رینڈیئر سرد علاقوں کا جانور ہے، اسے شمالی امریکا میں caribouکہتے ہیں۔
یہ آرکٹک، سب آرکٹک، ٹنڈرا اور پہاڑی خطوں کا وہ جانور ہے جو ہرن کی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ قطب شمالی اور اس کے اطراف کے علاقوں میں جنگلی رینڈیئر کا شکار کیا جاتا ہے، مگر اس کی ایک قسم کو دیگر مویشیوں کی طرح گلوں کی شکل میں پالا جاتا ہے۔
یہ جانور سرد علاقوں کے لوگوں کے لیے گوشت، جلد یا کھال اور دودھ فراہم کرنے کا ذریعہ ہے اور اسے سواری اور نقل و حمل کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی لیے یہ قطب شمالی کی متعدد خطوں اور قوموں کے لیے لازمی ہے۔ اگر ان خطوں کے لوگوں کو رینڈیئر نہ ملے تو یہ مرجائیں۔ لوک کہانیوں میں رینڈیئر ایک جانا مانا جانور ہے۔ کرسمس کے موقع پر سانتاکلاز کی سلیج کو برف پر یہی رینڈیئر تو کھینچتا ہے۔
لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دنیا کی بعض قومیں اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اس جانور سے اتنی قربت رکھتے ہیں کہ اس کا نام ان کے نام کے ساتھ شامل ہوگیا ہے۔
منگولیا میں رینڈیئر پالنے کا شوق تو مختلف لوگوں کو ہے، کیوں کہ وہ اسی جانور کی وجہ سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں، مگر جس قوم کی زندگی کا دائرہ ہی رینڈیئر کے گرد گھومتا ہے، وہ Tsaschin، Dukha, Dukhans یا Duhalar کہلاتی ہے۔ یہ لوگ منگولیا کے شمال میں رہتے ہیں۔ چنگ عہد میں شمالی برفانی جنگل کا ترائی والاخطہ اس سلطنت کا حصہ تھا۔ مگر 1911میں جب منگولیا آزاد ہوا تو یہ حصہ آزاد Tuva میں شامل ہوگیا۔ بعد میں اس خطے کو 1944میں روسیوں نے اپنے ساتھ شامل کرلیا تھا جس کے بعد شمالی برفانی جنگل کے موڑ والا حصہ منگولیا کی جانب اس کی سرحد بن گیا۔
1930کے عشرے میں Dukhansمیں جنوب کے ٹائیگا گروپ کے کچھ لوگ اور دیگر قوموں کے افراد فوج کی لازمی ملازمت سے بچنے کے لیے Tuva سے فرار ہوگئے تھے۔ شروع میں منگولیا کی حکومت ان لوگوں کو بار بار واپس Tuva بھیجتی رہی، مگر یہ لوگ دوبارہ آجاتے تھے۔ آخرکار 1956میں منگولیا کی حکومت نے انہیں باقاعدہ قانونی شہریت دے دی اور انہیں دریائے Shishigt کی Tsagaan Nuur جھیل پر دوبارہ آباد کردیا۔ مگر اب بھی 44خاندان ایسے باقی ہیں جن کے افراد کی مجموعی تعداد 200سے400افراد کے درمیان تھی، یہ لوگ ابھی تک حکومت کی توجہ کے منتظر ہیں۔ یہ لوگ اپنے قدیم کلچر میں قدیم سوچ کے ساتھ زندہ ہیں اور اپنی زمین چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہتے۔
ان لوگوں کا اوڑھنا بچھونا، ان کا کھانا پینا، ان کی روزی روٹی سب کچھ رینڈیئر ہے۔ یہ لوگ رینڈیئر پر سواری کرتے ہیں، رینڈیئر پالتے ہیں، اسی کا دودھ پیتے ہیں، اسی کا گوشت کھاتے ہیں اور اسی سے اپنی تمام ضروریات زندگی پوری کرتے ہیں۔
1970کی دہائی کے بعد سے رینڈیئر کی آبادی کم ہوکر 600 ہوچکی ہے، جب کہ 1970کی دہائی میں رینڈیئر کی آبادی کا اندازہ 2000 کے قریب لگایا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ رینڈیئر کو یا تو یہاں کے لوگ خود ہی کاٹ کر کھائے جارہے ہیں یا پھر وہ بیمار ہورہے ہیں تو ان کی دیکھ بھال اور علاج نہیں کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے اس شان دار جانور کی آبادی مسلسل کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ بعد میں یہ بھی معلوم ہوا کہ رینڈیئر کو ایک خاص وائرس نے کئی برسوں سے پریشان کررکھا ہے۔ اس ضمن میں منگولیا کی حکومت نے اور متعدد غیرملکی این جی اوز نے بھی کافی کوششیں کی ہیں اور اس جانور کو اس موذی وائرس سے بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ان کی کوششوں کے کافی حوصلہ افزا نتائج سامنے آرہے ہیں۔
