Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

دولت مند امریکا میں بھی بھوک کے دہکتے جہنم

$
0
0

ریاست ہائے متحدہ امریکا دنیا کی سپر پاور ہے اور وہ دولت مند ملک ہے جو نہ جانے کتنے ملکوں کو اقتصادی امداد دے کر ان کے شہریوں کے پیٹ بھرتا ہے، انہیں بھوک اور بیماری سے بچاتا ہے۔

مگر کیا آپ یقین کریں گے کہ اس ملک میں بھی بھوک اور غربت نے ایسے پنجے گاڑے ہیں کہ اس کے بعض دیہی اور مضافاتی علاقوں کے رہنے والے ایک وقت کھاتے ہیں تو دوسرے وقت کے لیے سوچتے رہتے ہیں کہ کیا ہوگا۔ یہ لوگ جس طرح فاقے کرتے ہیں، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کسی ترقی یافتہ ملک کے شہری نہیں بلکہ کسی افریقی ملک جیسے سوڈان، زیمبیا وغیرہ میں رہتے ہیں جہاں کے لوگ بھوک کا بھی شکار ہیں اور غذائیت کی کمی سے بھی دوچار ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

مچل کائونٹی لووا کی ایک سنہری و خاکستری صبح کو کرسٹینا ڈریئر اپنے تین سالہ بیٹے کیگان کو ناشتے کے بغیر اسکول بھیج رہی تھی۔ کیگان پھولے ہوئے پیٹ والا ایک ضدی بچہ ہے جو پِری اسکول میں مفت ملنے والی خوراک کھانے سے انکار کرتا ہے۔ امریکا کے اسکولوں میں بچوں کے لیے مفت ناشتے اور خوراک کا انتظام کیا جاتا ہے، مگر اکثر بچوں کو یہ خوراک اچھی نہیں لگتی، اس لیے وہ بھوکے رہتے ہیں۔

اسی طرح جب کرسٹینا کے بیٹے کیگان نے اپنے گھر پر ناشتہ کرنے سے صاف انکار کردیا تو تنگ آکر کرسٹینا نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ کیگان کو بھوکا ہی اسکول بھیج دے گی، جہاں اسے مفت ناشتہ تو مل جائے گا۔ اس سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ گھر پر اس کے حصے کا کھانا بچ جائے گا جو دوسرے بچوں کے کام آجائے گا۔ مگر پھر سوچا کہ کہیں چال الٹی نہ ہوجائے، اور وہی ہوا۔ کیگان نے اسکول کی طرف سے دیا جانے والا مفت ناشتہ کھانے سے انکار کردیا اور لنچ کے وقت تک بھوکا رہا۔ مجبور ہوکر کرسٹینا کو اپنے ریفریجریٹر سے بچے کھچے ٹکڑے نکال کر کیگان اور اس کی چھوٹی بہن کا پیٹ بھرنا پڑا۔

ایسا اکثر ہوتا ہے کہ کرسٹینا بھوکی رہتی ہے، بچوں کی پلیٹ میں بچے ہوئے آلو کے ٹکڑے کرسٹینا کا لنچ ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہے:’’اگر کچھ بچتا ہے تو میں کھالیتی ہوں ورنہ نہیں، میرے لیے بچے اہم ہیں، انہیں پہلے کھلانا چاہیے، میرے بھوکے رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘

کرسٹینا کے سر پر ہر وقت یہ خوف منڈلاتا رہتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ کیسے بھرے گی۔ وہ اور اس کا شوہر جم ایک کے بعد دوسرا بل ادا کرنے کے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں، فون کا بل، گیس بجلی کے بل، جن کے لیے انہیں رقم بچانی پڑتی ہے۔ پھر خوراک کی فراہمی کا مسئلہ الگ ہے۔ ایک شام کرسٹینا اپنی فیملی وین کے لیے پریشان تھی جو بے حد بوسیدہ ہوچکی تھی۔ دونوں میاں بیوی کو بینک اکائونٹ بھی کھولنا ہے۔

