Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4424

ساتھ نہیں دے سکتے تو باتیں بھی نہ بنائیے۔۔۔

$
0
0

ماں بننا اور اس کی ذمہ داریاں نبھانا یقیناً کسی بھی چیلنج سے کم نہیں، جب کہ نوکری کرنا ایک دوسرے قسم کا چیلنج اورمشکل کام ہے، لیکن ایک عورت جب یہ دونوں ذمہ داریاں ایک ساتھ اٹھا رہی ہو تو پھر اس کو کیا کہیں گے؟

یوں تو ملازمت کے بہت سے اشتہارات میں درج بھی ہوتا ہے خواتین کی درخواست کنندگان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اسکولوں اور بہت سے  دفاتر میں بھی مرد حضرات سے زیادہ خواتین کی تعداد نظر آتی ہے، کیوں کہ خواتین حضرات کے مقابلے میں اپنے کام کو زیادہ سنجیدگی اور ایمان داری سے کرتی ہیں۔

بہ حیثیت ورکنگ وومن میں اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتی ہوں اور اس کی تصدیق بھی کر سکتی ہوں کہ ہمیں جن چیلنجوں کا سامنا ہے وہ بھی بہت زیادہ ہیں۔ ان میں بچوں کو ڈے کیئر میں چھوڑنے کے ’احساس جرم‘ سے لے کر روز مرہ کے کاموں اور معمولاتِ زندگی میں توازن برقرار رکھنے کی جدو جہد کرنا، سماجی توقعات پر پورا اترنا اور پھر دقیانوسی رسم و رواج کے ساتھ ذہنی دباؤ اور جسمانی صحت پر اثرات تک بہت سے مسائل اور چیلنج شامل ہیں۔

لیکن بحیثیت ایک فرد، ایک خاندان اور معاشرہ کیا ہم چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں ان خواتین کے ساتھ کوئی تعاون کرتے ہیں؟ کیا ہم ان کو یہ اعتماد دیتے ہیں کہ وہ بچے کی پیدائش کے بعد اپنی جاب کو جاری رکھتے ہوئے جیسے خاندان کی مالی معاونت کر رہی ہے ویسے ہی ان کے بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال میں خاندان ان کی معاونت کرے گا؟

ہم بہ حیثیت فرد خاندان یا معاشرہ تو دور، عورت ہی عورت کو یہ تعاون فراہم کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ اگر کوئی خاتون کسی مجبوری کے تحت اپنے نومولود یا چھوٹے بچے کو اپنے ساتھ دفتر یا اپنے کام کی جگہ پر لے جائے، تو ان کے باس اور دیگر ہم پیشہ ساتھی باتیں بنانا یا مشکلات پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں، یہ بھی عجیب امر ہے کہ اس میں سب سے پہلے مسائل ہی ہماری خواتین کولیگز کو ہوتے ہیں۔

ورک پلیس پر ڈے کیئرز کا نہ ہونا اور پھر کسی مجبوری یا مشکل وقت میں  یا بچوں سے جڑے معاملات پر باقی کولیگز، بالخصوص خواتین ساتھیوں کا سپورٹ نہ کرنا کسی المیے سے کم نہیں۔ ورک پلیس پر ہمارا بچے کو ساتھ لانا تشویش کا باعث نہیں ہونا چاہئے، بلکہ ہماری بحث ڈے کیئر سینٹرز کو بہتر بنانے اور کام کرنے والی خواتین کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے حوالے سے ہونی چاہیے۔

منفی باتیں اور پروپیگنڈا کر کے ’ورکنگ مومز‘ کے لیے ان کی جابز اور پیشوں کو ان کے لیے احساسِ ندامت اور ذہنی کوفت بنانے کے بہ جائے ان کے لیے بہتر سوچنے، ان کے کردار کو سراہنے، اور ان کے کام کرنے کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی، مہنگائی کے اس دور میں جب کہ خواتین گھروں کو معاشی طور پر سپورٹ کر رہی ہیں، وہاں ان کو سپورٹ کرنے ان کی اخلاقی اور سماجی مدد کرنے کے بہ جائے ان کو کولیگز کی طرف سے جاب چھوڑنے اور گھر بیٹھ کر بچوں کی اچھی تربیت اور پرورش جیسے مشورے بھی دیے جاتے ہیں۔

