شعبہ صحافت، جامعہ پنجاب لاہور
قومی زبان کسی بھی قوم اور ملک کے تشخص کی بنیادی اکائی ہوتی ہے۔ تمام قومیں اپنی صوبائی، علاقائی زبانوں کی ترویج و ترقی میں متحرک نظر آتی ہیں۔ ہر قوم کی شناخت اس کی زبان سے ہوتی ہے۔ ہر ملک کی مرکزی زبان ہوتی ہے جو پورے ملک کو جوڑے ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہمارے ملک کی قومی زبان اردو ہے جو فارسی، عربی، سنسکرت جیسی زبانوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ آج جو اقوام ترقی یافتہ ہیں، انھوں نے اپنی قومی زبان کو نہیں چھوڑا۔ ہمیشہ سننے ہیں کہ ترقی کے لیے انگریزی زبان پر عبور لازمی ہے۔ یہ بات درست تو ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی قومی زبان کو بھول جائیں۔
اگر نوجوان اپنی قومی زبان پر مہارت حاصل کر کے بھی بہتر روزگار حاصل نہیں کر سکتے تو ان کا دوسری زبانوں کی طرف متوجہ ہونا فطری عمل ہوگا۔ کسی بھی ملک کی قومی زبان کو اتنا وسیع اور جامع ہونا چاہئے کہ وہ نہ صرف علاقائی، صوبائی اور ملکی سطح پر رابطے کا مؤثر ذریعہ ہو بلکہ وہ دنیا کی دوسری زبانوں میں موجود علم و ہنر کو بھی اپنے اندر سمو کے عوام تک پہنچا سکے۔
خاص طور پر وہ تمام علوم جو انسان کی زندگی کے مادی پہلوئوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کا قومی زبان میں ہونا اشد ضروری ہے۔ اس کے بغیر ترقی کا سفر جاری رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ قومی زبان کا حق یہ ہوتا ہے کہ پوری قوم اسے ذریعہ اظہار بنائے اور اسے سرکاری طور پر ہر شعبے میں نافذ کیا جائے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو سکا۔ پاکستان میں آج اردو کا ہر شعبہ زندگی میں، ہر سطح پر نفاذ ہو جائے، توہر شخص کو اردو لکھنا اور پڑھنا آجائے۔
اس وقت کوئی اردو کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں، کیوں کہ اردو میں مہارت حاصل کرنا ترقی اور اعلیٰ مناصب حاصل کرنے کے لیے لازمی نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے ذرائع ابلاغ عامہ، جو کبھی اچھی اردو کا معیار سمجھے جاتے تھے، اب وہاں بھی اکثر اغلاط پر مشتمل زبان سننے یا پڑھنے کو ملتی ہے۔ تاثر ہے کہ ابلاغ عامہ کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے افراد پڑھے لکھے ہوتے ہیں، اگر ان کی اہلیت کا یہ حال ہو گیا ہے تو عوام کی صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ میڈیا میں زبان و بیان کی صحت کا اسی طرح خیال رکھا جائے، جس طرح ماضی میں رکھا جاتا تھا۔اس ضمن میں ہر ابلاغی ادارے کو ماہرین لسانیات کی خدمات لینی چاہیں۔
ہمارے زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے قومی زبان کی اہمیت کو فراموش کر دیا ہے اور اسے علم و ٹیکنالوجی کی زبان نہیں بنا سکے۔ جب کسی قوم کی زبان چھن جا تی ہے تو اس کی تہذیب و ثقافت بھی چلی جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے قومی زبان کو عملی زندگی میں وہ اہمیت دی جائے، جس کی یہ مستحق ہے۔
The post اردو کی اہمیت سے انکار کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.