اس کے لیے جم کو اپنا کام جلد نمٹانا ہوگا۔ فصل کاٹنے کا وقت قریب آرہا ہے، جم راتوں کو دیر تک کام کرتا ہے، وہ تجارتی کھیتوں پر جراثیم کش دوائوں کا اسپرے بھی کرتا ہے جس کی مزدوری اسے 14ڈالر فی گھنٹہ ملتی ہے۔ اس اوور ٹائم سے وہ گھریلو ضرورت کی چیزیں خریدتا ہے۔ کرسٹینا کہتی ہے کہ اکثر ہمارے بلوں کی ادائیگی نہیں ہوپاتی، ہم اپنا اور بچوں کا پیٹ بھریں یا بل ادا کریں۔ بچوں کو بھوکا تو نہیں مارسکتے۔ ناکافی بجٹ میں ہم اپنی فیملی کو خوراک کیسے فراہم کریں۔

حالاں کہ امریکا میں فوڈ بینک یا فوڈ پینٹریز قایم ہیں جہاں سے غریبوں کو مفت خوراک فراہم کی جاتی ہے، اس کے علاوہ فوڈ اسٹیمپس سے بھی انہیں مالی امداد ملتی ہے۔ فوڈ اسٹیمپس کیا ہوتے ہیں؟ فوڈ اسٹیمپس اصل میں حکومت کی جانب سے کم آمدنی والے افراد کو جاری کردہ ایک خوراک نامہ یا تصدیق نامہ ہوتا ہے، جو خوراک کے خوردہ فروشوں کی دکانوں پر قابل قبول ہوتا ہے۔ اس کی مدد سے کم آمدنی والے لوگوں کو سستی چیزیں مل جاتی ہیں۔ یہ فوڈ اسٹیمپس یا خوراک نامے سپلیمینٹل نیوٹریشن اسسٹنس پروگرام (SNAP)  جاری کرتا ہے۔ مگر ان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، بہرحال عام لوگوں کے لیے یہ امداد غنیمت ہے، جس سے کم از کم لوگ بھوکے تو نہیں مرتے۔

کرسٹینا کی شکل و صورت دیکھ کر امریکا میں بھوک کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ وہ سفید فام اور کسی حد تک صحت مند عورت بھوک اور غربت کی سچی تصویر پیش نہیں کرسکتی۔

آج امریکا میں بھوک کی تصویر ماضی سے کافی مختلف ہے۔

جینٹ پوپن ڈیک سٹی یونی ورسٹی آف نیویارک کی ماہر عمرانیات ہیں۔ ان کا کہنا ہے:’’یہ آپ کی دادی کے زمانے کی بھوک نہیں ہے۔ آج زیادہ لوگ اور خاندان کام کرتے ہیں، اس کے باوجود وہ بھوکے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اجرتیں بہت کم ہوگئی ہیں۔‘‘

امریکا میں نصف سے زیادہ بھوکے سفید فام ہیں اور بچوں والے دو تہائی لوگوں میں کم از کم ایک کام کرنے والا بالغ ضرور ہے، یعنی وہ فل ٹائم جاب کرتا ہے، سوال یہ ہے کہ ایک اکیلا انسان پورے گھر کو کیسے پالے گا اور پورے گھر کا پیٹ کس طرح بھرے گا۔

2006میں امریکی حکومت نے“food insecure” یعنی غذائی طور پر غیرمحفوظ کی اصطلاح کی جگہ “hunger” یعنی بھوک کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ یہ ان لوگوں کے لیے تھی جنہیں گذشتہ سال کھانے کو کافی خوراک میسر نہیں تھی۔ نام جو بھی ہو، امریکا میں بھوکے لوگوں کی تعداد ڈرامائی طور پر بڑھ رہی ہے۔ 2012 تک یہ 48 ملین پر پہنچ چکی تھی، گویا 1960 کے عشرے سے اس میں پانچ گنا اضافہ ہوا، جس میں 1990کے عشرے سے ہونے والا 57 فی صد اضافہ بھی شامل ہے۔