منگولیا کی کسی بھی حکومت نے ایسا کوئی پروگرام یا پالیسی پیش نہیں کی جس کے تحت رینڈیئرز کا علاج معالجہ ممکن ہوتا، اسے وائرس اور بیماریوں سے تحفظ فراہم کیا جاتا اور اس کی افزائش نسل کے بعد اس کی آبادی کو پرانی سطح پر لایا جاتا۔ زبانی دعوے بہت کیے جاتے ہیں، مگر عملی اقدامات بہت کم ہیں۔
واضح رہے کہ رینڈیئر سائبیریا کا وہ قیمتی جانور ہے جس کی نسل اگر معدوم ہوتی ہے تو Dukhaلوگوں کا طرز زندگی ہی خطرے میں پڑجائے گا۔ آج Dukha قوم کی آمدنی کا سارا انحصار سیاحوں کی آمد پر ہے، جو ان لوگوں سے ان کی تیار کردہ بے مثال دست کاریاں خریدتے ہیں یا پھر اپنے تربیت یافتہ اور سدھائے ہوئے رینڈیئرز انہیں سواری کے لیے فراہم کرتے ہیں، جس کے بدلے میں انہیں اچھا خاصا معاوضہ مل جاتا ہے۔
اسی سے ان کی روزی روٹی چلتی ہے۔ ان لوگوں کی زندگی میں اگر رینڈیئر نہ ہوں تو یہ لوگ بھوکے مرجائیں، شاید اسی لیے Dukha قوم کو ’’رینڈیئر قوم‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ بعض لوگ انہیں ’’رینڈیئر پیوپل‘‘ بھی کہتے ہیں۔
Dukha لوگوں کی زبان ایک قدیم زبان ہے، جس میں متعدد مقامی زبانیں شامل ہوچکی ہیں۔ لیکن اب اس زبان کو بولنے والے لوگ نہیں رہے، پھر بھی لگ بھگ پانچ سو افراد یہ زبان بولتے ہیں جو سبھی شمالی منگولیا میں آباد ہیں۔
رینڈیئر پیوپل یا رینڈیئر قوم ہزاروں سال سے منگولیا کے شمال میں سرد برفانی جنگل والے دور دور تک پھیلے ہوئے علاقے میں آباد ہے۔ یہ سرد اور مہیب جگہ بے حد خاموش ہونے کے ساتھ ایک ایسی آسیبی تصویر پیش کرتی ہے جہاں رہنے کے خیال سے ہی ڈر لگتا ہے۔ اس جگہ کی خوب صورتی میں یہاں کا مقامی جنگلی پن نمایاں ہے، جن میں برف سے ڈھکے پہاڑوں کی چوٹیاں، گھنے جنگل، خطرناک چٹانیں اور عرصے سے منجمد برف کسی اور ہی جہان کی تصویر کشی کرتی ہے۔ اس علاقے کی سرحد سائبیریا سے ملتی ہے۔ رینڈیئر کے گلہ بان جنہیں مقامی زبان میں Tsaschin, یا Dukha کہتے ہیں، ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے آنے یا سفر کے لیے اپنے جانوروں (رینڈیئرز) پر انحصار کرتے ہیں۔
رینڈیئر کے بغیر ان کے لیے سفر کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ ان کی خوراک کی فراہمی کا ذمے دار بھی رینڈیئر ہی ہے جس کا دودھ یہ قوم استعمال کرتی ہے، اس دودھ سے پنیر اور دہی بھی تیار کیا جاتا ہے اور اس دودھ کو روایتی طریقوں سے خشک کرنے کے بعد مستقبل میں استعمال کے لیے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن 1970کے عشرے میں جب بیماری پھیلی اور رینڈیئر کی افزائش نسل بھی کم ہوئی تو Tsaschin کے گلوں کی تعداد جو پہلے 2000سے بھی زیادہ تھی، آج ایک تہائی تک کم ہوگئی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ Tsaschinلوگوں کا طرز زندگی خطرے میں پڑگیا۔
Totem Peoples Projectنیویارک کی ایک این جی او ہے۔ اس کے ایک رکن Daniel Plumley کا کہنا ہے:’’رینڈیئر صرف ایک جانور ہی نہیں ہے جو ٹائیگا کے لوگوں کو اپنی زندگی برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، بلکہ ان کے لیے سب کچھ ہے، ان کا دیوتا ہے، ان کے لیے زندگی ہے۔ یہ اس خطے میں اپنے کلچر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بغیر رینڈیئر یہ کلچر خطرے میں پڑجائے گا اور اپنا وجود ہی کھو بیٹھے گا۔‘‘