جابز اور کام کرنے والی خواتین کو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ملازمت کرتی ہو اور اپنے بچوں کو ڈے کیئر سینٹرز چھوڑتی ہو، تم تو اچھی ماں نہیں ہو، ایسے میں خواتین کیسے زندگی میں کچھ مثبت اور اچھا کرنے کی ہمت کرتی ہیں۔ اس معاملے پر ہم صرف ورکنگ مومز کو ہی کیوں الزام دیتے ہیں۔ بچوں کی پرورش میں ماں اور باپ دونوں کا کردار ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اس معاملے کو مثبت نقطۂ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے، نہ کہ ورکنگ مدرز کے کام کو منفی انداز میں دیکھا اور بتایا جائے۔

اس بات سے کسی کو کوئی غرض یا مطلب نہیں کہ ورکنگ مومز اپنے خاندان کے لیے کتنا ذہنی، نفسیاتی، جسمانی اور معاشرتی دباؤ برداشت کر رہی ہے۔ ان سے صرف امیدیں لگا لی جاتی ہیں اور میرے خیال میں یہ امیدیں خود ورکنگ مومز اپنے آپ سے زیادہ لگا لیتی ہیں جس کا اختتام اس احساس جرم پر ہوتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی درست سمت میں پرورش نہیں کررہے یا ان کو مناسب وقت نہیں دے پا رہے۔

ورکنگ مومز کے ساتھ ان کے بچوں کو دیکھ کر ناک بھوں اور تیور چڑھانے سے بہتر ہوگا کہ ان سے دور رہیں۔ اگر ان کی اخلاقی مدد نہیں کر سکتے، تو ان کو فضول قسم کے مشورے دینے سے گریز کریں۔

ورکنگ مومز کو اکثر تنقید کا سامنا تو رہتا ہی ہے ساتھ میں حوصلہ شکن رویوں کا بھی منہ دیکھنا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملازمت پیشہ خواتین اپنے بچوں کو نظر انداز کر رہی ہیں یا جو کیرئیر پر کم توجہ دیتی ہیں ان کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے کیریئر کے لیے پرعزم نہیں ہیں۔

لیکن دوسرے آپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، ورکنگ مومز کو اس سے لاتعلق اور بے فکر ہو کر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ان کے لیے اور ان کے خاندان کے لیے کیا بہتر ہے۔ دوسروں کے مشورے اور رویے آپ کے کام ، مقاصد اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے چاہئیں۔

ایک ورکنگ مدر کتنی محنت سے اپنے بچے کی پرورش کرتی ہے اس کا اندازہ لگانا معاشرے کے ان افراد کے لیے مشکل ہے جو انفرادی ذمہ داری بھی احسن طور پر پورا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں یا ان تجربات سے کبھی نہ گزرے ہوں۔

اگر جابز کرے والی خواتین کی ہمت اور حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے تو آپ کو ان کی حوصلہ شکنی کرنے کا بھی کوئی حق نہیں۔ اگر آپ ان کے لیے آسانیاں پیدا نہیں کر سکتے تو باتیں بنا کر، دوسروں کو ورغلا کر ان کے مسائل میں اضافہ بھی نہ کریں۔

ورکنگ مومز کو بھی میرا یہ ہی مشورہ ہے کہ یہ نہ صرف خود پھر بھروسا رکھیں، بلکہ حوصلہ شکنی کرنے والے محرکات سے دور رہیں۔ یہ سب سے زیادہ فائدہ مند تجربات میں سے ایک ہے یہ چیلنجوں اور کام یابیوں سے بھرا ہوا سفر ہے، اور یہ ہر جگہ خواتین کی طاقت اور عزم کا ثبوت ہے۔ اپنا سر ہمیشہ فخر سے بلند رکھیں اور گھر ہویا ورک پلیس کبھی بھی کسی سے مدد مانگنے سے نہ گھبرائیں یہ آپ کا معاشرے پر حق ہے۔

The post ساتھ نہیں دے سکتے تو باتیں بھی نہ بنائیے۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4424

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>