نجی طور پر چلائے جانے والے پروگرام جیسے فوڈ پینٹریز اور سوپ کچنرز بھی اچھے خاصے پھیل چکے ہیں۔ 1980 میں ملک بھر میں خوراک کے چند سو پروگرام تھے، لیکن آج ان کی تعداد 50,000تک پہنچ چکی ہے۔ خوراک کی تلاش لاکھوں امریکیوں کے لیے سب سے بڑی درد سری بن چکی ہے۔ یہ لوگ ہر وقت خوراک کے لیے فکرمند رہتے ہیں، اگر ایک وقت پیٹ بھرلیتے ہیں تو دوسرے وقت کی بھوک کا خیال ان کو پریشان کرتا رہتا ہے۔

رپورٹس کی مطابق ریاست ہائے متحدہ امریکا کے ہر چھے افراد میں سے ایک کو سال میں کم از کم ایک بار خوراک سے محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جب کہ یورپی ملکوں میں یہ تعداد بیس میں سے ایک ہے۔

آج امریکا میں بھوک کی گواہی وہ ریفریجریٹر دے رہے ہیں جو کھانے پینے کی اشیا سے خالی ہیں۔ ان میں چند ایک بیجوں، ان سے تیار کردہ کیچپ اور سرسوں کے سوا کچھ نہیں ہے، لیکن پھر بھی یہ لوگ پریشان نہیں ہیں۔ یہاں میکرونی اور پنیر کو ملاکر کھانے کی بعض اچھی اور صحت بخش چیزیں تیار کی جاتی ہیں۔ تازہ پھل اور سبزیاں مہینے کے چند ابتدائی دنوں میں مل سکتے ہیں ورنہ کم آمدنی والے غریبوں کے لیے ان کا تصور بھی محال ہوچکا ہے۔

یہاں آپ کو بھوکے کاشت کار بھی ملیں گے اور ریٹائرڈ اسکول ٹیچرز بھی، بعض خاندان بھی بھوکے ہیں اور ضروری کاغذات سے محروم نقل مکانی کرنے والے بھی خوراک سے محروم ہیں۔ غرض یہاں بھوک کا مقابلہ کرنا مشکل ہے، مگر یہ کام ہنگامی بنیادوں پر کیا جارہا ہے۔ ایک چیز یہ ہے کہ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک کے لوگ بھوکے ہوسکتے ہیں، یہ کوئی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ بعض لوگ بھوکے خاندانوں سے کہتے ہیں کہ تمہیں خوراک کی کیا ضرورت ہے؟ تم تو شکل سے بھوکے نہیں لگتے۔ ذرا اپنا وزن دیکھو، تم سبھی لوگ موٹے تازے اور صحت مند ہو، بھوکے تو ایسے نہیں ہوتے۔

پورٹی اینڈ پراسپیرٹی پروگرام آف دی سینٹر فار امریکن پراگریس کی نائب صدر میلیسا بوٹیک کا کہنا ہے:’’حقیقت یہ ہے کہ صحت اور مٹاپا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اگر کوئی انسان موٹا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ صحت مند بھی ہو، بلکہ اکثر موٹے لوگ ہی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ بعض لوگ کھانا کھاکر اپنا پیٹ تو بھرلیتے ہیں، مگر اس سے انہیں مطلوبہ غذائیت نہیں ملتی جس کے وجہ سے بعض مٹاپے کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔‘‘

امریکا میں بہت سے لوگوں کے لیے وزن میں اضافہ ناقص غذا کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے، یہ ایک بلاواسطہ نقصان ہے جس کے بذات خود بھی نقصان ہوتے ہیں۔ اب چوں کہ بھوک کا روپ بدل چکا ہے، اس لیے اس کا پتا بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ امریکی ریاست ٹیکساس کا ٹائون آف اسپرنگ آڑی ترچھی گلیوں، سایہ دار درختوں اور مکانوں کے سامنے لگے ہوئے احاطوں کا شہر ہے۔

دیکھنے میں تو یہ جگہ ٹھیک لگتی ہے، لیکن یہاں بھی بھوک کا مسئلہ موجود ہے۔ مضافاتی علاقے امریکی خوابوں کی تعبیر ہیں، لیکن یہاں غربت بھی مسلسل پروان چڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے یہ علاقے بھی منہگے ہونے لگے ہیں اور کام کرنے والی افرادی قوت خسارے میں مبتلا ہوگئی ہے۔ آج مضافاتی علاقے شہری علاقوں سے بھی زیادہ تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ 2007 سے اب تک یہ تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔

