اپنے والد جسٹس وحید الدین کی طرح وہ بھی ’چیف جسٹس ہائی کورٹ‘ اور اس کے بعد سپریم کورٹ کے جج رہے۔ 1988ء میں سندھ ہائی کورٹ کے جج ، جب کہ 5 نومبر 1997ء تا 4 مئی 1998ء ’چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ‘ کے منصب پر رہے۔۔۔ 5 مئی 1998ء تا جنوری 2000ء تک رہے۔
’وکلا تحریک‘ کے دوران چھے اکتوبر 2007ء میں جنرل پرویز مشرف کے مقابل وکلا کی جانب سے صدارتی امیدوار بنے، اس وقت سیاسی جماعتوں کے کردار کو خراب قرار دیتے ہیں کہ ’’اگر وہ ساتھ دیتے تو ہم پرویز مشرف کو ہرا بھی دیتے، لیکن پیپلزپارٹی نے تو ووٹ تقسیم کرنے کے لیے مخدوم امین فہیم کو اپنا امیدوار بنا دیا۔‘‘ 2011ء تا 2016ء وہ پاکستان تحریک انصاف کا حصہ رہے۔ 30 جولائی 2013ء کو ممنون حسین کے مقابل تحریک انصاف کے نام زَد صدارتی امیدوار تھے، 2016ء میں بوجوہ تحریک انصاف سے راستے جدا کرلیے۔
یہ ذکر جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کا ہے، وہ بتاتے ہیں کہ ’’1977ء میں ذوالفقار بھٹو کے خلاف تحریک میں ملک بھر کی ’بار ایسوسی ایشنز‘ بھی شامل تھیں۔ اس میں ’سندھ بار‘ بٹ گئی، اعزازی سیکریٹری محمد ابراہیم سمیت بہت سے بھٹو حامی مستعفی ہوگئے، اس لیے ’بار‘ کے عام انتخابات کی ضرورت پڑی۔ ایسے میں میرا نام تجویز کیا گیا، ساتھ ساتھ سعید الزماں صدیقی نے بھی کاغذات جمع کرائے، بعد ازآں لوگوں کے دباؤ پر دست بردار ہوگئے اور میں بلامقابلہ اعزازی سیکریٹری منتخب ہوگیا۔
پانچ جولائی 1977ء کو جنرل ضیا آئے، میں نے کمیٹی کی میٹنگ بلائی تو پہلے کورم پورا نہ ہوا، پھر دوبارہ میٹنگ ہوئی، تو میں اس میں بھی فوجی اقدام کے خلاف کوئی قرارداد نہ لا سکا، میرے ساتھ مشکل سے دو یا تین ووٹ تھے۔ اکثریت نے ’دیکھو اور انتظار کرو‘ کا فیصلہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو عالمی قوتیں آزاد ملک نہیں سمجھتیں، انھیں پتا ہے کہ حکومتیں کہیں اور سے کنٹرول ہوتی ہیں۔ جیسے ہائی کورٹ بار میں ہم نے دیکھا کہ ہم میں سے اکثر کے تانے بانے کہیں اور سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔‘‘
2007ء کے ’پی سی او‘ کا انکار کرنے والے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے 2000ء کے ’پی سی او‘ کے تحت حلف لیا تھا، اس تذکرے پر وہ کہتے ہیں کہ ’’ہائی کورٹ کے سارے اور سپریم کورٹ کے 13 میں سے سات ججوں نے حلف لے لیا۔
کچھ کو پرویزمشرف نے حلف دیا ہی نہیں۔ اس وقت کے چیف جسٹس جسٹس سعید الزماں کے متعلق بھی یہی کہا جاتا ہے لیکن وہ کہتے تھے کہ میں نے منع کیا۔ باقی جسٹس خلیل الرحمٰن خان، جسٹس مامون قاضی، جسٹس کمال منصور عالم، جسٹس ناصر اسلم زاہد اور میں نے نہیں لیا۔ جسٹس ناصر اسلم زاہد تو ایک دو ماہ میں ہی ریٹائر ہورہے تھے۔ جسٹس خلیل کی صدر رفیق تارڑ سے دوستی تھی، وہ چاہتے تھے کہ بعد میں حلف لے لیا جائے، مامون قاضی کا کچھ ذہن نہیں بن سکا۔ اس طرح باضابطہ طور پر جسٹس کمال منصور عالم اور میں نے ہی اِس حلف سے انکار کیا تھا۔‘‘
