قسط دوئم
اندلس کا سفر
سات جولائی 2018 کی سہ پہر کو اشبیلیہ سے قرطبہ کے لیے کار میں روانہ ہوئے۔ دریائے وادی الکبیر کے کنارے سے گذرے، دریا میں کشتی رانی کے مقابلے ہو رہے تھے۔ ایک ہزار سال پہلے قرطبہ مسلم اندلس کا دارلحکومت تھا۔ قرطبہ 711 عیسوی میں اموی دور کے بربر سپہ سالار طارق بن زیاد نے رومن افواج کو شکست دیکر فتح کیا۔ یہ شہر وادی الکبیر میں سے گذرتے دریا قوائد الکبیر کے کنارے پر واقع ہے۔
فتح کے بعد قرطبہ اموی سلطنت کا حصہ تھا، جس کا دارالحکومت دمشق تھا۔ دمشق بازینطینی سلطنت کا ایک اہم ترین شہرتھا۔ دمشق کو 634 عیسوی میں خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کے دور میں حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں اسلامی فوج نے فتح کیا تھا۔ دمشق کی شکست کے بعد بازینطینی بادشاہ ہرکولیس نے ایک بڑی فوج اکٹھی کی اور 636 عیسوی میں یرموک کے مقام پرتاریخ کا ایک بڑا معرکہ ہوا۔ یہ جنگ تاریخ کی بڑی جنگوں میں شمار ہوتی ہے کہ اس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔
دریائے یرموک کے کنارے حضرت خالد بن ولید کے چالیس ہزار کے لشکر نے ڈھائی لاکھ کے بازینطینی رومن لشکر کو عبرتناک شکست دی۔ اس فتح کے بعد شام، فلسطین، بیت المقدس پر مسلم حکومت کی بنیاد پڑی۔ اموی دور میں اسلامی حکومت کا دارلخلافہ دمشق منتقل ہوگیا تھا۔
عیسوی سال 750میں عباسیوں نے امویوں کو شکست دے کر اپنی خلافت قائم کی۔ فتح کے بعد پہلے عباسی خلیفہ ابوعباس السفاح نے اموی خاندان کو کھانے پر بلایا اور وہاں ان تمام کو قتل کردیا، صرف ایک نوجوان عبدالرحمن وہاں سے جان بچا کر بھاگا۔ سفاح کا نام اُسکی سفاکی کی بنا پر دیا گیا تھا۔ عبدالرحمن نے اندلس کا رخ کیا اور یہاں ایک خودمختار اموی حکومت کی بنیاد رکھی جس کا دارالخلافہ756 عیسوی میں قرطبہ ٹھہرا۔ تاریخ میں وہ عبدالرحمن اول کے نام سے جانا جاتا ہے۔
وہ دورجب تمام یورپ جہالت کے اندھیرے میں تھا، قرطبہ اپنی تقریباً دس لاکھ کی آبادی کے ساتھ علم و ہنر، تہذیب و تمدن اور مذہبی رواداری کا نمونہ تھا۔ یہودی اس شہر کی آبادی کا ایک اہم جزو تھے۔ آج بھی قرطبہ کا یہودی اورعرب رہائشی علاقہ اپنی گلیوں، سفیدی شدہ مکانوں، پھولوں سے لدی بالکنیوں، صحنوں میں بنے حوضوں اور فواروں سے اپنے ماضی کی ایک جھلک دکھاتا ہے۔