امریکا کے مضافاتی علاقے ’’بھوکے‘‘ دکھائی نہیں دیتے، وہاں کے لوگ سستی کاریں بھی چلاتے ہیں، اب کار کے بغیر ان کا گذارہ نہیں ہوسکتا، بلکہ کار ان کے لیے ایک اہم اور بنیادی ضرورت بن چکی ہے، ہاں، لگژری کاریں ان کے پاس نہیں ہیں۔ وہاں سستے لباس اور سستے کھلونے ملتے ہیں جس سے یہ مضافاتی علاقے اوسط درجے کے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں کنزیومر گڈز یا اشیائے صارفین قسطوں پر مل جاتی ہیں، اس لیے بھوکوں کے پاس فون اور ٹی وی بھی ہوتے ہیں۔

نارتھ ویسٹ ہیوسٹن کے مضافاتی علاقے اوسط درجے کے لوگوں کے لیے بہترین جگہیں ہیں جہاں معمولی اجرت والا بھی پیٹ بھرسکتا ہے۔ یہاں حکومت کی امداد حاصل کرنے والے خاندان بھی آباد ہیں جن کے پاس سبھی ضروریات زندگی موجود ہیں اور یہ لوگ اپنے بھرے پرے خاندان کے ساتھ یہاں رہ رہے ہیں جن میں کئی افراد کام کرتے ہیں اور باقی سب کھانے والے ہیں۔ ان علاقوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کام کرنے والے افراد کو اجرت بہت کم ملتی ہے جس سے گذارہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے انہیں خوراک کی فراہمی کی ذمے داری یا تو حکومت پر عائد ہوتی ہے یا پھر سوسائٹی پر۔

جیفرسنز ہر ماہ 125ڈالرز خوراک کی امداد کی صورت میں وصول کرتے ہیں اور ان کی بستر علالت پر پڑی بوڑھی ماں کی خوراک کا انتظام ایک فلاحی ادارہ کرتا ہے۔ ایسے گھرانوں میں کچھ ڈبا بند پھلیاں یا خشک سبزیاں اور مشروبات کی بوتلیں تو ہیں، مگر یہ تازہ خوراک جیسے پھلوں اور سبزیوں سے محروم ہیں۔ ایسے گھرانوں کی مائیں اپنے بچوں کو سمجھاتی ہیں کہ وہ خوراک دیکھ بھال کر استعمال کریں، اسے ضائع نہ کریں اور جو مل جائے صبر شکر کے ساتھ کھائیں ورنہ انہیں فاقے کرنے پڑیں گے اور وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

ہیوسٹن کی جیکولین کرسچین ایک ایسی ماں ہے جو کل وقتی ملازمت کرتی ہے، اس کے پاس سیڈان ہے اور وہ سادہ لباس پہنتی ہے۔ وہ ایک ہوم شیلٹر (سرکاری پناہ گاہ) میں رہتی ہے۔ اس کا پندرہ سالہ بیٹا جوزا ریان اچھے لباس پہننے کا شوقین ہے، لیکن غربت کے ہاتھوں مجبور ہے۔ اس فیملی کو 325 ڈالرز ماہانہ خوراک کی امداد کی صورت میں ملتے ہیں، لیکن جیکولین کو مستقبل کی فکر ہے، کیوں کہ اسے دکھائی دے رہا ہے کہ اس کے پاس نصف سال کے لیے خوراک کا انتظام نہیں ہے۔

