈیا مسلم لیگ‘ کے رکن تھے۔ وہ یہاں بینک میں لاکرز کے انچارج تھے، ہندوؤں کے لاکر توڑنے کے لیے دباؤ بڑھا تو استعفا دے دیا۔ 1970 ء کے بعد انھوں نے برسوں لائبریری چلائی۔ اپنی سیاست میں آمد کے سوال پر عابد علی امنگ بتاتے ہیں کہ ’’اکتوبر 1987ء میں ’بی‘ گریڈ میں میٹرک کے بعد ’اے‘ اور ’اے ون‘ گریڈ کو داخلے دینے والے ڈی جے سائنس کالج میں تقریری مقابلے کی بنیاد پر داخلہ ملا، پہلے غیرنصابی سرگرمیوں کی بنیاد پر داخلوں کا کوٹا ہوتا تھا، جو بدقسمتی سے ختم ہوگیا۔ کالج میں ’آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘ (اے پی ایم ایس او) کا رقعہ ’میری آواز سنو!‘ دل کو لگا، ’مہاجر قومیت ایک نظریہ‘ اور ’قوم اور قومیت کا فرق‘ یہ عمران فاروق، عظیم احمد طارق اور الطاف حسین کے لکھے ہوئے مختلف کتاب چے تھے۔ ’تاریخ کی گواہی‘ کتاب پڑھ کر رکنیت کا امتحان اور انٹرویو کے بعد سیاسی وابستگی شروع ہوئی۔‘‘

عابد علی امنگ کہتے ہیں کہ طلبہ تنظیمیں ’کتب میلے‘ اور مثبت سرگرمیوں سے طلبہ کو اپنی جانب راغب کرتیں۔ ’مباحثے‘ میں میرے سامنے ’جمعیت‘ کے نائب ناظم محمد آصف تھے، میں اگرچہ ہار گیا، لیکن بہت سی جگہوں پر ’جمعیت‘ اور ’این ایس ایف‘ والے بھی میری تائید کر رہے تھے۔ جنرل ضیا کے بعد ’پی ایس ایف‘ نے کھلے ہتھیاروں کے ساتھ ’ڈی جے‘ سمیت کراچی کے مختلف کالجوں میں قبضے کیے، ’پی پی پی‘ اور ’ایم کیو ایم‘ 1988ء میں ’معاہدہ کراچی‘ سے اتحادی ہوگئے، دونوں فطری اتحادی ہیں، جو پنجاب کو سرنگوں کر سکتے ہیں، لیکن کارکنان نے ایک دوسرے کو قبول نہ کیا، تربیت یہ تھی کہ الطاف حسین نے بولا ہے، تو ماننا ہے، لیکن معاہدہ ختم ہوتے ہی کارکن تو بھرا بیٹھا تھا، پھر بہت بڑے پیمانے پر ہتھیار نکلے۔

سانحۂ پکا قلعہ 1990ء کے بعد ’ایم کیو ایم‘ مجبور تھی کہ ’دفاعی چیزوں‘ کو اپنے پاس جمع کرے۔ جب تصادم ہوا تو ایک دوسرے کے سیکڑوں کارکنان اغوا ہوئے، پھر گورنر ہاؤس میں رینجرز حکام کی موجودگی میں دونوں سیاسی جماعتوں نے پہلی مرتبہ ایک دوسرے کے لوگ واپس کر کے خیرسگالی کا پیغام دیا اور یہ مانا کہ ہم نے اٹھائے تھے، آج کل تو بتاتے ہی نہیں کہ ہم نے اٹھائے! جب واپس کرنے پر اتفاق کر رہی ہیں، تو طے ہے کہ سیاسی جماعتیں مخالفین کو اٹھایا کرتی تھیں، اس عمل سے جماعت اسلامی بھی مُبرا نہیں، وہ تو زیادہ تربیت یافتہ تھے اور کبھی تو ’پی ایس ایف‘ سے مل کر ہمیں مارا بھی کرتے تھے۔‘‘

ہم نے مسلح تصادم کی یادیں کھنگالنا چاہیں، تو بتایا کہ ’’ایس ایم آرٹس کالج میں ’جمعیت‘ بیٹھتی تھی، 1988ء کے انتخابات کے بعد ’پی ایس ایف‘ کے شاہ نواز شانی کو پہلی دفعہ دیکھا، وہ آیا لڑکے اٹھائے اور فائرنگ کے تبادلے میں لڑکے زخمی ہوئے۔ اب یا تو سرنگوں ہوجاتے یا پھر مقابلہ کرتے، دو ہی راستے تھے۔ پہلی دفعہ اسلحہ 1988ء میں دیکھا، جو ریوالور تھی، پھر تو راکٹ لانچر تک دیکھے!‘‘

’’ڈی جے کالج میں۔۔۔؟‘‘

’’وہاں براہ راست نہیں دیکھا، لیکن پَٹّا چلتے ہوئے ’ایل ایم جی‘ اور ’پی ایس ایف‘ کے مورچے دیکھے، جس کی وجہ سے ہم ’ڈی جے‘ میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔ ’جمعیت‘ کے کلاشنکوف بردار پہرے دیتے۔ 1992ء آپریشن میں پاک کالونی میں راکٹ لانچر لگے ہوئے، انھیں کاندھے پر لیے پھرتے ہوئے دیکھا۔ یہ ’حقیقی‘ کو دیے گئے تھے۔‘‘

تشدد کے واقعات کے ذکر پر کہتے ہیں کہ ’’پیپلزپارٹی سے بہت مار کھائی، جمعیت نے بھی ایک بار اٹھایا، 1994ء میں جامعہ کراچی میں شعبۂ کیمسٹری کے مباحثے میں نظم پڑھنے پر رینجرز والے مارتے ہوئے باہر لے گئے، وہ لائبریری کے پیچھے لے جا کر ’’سروس‘‘ کرتے، لیکن بہت سارے لڑکے نعرے بازی کر رہے تھے، اس لیے بچ نکلے۔‘‘

