سیب کا ذکر بہت سی ثقافتوں کی دیومالائی کہانیوں اور قدیم کتابوں میں موجود ہے۔
سیب ایک خوشنما، خوشبو دار اور لذیذ پھل ہے یہ مختلف رنگوں اور ذائقوں کا ہوتا ہے ۔ دنیا میں یہ سب سے زیادہ درخت پر کاشت ہونے والا پھل ہے۔ اس کا درخت مغربی ایشیا میں شروع ہوا۔ایک اندازے کے مطابق اس کی ابتدا کا مرکز مشرقی ترکی ہے جب کہ اس کے پھل میں ہزاروں سالوں میں تبدیلی آئی ہے ۔ سکندر اعظم کے قازقستان کے سفر میں 328 قبل مسیح میں سیب کا ذکر ملتا ہے۔ لفظ سیب سنسکرت لفظ ‘‘ سیو ’’ سے ماخوذ ہے۔ سیب کی 2005 میں دنیا بھر میں کم از کم پیداوار55 لاکھ ٹن تھی جس کی مالیت تقریباً 10 ارب ڈالر ہے۔
سیب کو اکثر کچا کھایا جاتا ہے مگر اس کا استعمال بہت سے کھانے کی اشیاء خاص طور پر میٹھے مربہ جات اور مشروبات میں بھی ہوتا ہے۔ سیب کھانے سے صحت پر بہت سے مفید اثرات پائے جاتے ہیں جبکہ بیج قدرے مضر صحت ہیں۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور قومی آمدنی میںزراعت کاکردار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کیوں کہ ملکی صنعت کا انحصار زراعت کے فروغ اور ترقی پر منحصر ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ فروغ زراعت ہی اصل میں ملکی ترقی کا ضامن ہے، تو بے جا نہ ہوگا۔ ملک کی دیہی آبادی کے تقریباً70 فی صد لوگ اس پیشہ سے منسلک ہیں اور قومی آمدنی کا تقریباً 25 فی صد زراعت کے مرہون منت ہے۔
اس پیشے کا دائرہ کار صرف فصلوں اور باغات تک محدود نہیں بل کہ افزائش حیوانات، ماہی گیری اور زمین و آب بھی اسی میں شامل ہیں۔ باغ بانی ایک قدیم مشغلہ اور پیشہ ہے جو ہر دور میں ایک خاص اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یوں تو ہر پھل غذائیت اور لذت کے اعتبار سے منفرد اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور ہر ایک پھل میں اللہ پاک نے ایک خاص قسم کی تاثیر رکھی ہوئی ہے۔ مثلاً کیلا اور سیب کھانے سے انسان میں پوٹاشیم کی کمی دور ہوجاتی ہے اور ہائپر ٹینشن سے نجات ملتی ہے۔ تربوز، خربوزہ اور گرما انسانی جسم میں پانی کی مقدار کو برقرار رکھتے ہیں۔ کھجور میں نشاستہ اور شکر کے ساتھ ساتھ معدنی اجزاء کی کافی مقدار پائی جاتی ہے اور یہ بہت ہی قوت بخش پھل ہے۔ باغات پاکستان کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔
ان میں آم، مالٹا، آڑو، آلوبخارہ،سیب،آملوک، ناریل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ہر پھل علاقائی آب وہوا کا متحمل ہوتا ہے اور اسی علاقہ ہی میں بہتر پیداوار اور معیار کا ضامن بھی ہوتا ہے۔ سیب کو ہی لے لیں، اس کے لیے سرد علاقے کا ہونا نہایت ضروری ہے۔کوئٹہ کے علاقہ اس کی پیداوار کے لیے مثالی پیداوار ی ماحول رکھتا ہے۔
پاکستان میں سیب کی کاشت خاص طور پر بلوچستان اور چین سے متصل علاقوں میں کی جاتی ہے۔ سیب سال بہ سال رہنے والا پھل ہے۔ اور اس کی بہت سی اقسام جو مختلف سائز اور رنگ کی ہوتی ہیں جو اگائی جاتی ہیں۔ سیب کے پودے سیڈلنگ یا سکرروٹ پر اگائے جاتے ہیں جس سے پودے زمین اور موسمی حالات سے مطابقت کر جاتے ہیں۔
مون سون کے موسم کے دوران ٹی۔بڈنگ کے طریقے سے بھی کاشت کی جاتی ہے۔برسات کا ہونا پھل کی تیاری میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے بالخصوص سیب کے باغات کے لیے جہاں آب پاشی کا کوئی اور طریقہ موزوں نہیں ہوتا۔ یوں تو سیب کے درخت مختلف اقسام کی زمین پر لگائے جاتے ہیں لیکن بہتر نکاسی آب کا صحیح انتظام والی زرخیز زمین سیب کے باغات کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ زمین کا نکاسی آب کا مستقل انتظام سیب کی فصل کے لیے بہت ہی ضروری ہے۔ یہ پھل آزادکشمیر کے علاقوں میں بھی پیدا ہوتا ہے۔خطہ آزادکشمیر کاضلع باغ جو کہ سیب کی کاشت کی وجہ سے شہرت کا حامل ہے اور بین الاقوامی معیار کے سیب کی پیداواری صلاحیت بھی رکھتاہے مگر اب اس علاقے کی پیداواری صلاحیت میں کمی آچکی ہے۔
