آج جون کے تیسرے اتوار کو ’والد کا عالمی دن‘ منایا جا رہا ہے۔ ہمارے ایک پرانے شناسا ثمر بھائی کا اصرار تھا کہ ہم ان کے والد کی کہانی کو قارئین ایکسپریس تک پہنچائیں، سو ہم نے کوشش کی ہے کہ یہ حق ادا کر سکیں۔ یہ ایک خواب دیکھنے والے اور ایک مزدور باپ کے عزم وحوصلے کی داستان ہے، جو حالات کی وجہ سے خود تو نہ پڑھ سکا، لیکن اس نے اپنی اولاد کو پڑھانے کی ٹھانی تو اسے پایۂ تکمیل تک پہنچا کر ہی دَم لیا۔ یہ سچی کہانی آپ بھی پڑھیے، یقیناً آپ کو بھی کہیں نہ کہیں یہ کہانی اپنی محسوس ہوگی:
’’ہم نے انھیں بہ یک وقت محبت اور غصے کی انتہاؤں پر پایا۔۔۔ انھوں نے ہمیشہ ہی بہت بڑھ کر اور بہت زیادہ پیار کیا ہے، جب کہ غصہ بھی ان کا بہت شدید ہوتا تھا اور اب بھی ہوتا ہے، لیکن یہ صرف ڈانٹ ڈپٹ تک ہی محدود رہا، لیکن ہم پر ان کا خوف اور دبدبہ ٹھیک ٹھاک قائم کر دیتا تھا۔۔۔ حیرت ہمیں یہ ہے کہ اتنے شدید غصے کے باوجود انھوں نے ہمیں کبھی مارا نہیں، بلکہ ہم بہن بھائیوں میں سے کسی کو بھی نہیں مارا، وہ تو بس ایک بار چھوٹے بھائی پر ضبط کا یہ بندھن ٹوٹ گیا تھا اور یوں اُن کا ہمیں کبھی نہ مارنے کا اچھا خاصا ریکارڈ خراب ہوگیا۔۔۔
ان کے غصے اور پیار کی شدت ہی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر مخلص اور حساس طبیعت کے مالک ہیں، کبھی تو ہم نے یہ بھی محسوس کیا کہ وہ ہمیں ڈانٹ کر خود بھی روئے۔۔۔ ان کے خلوص اور حساسیت ہی کی وجہ سے دنیا نے ان سے بہت فائدے بھی اٹھائے اور وہ سادگی اور ’اپنائیت‘ کے نام پر اس کے لیے نچھاور ہوتے ہی چلے گئے، کیا اپنے اور کیا پرائے۔۔۔! اپنے ہر ایک تعلق کے لیے دست یاب اور بغیر سوچے سمجھے اور کسی صلے کی پروا کے بغیر اپنے کام چھوڑ کر اس کے لیے فدا ہو جانے والے۔ جس کے ساتھ ہوئے، اسی کے ہوگئے، اس میں بھی شدت تھی کہ جس سے ملتے نہایت تپاک سے ملتے اور اس پر دل وجان وار دیتے اور پھر جب کسی وجہ سے وہ دل سے اتر جاتا، تو بس پھر اس سے یک دم کنارا۔۔۔ سارا ناتا ہی بالکل ختم۔
وہ خود ایک بہت بڑے باپ کے بیٹے تھے اور ان کی مال ودولت کی سبب انھوں نے اسی حساب سے کھلے خرچے والی زندگی گزاری، دوست یاروں سے لے کر گھومنا پھرنا، کھانا پینا اور اس واسطے انھوں نے وسائل نہ ہونے کے باوجود ہمارے لیے بھی کبھی کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑی، جس پر امی نے ’فضول خرچی‘ کہہ کہہ کر روک لگائی اور زندگی کے آڑے وقت کے لیے پَس انداز کرنے کی ضرورت پر زور دیا، لیکن انھوں نے ’کل کی کل دیکھی جائے گی‘ جیسی سوچ پر زیادہ بھروسا کیا، ہمارے بچپن تک ان کا یہی طور طریقہ رہا۔۔۔ انھوں نے بالکل کھلے ہاتھ سے ہماری خواہشیں پوری کیں، امی کی زبان میں بے سوچے سمجھے خرچ کیا اور بقول امی کے کہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ ہم نے ہی ’عیش‘ کیے، ہم جب بھی ابو کے ساتھ باہر جاتے، خالی ہاتھ واپس نہیں آتے تھے، کیا کھانا پینا اور کیا کھلونے وغیرہ۔
