والدین کے عہدے پر فائز ہونا یقیناً خوش قسمتی کی بات ہے۔اپنے بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے بڑا ہوتا دیکھنا باعثِ فرحت و مسرت ہوتا ہے۔
اس دوران بچے کے پہلے لفظ کو ادا کرنے سے لے کر قدم اٹھانے تک ہر ہر لمحہ والدین کے لئے ایک اچھوتا اور انوکھا احساس ہوتا ہے۔جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے اس کے اندر تبدیلیاں آتی ہیں وہ طفلگی سے نوعمری تک کا سفر طے کرتا ہے اور اس سارے دور میں وہ صرف جسمانی نشوونما سے ہی نہیں بلکہ ذہنی نشوونما کے عمل سے بھی گزرتا ہے۔ بعض اوقات یہ نوعمری یا بچپن کا دور والدین کے لئے بہت سی نئی الجھنوںکا بھی باعث بن جاتا ہے۔
اس عمر میں بچے بلوغت کی سیڑھیوںپر قدم رکھ رہے ہوتے ہیں جس سے ان کے اندر ہارمونز کی تبدیلی سے پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں، انھیں لگتا ہے کوئی ان کو سمجھ نہیں سکتا ان کے احساسات اور جذبات کی پذیرائی نہیں ہوتی خصوصاً والدین کی جانب سے انھیں یہ شکوہ رہتا ہے۔ اور اس صورت حال کے نتیجے میں وہ خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں اور ان میں غصہ، تذبذب اپنی شناخت ، جنسی رویے ، دوستوں اور اردگرد کے ماحول کو لے کر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس عرصے میں بچے عموماً والدین کی نافرمانی کرنے لگتے ہیں جو کہ ماں باپ کے لئے تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ جس طرح سے وہ اوائل بچپن میں اپنی اولاد کو کنٹرول کرتے ہیں اب وہ طریقے کار گر ثابت نہیں ہوتے۔ جس سے والدین کے لئے کوفت اور اذیت پیدا ہوتی ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیںکہ اس مسئلے کا کوئی حل نہ ہو، ماہرین نے اس حوالے سے تفصیلی تحقیق کر رکھی ہے اور چائلڈ سائیکالوجی باقاعدہ ایک ڈسپلن کی طرح ابھر کر سامنے آیا ہے اسی تناظر میں اس مسئلے کوسمجھنے اور حل کرنے کی تجویزپیشِ نظر ہیں:۔
بچوں کی لڑائیاں
عموماً اس عمر میں بچوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر اختلافات پیدا ہوتے ہیں جو کہ جھگڑوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں بعض اوقات تو والدین بھی ان لڑائیوںمیں کود پڑتے ہیں۔ اگر والدین سمجھ داری سے کام لیں اور بچوں کے درمیان اختلافات کو گفت و شنید سے حل کرنے کی کوشش کریں تو مسائل کو ابتدائی سطح پر ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔اور یہی وہ عمر ہوتی ہے جہاں بچوں میں برداشت اور صبر کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔اگر عمر کے اس حصے میں عدم برداشت اور شدت پسندی بچے کی شخصیت کا حصہ بن جائے تو آگے چل کر مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔
دوستو ں کا انتخاب
یہ وہ دور ہوتا ہے جب بچہ معاشرت کے اصولوں سے آشنا ہورہا ہوتا ہے وہ اپنے اردگرد نظر دوڑاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ اسے اس کے ہم خیال اور ہم مزاج دوست ملیں جن سے وہ باتیں کر سکے اور کھیل سکے۔ اور یہی وہ خطرناک دور بھی ہوتا ہے جہاں کسی بھی غلط انسان یا دوست کی صحبت آگے آنے والی زندگی میں بے تحاشا مسائل پیدا کرسکتی ہے۔یہ محاورہ تو آپ نے سن رکھا ہوگا کہ اگر کسی کا اندازہ لگانا ہے تو اس کے دوست سے مل لو۔ بعض لوگ اس پر اعتراض بھی کرتے ہیں کہ ہر انسان ایک مختلف شخصیت ہوتا ہے جو بلاشبہ یہ بات درست ہے مگر ہم مزاج لوگ ہی ایک دوسرے سے انسیت رکھتے ہیں۔