1992ء میں ’ایم کیو ایم‘ کے بحران کے حوالے سے عابد علی بتاتے ہیں کہ ’’یہ ایم کیو ایم کو پنجاب میں روکنے کے لیے ہوا، 1990ء میں شاہ راہِ قائدین کے جلسے میں ایک آواز پر اتنا بڑا مجمع خاموش ہوتا دیکھا، اگر ایسی طاقت کو پنجاب میں آنے دیتے، تو جاگیردار کیسے رہتا، پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور جاگیردار ایک ہیں۔ ہمارے مسلم لیگ سے معاہدے سے بھی توقعات پوری نہ ہوئیں۔ پھر سندھ میں 72 بڑی مچھلیوں کو ختم کرنے کے نام پر آپریشن کی اسمبلی میں مخالفت نہ کرنا ’ایم کیو ایم‘ کی غلطی تھی، اسی آپریشن کی آڑ میں ’حقیقی‘ لائی گئی۔‘‘

’پہلے تو ’حقیقی‘ والوں کو ’ایم کیو ایم‘ سے خارج کیا گیا تھا؟‘ ہم نے درمیانی کڑی ملانی چاہی۔ انھوں نے کہا کہ ’’غیرتنظیمی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر انھیں معطل کیا، معطلی تسلیم نہ کی، تو خارج کیا۔ 1991ء میں انھوں نے مختلف دفاتر پر قبضے کیے، پولیس نے کہنے کے باوجود کارروائی نہ کی، تو ’ایم کیو ایم‘ کئی گھنٹوں کی ’خوف ناک جنگ‘ کے بعد اپنا لانڈھی ’سیکٹر‘ واپس لے سکی۔

اس کے بعد یہ بھاگ گئے، ان کے خلاف ’ایف آئی آر‘ کٹیں۔ لاہور کے ایک ’ڈی آئی جی‘ نے اپنی کتاب میں لکھا، انھوں نے کراچی کے کچھ ملزمان گرفتار کیے، جنھیں وزیراعظم نوازشریف کے حکم پر کورکمانڈر لاہور کے حوالے کرنا پڑا۔ انھوں نے آفاق احمد، عامر خان، بدر اقبال، حامد پیا، طارق نظامی اور شاید منصور چاچا وغیرہ کے نام بھی لکھے۔ یہ تو پنجابی بولنے والے اعلیٰ پولیس افسر نے لکھا کہ میں نے جب انھیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے دیکھا، تب مجھے یاد آیا کہ یہ تو وہی لوگ ہیں، جنھیں میں نے گرفتار کیا تھا۔‘‘

’’کہا جاتا ہے کہ انھیں پارٹی نے ویزے لگوا کر باہر بھیجا اور پھر ان کے پیچھے ان کے خلاف بینر لگ گئے؟‘‘

اس لیے بھیجا کہ یہ مسئلہ حل کرنے کا درمیانی راستہ تھا، بینر لگنے کے بعد یہ واپس آئے اور پھر لانڈھی، کورنگی کے علاقوں میں قبضے ہوئے، جو واپس لیے، لائنز ایریا رہ گیا، کیوں کہ اس میں داخل ہونے کی جگہ نہیں تھی۔

’حقیقی‘ کی ’مہاجر نظریے‘ کی بنیاد پر علاحدگی کے استفسار پر عابد علی کہتے ہیں کہ ’’سوال تو یہ ہے کہ ’متحدہ‘ کیوں بنی؟ ہم نے سوچا کہ شاید اسٹیبلشمنٹ ’مہاجر‘ لفظ سے چڑتی ہے، ہماری جدوجہد تو مظلوم کی ہے، ہم اگر پنجاب میں داخل ہوگئے، تو قومی سطح پر بھی آگے چلے جائیں گے، لیکن اس کے جواب میں 1992ء کا آپریشن ہوگیا، پھر 1995ء میں نصیر اللہ بابر کا بدترین آپریشن۔ سابق ’ایس ایس پی‘ راؤانوار کا انٹرویو ’یوٹیوب‘ پر ہے کہ مجھے اے ڈی خواجہ نے کہا ثبوت نہ ملے تو مار دیا کرو، اس وقت بھی یہی ہدایت تھی۔

ہم نے ’مہاجر‘ کو ’متحدہ‘ کر کے سب کے ساتھ چلنے کی کوشش کی، لیکن میری رائے میں کارکنان نے دل سے ’متحدہ‘ کو تسلیم نہیں کیا۔ آج بھی ووٹ مہاجر علاقوں ہی سے ملتا ہے۔ یہ الطاف حسین کی طاقت تھی کہ مہاجر علاقوں سے ’غیرمہاجر‘ کو منتخب کرا دیتا تھا۔ نثار پنہور اور نبیل گبول کو عزیز آباد سے منتخب کرایا، محمد علی بروہی کو سینٹیر، اشفاق منگی کو رکن اسمبلی اور مشیر، ہیر سوہو کو رکن سندھ اسمبلی اور کمیٹی کا چیئرمین بنا کر ثابت کیا کہ ہم سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔‘‘