وہ ایک گھریلو معاون صحت کے طور پر کام کرتی ہے جس کا اسے 7.75ڈالر فی گھنٹے کے حساب سے معاوضہ ملتا ہے۔ وہ اپنا زیادہ وقت کام میں لگانا چاہتی ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ کماسکے اور اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرسکے، اسی لیے وہ اکثر جنرل اسٹورز سے بنی بنائی خوراک لے لیتی ہے۔ اس کے پاس گھر جانے اور کھانا پکانے کا وقت نہیں ہے۔ اس کے بچے سڑکوں اور دکانوں پر لگے کھانوں کے اشتہارات دیکھ کر اس سے انہیں لینے کی ضد کرتے ہیں، مگر جیکولین انہیں پیار سے سمجھا بجھاکر آگے لے جاتی ہے۔

Osage, Iowaکی کیئرا ریمز کا کہنا ہے کہ امریکا میں سستی اور غذائیت سے بھر پور خوراک حاصل کرنا مشکل نہیں، شرط یہ ہے کہ آپ کو یہ معلوم ہو کہ یہ کام کس طرح کرنا ہے۔ امریکا کے کم آمدنی والے لوگوں کو اس کے بارے میں بہت کم معلوم ہے۔ کیئرا 650ڈالرز ماہانہ کی امدادی رقم وصول کرکے بڑی احتیاط کا مظاہرہ کرتی ہے اور اپنے بچوں کے لیے توانائی سے بھرپور خوراک کا انتظام کرتی ہے۔ اس نے اپنے صحن میں سبزیاں اگا رکھی ہیں۔ وہ مشروم کا استعمال بھی سیکھ چکی ہے اور زہریلی اور بے ضرر کھمبیوں میں فرق کرسکتی ہے۔ اس نے کتابوں کا مطالعہ کرکے صحت بخش خوراک کا حصول سیکھ لیا ہے۔

لیکن امریکا کے بیش تر غریبوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ یہ معلوم کرسکیں کہ صحت بخش غذا کونسی ہے اور یہ کس طرح حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ لوگ متعدد کام کرتے ہیں، فل ٹائم بھی اور پارٹ ٹائم بھی، نائٹ شفٹوں میں کام کرتے ہیں اور بھاگتے دوڑتے کھانا کھاتے ہیں، اسی لیے یہ اپنی خوراک سے بالکل لطف اندوز نہیں ہوپاتے، ایسے میں وہ خوراک ان کا جزو بدن کیسے بنے گی؟

آج کل فاسٹ فوڈ سستے ہوتے ہیں، ان میں کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا، صرف بازار جانا ہوتا ہے۔ اسی طرح پراسیسڈ فوڈز ہوتے ہیں۔ جب غریب کو بھوک لگتی ہے تو وہ اس خوراک کا انتخاب کرتا ہے جس کا حصول اس کے لیے آسان ہو اور جس میں اس کی فیملی کی بھلائی بھی ہو یعنی وہ خوراک سستی ہو۔ یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ دیہی لووا کے لوگ غذائیت کی کمی کا شکار ہیں جب کہ وہ اس علاقے میں رہتے ہیں جہاں دور افق تک صحت بخش اناج کے جنگل پھیلے ہوئے ہیں۔

لووا کی زمین زرخیز ترین ہے، وہاں کے لوگ اپنی زمین کو ’’بلیک گولڈ یا سیاہ سونا‘‘ بھی کہتے ہیں۔ 2007میں امریکا میں پیدا ہونے والے مجموعی اناج اور سویابین کا ایک بٹا چھ اسی علاقے میں پیدا ہوتا ہے، اس کے باوجود اسی جگہ کے لوگ بھوک کا شکار ہیں اور غذائیت سے محروم ہیں۔

انہی فصلوں پر پلنے والی گایوں کا گوشت یہاں کے لوگ استعمال کرتے ہیں اور یہاں کے پہاڑوں کی شبنم سے اناج سے تیار کردہ مشروب میٹھے کیے جاتے ہیں، اسی علاقے کی مرغی کے گوشت سے نگٹس تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ وہ فوڈز ہیں جنہیں امریکی حکومت اپنے شہریوں کو بھی فراہم کرتی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے۔2012  میں امریکی حکومت نے 11بلین ڈالر کی رقم ان اشیا کی سبسڈی کے لیے فراہم کی تھی۔ حکومت تازہ پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار کے لیے بھی اچھی خاصی رقم خرچ کرتی ہے اور اس بات کا خیال رکھتی ہے کہ ان سے شہریوں کو تمام ضروری غذائیت مل سکے۔