ایسا نہیں تھا کہ ان کا کوئی کاروبار تھا یا وہ بہت اچھی ملازمت کرتے تھے۔ کاروبار تو کبھی کیا ہی نہیں، ملازمتوں کا سلسلہ بھی کچھ زیادہ اچھا یا مستحکم نہیں رہا، تاہم محنت مزدوری کا دورانیہ سب سے زیادہ رہا اور اس مشقت کے زمانوں میں بھی انھوں نے اپنی آمدنی کو ہاتھ کے ہاتھ ہی صرف اور خرچ کرنے کی عادت جاری رکھی، لیکن دھیرے دھیرے صورت حال تبدیل ہوتی گئی، جس کے بعد انھوں نے بھی اپنی روایت کو تبدیل کیا، اخراجات گھٹائے اور معاش کی مشکل ہوتی ہوئی جدوجہد سے نبردآزما رہے۔۔۔ اور اس کٹھنائی میں بھی انھوں نے ہمیں ہر خواہش پورا کرنے اور ’جو مانگو گے دوں گا‘ جیسی پیش کش برقرار رکھی اور ہم بھی اپنے بپچنے میں انھیں پلٹ کر گنواتے اور ’’طعنے دیتے‘‘ کہ دیکھیے آپ یہ کہتے تو ہیں، لیکن یہ نہیں کیا، اور وہ نہیں کیا وغیرہ وغیرہ۔ یہ ہمیں نہیں پتا تب ابو کو کیسا لگتا ہوگا۔۔۔ ظاہر ہے وہ ہماری ناسمجھی ہوتی تھی۔
ہم نے تو ہوش سنبھالتے ہی انھیں سخت مشقت کرتے ہوئے ہی پایا، کبھی کسی کارخانے میں کام کرتے، تو کبھی کسی کی دکان پر۔ پھر وہ اپنا کام گھر میں بھی لے آئے۔ وہ کام کیا تھا؟ وہ ’کٹ پیس‘ کا کام کرتے تھے، کارخانوں میں جو کترنیں اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی دھجیاں بچ جاتی ہیں اور کچرے میں پھینک دی جاتی ہیں، وہ۔ اس ’کچرے‘ کا اندازہ یوں بھی لگائیے کہ اس میں بعضے وقت سگریٹ کے ٹوٹے، تھوکی گئی چھالیا اور سپاریوں وغیرہ کی خالی تھلیاں بھی نکلتیں اور کبھی کبھی تو واضح طو رپر دکھائی دیتا کہ کارخانے کی کسی کاری گر نے اس میں پان یا گٹکے کی پچکاریاں بھی ماری ہوئی ہیں۔
وہ اس کی چھٹائی اور صفائی کرتے اور پھر اسے ضرورت کے مطابق کاٹا جاتا جس کے لیے باقاعدہ ایک لکڑی کی ایک مُڈی استعمال کی جاتی جو قسائیوں کی مڈی سے کافی اونچی ہوتی تھی، اس بڑی اور بھاری مڈی کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ گھر میں کم سے کم آواز پیدا ہو، پاس پڑوس کو شکایت نہ ہو، لیکن بالکل بازو کے ایک ہم سائے نے تو ابو کو باقاعدہ یہ دھمکی بھی دی تھی کہ وہ گھر میں ’’کمرشل‘‘ کام ہونے کی شکایت کرا کے یہ کام بند کرا دے گا اور وہ فلاں فلاں اخبار میں ہوتا ہے وغیرہ۔ حیرت کی بات ہے کہ آتشیں مزاج رکھنے والے ابو نے کیسے اس بدبخت کی بدمعاشی کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے۔