عابد علی امنگ ’اے پی ایم ایس او‘ کا حصہ تھے، پیغام ملا کہ مختلف علاقوں میں ’’1991ء والوں‘‘ کی نقل وحرکت دیکھی گئی ہے، احتیاط کیجیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’انھیں خارج کیے جانے کی بنا پر ’خارجی‘ کہتے، 19جون 1992ء کو ’سیکٹروں‘ پر قبضے کی اطلاعات ملیں، 20 جون کی رات ہمارے علاقے پاک کالونی میں فوجی گاڑیوں میں لوگ آئے۔ ہم انھی کپڑوں اور جوتیوں میں علاقہ چھوڑ گئے۔ صبح پتا چلا کہ ہمارے ’سیکٹر‘ اور ’یونٹ‘ پر ’حقیقی‘ کے لوگ آگئے۔ 20 جون کو بڑی کارروائی ہوئی، جس نے مزاحمت کی، مارا گیا، جو بیٹھ گیا اسے بٹھا لیا، باقی ہم لوگ بھاگ گئے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ انھیں ’گو ڈاؤن‘ کا پیغام ملا، لیکن کیا یہ پیغام قابلِ اعتبار تھا؟ انھوں نے بتایا ’’اس وقت تک ہمارے اندر ’خارجی‘ پیدا نہیں ہوئے تھے، کہا گیا ’’جس جگہ بھی جاؤ، اگلی ہدایت تک سورج بھی نہیں دیکھنا‘‘ دوستوں سے کچھ پیسے لیے، دو دن کینٹ اسٹیشن اور ایک دن جناح اسپتال میں سویا، پھر بس میں ملتان پہنچا، وہاں یونیورسٹی میں داخلہ لیا، ہاسٹل میں رہا، جس سے بڑی سہولت ہوگئی۔ باقی اخراجات کے لیے ٹیوشن پڑھائی، گھر والوں، رشتے داروں سے رابطے منقطع۔ کئی مہینوں بعد گھر کا چکر لگتا، سچی بات ہے کہ پیسے ہی نہیں ہوتے تھے، گھر میں دو چھاپے بھی پڑے۔ تعطیلات میں دوسرے شہر میں لیے گئے ’پی او بکس‘ سے دوستوں کے خطوط لاتا۔ اسی سے پتا چلا امی کی طبیعت خراب ہے، دوست سے کہہ کر ’کیپری سنیما‘ کے تین ٹکٹ لیے، وہاں درمیانی سیٹ پر کھانا رکھا، تین گھنٹے امی سے ملاقات کی اور وہیں سے واپس۔ میرا خط دوسرے علاقوں میں رہنے والے دوستوں کے ذریعے گھر جاتا۔

والد بھی طویل ناصحانہ خط لکھتے، آخری سطر میں ’امی سلام کہتی ہیں‘ اور اللہ حافظ۔ دو سال سے کچھ زیادہ وہاں رہا۔ انتخابات کے دوران واپس بھی آیا، تو لوگ گلے ملے کہ تم زندہ ہو! ملتان کے دوستوں سے آج بھی ملاقات رہتی ہے، شلوار قمیص پہنی، یوں وہاں کے ماحول میں بہ آسانی بس گیا۔ پنجاب میں بھی ’لوکل‘ اور ’مہاجر‘ کی تقسیم ہے۔

ملتان، لیہ، ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، سمہ سٹہ اور بہاول پور تک باقاعدہ کہا جاتا ہے کہ یہ ہندوستانی، یا مہاجروں کا علاقہ ہے۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ وہاں رچ بس گئے، لیکن عملاً ان کے علاقے الگ ہیں۔ انھوں نے وہاں کی ثقافت اپنالی، گھروں میں سرائیکی لہجے میں اردو بولتے ہیں، لیکن خود کو ’مہاجر‘ کہتے ہیں۔ وہاں سے ’مہاجر‘ نام پر ووٹ اس لیے نہیں ملتے کہ وہ اکلوتے سرکاری ٹی وی کے اسیر رہے، جو ہمارا مخالف پروپیگنڈا کرتا رہا۔ اگر وہ چاہیں، تو بڑی تبدیلی لاسکتے ہیں، مظفر گڑھ اور ’ڈی جی خان‘ میں بہت بڑی تعداد میں ’مہاجر فیکٹر‘ موجود ہے، ان سے باقاعدہ ووٹ کے لیے بات کی جاتی ہے۔‘‘

1995ء کے آپریشن میں عابد علی امنگ کو پھر چُھپنا پڑا، تب اسکول میں پڑھاتے تھے، چناں چہ ایک چھت پر پانی کی ٹنکی کے نیچے پلاسٹک بچھا کر پناہ لیتے، وہاں ایک ’زیرو والٹ‘ کے بلب میں لیٹ کر پڑھتے اور کاپیاں چیک کرتے، ریڈیو پر خبریں سنتے، صبح ہوتے ہی نکل جاتے۔ کہتے ہیں کہ نومبر 1996ء میں صدر فاروق لغاری نے ماورائے عدالت قتل پر ہی بے نظیر کی حکومت ختم کی، جس سے ہمارا موقف درست ثابت ہوا۔‘‘

عابد علی امنگ کا خیال ہے کہ ’’یہ الطاف حسین کی بصیرت تھی کہ انھوں نے ’ایم کیو ایم‘ اور ’اے پی ایم ایس او‘ کو الگ الگ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ 1992ء کے فوجی آپریشن میں جب ’ایم کیو ایم‘ غائب ہوئی، تو ’اے پی ایم ایس او‘ علاقوں میں متوازی طور پر موجود تھی، اس کے بعد اکثر انھی لوگوں کو ’ایم کیو ایم‘ میں ذمہ داریاں بھی ملیں۔‘‘

1998ء کی فوجی عدالتوں کے ذکر پر عابد علی نے بتایا کہ ’’ایم کیو ایم کے کارکن رفیع ببلی کو فوجی عدالت سے سزا ہوئی، اسی دوران عامر اللّہ، فصیح جگنو کی گرفتاری ہوئی، فصیح جگنو کی دورانِ حراست تشدد سے جان گئی، اسی رات ’ایم کیو ایم‘ نے حکومت سے نکلنے کا اعلان کیا اور ایک اور آپریشن شروع ہوگیا! ’ایم کیو ایم‘ نے فوجی عدالتوں کے خلاف مقدمہ جیتا، لیکن کہا گیا کہ جو فیصلے ہوگئے، وہ برقرار رہیں گے! رفیع ببلی کو سزائے موت اس کی ذاتی سرگرمی پر ہوئی تھی۔۔۔ ’ایم کیو ایم‘ کسی کی ذاتی سرگرمی کو اپنا قرار نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو پھانسی کے بعد اسے دوبارہ ’اپنا‘ نہیں کہا گیا۔‘‘