’’لیکن یہ سب انکار کرکے اپنی مراعات وغیرہ سے تو دست بردار ہوئے؟‘‘ ہم نے پوچھا تو انھوں نے انکشاف کیا کہ ’’عام استعفے کے بعد جب تک کام کیا ہو، اس حساب سے تو پینشن ملتی ہے، لیکن اس وقت تو پتا نہیں تھا کہ پینشن ملے گی بھی یا نہیں؟ مگر پرویزمشرف نے ہمیں پینشن ایسے دلوائی، جیسے ہم 65 سال کی عمر میں سروس مکمل کرکے ریٹائر ہوئے۔ اس لیے ہمیں پنشن اور مراعات کے حساب سے کوئی فرق نہیں پڑا۔‘‘
’’گویا ایک آمر ہونے کے باوجود انھوں نے اس ظرف کا مظاہرہ کیا؟‘‘ ہم نے ایک ٹکڑا لگایا، جس پر وہ بولے کہ ’’پتا نہیں یہ ان کا فیصلہ تھا یا ان کے قانونی مشیروں کا تھا۔‘‘
’’آیا تو بہرحال انھیں کے ذریعے؟‘‘
’’جی۔‘‘ اثبات میں جواب دے کر وہ بتاتے ہیں کہ ’’استعفے کے بعد وزیرداخلہ معین الدین حیدر نے کوئی عہدہ دینے کا عندیہ دیا، تو میں نے کہا ’جو بھی ہو میں ’پی سی او‘ کا حلف نہیں لوں گا۔‘ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مجھے گورنر سندھ بنانا چاہتے تھے، لیکن حلف کا منع کیا تو بات نہیں بنی۔ یہ اس تناظر میں بتایا ہے کہ اُن کی سوچ مکمل طور پر منفی نہیں تھی۔‘‘
جسٹس وجیہہ بتاتے ہیں کہ ’’جسٹس افتخار چوہدری نے ایک نہیں، دو مرتبہ ’پی سی او‘ کے تحت حلف اٹھا۔ ایک مرتبہ بلوچستان ہائی کورٹ میں اور ایسے ہی جسٹس رانا بھگوان داس نے سندھ ہائی کورٹ میں حلف لیا، اور پھر ہمارے جانے کے بعد جب سپریم کورٹ میں جگہ بنی، تو ان دونوں نے سپریم کورٹ کے جج کے طور پر بھی دوبارہ ’پی سی او‘ پر حلف اٹھایا۔ ان دونوں کو کہا جاتا ہے کہ آئین اور قانون کے رکھوالے ہیں، لیکن دونوں نے حلف اٹھایا۔‘‘
اس کے باوجود ’عدلیہ تحریک‘ میں افتخار چوہدری کی حمایت کی بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ’’اس تحریک کا معاملہ مختلف تھا، نو مارچ 2007ء کو چیف جسٹس کو ایک معمولی کلرک کی حیثیت سے نکال دیا گیا، پھر صدارتی انتخاب کے حوالے سے میری پٹیشن دائر تھی، کیوں کہ وکلا نے مجھے صدارتی امیدوار نام زَِد کیا تھا، تو تین نومبر 2007ء کو انھوں نے نیا حکم جاری کیا، یہ 2000ء والے ’پی سی او‘ سے زیادہ بڑا حملہ تھا۔ اس میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ انھوں نے پہلے ’پی سی او‘ کے تحت حلف اٹھایا ہوا ہے یا نہیں، یہ دیکھا جاتا ہے کہ اگر کوئی فوجی آمر ہے کہ اور وہ عدلیہ یا آئینی اداروں کے خلاف کام کر رہا ہے تو اسے غلط کہنا پڑتا ہے۔
سب سے بدقسمتی کی بات یہ تھی کہ 1977ء میں بھٹو مخالف تحریک، نو مارچ 2007ء اور 3 نومبر 2007ء کے بعد کی تحریک ہوئی، اب اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے دوسری قوتیں تھیں۔ مجھ سے انٹرویو میں ایک جاپانی نے پوچھا کہ اِس تحریک کو فنانس کون کر رہا تھا؟ میں نے کہا، ہم نے اپنے آپ کیا، ہاں ایک ’لبرل فورم‘ تھا جس نے کچھ چیزیں منظم کی تھیں، وہ کبھی ٹکٹ بھیجا کرتے تھے، اور مجھے یقین ہے کہ اس کی مالی مدد کہیں اور سے ہو رہی ہوگی۔ دوسرا سوال اس نے یہ پوچھا کہ اس میں فوج کہاں کھڑی تھی۔۔۔؟ پرویزمشرف تو ایک طرف تھے، لیکن فوج تو ایک الگ چیز ہے۔ جس سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یقیناً فوج دونوں ہی موقعوں پر پرویز مشرف کے ساتھ نہیں تھی۔ انھوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ پرویز کو نکالنا ہے، جس کے لیے اس سے الٹے سیدھے کام کرائے اور فنانس بھی کہیں سے تو آیا ہوگا۔۔۔!‘‘