انسان اپنے دوستوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے، زیادہ وقت گزارتا ہے تو اگر وہ لوگ اس کے ہم خیال اور ہم مزاج نہ ہوں ممکن ہی نہیں کہ وہ تعلق ،دوستی لمبے عرصے تک چل پائے۔نوعمری میں بچے کو دنیا کے لوگوں کی پہچان نہیں ہوتی اور وہ سب کو اپنے جیسا ہی سمجھتا ہے کوئی اس سے پیار سے بات کرلے تو وہ اس پہ دل و جان سے فدا ہوجاتا ہے۔ ایسے میں اکثر وہ غلط صحبت کا شکار بھی ہو سکتے ہیں جو کہ اخلاق اور کردار کو تباہ کرنے کو کافی ہوتا ہے۔ والدین کو اس دور میں انتہائی سمجھ داری سے بچوں کو یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ انھیں اپنے دوستوں کا انتخاب کیسے کرنا ہے اور دوست کا انتخاب کرتے ہوئے کن باتوں کو مدنظر رکھنا ہے۔
عموماً اس موقع پر والدین جو غلطی کرتے ہیں وہ یہ ہوتی ہے کہ وہ دوست اور اس کی فیملی کو برا بھلاکہہ کر اس سے سختی سے قطع تعلق کرنے کا کہتے ہیں جس سے بچے کے اندر باغیانہ جذبات پیدا ہوتے ہیں اور وہ سوچتا ہے کہ میرا دوست سے تعلق میرے والدین کو پسندنہیں اس لئے وہ اسے برا بھلا کہتے ہیں ۔ جبکہ اس کا بہتر طریقہ یہ ہوتا ہے کہ بچے کو بیٹھ کر یہ بتایا اور سمجھایا جائے کہ فلاں دوست سے اسے کیوں فاصلہ اختیار کرنا ہے وہ کیا وجوہات اور مسائل ہیں جن کی بناپر دونوں کو الگ ہونا چاہیئے۔ اور بچے کو یہ سمجھائیں کہ بس اس سے فاصلہ پیدا کرے اس عمر میں زیادہ دوستی کی وجہ قربت ہوتی ہے اور جیسے قربت کم پڑنے لگتی ہے دوستی بھی کم ہونے لگتی ہے۔
فیملی کے ساتھ وقت
خاندان کسی بھی انسان کی زندگی میں نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ بچے کا ابتدائی واسطہ جن ہستیوں سے پڑتا ہے وہ اس کے والدین، بہن بھائی اور دیگر قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں۔وہ رشتوں کا احترام ، خلوص، محبت اور رواداری انھی سے سیکھتا ہے۔ خاندان دراصل وہ ادارہ ہوتا ہے جوبچے کی معاشرتی تربیت کرتا ہے۔اور خاندان میں موجود افراد ہی بچے کو ورثے میں یہ بتاتے ہیں کہ وہ کیسے اپنے قریبی رشتے داروں کے ساتھ سلوک روا رکھے۔ نوعمر بچے ہر چیز اور رشتے کو حساسیت سے دیکھتے ہیں۔ اس دور میںہی انھیں سیکھایا جاسکتا ہے کہ خاندان ان کے لئے کس قدر اہم ہے اور انھیں فیملی کو کتنا وقت دینا ہے۔
گھر کے کام
نوعمر بچوں کے پاس کھیل کود کے بعد بھی کافی وقت بچ جاتا ہے اور اس وقت کو بامقصد بنانے کے لئے ان کو گھر کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں مصروف کرنا ان کے اندر احساس ذمہ داری کو فروغ دیتا ہے۔جیسے پودوں کو پانی دینا، رات کو سونے سے قبل دروازوں کے لاک چیک کرنا، ڈائنگ ٹیبل پر برتن لگانا،اپنا بستر درست کرنا وغیرہ۔ اس سے بچوںمیں یہ احساس پیدا ہوتاہے کہ ان کو دالدین ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ یہ بچوں میں خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔
ذہن سازی اور ظاہری شخصیت