ستم تو یہ تھا کہ اس بدبخت نے اپنا ڈش اینٹینا ہمارے گھر کی چھت پر رکھوایا ہوا تھا ور ابو جب مڈی پر لوہے کا سُمبا رکھ کر اس پر ایک ڈنڈے سے ضرب لگاتے، تو اس کی آواز سے ہماری پرانی عمارت میں ارتعاش پیدا ہونے سے یہ ’ڈش اینٹینا‘ بھی لرزتا اور اُس کے ٹی وی پروگرام متاثر ہوتے، چناں چہ ابو پھر اس کے بتائے گئے اوقات کے مطابق کام کرنے لگے۔ کتنی دل چسپ بات ہے کہ اس بہ ظاہر خوش اخلاق، خاندانی اور خوش مزاج پڑوسی کا یہ واقعہ ہمیں بھی بہت بڑے ہو کر پتا چلا اور اس کے باوجود ہم نے اس سے راہ ورسم اور سلام دعا اسی طرح برقرار رکھی اور تو اور وہ ایک بڑے ادیب کا بیٹا تھا، بعد میں ان ادیب سے بھی ہماری بہت اچھی یاد اللہ ہوگئی تھی، جو ان کی زندگی کے آخر تک رہی۔
ہم نے تو شاید ان کے بیٹے کے اس تلخ واقعے کو کبھی یاد بھی نہیں کیا اور ان کے بزرگ والد کی خوب سیوا کرتے رہے، وہ بھی ہمیں بہت عزت دیتے تھے اورہم نے بھی کبھی ان کی عزت میں کمی نہیں آنے دی اور ہمیشہ انھیں اچھے نام ہی سے یاد کیا۔ اب ہم یہ سوچتے ہیں کہ اس نے ہمارے باپ کے ساتھ کیا کیا اور ہم نے ان کے باپ کے ساتھ کیا۔۔۔! وہ ایک بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ باپ کا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹا تھا، جب کہ میں ایک برائے نام خواندہ باپ کا بیٹا، جو صرف اپنا نام لکھنا جتنی قابلیت رکھنے کے باوجود یہاں ایک انگریزی اور اردو کی کئی کتابیں لکھنے والے ’نام وَر‘ باپ سے بہت زیادہ عظیم ثابت ہوا۔
گھر پر کام کا یہ سلسلہ جاری رہا، وہ کام کے تھیلے بھر بھر کر لاتے اور لے جاتے تھے، بھاری بھرکم وزن سے وہ بری طرح ہانپ جاتے، کئی بار ایسا بھی ہوا کہ ابو بس میں سامان لاتے لے جاتے ہوئے گر بھی گئے اور ان کے گھٹنے پر گہری چوٹیں بھی لگیں۔ وزن اٹھا کر لانے کا یہ کام وہ تقریباً بیماری کا عُذر ہونے تک کرتے رہے۔ آج بھی الحمدللہ جتنا ممکن ہو کچھ نہ کچھ کام کرنے کی جستجو کرتے ہیں
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج کے دور میں بھی شاید کم ہی باپ ایسے ہوں گے، جو اپنے بیٹے کے ایسے دوست ہوں گے، جیسے وہ ہمارے ہیں۔ پچھلے زمانوں میں تو اس کا تصور ہی نہیں تھا، وہ بھی اکثرکہتے ہیں کہ ہم اپنے باپ سے تو ایسا نہیں کرتے تھے، تم ایسے کرتے ہو، تو ہم اُن سے یہی کہتے ہیں کہ آپ نے ہمیں اتنی آزادی اور اتنی بے تکلفی دی ہے، تو اب ہمارے درمیان اتنا کھلا ڈلا سا تعلق تو قائم ہونا ہی تھا۔
