اس میں کیا شک ہے کہ شرافت کے قرینے سے کیے جاسکنے والے اکثر ہی کام زیادہ تسکین بخش نہیں ہوتے لیکن خارش ان سے قطعی مستثنیٰ ہے۔ کُل عالم انسانیت تو کیا دنیائے حیوانیت بھی اس کے نرغے میں ہے آپ نے بارہا گائے بیل اور انسانوں کو یکساں انداز میں کھجاتے دیکھا تو ہوگا۔ یوں ایک کھجلی ہے جو دونوں طرح کے جان وروں کو ایک پیج پہ لے آتی ہے۔ تاہم اس عمل کا ایک خاص و نرالا پہلو یہ ہے کہ سبھی اس سے نجات پانا چاہتے ہیں مگر مزہ بھی سبھی لیتے ہیں۔
اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ وہ چار چیزیں جنہیں مفت کا سرور دینے کی خصوصی توفیق بخشی گئی ہے ان میں پہلی تو نیند ہے اور دوسری خارش ہے جب کہ تیسری اور چوتھی چیز بھی خارش ہے۔ ان میں اعضائے رئیسہ کی خارش کا مقام بلند تر ہے جو کہ گاہے رئیسانہ نشاط سے ہم کنار کرجاتی ہے کہ اس میں دست درازی کا رنگ نمایاں ہوتا ہے۔ یوں تو خارش بدنی سائنس کا عمل ہے لیکن اچانک بھری محفل میں اس کی نوبت آجائے تو پھر پوشیدگی کے خاص اہتمام اور حصول تسکین کے مقاصد کو بیک وقت ممکن بناسکنے کی جدوجہد، اس کا رتبہ خصوصی آرٹ سے جاملاتی ہے۔
عام تجربے کی بات ہے کہ جو کام بار بار کیا جائے تو اس کا کیف پھیکا پڑ جاتا ہے، اچھے سے اچھا کھانا ہو کے گانا، ہمیشہ و مسلسل لطف نہیں دے پاتا مگر یہ عجب خاصیت بھی فقط خارش ہی کو ودیعت ہوئی ہے کہ ہر بار پہلے سے بڑھ کے مزہ ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خارش ہی وہ واحد طولانی کام ہے جو ہر بار پہلے سے بڑھ کے دل جمعی سے کیا جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو خارش ایک طرح کی ورزش بھی ہے کیوںکہ اس کی بنیاد ہی دھر رگڑا ہے اور وہ بھی انتھک، وافر و مسلسل۔
بلاشبہہ یہ خارش ہی ہے جو کسی کو خوش نصیبی اور بدنصیبی کے ذائقے بیک وقت چکھا سکتی ہے کیوںکہ کھچا کھچ بھری بس میں کھڑا اور پھنسا مسافر اس وقت خود کو بے حد بدنصیب شمار کرسکتا ہے کہ جب اسے یکبارگی خارش محسوس ہو اور اس کے لیے کھل کھیلنا ممکن نہ ہو اور بالیقین اس موقع پہ اسے بس سے باہر نظر آتا ہر وہ شخص بے حد خوش نصیب لگے گا کہ جو حسب منشاء اپنے ہر جسمانی مقام پہ بہ آسانی اور باافراط کھجلا سکتا ہو۔
یوسفی کہتے ہیں کہ مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم دیر سے نکلتا ہے۔۔۔لیکن اس میں کیا شک ہے کہ سوجانے کے بعد دونوں ہی ایک ہی طرح کے بے ضرور و بے جان ہوجاتے ہیں کیوںکہ نہ آنکھ چلتی ہے اور نہ ہی زبان۔ جو شے چلتی ہے وہ ہے سانس یا خارش کے لیے چلتے ہاتھ۔ یوں یہ مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ بعد از تنفس خارش بھی زندگی کا اک بڑا ثبوت ہے کیوںکہ مردے خارش نہیں کرتے۔
جمالیاتی سطح پہ ویسے تو خارش ‘فنون کثیفہ’ کا ناگزیر جزو ہے جس میں جمائی، انگڑائی، ناک سنکنا اور چھینک بھی شامل ہیں اور اس کا توسیعی مرحلہ خراٹے ہیں، لیکن آپ جب کسی کو خارش کرتا دیکھیں تو عین وہی سکون اس کے چہرے پہ براجمان پائیں گے جو کہ فنون لطیفہ کے کسی تخلیق کار کے چہرے پہ تخلیقی عمل کے دوران دیکھا جاسکتا ہے اور ہلکی ہلکی خارش کے لیے ہولے ہولے انگلیاں چلانے کا عمل تو ستار کے انگ چھیڑنے جیسا نشاط انگیز ہے۔