اس کی واحد وجہ زمین کی گرتی ہوئی زرخیزی ہے جو ہمارے کسان بھائیوں اور زراعت کے سرکاری اور نیم سرکاری اہل کاروں کی عدم توجہ کا نتیجہ ہے۔اس کا منہ بولتا ثبوت سیب کی پیداوار میں کمی اور غیر معیاری پیداوار ہے جس کا اندازہ زمین کے تجزیہ اور پیداوار کی قیمت جو مارکیٹ سے کسان وصول کرتے ہیں سے، بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔
سال 2011 میں آزاد کشمیر کے ضلع باغ میں سیب کے زیر کاشت رقبے کا ایک سروے کیا گیا تھا جس میںزمین اور سیب کے پتوں کے نمونے حاصل کر کے ایک مرتب پروگرام کے تحت ان کا تجزیہ کیا گیا تھا۔مٹی اور پتوں کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق یہ بات سامنے آئی تھی کہ زمین میں دستیاب خوراک کے اجزاء میں خاطر خواہ حد تک کمی آچکی ہے ۔
آزادکشمیر کے ضلع باغ میں سیب کے پتوں میں موجود خوراکی اجزاء کی مقدار:۔
زمینی تجزئے کے مطابق اس خطے کی زمین میں سوفی صد نائٹروجن، اسی فی صد فاسفورس اورچالیس فی صد پوٹاشیم کی کمی آچکی ہے۔ اس کے علاوہ عناصر صغیرہ جن میں لوہا (Fe)، جست (Zn) ،بوران (B) اور تانبہ(Mn) سہر فہرست ہیں، مزید برآںسیب کی پیداواری صلاحیت اور معیار میں کمی کا ایک ثبوت پتوں میں ان خوراک کے اجزاء کا مطلوبہ مقدار کا کم پایا جانا بھی ہے۔
چونکہ پتے ہی پودوں کا وہ حصہ ہوتے ہیں جہاں نہ صرف پودے اپنے لئے خوراک تیار کرتے ہیں بل کہ ہمارے لئے پھل بھی بناتے ہیں۔ پودوں کی خوراک کے اجزاء کا مطلوبہ مقدار کی کمی کا مطلب یہی ہے کہ یہ پودے کی نشوونما کے لیے ناکافی ہیں اور ان کی مطلوبہ مقدارکا پودوں میں موجودہونا ہی زیادہ پیداوار کا ضامن ہے۔ان اجزاء کی نہ صرف پودوں میں بل کہ زمین میں بھی خاطرخواہ حد تک کم ہو چکی ہے اور یہ بات فوری توجہ طلب ہے۔
زمین میں سیب کے زیر کاشت غذائی عناصر کی خطرناک حد تک کمی کے اسباب کی زمین میںنامیاتی اور غیر نامیاتی کھادوں کے استعمال میں کمی شامل ہیں۔چوں کہ پودوں کی جڑوں کے حد پھیلاؤ تک جو خوراکی اجزاء ہوتے ہیں وہ پودوں کی صحت کے لیے دو یا تین سال کیلئے کافی ہوتے ہیں اور اس کے بعد خوراکی اجزاء کے ذخائر میں بتدریج کمی آنا شروع ہو جاتی ہے۔
زمین میں مختلف خوراکی اجزاء کی دستیاب مقدار ۔
زمین میں غذائی عناصر کی کمی کو کیمیائی یا دیسی کھادوں سے پورا نہ کیا جائے تو نہ صرف سیب کے پودوں کی صحت متاثر ہوتی ہے بل کہ ان کی پیداواری صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔پودوں کی پیداوار میں کمی کے ساتھ ساتھ پھل کی کوالٹی بھی متاثر ہوتی ہے۔جس سے پودے مختلف ا قسام کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اورساتھ ہی کیڑے مکوڑوں اور بیماریوں کے ہلکے سے حملے کی وجہ سے بری طرح متاثر بھی ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو پودے سوکھ تک جاتے ہیں۔ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے چند ایک سفارشات پیش خدمت ہیں جن کو بروئے کار لاکرنہ صرف متاثرہ باغات کو بحال کیا جا سکتا ہے بل کہ پودوں کی پیداواری صلاحیت کو بھی برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
سفارشات
۱۔خشک شدہ شاخیں تراش دیں۔
۲۔ فروری میں جب درجہ حرارت بہتر ہو جائے تو ہر پودے کے تنے کے گرد
زمین میں گوڈی کر کے ان تمام کھادوں کو مٹی میں اچھی طرح مکس کر دیں۔
۳۔ جب سیب کے پودے پر پھول سے پھل بننے کا عمل شروع ہو تو اس وقت امونیم سلفیٹ اور پوٹاش کھادبہ حساب ایک ایک پاؤ فی پودا زمین میں ڈال کر مکس کر دیں۔
۴۔جب پودے پر پھل لگنا شروع ہو تو اس وقت زنک سلفیٹ (3 گرام)،آئرن سلفیٹ (3 گرام) اور پوٹاش(8 گرام) ایک لیٹر پانی میں حل کر کے سپرے کریں۔اس میں اگر جست،تیلے یا لیف مائینر کا حملہ ہو تو کرم کش دوا ڈال کر ساتھ ہی سپرے کریں۔
۵۔ اگر پودوں میں کوئی بیماری ، خوراکی اجزاء کی کمی یا کیڑے مکوڑوں کا حملہ ہو تو زرعی ماہرین کے مشورے سے سپرے کریں۔
امید ہے ان تجاویزپر عمل کر کے کسان بھائی اپنے باغات کو مذید تباہ ہونے سے بچا سکتے ہیں اور اس سے منافع بخش پیداوار حاصل کر سکتے ہیں۔