ان سے کچھ کہنا ہو، کچھ منوانا ہو، کھانے پینے کی احتیاط کروانی ہو، جیسا بھی ہو وہ ہماری بات مانتے ہیں، امی بھی ایسی کوئی بات ہو، تو ہم ہی سے کہتی ہیں کہ دنیا میں شاید ہم ہی واحد فرد ہیں، جس کی انھیں ہر بات ماننی ہوتی ہے، جس کے ردعمل میں کبھی غصہ اور ڈانٹ بھی ہمارے حصے میں آ جاتی ہے، لیکن جیسے ہی ان کا موڈ اچھا ہوتا ہے، ہمارا آپس کا ماحول پھر خوش گوار ہوجاتا ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے اپنے روزمرہ کے مسئلے مسائل کا ذکر کرتے ہیں، بہت سے سماجی اور کبھی سیاسی معاملات پر اختلاف رائے بھی بڑا شدید ہو جاتا ہے۔ ہم بحث کرتے ہیں، کوئی دلیل دیتے ہیں، جو کبھی ان کے موافق نہ ہو تو بحث اختلاف ہی پر ختم ہو جاتی ہے، لیکن موقف پر ہم دونوں قائم رہتے ہیں۔
ابو اکثر اس بات پر افسوس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ انھوں نے بہت عیش میں زندگی گزاری، لیکن وہ ہمیں ویسی اچھی زندگی نہیں دے سکے، یا انھیں ہمارے لیے بہت کچھ کرنا چاہیے تھا، جس پر ہم انھیں یاد دلاتا ہوں کہ وہ ایک کروڑ پتی باپ کے بیٹے تھے، اس لحاظ سے ان کا وہ ’عیش کرنا‘ کوئی زیادہ بڑی بات نہیں، لیکن میں ایک ’مزدور‘ اور محنت کش باپ کا بیٹا ہوں، جسے اس کے باپ نے اپنی بساط سے کہیں زیادہ بڑھ کر عیش کرایا ہے۔ اس لحاظ سے آپ کا دادا سے کوئی موازنہ بنتا ہی نہیں۔ دادا بہت تعلیم یافتہ اور ’جمے جمائے‘ کاروباری آدمی تھے، انھوں نے اپنی زندگی میں شاید اس کی آدھی جدوجہد بھی نہیں کی ہوگی، جتنی آپ نے ہمارے لیے کی ہے۔
اگر ہم یہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ انھوں نے سخت مشقت میں اپنی صحت کی بھی پروا نہیں کی۔ ہم نے انھیں رات رات بھر کام کرتے ہوئے تو خود دیکھا ہے۔۔۔ کبھی نہ جانے کس بات پر نیند نہ آئی تو وہ اٹھے اور باہر آکر اپنا کام کرنے لگے، ساتھ میں سگریٹ پر سگریٹ بھی پُھونکتے گئے۔ اور جب کوئی جلدی کا ’آرڈر‘ ہوتا، تب تو دانستہ رات کو دیر تک جاگتے، ایسے میں ظاہر ہے سگریٹ زیادہ ہی پیتے ہوں گے، جو ان کی صحت کی خرابی کا باعث بنا۔ ایک دن تو ایسا ہوا کہ گھر میں چکرا کر گر پڑے، سر پر چوٹ لگی، الحمدللہ کوئی ایسی پریشانی کی بات نہ ہوئی، جلد اچھے ہوگئے۔ لیکن یہ خرابی صحت کے باعث پہلی بار ایسی نوعیت سامنے آئی۔ پھر وقت کے ساتھ دیگر عارضے بھی لاحق ہوگئے، جو کسی نہ کسی طرح ان کی اس بے رحمانہ مشقت ہی کا نتیجہ ہیں۔