عام جنرل اسٹورز پر تازہ فوڈز کی قیمتیں کافی زیادہ ہیں۔ 1980 کے عشرے کے شروع سے پھلوں اور سبزیوں کی اصل قیمت 24فی صد تک بڑھ گئی ہے۔ دوسری جانب الکحل سے پاک مشروبات، بنیادی سوڈے، اناج کے شربت سے تیار کردہ مشروبات کی قیمتیں 27فی صد تک کم ہوگئی ہیں۔

خوراک کے ایک عالمی ماہر راج پٹیل کا کہنا ہے:’’ہم نے ایسا سسٹم تخلیق کیا ہے جس کی وجہ سے فوڈز کی مجموعی قیمتیں کم ہوں گی، لیکن اس سے صحت بخش اور معیاری فوڈز نہیں مل سکیں گے۔ لوگوں سے صرف یہ کہنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا کہ وہ پھل اور سبزیاں کھائیں، کیوں کہ اصل اور بنیادی مسئلہ ان کی آمدنی کا ہے، ان کی غربت انہیں یہ سب نہیں کھانے دیتی۔‘‘

جب کرسٹینا کا فریج خالی ہونا شروع ہوتا ہے تو وہ بچوں کو سمجھاتی ہے کہ شام کی چائے میں اسنیکس وغیرہ نہ لیں، مگر جب بھی موقع ملتا ہے تو یہ بچے نمکین بسکٹ کھالیتے ہیں، کیوں کہ یہ فوڈ بینک سے مل جاتے ہیں۔ وہ دکھ بھرے لہجے میں کہتی ہے:’’میں جانتی ہوں کہ یہ نمکین بسکٹ ان کی صحت کے لیے اچھے نہیں ہیں، مگر جب بچے بھوکے ہوتے ہیں تو میں انہیں یہ نہیں بتاتی، بلکہ خاموش رہتی ہوں اور میرے بچے مجبوری کے عالم میں وہ غیرصحت بخش نمکین بسکٹ کھالیتے ہیں، اس طرح کم از کم وہ بھوکے تو نہیں رہتے ناں!‘‘

کرسٹینا اور اس کے شوہر نے آج بھی اپنی کوششیں ترک نہیں کی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ اور ان کے بچے اچھی اور صحت بخش خوراک لیں۔ اب تو انہوں نے بھی اپنے گھر کے عقب میں کچھ سبزیاں بودی ہیں، ساتھ ہی شکرقندی بھی لگادی ہے۔ اس سب کے بعد بھی کرسٹینا جب سپر مارکیٹ یا فوڈ بینک جاتی ہے تو اسے ہر بار ایک جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ دونوں مقامات پر صحت بخش خوراک اس کی پہنچ سے باہر ہے۔

جب بھی فوڈ اسٹیمپس آتے ہیں تو کرسٹینا کوشش کرتی ہے کہ کسی طرح وہ انگور اور سیب ضرور لے لے کرسٹینا کے بچے پھل بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر غذائی امداد گوشت، انڈے اور دودھ کی خریداری پر خرچ ہوجاتی ہے، کیوں کہ مذکورہ بالا اشیا فوڈ بینک فراہم نہیں کرتے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم بھوکے نہیں رہتے، ہمیں کھانے کو کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے، چاہے وہ صحت بخش ہو یا نہ ہو، لیکن بعض اوقات ہمیں بھوکا بھی رہنا پڑتا ہے۔

یہ امریکا میں بھوک اور غربت کی ایک سچی تصویر ہے جو دنیا بھر کے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ اگر دنیا کے ایک دولت مند اور ترقی یافتہ ملک کے شہریوں کی یہ حالت ہے تو غیرترقی یافتہ یا بنیادی سہولیات سے محروم لوگوں کی حالت کس قدر سنگین ہوگی۔ کیا ہمارے پاس اس کا کوئی حل موجود ہے یا وقت پڑنے پر ہی اس کے لیے بھاگ دوڑ کی جائے گی؟


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>