’ایم کیو ایم‘ کے کارکنوں کی ’دادا‘ اور ’کانا‘ وغیرہ جیسی عرفیتوں کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ عرفیتیں (شام کے ایک) اخبار نے دیں۔۔۔ جہاں ’رحمٰن ڈکیت‘ پیدا ہوگا، وہاں اجمل پہاڑی پیدا ہونا فطری امر ہے!‘‘

’’رحمٰن ڈکیت تو مکمل مجرمانہ کردار کا ہے، لیکن یہ تو سیاسی کارکن ہیں؟‘‘ ہمیں اچنبھا ہوا، ان کا استدلال تھا:

’’وہ اگر صرف مجرم تھا، تو ’ایم کیو ایم‘ ہی کے لوگ کیوں مارتا تھا، یعنی وہ سیاسی طور پر استعمال ہورہا تھا، جہاں ’ایم کیو ایم‘ کو مارنے والے ہوں گے، تو ’ایم کیو ایم‘ میں بھی ہتھیار کا جواب ہتھیار سے دینے والے پیدا ہوں گے!‘‘

لیکن خود ’ایم کیو ایم‘ کے حامی بھی شکایت کرتے ہیں کہ یہ لوگ ظلم کرتے تھے؟

’’یہ تو وہی باتیں ہیں جو 1990ء سے 1999ء تک کی جاتی تھیں!‘‘

’’یہ تو یہاں عام لوگوں کی شکایت بھی ہے؟‘‘

’’میں اسے درست نہیں سمجھتا۔ ’پی ٹی آئی‘ کی فوج کے خلاف تشدد کی ان کے پاس یہ دلیل ہے کہ ان کے لیڈر کو اٹھا لیا، اب وہ کیا کریں؟ ’ایم کیو ایم‘ کے پاس بھی ہڑتالوں کے سوا اور کوئی راستہ نہ تھا۔‘‘

اس سے تو ’ایم کیو ایم‘ پر جبر اور تشدد کے الزامات لگے؟

’’ہمیں کوئی صفائی دینے کی ضرورت نہیں، ہم جو کچھ کرتے ہیں، ہمارے پاس اس کی دلیل ہے۔ جب ’تحریک انصاف‘ سڑکیں بند کرتی ہے، خادم حسین رضوی نے پورا ملک بند کیا، عمران خان 126 دن دھرنا دیے بیٹھا رہا، تو اسے غلط کیوں نہیں کہتے؟ ہم بھی جو کچھ کرتے ہیں، کسی دلیل سے کرتے ہیں!‘‘

’ایم کیو ایم‘ پر اپنے ہی لوگوں کو قتل کے حوالے سے بھی الزام ہے؟

’’یہ تو خود الطاف حسین نے جلسے میں کہا تھا کہ مقتول نشاط ملک اور سینٹیر مصطفیٰ کمال کو آخری کال ’نائن زیرو‘ سے گئی، انھوں نے دراصل یہ واضح کیا کہ آپ کی کال کی وجہ سے ’لوکشین‘ پہنچی، اب یہ دی جا رہی ہے یا پھر یہاں سے ریکارڈ کی جا رہی ہے! ’ایم کیو ایم‘ تو اپنے لوگوں کو اس وقت مارے گی، جب اس کا فائدہ ملے۔ عظیم طارق اور عمران فاروق، ایس ایم طارق اور خالد بن ولید کے مرنے کا فائدہ ’ایم کیو ایم‘ کو نہیں ہوا۔‘‘

’’آپس کے اختلافات تو ہو سکتے ہیں؟‘‘

پھر اس کو ’ایم کیو ایم‘ نہ کہیں!

’’ایم کیو ایم کے لوگوں کا جھگڑا کہہ لیں؟‘‘

ذاتی جھگڑا کہیں۔۔۔!

اگر وہ جھگڑا ’ایم کیو ایم‘ کی وجہ سے ہو، اور اس کا سبب مفادات ہوں تو؟

’’مفادات تو ہر پارٹی کے اندر ہوتے ہیں تو کیا مروا دیتے ہیں، اگر ’ایم کیو ایم‘ نے اپنے اکابرین کو قتل کرایا، تو پھر بڑے بڑے لوگوں کا جو قتل ہوا، توانھیں بھی پھر انھی کے لوگوں نے مروایا ہوگا، مفادات تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔ اگر ’ایم کیو ایم‘ کے دو کارکنوں کی لڑائی ہوئی اور ایک نے مار دیا تو کیا یہ کہیں گے کہ پارٹی نے مارا؟‘‘

لیکن ان کی شناخت تو ’ایم کیو ایم‘ ہے؟

’’یہ کیسی بات ہے۔۔۔ مطلب اگر میرا جرم ہے، تو وہ میری ذات کے ساتھ ہے۔ میں اگر ’ایم کیو ایم‘ کا کارکن ہوں تو کیا میری ذاتی زندگی ختم ہوجاتی ہے!‘‘

لیکن ’ایم کیو ایم‘ میں یہ شرح زیادہ نظر آتی ہے؟

’’یہ تو آپ کا خیال ہے، میں تو اسے درست نہیں سمجھتا!‘‘

ڈاکٹر عمران فاروق کو کس نے قتل کیا؟

’’اسٹیبلشمنٹ نے۔۔۔! کیوں کہ عمران فاروق پاکستان آنا چاہتے تھے اور شاید وہ یہاں آکر الطاف حسین کی کمی پوری کرکے یہاں ’ایم کیو ایم‘ کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیتے، اس سے یہاں موجود لوگوں کی پوزیشن کو خطرہ ہوتا اور اسٹیبلشمنٹ کو براہ راست الطاف حسین کے آدمی سے ڈیل کرنا زیادہ مشکل ہوجاتا۔‘‘