گھر میں تربیت اور بہت سے اصولوں کا ’محکمہ‘ ہماری امی کے پاس رہا، لیکن اس کے باوجود ہماری پڑھائی کے حوالے سے وہ ہمیشہ فکر مند رہے کہ کسی طرح ہم کچھ بن جائیں اور کم سے کم وہ تکالیف اور پریشانیاں تو نہ اٹھائیں، جس سے ان کو واسطہ پڑتا رہا ہے۔ خود تعلیم کے مسائل کو اتنا نہیں سمجھتے، تو اپنے کاروباری احباب سے مشورے لیتے، ان کا یہ عزم اس قدر آہنی تھا کہ کہتے کہ خود کو بیچ دوں گا، لیکن تم لوگوں کو پڑھاؤں گا۔ ہمیں یاد ہے کہ ابتدائی کسی کلاس میں ’ضرب تقسیم‘ کے سوالات حل کرتے ہوئے انھوں نے ہمیں کیلکولیٹر کی مدد سے صحیح جواب بتایا کہ دیکھیے اس کو ضرب کریں گے، تو یہ جواب اور تقسیم کریں گے تو یہ جواب ہوگا۔
دوسری طرف ہماری حالت یہ تھی کہ جیسے تیسے ہمارا میٹرک ہو گیا، لیکن ابو نے ہمت نہیں ہاری اور ہمیں مجبور کر دیا کہ ہم کالج میں داخلہ لیں، لہٰذا ہم نے کالج میں داخلہ لینے کی جستجو کی۔ یہ ابو کی پڑھائی کے حوالے سے تشویش اور خصوصی توجہ ہی تھی کہ انھوں نے سیکینڈری کلاسوں میں کئی بار ’پارٹ ٹائم‘ پر کام کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا۔ اس کے لیے ان کا ہمیشہ ایک جواب ہوتا تھا کہ ’میٹرک کے بعد!‘ انھیں بہت خوف تھا کہ اگر کہیں یہ نوکری وغیرہ کے چکر میں لگ گئے تو پڑھائی سے نہ جائیں۔
کبھی کوئی اپنا کام ہوتا تو بہت مجبوری میں کہتے، وہ بھی جب کہ ہماری چھٹیاں ہوتیں یا ہمیں فرصت ہوتی۔ کبھی تو ہم خود کہہ کہہ کر کام لیتے اور شوق شوق میں ہلکے پھلکے کچھ کام کرلیتے۔ دوسری یہ بات ان کی بالکل درست تھی کہ میٹرک میں اچھے سے اچھے نمبر آنے چاہئیں، وہ تو اچھے نہیں آسکے، لیکن پھر چل سو چل، آگے کی پڑھائی اور والدین کی دعاؤں نے ہماری قابلیت کا بھرم رکھ لیا۔ تھوڑی بہت دھینگا مشتی کے بعد زندگی آگے بڑھ رہی ہے اور ابو کی اتنی خواہش تو ضرور پوری ہوئی، ہمیں یاد ہے اسکول ہی کے زمانے میں انھوں نے ہمیں دو مہینے کی چھٹیوں میں گھر کے بجلی بلوں کو ترتیب وار فائل میں لگوانے کو کہا اور شاید اس میں ہمارا کوئی سلیقہ دیکھ کر خوش اور مطمئن ہوئے۔
تاہم یہ ضرور ہوا کہ ہم نے کوئی بھی نوکری خود ہی سے کی، یا یوں کہیے کہ ابو نے کبھی نوکری کرنے کی جانب بھیجا ہی نہیں۔ ہم نے ہمیشہ ازخود ہی ہاتھ پاؤں مارے اور کبھی کچھ مل گیا اور کبھی دیر سے ملا، لیکن آج تک ان کی خواہش یہی ہے کہ ہم بھلے کوئی کام نہ کریں اور وہ صبح سے لے کر رات تک کام کریں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ انھیں صحت وعافیت کے ساتھ رکھے، آمین۔‘‘
The post ’’یہ بات سچ ہے مِرا باپ کم نہیں ماں سے۔۔۔!‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.