یہ یورپ کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر تھا۔ نیز یہ یورپ کا پہلا شہر تھا جس کی گلیوں میں رات کو روشنی کا بندوبست تھا اور گھروں کے اندر آب رسانی کا باقائدہ انتظام تھا۔ قرطبہ یورپ کے تاریک دور میں تعلیم کا روشن مرکز تھا، 80 سے زیادہ لائبریریاں اور مدرسے طب، فلسفہ، فلکیات، سیاست، نظامِ ریاست پر تعلیم دے رہے تھے۔ کہہ جاتا ہے کہ قرطبہ کی بڑی لائبریری میں چار لاکھ سے زیادہ ہاتھ سے لکھی کتب تھیں۔
یہاں یورپ کی پہلی یونیورسٹی قائم ہوَئی تھی۔ یورپ کو یونانی فلسفیوں کی تحاریر سے روشناس کرانے میں مسلم اندلس کا ایک بڑا ہاتھ ہے۔ مسلمانوں کی آپس کی لڑائیوں نے قرطبہ کی حیثیت کو متاثر کیا۔ 1031 عیسوی میں اموی خلافت کا سپین میں خاتمہ ہوا، اور اب اشبیلیہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہو گئی۔قرطبہ کے عظیم فرزندوں میں ابن الحزم اورابن رُشد کا نام آتا ہے۔ ابن الحزم994 عیسوی میں قرطبہ میں پیدا ہوئے۔ وہ عالم، فلسفی، ریاضی دان، شاعر اور قانون دان تھے۔ انہیں تقابلِ ادیان کے مضمون کے بانی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انہوں نے 400 سے زیادہ کتابیں لکھیں۔
تاریخ میں قرطبہ کا ایک اور بھولا بسرا نام ابو القاسم عباس بن فرناس ہے جو کہ ایک موجد، شاعر، حکیم، ماہر فلکیات اور موسیقار تھے۔ وہ بربر النسل تھے اورچاند پر دریافت شدہ ایک دھانہ انکے نام پر ہے، جبکہ قرطبہ میں دریا قوائد الکبیر کا ایک پل بھی ان کے نام پر ہے۔ ابن فرناس کی ایجادات میں آبی گھڑی، مختلف فلکیاتی آلات جو ستاروں کا مقام اور انکی حرکت بتاتے تھے، بصارت کے عدسے اور معدنی دھاتوں کو کاٹنے کے آلات شامل ہیں۔
875 عیسوی میں ابن فرناس نے سلک اور لکڑی کے پر بنا کر پرواز کی کوشش کی۔ اس کے بارے میں دو مختلف واقعات بیان کیے جاتے ہیں؛ ایک کہ انہوں نے مسجد کے مینار سے پرواز کی اور دوسری کہ قرطبہ کے باہر واقع پہاڑ جبل العروس سے انہوں نے پرواز کی اور تقریباً دس منٹ تک ہوا میں گلائیڈ کرتے رہے۔ مگر اترتے ہوئے وہ شدید زخمی ہوئے۔ انکی اس کوشش کے صدیوں بعد ایک ترک مسلمان احمد جلبیی نے1630 یا 1632 میں باسفورس کو گلائیڈ کر کے عبور کیا تھا۔
یہ سفر ایک وادی کا سفر تھا، سڑک اوپر نیچے جا رہی تھی۔ قرطبہ کے شہر کے قریب اترائی کا سفر تھا۔ راہ میں زیتون کے وسیع و عریض باغات تھے۔ زیتون چھوٹا سا جھاڑی کی طرح کا درخت ہے، اور پھل ایسا کہ الہامی کتاب مں ذکر آیا۔ زیتون اسیپن کی پہچان ہے اور وہاں سے دنیا بھر کو برآمد ہوتا ہے۔ وادی میں وسیع میدان تھے، فصل کٹی تھی، سو ہر طرف زرد رنگ نمایاں تھا۔ سورج مکھی کے پھولوں کی فصل تیار تھی۔
چشم تصور نے صدیوں قبل شاہسواروں کو اس وادی میں گھوڑے دوڑاتے دیکھا، معرکے لڑتے، بہادروں کو دفناتے، بہتے پانیوں سے وضو کرتے، قبلہ رو سر بسجدہ ہوتے۔ وادی خوبصورت ہے، اس میں بکھری یادیں خوبصورت تر ہیں۔