خارش کسی قاعدے ضابطے، ٹائم لائن اور پیمائش سے مبرا ہوتی ہے کبھی بھی ہوسکتی ہے اور کتنی بھی ہوسکتی ہے اور کسی مقام پہ بھی ہوسکتی ہے البتہ جو مقام جس قدر پرائیویٹ ہے اسے پبلک کی توجہ میں لانے میں اسی قدر زیادہ التفات برتتی ہے۔
وقتی طور پہ ہی سہی، لیکن یہ خارش ہی ہے جوتوجہ کو اداسی و بے زاری سے ہٹاسکتی ہے۔۔ کوئی مایوس و ناراض فرد جس کے رویے سے کبھی ایسا لگنے لگتا ہے کہ اب اس کی کسی چیز میں دل چسپی نہیں رہی، تب ذرا دیر بعد ہی اسے اچانک کسی قریبی دروازے کے پلے یا چوکھٹ کی طرف لپکتا دیکھا جاسکتا ہے جہاں وہ اپنی پیٹھ اس سے لگا کے کچھ دیر دائیں بائیں اوپر نیچے پیہم ہلتا جلتا پایا جائے گا اور پھر کچھ ہی دیر میں دفعتاً وہ بہت ہشاش بشاش سا دکھنے لگے گا اور دنیا میں انکا پھر سے دل لگتا محسوس ہونے لگے گا۔ محض خارش کرپانے کی نعمت کے بل پہ یہ اتنا بڑا بدلاؤ صرف خارش ہی سے ممکن ہے۔
پورے وثوق سے عرض ہے کہ دنیا خواہ کتنی بھی ترقی کرلے، برصغیر میں جسم کھجانے کا تسلی بخش آلہ ہمیشہ کنگھا اور دروازہ ہی رہے گا۔
دنیا میں خارش کہیں کہیں کھجلی بھی کہلاتی ہے مگر یہ اسے مزید ذلیل کرنے کی ایک لسانی کوشش ہوا کرتی ہے اور اسی لیے اسے نچلے طبقے کے کھاتے میں ڈالا جاتاہے جب کہ خارش مڈل کلاس کے حصے میں آئی ہے۔ اس سے اوپر کے طبقے میں اسی علت کو اسکن الرجی کا غلاف اُڑھایا جاتا ہے۔ خارش بالعموم 3 قسم کی ہوتی ہے ضرورتاً، عادتاً یا مصلحتاً۔ ضرورت کے طور پہ خارش کرنے والے عموما ’’بروقت‘‘ اور ہڑبڑا کے یہ کام طوعاً و کرہاً کرتے ہیں۔۔۔ بعد میں ان میں سے چند اس کے رسیا بن جاتے ہیں اور بعد ازآں عادتاًؐ خارش کرتے رہتے ہیں اور پھر دیوانہ وار کرتے ہی رہتے ہیں۔ البتہ مصلحت والی خارش بالعموم دفتری اور ازدواجی میکنزم کا حصہ ہے جو دراصل خفیہ پیغام یا کوڈ ورڈ لیے ہوتی ہے، پہلے میں نجات اوردوسرے میں قرب کا اشارہ مستور اور مرؤج ہے۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ خارش کی سائنسی توجیہ اور تاریخ جاننے میں کسی کی ذرا دل چسپی نہیں، محض کھجانے میں ہے۔ عام طور پہ بس یہی جانتے ہیں کسی خارش زدہ کو محض لمحہ بھر وارفتگی سے کھجلاتے دیکھنے ہی سے یہ یکایک محسوس ہونے لگتی ہے۔ انسانی جسم میں نرم ترین خارش کا مقام سر ہے کہ جس کا الزم صرف جوؤں کے سرجاتا ہے حالاںکہ بڑی ذمے داری انہیں پالنے پوسنے والے کی ہے جب کہ شدید تر خارش وہ ہے جس سے دیوانہ وار کھجانے والے کے مقام خارش پہ اوردیکھنے والے کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ تاہم ایک قسم کی خارش اور بھی ہے جو کے شدید ترین کے درجے میں آتی ہے اور یہ دراصل کسی اچھے برے کام پہ پوری شدت سے اکسانے کا عمل ہے۔ یقین کیجیے میں نے خارش پہ یہ اچھا یا برا مضمون اسی خارش سے مغلوب ہوکے ہی تو لکھا ہے۔
The post خارش کا خرخشہ appeared first on ایکسپریس اردو.