اپنی این جی او کے ذریعے Daniel Plumley رینڈیئر پر ریسرچ کے لیے فنڈز جمع کررہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ منگولیا کی حکومت کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ Tsachin کو ان کے 44خاندانوں سمیت تسلیم کرلے۔ واضح رہے کہ یہ منگولیا کا سب سے چھوٹا خانہ بدوش گروپ ہے۔ بلاشبہ یہ ایک منفرد وسوسائٹی ہے جسے سرکاری مدد اور سرپرستی کی ضرورت ہے۔ کسی زمانے میں رینڈیئر گلہ بانوں کو ریاست مالی امداد بھی دیتی تھی اور مویشیوں کے علاج معالجے کے لیے ہر طرح کی طبی سہولت اور تعاون بھی کرتی تھی، مگر 1990کے عشرے کے ابتدائی دور میں کمیونزم کے زوال کے ساتھ ہی یہ امداد بند ہوگئی۔
Daniel Plumley کا کہنا ہے:’’یہ ہم سبھی اور خاص طور سے Tsachin گروپ کے بھی مفاد میں ہوگا کہ یہ اپنے مخصوص علاقوں میں رہیں اور اپنا وجود بھی برقرار رکھیں۔ یہ صرف اس زمین کے گلہ بان ہی نہیں، بلکہ اس کے نگہ بان ہیں۔ یہ پودوں، موسموں اور جانوروں کے بارے میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور صدیوں سے رینڈیئرز کی دیکھ بھال اور خدمت کررہے ہیں۔ یہ لوگ جس تجربے کے حامل ہیں، اس سے اہل مغرب بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‘‘
دوسری جانب ماہرین کا یہ خیال ہے کہ Tsachin کا مستقبل زیادہ خطرے میں نہیں ہے، کم از کم یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ قوم ہی معدوم ہوجائے۔ منگولیا کی حکومت ان کی ہر طرح سے مدد کررہی ہے، ان کے ساتھ تعاون کررہی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ گلہ بانوں اور خانہ بدوشوں کی طرح ادھر ادھر گھومنے کے بجائے کسی جگہ باقاعدہ بستی بسا کر رہیں۔ آہستہ آہستہ رینڈیئرز کے گلے کم ہورہے ہیں۔ ان کے اطراف کی دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ بہت سے Tsachin بچے اب شہروں میں اسکولوں میں بھی جانے لگے ہیں، جہاں وہ تعلیم بھی حاصل کررہے ہیں۔ ان بچوں اور ان کے بڑوں نے اب ٹیلی ویژن بھی دیکھ لیا ہے اور اس کو پسند بھی کیا ہے۔ وہ جان چکے ہیں کہ اس کے ذریعے انہیں دنیا بھر کی معلومات گھر بیٹھے مل سکتی ہیں۔ رینڈیئر پیوپل کا سابقہ اب کنزیومرگڈز (اشیائے صرف) سے بھی پڑنے لگا ہے، وہ ان تمام چیزوں کی افادیت جان چکے ہیں۔
وہ یہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ ان کی خانہ بدوشی کی زندگی انہیں نقد رقم کی صورت میں کچھ بھی نہیں دے رہی یا اگر دے رہی ہے تو بہت کم اور نہ ہی یہ خانہ بدوشی انہیں سماجی اور معاشرتی ترقی کی طرف لے جارہی ہے، بلکہ اس طرز زندگی کی وجہ سے وہ اپنی ذات تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ایک بزرگ Tsachin کا کہنا ہے:’’مجھے اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں نوجوان ان برفانی جنگلات کو چھوڑ کر شہری زندگی کی طرف نہ چلے جائیں، مگر پھر بھی مجھ جیسے بڑے بوڑھے اپنی اسی پیاری سرزمین پر دم توڑیں گے۔‘‘
لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ وہ نئی دنیا اور اس کے تقاضوں کو سمجھیں اور خود کو ان میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ ماضی سے نکلیں اور جدید دور کی طرف آئیں۔ بے شک رینڈیئرز سے انہیں پیار ہوگا، مگر اب انہیں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے جدید دور کو اپنانا ہوگا، اسی صورت میں وہ اپنے اس پیارے جانور کو تحفظ بھی دے سکیں گے۔