جسٹس وجیہہ کے اس اظہار کے بعد ہم نے دریافت کیا کہ ’’اگر آپ کو پتا ہوتا کہ اس کے پیچھے فوج ہے، تو آپ ساتھ دیتے؟‘‘ تو انھوں نے کہا اگر مجھے معلوم ہوتا تو کبھی شامل نہیں ہوتا! ہمارے ساتھ تو دو مرتبہ ہاتھ ہوا، ایک 1977ء میں اور پھر 2007ء میں! ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا۔‘‘
’’تو کیا پھر پرویز مشرف کا ساتھ دیتے؟‘‘
’’نہیں، ایک طرف ہوجاتا، کیوں کہ اِدھر بھی غلط ہے، اُدھر بھی غلط ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں کہ جب ہم تحریک میں تھے، لیکن تب ہمیں اس کا احساس نہ ہوا۔۔۔!‘‘
’’کیا 1999ء کو چھوڑ کر 2007ء کے غیرآئینی قدم کی بات کرنا بھی ’نظریہ ضرورت‘ ہے؟‘‘ ہم نے ایک ناقدانہ سوال ان کے گوش گزار کیا، جس پر ان کا جواب تھا ’’ایک بدمعاش ہے، لیکن اس کے خلاف کوئی ثبوت مہیا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ انگریز نے اسے ہر روز تھانے میں حاضری کا پابند کیا۔ یہ نظریہ ضرورت نہیں۔ یہ بھی غلط فہمی ہے کہ تمیز الدین کیس میں نظریہ ضرورت ہے۔ ’نظریہ ضرورت‘ آئی ایم پٹیل کیس میں لگایا جاتا ہے۔
تمیز الدین کیس میں کہا گیا کہ جن قوانین کو کہا گیا کہ گورنر کی تائید کے بغیر لاگو نہیں ہوں گے، ایسے اور بھی بہت سے قوانین نکل آئے، وہ بھی غلط ہو جائیں گے تو کہا گیا کہ کوئی اور قانون بنائیے اور انھیں موثر رکھا جائے۔‘‘
’’صرف پرویز مشرف پر گرفت، اور باقی ججوں اور جرنیلوں وغیرہ کو چھوڑ دینا؟‘‘ ہم نے موضوع کو مرکوز کرنا چاہا، جس پر وہ کہتے ہیں ’’بات یہ ہے کہ ہم انسان ہیں، پاکستان کوئی آئیڈیل ملک نہیں۔ اگر کوئی صحیح کام کرنا ہے اور اگر وہ صحیح کام پانچ فی صد بھی ہے تو جتنا کر سکتے ہیں، تو وہ تو کر دیں۔ بے شک بہت سی چیزیں نظرانداز کر دیتے ہیں، بہت سے جج سہولت کار تھے، لیکن آپ کہاں کہاں جائیں گے، پینڈورا بکس نہ کھولیں، کوئی اور طریقہ نکلتا ہے تو وہ کریں۔‘‘
مشہور مثل ’میدان جنگ کے بعد سب سے زیادہ ناانصافی عدالتوں میں ہوئی!‘ پر وہ کچھ اس طرح گویا ہوئے کہ ’’ہماری عدالتیں جیسی بھی ہیں، کسی نے ٹھیک ہی کہا کہ ’بدترین عدلیہ بھی بہترین انتظامیہ سے بہتر ہوتی ہے!‘ کیوں کہ جج جو بھی کرتا ہے کہ کم از کم کھلی عدالت میں تو کرتا ہے، عدالت کے وقت میں بیٹھتا ہے، سماعت کرتا ہے اور حجت تمام کرتا ہے، انتظامیہ میں تو 12 بجے تک افسران ہی نہیں ملتے۔۔۔!‘‘
’’عدلیہ اگر ناانصافی کرے۔۔۔؟‘‘
’’غلط ہے وہ۔۔۔ لیکن انتظامیہ میں جو ہو رہا ہے، تو اس سے موازنہ کر رہا ہے، بدترین کہہ رہے ہیں، تو ظاہر ہے کہ اچھی نہیں ہے، مگر یہ بدترین بھی ان لوازمات کے ساتھ ہے کہ اسے فیصلہ لکھتے ہوئے جواز دینے پڑتے ہیں، بھلے غلط فیصلہ ہو، لیکن انتظامیہ تو اس سے بہت آگے ہے۔ اس وقت بھی کیا کیا نہیں ہو رہا، اس کے باوجود بھی بہتر ہے۔ مغربی ممالک میں ’مقدمے‘ دکھائے جاتے ہیں، لیکن ہمارے پاس دکھانے کی چیز نہیں۔ ایسی سماعت نشر ہوگی، تو اس سے تاثر اور خراب ہوگا۔‘‘