قرطبہ میں ویب سائٹ سے ایک اپارٹمنٹ بْک کروایا تھا۔ ڈھونڈتے وہاں پہنچے۔ ساتھ کی گلی کا نام گلی یوسف تھا۔ سو پتا چلا کہ قرطبہ میں مسلمان تو نہ رہے مگر نام اور نشان جابجا باقی ہیں۔ اپارٹمنٹ پہنچے تودیکھا کہ دروازہ کھول کر ایک نشست گاہ ہے جس کے کونے میں ایک کچن ہے، ایک دروازہ وہیں سے ٹوائلٹ میں کْھلتا ہے اور دوسرا دروازہ ایک کمرہ میںکھلتا ہے جس میں اوپر نیچے دو بیڈ ہیں۔
دو دن کے قیام کے لیے اپارٹمنٹ ٹھیک تھا۔ علاقہ متوسط طبقے سے کمتر معیار کا نظر آتا تھا۔ زیادہ تر گھر، اپارٹمنٹ ایک منزلہ ہی تھے۔ گلی گو بہت چوڑی نہ تھی مگر دونوں جانب کچھ فاصلے کے بعد درخت لگے تھے۔ شام کو لوگ گلی میں کرسیا ں ڈال کر بیٹھے رہتے تھے، گپ شپ چل رہی تھی، گرمی سے بھی کچھ بچاو ہو رہا تھا اور سب سے بڑھ کر تنگ گھر سے نکل کر کچھ وسعت کا احساس بھی ہو پاتا۔ مسافر کے ذہن میں اندرون لاہورکی گلیوں کا منظر تھا یا پرانی انارکلی میں واقع وہ قدیم احاطہ جہاں اْس نے بچپن کا کچھ وقت گذارا تھا۔ چھوٹے چھوٹے کمرے احاطے کے اردگرد تھے کہ شام کو سب لوگ نکل کر احاطے مں آجاتے تھے۔ درمیان میں ایک پُرانا کنواں تھا جس کا پانی عرصہ ہوا ختم ہو چکا تھا۔
مسافر انارکلی سے واپس قرطبہ آگیا۔ ایک عورت کو دیکھا جو گھر کی نشست گاہ میں ٹی وی لگا کر باہر گلی میں کرسی پربیٹھ کر اندر کی جانب دیکھ رہی تھی۔ جبکہ ہمارے اپارٹمنٹ کے ساتھ کے دروازے کے باہر ہوا سے بھرے ٹوٹب کے چار پانچ فٹ کے گول سوئمنگ پول میں ایک چھوٹی بچی پانی سے کھیل رہی تھی۔ سوئمنگ پول کے ساتھ ہی اس کی ماں ایک کرسی پربیٹھی تھی۔ ماں کے جسم پر کئی ٹیٹو بنے ہوئے تھے اور وہ مسلسل سگریٹ کا دھواں اْگل رہی تھی۔
گلی ِ یوسف جہاں اب کوئی اْس نام کا نہ تھا، دھواں اگلتی ماں، پانی میں کھیلتی بچی کی ہنسی، پرانی انارکلی کا احاطہ، قرطبہ کی فضا میں پھیلی اداسی۔۔۔۔ مسافر کے اندر بہت کچھ گڈ مڈ تھا اوراْسکی آنکھوں کے سروں پر نمی تھی۔
نمی ؟ یا شاید، شاید نہیں بلکہ شاید وہ اْس بچی کا ہنستے ہوئے اچھالا پانی تھا، مسافر کو کچھ علم نہیں۔ قرطبہ کی فضا میں تو کچھ ہے، کچھ ان کہا، کچھ کہتا ہوا، کچھ بھی نہ کہتا ہوا بس ساتھ چمٹ جاتا ہے۔ بوجھ جسم ہی اٹھاتا ہے؟ بوجھ تو روح بھی اٹھاتی ہے۔ اور روح کا بوجھ اتارا نہیں جاسکتا، چمٹ جاتا ہے ہمشہ کی لئے، پیووند لگے پیڑ کی مانند، اپنے پھول کِھلاتا، اپنا پھل دیتا۔