لیکن وہ تو معطل تھے؟

’’معطل کس بنیاد پر تھے؟‘‘

’’ذاتی سرگرمیوں پر، کہ وہ وقت نہیں دے پا رہے تھے۔‘‘ ہم نے بتایا، تو انھوں نے استدلال کیا کہ ’’اب آپ ذاتی سرگرمیوں کو کہہ رہے ہیں، ابھی آپ قتل پر پارٹی کو ذمہ دار قرار دے رہے تھے، یہاں پارٹی کی بات مان لی؟‘‘

ہم نے کہا کہ یہ تو ہم آپ کو پارٹی ہی کا موقف بتا رہے ہیں۔ وہ بولے،’’لیکن یہاں قبول کر رہے ہیں، اور جہاں پارٹی ذاتی جھگڑا کہہ رہی ہے، وہاں کہہ رہے ہیں کہ آپ کی شناخت تو ’ایم کیو ایم‘ ہے!‘‘

یعنی اس وجہ سے عمران فاروق کو معطل کیا گیا اور اس وقت وہ فعال نہیں تھے، اسی لیے شکوک پیدا ہوئے کہ کیا انھیں اس وجہ سے قتل کیا گیا؟ وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ تو آپ کے مخصوص صحافتی حلقے کا تاثر ہے، آپ اپنے محلے میں جا کر عوام سے پوچھ لیجیے۔‘‘

’عام لوگ بھی کچھ یہی کہتے ہیں؟‘ ہم نے ’آپسی تصادم‘ پر اپنا مشاہدہ پیش کیا، تو وہ بولے کہ ’’آپ اپنے سلیکٹڈ عام آدمی سے کیوں پوچھ رہے ہیں، میں مانتا ہی نہیں!‘‘

روپوشی میں ڈاکٹر عمران فاروق سے رابطے کے استفسار پر وہ بتاتے ہیں کہ 1997ء میں تنظیمی انتخابات کے دوران کچھ ہل چل ہوئی، ہمیں نہیں پتا، لیکن کہا گیا کہ یہاں عمران فاروق آئے تھے! عابد علی امنگ ’ایم کیو ایم‘ کی غلطیوں کے سوال پر کہتے ہیں،’’سب سے بڑی غلطی 2013ء کے انتخابات میں پہلی بار 90 فی صد پرانے ارکان اسمبلی کو دوبارہ نام زَد کرنا تھی! پہلے صرف 20  فی صد لوگ ہی دوبارہ آتے تھے۔ اب اس سے پتا چلا کہ پارٹی میں ایک ایسا طبقہ وجود میں آگیا ہے، جو آرام و آسائش چاہتا ہے، ’ایم کیو ایم‘ تحریک سے تنظیم بن گئی! یہ درست فیصلہ نہیں تھا!‘‘

’’لیکن یہ ہوا تو الطاف حسین ہی کی طر ف سے تھا؟‘‘ ہم نے ایک ٹکڑا لگایا۔ وہ کہتے ہیں،’’وہ خود تو یہاں موجود نہیں تھے، ہمی نے انھیں صلاح دی۔ آپ الطاف حسین کو آمر کہتے ہیں، لیکن ان سے زیادہ جمہوری اور کوئی نہیں۔ وہ پرویزمشرف دور میں عراق فوج بھیجنے کی مخالفت چاہتے تھے، لیکن پارلیمانی کمیٹی کا اسمبلی اجلاس میں غیرحاضر ہونے کا فیصلہ مانا، اُدھر خلاف توقع اسمبلی عراق فوج نہ بھیجنے پر متفق ہوگئی، جب خبریں چلیں کہ سب نے فوج بھیجنے کی مخالفت کی اور ’متحدہ‘ غیرحاضر! تو انھوں نے پھر بہت ڈانٹا! ایسے ہی ’ڈمہ ڈولا‘ پر امریکی ڈرون حملے میں حفاظ شہید ہوئے، تو الطاف حسین نے ہمیں احتجاج کے لیے کہا، ہم نے مخالفت کی، پھر جماعت اسلامی نے احتجاج کی کال دی، تو الطاف بھائی نے پوری ’رابطہ کمیٹی‘ کو وہاں بھیجا۔ وہی جماعت اسلامی جس کے ہم سخت حریف تھے، لیکن انھوں نے اصولی حمایت کی۔‘‘

’ایم کیو ایم‘ میں ’مائنس ون‘ 1992ء میں ناکام اور 2016ء میں کام یاب ہوگیا؟

اس بابت وہ کہتے ہیں کہ ’’پہلے تحریک تھی، اب مفاد پرستی آگئی، 2013ء انتخابات میں پرانے لوگ دوبارہ نام زد کیے، تو پھر وہی لوگ سارا نظام چلا رہے تھے۔‘‘ ہم نے کہا کہ ’کہتے تو یہ ہیں کہ تنظیمی سطح پر پہلے ہی خرابیاں ہونے لگی تھیں؟ وہ اس کی تردید کرتے ہیں، ہم نے ’چائنا کٹنگ‘ کا معاملہ چھیڑا تو وہ گویا ہوئے: ’’جسے ’چائنا کٹنگ‘ کہا وہ ایسی غیرقانونی آبادیاں تھیں، جنھیں مالکانہ حقوق دیے۔ ’آپریشن‘ کے دوران نقصان اٹھانے والوں کے لیے سرکار کی زمین لی، ان زمینوں کو معمول کے طریقے اشتہار و ٹینڈر وغیرہ کے بغیر بیچا، تو اسے ’چائنا کٹنگ‘ کہا گیا۔