عدالتی نظام کی بہتری کے ذکر پر جسٹس وجیہہ الدین کہتے ہیں کہ ’’یہاں کوئی نظام ٹھیک نہیں ہے، جس کی دو وجوہات ہیں، پہلی چیز بدعنوانی، دوسری چیز نااہلیت۔‘‘ بطور جج دباؤ پر فیصلے کرانے کی کوشش پر کہتے ہیں کہ ہر ایک کے مزاج کے حساب سے دباؤ یا لالچ وغیرہ دینے کی کوشش ہوتی ہے، میرے کالج کے ساتھیوں کے ذریعے کوئی بات میرے ذہن میں ڈلوانے کی کوشش کی گئی، میں نے کہا قانون کے مطابق فیصلہ ہوگا۔‘‘
موجودہ نظام میں تبدیلی کا امکان؟
’’بدعنوانی اور نااہلی دور کیجیے، اس کی بنیاد تعلیم اور تربیت سے شروع ہوتی ہے۔ 2010ء سے آرٹیکل ’25 اے‘ میں یہ بات موجود ہے کہ پانچ سال سے 16 سال کی عمر تک کے سب بچوں کے لیے تعلیم نہ صرف مفت بلکہ لازمی ہوگی، کوئی ایک صوبہ اور ایک شہر بتا دیجیے، جہاں یہ ہو رہا ہو۔ جب آپ عمل نہیں کریں گے، تو بھئی جیسا بوؤ گے، ویسا کاٹو گے۔ ‘‘
وکلا برادری میں بدعنوانی کے تاثر کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’بالکل ہے اور کرپشن بڑھ رہی ہے، بلکہ نااہل بھی ہیں، اس کے لیے کرپشن پر قابو پالیں اور اہلیت کے معاملات ٹھیک کرلیں۔ نوازشریف کے حوالے سے جسٹس وجیہہ کا خیال ہے کہ وہ لندن میں بیٹھ کر یہاں کے لیے تانے بانے بُن رہے تھے۔ اب کہتے ہیں کہ ’اقامہ‘ کے معاملے کو بڑھا دیا۔ یعنی وزیراعظم ہوتے ہوئے آپ نے وہاں نوکری کا پرمٹ لیا۔ اپنے بیٹے کے کاروبار میں شریک ہیں، یہ کہا کہ تنخواہ نہیں لی۔ وہی بات ہے کہ ’گھی کہاں گیا؟ کھچڑی میں، کھچڑی کہاں گئی؟ پیٹ میں!‘ وزیراعظم ہوتے ہوئے آپ نوکری کا پرمٹ نہیں لے سکتے۔
جسٹس وجیہہ کی موجودہ مصروفیات حالات حاضرہ سے آگاہی اور مطالعہ ہے۔ صحت اور غذا کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ روزانہ صبح 10، 11 بجے سے شام چار بجے تک کام کرتے ہیں۔ ’خودنوشت‘ لکھنے کے سوال پر کہتے ہیں کہ ’’اپنے والد کے بارے میں لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں، میرا تذکرہ بھی اسی میں آجائے گا۔ دس، بارہ سال قبل ایک کتاب ’میزان‘ مرتب کی، جس میں عدلیہ سے علاحدگی کے تاثرات وغیرہ تھے۔ اب اس کی اشاعت ثانی کی کوشش کر رہا ہوں۔‘‘
اپنی قائم کردہ سیاسی جماعت ’عام لوگ اتحاد‘ کے حوالے سے جسٹس وجیہہ کہتے ہیں کہ ’’اس کا وہی ہوا کہ جیسا اس طرح کی پارٹیوں کا ہوتا ہے۔ ہم نے اپنی کوششں کی، اپنے امیدوار کھڑے کیے، لیکن اس کے لیے بہت پیسے اور ناجائز پیسے کی ضرور ت ہوتی ہے، اس کے لیے میڈیا ہاؤس خریدنے اور اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھنے کی ضرورت ہے، وہ تو ہم نے کیا نہیں۔ ہم اگر صرف لوگوں تک اپنی سوچ پہنچا سکیں اور ان میں سے کچھ لوگ نکال سکیں، تو ہم کام یاب ہوجائیں گے۔ یہ مشکل چیزیں ہیں، لیکن ہم کوشش کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے میری زندگی میں کام یابی ہو یا میرے بعد ہو۔ اللہ کے احکامات تو یہی ہیں کہ کوشش کرو، کام یابی تو اللہ کی مرضی سے ہوتی ہے۔‘‘
The post ’’پسِ پشت قوتوں کا علم ہوتا تو ’عدلیہ تحریک‘ میں شامل نہیں ہوتا!‘‘ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد appeared first on ایکسپریس اردو.