انسان کی شخصیت کا اس کی زندگی میں کردار انتہائی اہم ہوتاہے۔نوعمر بچے اپنے کپڑوں جوتوں اور ظاہری شخصیت کو لے کر بہت حساس ہوتے ہیں خصوصاً لڑکیاں اپنی رنگت نین نقش اور قد کو لے کر بہت فکرمند ہوتی ہیں۔ بعض اوقات یہ حساسیت انھیں ذہنی دباؤ کا بھی شکار بنا دیتی ہے۔ اور بچے اپنی شخصیت کو لے کر خودترسی اور احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیںجس سے ان کی شخصیت دب کر رہ جاتی ہے۔
اس حوالے سے والدین کا کردار بہت اہم ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شکل و صورت قد و قامت آواز رنگ یہ سب قدرت کی دین ہیں، اس پر کسی انسان کا اختیار نہیں۔ جو بچے اس کو لے کر تحفظات کا شکار ہوں والدین کو اس حوالے سے ان کی ذہن سازی کرنی چاہیے اور انھیں خود اپنی شخصیت کو تسلیم کرنا سیکھانا چاہیئے۔ بچوں کو محبت کا احساس دلانا ضروری ہے اور ان کے اندر مختلف مشاغل میں دلچسپی لینے کی خواہش کو ابھارنا چاہیے۔
منشیات کے خلاف آگاہی
نوعمری میں بچوں کے درمیان قدرتی طور پر تجسس ہوتا ہے وہ ہر نئی چیز کو لے کر پرجوش ہوتے ہیں۔کوئی بھی نئی چیز ہو وہ اسے قریب سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس دور میں وہ سگریٹ نوشی اور منشیات کے استعمال کو یار دوستوں کے ساتھ شغل میلہ کہہ کر ایک دلدل میں دھنس جاتے ہیں جس سے نکلنا مشکل ہوتا ہے۔ والدین کو اس سے بچوں میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ نوعمر بچوں کو منشیات کے سنگین نتائج کا علم نہیں ہوتا۔اور یہ تاریکی کا وہ راستہ ہے جس میں امید کی کوئی کرن نہیں ملتی۔ ذہنی و جسمانی صحت تباہ ہونا تو ایک طرف اس لعنت سے روحانی و اخلاقی نقصان بھی ناقابل تلافی ہوتا ہے۔
والدین اور بچوں کے درمیان تناؤ کیوں؟
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ والدین اور بچے جو ایک دوسرے کے ساتھ اٹوٹ رشتے میں بندھے ہوتے ہیں ان کے درمیان آخر تناؤ پیدا ہی کیوں ہوتا ہے۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان معاملات اور نظریات کو لے کر اختلافات ہونا ایک معمول کی بات ہے، والدین اور بچے بھی بہر حال انسان ہی ہیں اور ان کے درمیان اختلاف کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ ان کا رشتہ کمزور ہے یا خطرے میں ہے۔جو بچے اپنے والدین کے بہت قریب ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ تمام معاملات کو دوستانہ انداز میں سنتے اور حل کرتے ہیں ان کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔بچے عموماً اس عمر کو پہنچ کر خودمختاری چاہتے ہیں اور والدین کے بنائے ہوئے اصولوں سے انحراف دونوںکے درمیان کشیدگی کی وجہ بنتا ہے۔
والدین اگر دوستانہ انداز میں بچوں کی ذہنی الجھنوںکو دور کرنے کے لئے ان سے بات چیت کریں تو مسائل کو گھمبیر ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔بعض اوقات کچھ ایسی علامات بھی ہوتی ہیں جن کو دیکھتے ہوئے بچے کے خراب رویے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جیساکہ حد سے زیادہ غصہ، منشیات یا سگریٹ نوشی، سکول سے غیر حاضر رہنا اور قانون کی خلاف ورزی کرنا۔ اگر والدین ایسی علامات کو خود کنٹرول کرنے سے قاصر ہوں تو اس سلسلے میں ماہرین کی مدد بھی لی جاسکتی ہے۔
The post نوعمر بچوں کی تربیت کے سنہری اصول appeared first on ایکسپریس اردو.