کسی بھی ’چائنا کٹنگ‘ کو آج تک غیرقانونی قرار نہیں دیا گیا۔ ہمارے کارکن اتنے تو نہ تھے، جتنی زمین تھی۔ ضلع شرقی میں گوٹھ زیادہ شامل کرکے ہمارا ووٹ بانٹا، ’ایم کیو ایم‘ نے ایسی حلقہ بندیاں دیکھیں، تو جہاں غیرمہاجر آبادیاں تھیں، وہاں سرکاری زمینوں پر قبضے چھڑا کے ’اردو اسپیکنگ‘ آبادی بسائی۔ بلدیہ ٹاؤن، نارتھ کراچی میں سرجانی کے عقب میں ’تیسر ٹاؤن‘ سے پہلے اور آصف کالونی کے پیچھے۔۔۔ صرف اپنے ووٹ بینک کا تناسب بچانے کے لیے، کیوں کہ ہم شہر میں اقلیت میں آتے جا رہے ہیں!‘‘

اس کے پیسوں پر لوگوں نے بینک بیلنس بنائے؟

بنائے ہوں گے، لیکن ’چائنا کٹنگ‘ مہاجر لوگوں کو اس جگہ بسانے کی کوشش تھی، جہاں حد بندیاں تبدیل کی جا رہی تھیں۔‘ قبضے کی جگہ پر دفاتر بنانے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’’60 فی صد دفاتر قانونی تھے۔ پاک کالونی کے ’سیکٹر‘ کی لیز کے کاغذات میرے پاس ہیں، لیکن 2016ء میں اسے بھی گرا دیا۔‘‘

کہا جاتا ہے کہ ’ایم کیو ایم‘ نے کبھی عوام کے حقوق کے لیے ہڑتال نہیں کی؟ اس سوال پر وہ گویا ہوئے کہ کوٹا سسٹم ختم کرنے کے لیے ہمارے پاس صوبائی اکثریت ہونی چاہیے۔ ہم نے کہا آواز تو اٹھاتے؟ وہ بولے کہ آواز ہر سطح پر اٹھائی، لیکن ’ایم کیو ایم‘ کو ہر دور میں اپنی بقا کی جنگ میں الجھا دیا گیا۔

پرویز مشرف کے دور میں تو ایسا نہیں تھا؟

’’جب ہم نے کام تو کر کے دکھایا۔ آج لوگ کہتے ہیں کہ صوبائی خودمختاری دے دی، اس لیے ہم ’وفاق‘ سے کچھ نہیں کر سکتے۔ کلفٹن ’شون چورنگی‘ انڈر پاس اور قیوم آباد کا پل وفاقی ادارے ’کے پی ٹی‘ نے بنوایا، جس کے وزیر بابر غوری تھے! ’لیاری ایکسپریس وے‘ اور 36 کلو میٹر طویل ’نادرن بائی پاس‘ ہمارے وفاقی وزیر مواصلات شمیم صدیقی نے بنوائی۔ انھوں نے ہی پراچہ پمپنگ اسٹیشن سے شیرشاہ تک36 انچ کی پانی کی لائن ڈلوائی۔ باغ بن قاسم گورنر عشرت العباد نے بنوایا۔ ہمیں کہتے ہیں کہ تعلیم پر کوئی کام نہیں کیا، ہمارے صوبائی وزیر شعیب بخاری نے کراچی میں 32 کالج بنائے۔ ’فیڈرل بی ایریا‘ میں امراضِ قلب کا اسپتال، اردو کالج، داؤد کالج، سندھ میڈیکل کالج، ڈاؤ میڈیکل کالجوں کو ’یونیورسٹی‘ بنایا گیا، آئی او بی ایم، اقرا اور گرین ویچ یونیورسٹیاں بنیں، یہ سب ’ایم کیو ایم‘ کے زمانے کے کام ہیں۔ صوبائی خودمختاری وفاق کو خرچ کرنے سے تو نہیں روکتی، تحریک انصاف کے گورنر، وفاقی وزرا، اور صدر تک کراچی سے تھے، کیا کیا انھوں نے؟ عمران خان نے پانچ سال میں ایک کروڑ نوکریوں کی بات کی، جس کا اوسط روزانہ ساڑھے چھے ہزار نوکریاں بنتی ہیں! یہ جواز نہیں ہوتا کہ ملک ایسا ملا، تو بھئی، لیا کیوں تم نے؟ آج شہبازشریف بھی یہ نہیں کہہ سکتے، کیوں کہ جب آپ نے نظام لیا تو چلانا بھی آپ کی ذمہ داری تھی۔

’ایم کیو ایم‘ کے مستقبل کے سوال پر عابد علی امنگ کہتے ہیں کہ الطاف حسین کے علاوہ مہاجر قوم کو کوئی متحد نہیں کر سکتا۔ آئندہ دو، دو، چار چار نشستیں مختلف جماعتوں کو دے دی جائیں گی اور شہر لاوارث ہو کر رہ جائے گا۔‘‘

اور الطاف حسین کی زندگی کے بعد؟

’’پھر مہاجر عوام جسے ووٹ دیں گے، وہی ہوگا!‘‘

عابد علی امنگ کا کہنا ہے کہ ’مہاجر‘ ایک شناخت ہے، اس کے لغوی معنی میں نہیں الجھنا چاہیے، جیسے پاکستان کا مطلب ہے پاک لوگ، تو کیا یہاں جرم نہیں ہوتا، لیکن یہ ایک شناخت ہے! یہ الطاف حسین کا شعور تھا کہ 2011ء میں وزیرداخلہ ذوالفقار مرزا کے مہاجر قوم کے خلاف بیان پر لوگ خود باہر نکلے، ’ایم کیو ایم‘ نے پھر اس احتجاج کی حمایت کی۔ ’جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حق دار ہے!‘ پارٹی کا نہیں عوام کا نعرہ تھا۔ آج الطاف حسین نہیں، تو اب کراچی کی بے امنی کا الزام کس پر لگائیں گے؟ ہم اگر نقل کراتے، تو میں خود ’بی‘ گریڈ میں انٹر نہ کرتا۔ ’سوشل میڈیا‘ نے مزاحمتی طاقت توڑ دی، یہاں بھڑاس نکال کر دل ہلکا ہوجاتا ہے، ’عرب بہار‘ میں دراصل عام ذرائع اِبلاغ کا کردار تھا۔

۔۔۔

’اعلانِ لاتعلقی‘ صولت مرزا کی جان بچانے کے لیے تھا؟
عابد علی امنگ کے بقول وہ الطاف حسین اور ’ایم کیو ایم‘ قصور وار نہیں سمجھتے، کیوں کہ یہ عمل کا نہیں، ردعمل کا نام ہے، عمل جتنا شدید ہوگا، ردعمل بھی اتنا ہی شدید ہوگا۔ ہم نے شاہد حامد قتل کیس میں پھانسی پانے والے ’ایم کیو ایم‘ کے کارکن صولت مرزا کا معاملہ کھوجا، وہ کہتے ہیں: ’’شاہد حامد کی بیوی کہتی ہیں کہ میں نے تو صرف بھاگتے ہوئے دیکھا اور آپ نے اسے شناخت کر کے قاتل قرار دے دیا، کرکٹ میں شک کا فائدہ دیتے ہیں، لیکن زندگی کے لیے نہیں دیا۔ میں ذاتی طو رپر یہ سمجھتا ہوں کہ صولت مرزا سے لاتعلقی الطاف حسین نے اپنی خواہش پر نہیں کی، صولت مرزا کو بلوچستان کی مَچھ جیل لے جانے سے ’ایم کیو ایم‘ کا صولت سے رابطہ ختم ہوگیا۔ وہ تو سارا وقت ’ڈیتھ سیل‘ میں رہا ہے۔‘‘

ان کی امجد صابری کے ساتھ جو ایک پروگرام کی ویڈیو ہے؟

’’وہ پھانسی وارڈ ہی ہے، جب کہ عام کارکنان اس سے باہر ہیں، وہ باہر نہیں نکلا، اسے تو علاج کے لیے اسپتال نہیں لے کرگئے۔ یہاں کارکنوں سے رابطہ اور پورا سیٹ اپ تھا، نادر شاہ یونٹ انچارج تھا۔ وہاں ان کے اہل خانہ کو کہا کہ اگر الطاف حسین لاتعلقی کر دیں، تو چھوڑ دیں گے، جس پر الطاف حسین نے لاتعلقی کی، لیکن پھر وہ ویڈیو دکھا کر صولت سے بیانات لیے گئے اور ان کی سزا پر عمل درآمد روکا جاتا رہا۔‘‘

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گرفتاری سے پہلے ہی لاتعلقی کر دی تھی؟

’’اس کا تو کیس لڑا ’ایم کیو ایم‘ نے۔۔۔! میں 2006ء میں رکن قومی اسمبلی تھا، جیل میں کتابیں دے کر آیا، 2006ء میں ’ایم کیو ایم‘ کا آفیشل ترجمان ’نقیب‘ میں صولت مرزا کا الطاف حسین کی سال گرہ پر بیان شائع ہوا ہے۔‘‘

صولت مرزا کی گرفتاری کے بعد والی ویڈیو میں بھی ’ایم کیو ایم‘ پر الزامات ہیں؟

یہ تو وہی ویڈیو ہے، جو ’پی ٹی وی‘ پر چلوائی جاتی تھیں۔ تبھی اخبار میں بھی چھپا کہ صولت نے کہا ’’میں نے الطاف حسین کے حکم پر ڈاکٹر عمران فاروق کو قتل کر کے دفنا دیا!‘‘ اس کے بعد عمران فاروق منظر عام پر آگئے۔‘‘

شاہد حامد کے قتل کے الزام کے کے لیے کیا جواز دیا جاتا ہے؟ جیسے حکیم سعید کے قتل کے حوالے سے بھتّا نہ دینے کا عذر دیا جاتا ہے؟

’’حکیم محمد سعید کے حوالے سے یہ بات بنائی جاتی ہے کہ بطور گورنر ’ایم کیو ایم‘ کو ریلیف نہیں دیا اور مخالف حکومت کا حصہ رہے، یہ الزام ہے۔ شاہد حامد کے حوالے سے کہا گیا کہ سرکاری ادارے کا سربراہ مارا جائے گا تو گویا اس سے حکومت کو جواب ملے گا، یہ ان کا کہنا تھا۔ مجھے علم نہیں کہ صولت یا ’ایم کیو ایم‘ نے مارا تھا یا نہیں، شاہد حامد کی اہلیہ 21 گریڈ کی اثر رسوخ والی خاتون تھیں، جسے اسٹیبلشمنٹ نے ذاتی انا کا مسئلہ بنالیا۔‘‘

1993ء میں جب انتخابی بائیکاٹ ہوا
عابد علی امنگ کہتے ہیں کہ انھوں نے 1988ء میں جلسوں کی نظامت شروع کی، 1990ء میں ’سی او پی‘ کے جلسے میں بھی نیچے کھڑے ہو کر ماحول گرمایا، اسٹیج پر جانے کا موقع نہ مل سکا۔ 1993ء میں جس جلسے میں انتخابی بائیکاٹ ہوا، پاک کالونی میں اس کی نظامت سہیل انور کے ساتھ میں کر رہا تھا، مقررین کا انتظار رہا، لیکن 11 بجے بائیکاٹ کا اعلان ہوگیا۔ جب اطلاعات کی اتنی فراوانی نہ تھی، اور ذمہ داران سے بات کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی، اجازت لے کر بات کرتے ، یہ خوف نہیں، تربیت تھی کہ تمھارا بڑا ہے، وہ ایک الگ بات ہے کہ اس سے کچھ لوگوں نے اس کا غلط استعمال کیا۔ مختلف افواہیں گرم تھیں، اچانک رات کو ایک بجے خطاب کا اعلان ہوگیا، ہم نے دروازے کھٹکھٹا کھٹکھٹا کر لوگوں کو بلایا، ڈھائی بجے الطاف حسین کا خطاب شروع ہوا۔ انھوں نے کہا کہ ہم کچھ نشستوں سے دست بردار ہو کر شہدا اور اسیروں کا سودا نہیں کریں گے، اس لیے ہم بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ پھر لاکھ کی جگہ صرف 1100 ووٹ لے کر لوگ رکن قومی اسمبلی بنے۔ پھر صوبائی چنائو میں حصہ لینے کا اعلان ہوا، تو ہم نے 36 گھنٹے مسلسل کام کیا، پوری پوری رات کارڈ بانٹتے رہے!

’ایم کیو ایم‘ کتنی کام یاب اور کتنی ناکام؟

مقاصد کی پیمانے پر عابد علی امنگ ’ایم کیو ایم‘ کو 65 فی صد نمبر دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے ’مہاجر‘ تحفظ پا گیا۔ آج ہر سیاسی جماعت ہمیں قوم تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ ’ایم کیو ایم‘ نے بہرحال، مہاجروں کو ملازمتیں دیں، دراصل ذوالفقار بھٹو نے اپنے لوگوں کو 100 نوکریاں 20 گریڈ کی دیں، جو اگلے بیس سال مزید نوکریاں دیتے رہے۔

ہم نے آٹھ، دس گریڈ کی دیں، جو خود ہی کچھ سالوں میں ریٹائر ہوگئے۔ ہم اتنی بڑی تعداد میں روزگار نہیں دے سکے، لیکن دیا۔ ہم نے داخلے دلوائے، الطاف حسین نے یہ تصور دیا کہ مجھ جیسا اسکول پڑھانے والا متوسط طبقے کا آدمی قومی اسمبلی میں وڈیروں کے ساتھ جا کر بیٹھا۔ ہمارے منتخب ارکان ’سیکٹر‘ آفس میں بیٹھے، تو مجبوراً باقی پارٹیوں کو بھی ایسے ہی عوام سے رابطہ رکھنا پڑا۔ ’ایم کیو ایم‘ کوٹا سسٹم ختم نہ کرا سکی۔۔۔ ’محصورین مشرقی پاکستان‘ کو واپس نہیں لاسکی۔۔۔ اعلیٰ سطح کی نوکریاں نہیں دلوا سکی۔۔۔ ہم کراچی کے لوگوں کو ملا کر مسائل حل کرتے تو آج اپنا دکھڑا ’صوبے‘ اور ’وفاق‘ کے پاس رونے کی ضرورت نہ ہوتی۔ ہمیں سمندر کا پانی میٹھا بنانے کا نظام بنانا چاہیے تھا۔

میرے دور میں دو دفعہ ’پلانٹ‘ منظور ہوا، لیکن بجٹ نہیں رکھا گیا۔ آج ’ڈی ایچ اے‘ سے یہ ڈیل کی جا سکتی ہے، جس سے کراچی کو پانی مل جائے گا، بجلی بھی بن سکتی ہے۔ ہمیں اپنے لوگوں کو نوکری سے ہٹا کر چھوٹے کاروباروں میں لگانا چاہیے تھا۔ اگر کراچی کے تاجروں کو شہر میں بسوں کے پرمٹ دلوا دیتے۔ سرکاری اسکول گود لینے کے لیے مختلف صنعت کاروں کو تیار کرتے، کچھ کو اسپتال دے دیتے تو اچھا ہوتا۔

ہمارے پاس ہمیشہ ’پورٹ اینڈ شپنگ‘ کی وزارت رہی، ہمیں سرکاری طور پر ماہی گیری کی صنعت کے لیے ’کولڈ اسٹوریج‘ بنانی چاہیے تھی، ہمارا اتنا بڑا ساحل ہے، اور آپ دنیا سے بھیک مانگ رہے ہیں۔۔۔! بھینس کالونی میں دودھ محفوظ رکھنے کے لیے بھی بڑا انتظام ہونا چاہیے تھا۔ ہمیں لڑ جانا چاہیے تھا کہ یہاں بجلی کی ایک کمپنی نہیں ہوگی، تاکہ بجلی سستی ہو۔ اب بھی ’کے الیکٹرک‘ کا لائسنس منسوخ کرنے کے بہ جائے چار پانچ دوسری کمپنیاں لائیے، پری پیڈ میٹر ہوں کہ ہمیں پتا ہو کہ کتنے یونٹ خرچ کرلیے، کتنے باقی ہیں۔‘‘

ہم نے ’کے الیکٹرک‘ میں ’ایم کیو ایم‘ کے لوگوں کا ذکر کیا، تو انھوں نے کہا ’آج جو مالک ہے، وہ تو عمران خان کا ڈونر ہے، اس پر کیس چل رہا ہے۔ ملک ریاض نے ٹی وی پر کہا تھا کہ میں فائل کو پہیے لگاتا ہوں، عمران خان کو فنڈ دیا، تو کیا وہ اس کا آدمی ہوگیا، وہ تو صنعت کار ہے۔

The post ’ایم کیو ایم‘ تحریک سے ’تنظیم‘ بن گئی، ڈاکٹر عمران فاروق پاکستان آنا چاہتے تھے! appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4424

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>