سامان رکھا اور قرطبہ کے اندرون شہر کو نکل پڑے۔ پرانے شہر کی تنگ گلیوں میں پھرے۔ ایک گلی اب بھی کسی اعلی مرتبت کے نام پر المنظور تھی۔ باسی نہ رہے مگر نام کی صورت اپنی باس چھوڑ گئے۔ چلتے چلتے قرطبہ یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کی عمارت دیکھی۔ یہ شعبہ قرطبہ کے اندرون شہر میں واقع ہے جبکہ باقی شعبہ جات دوسرے علاقوں میں ہیں۔
اس شہر کے ایک فرزند نے فلسفہ میں ایسا نام پیدِا کیا کہ اندرون قرطبہ فصیل پر نصب اس کا مجسمہ آج بھی ہر آتے جاتے کو اس کی یاد دلاتا ہے۔ 1126 مں قرطبہ میں ابو الولدو محمد بن احمد بن رشد القرطبی الاندلسی پیدا ہوئے۔ مسلم دنیا آج انہیں ابن رشد کے نام سے جانتی ہے، جبکہ مغربی اقوام انہیں Averroes کے نام سے پکارتی ہے۔
ابن رشد ایک فلسفی، ماہر فلکیات، ریاضی دان، طبیب، قاضی، زبان دان اور مذہبی سکالر تھے۔ انہوں نے یونانی فلسفی ارسطو کے فلسفے پر بحث کی اور کئی کتابیںں لکھیں۔ اسلامی دنیآ اور بعد میںیورپ کو ارسطو سے اْن کی تحاریر نے روشناس کرایا۔ اس کے علاوہ افلاطون کی کتاب “ری پبلک” پر بھی انہوں نے تحقیقی کام کیا۔ کتاب ری پبلک 380 قبلِ مسح میں لکھی گئی تھی، جس مں افلاطون نے عدل، انتظام، ریاست اور فرد کے کردار پر بات کی ہے۔
یہ فلسفے اور سیاسی نظریے پر تاریخ اورانسانی فہم کا ایک بہت بڑا کام تھا، اور ابن رشد نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ ابن رشد نے فلسفے اور شریعت مں تعلق پر کام کیا۔ ان کے نزدیک اسلامی احکامات فلسفے کی رو سے قابلِ بحث ہں ،یہ دین کے ماہرین خصوصاً امام غزالی کی تعیلماْت سے مختلف تھا۔ ابن رشد نے وحی اور منطق کے تعلق کی بات کی۔انکی تصنیفات کی تعداد کا حتمی علم نہیں کیونکہ انکی کتب کو جلا دیا گیا تھا۔ فرانسیسی محقق ارنسٹ ریناں کے مطابق انہوں نے 67 کتابیں لکھیں جن مں 28 فلسفے پر، 20 طب پر، 8 علمِ قانون پر ، 5 علمِ مذہب پر اور 4 علمِ زبان پر تھیں۔ گمان ہے کہ انکی تحریر کردہ کُتب کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے۔ یورپ میں پڑھائے جاتے وقت ابن رشد کے تحریروں پر کیتھولک چرچ نے بھی اعتراض کیا تھا۔
اندلس کی سرزمین کا ایک اور بڑا نام ابن عربی ہے۔ ابن عربی ایک صوفی، شاعر اور فلسفی تھے جو 1165 عیسو ی میں اندلس مں پیدا ہوئے۔ محی الدین یعنی جس نے دین کا احیا ء کیا۔ انہوں نے 800 سے زیادہ کتابیں تحریر کیں۔ ان کی کتاب فصوص الحکم تصوف پر ایک اہم ترین کتاب شمار ہوتی ہے۔
قرطبہ یورپ میں علم و ہنر کا سب سے بڑا مرکز تھا۔1236 عیسو ی میں قرطبہ شکست کے بعد عیسائی اسپین کا حصہ بن گیا۔ اْس شہرِ بیمثال نے پھر لوٹ اور تباھی کا دردِ بے کراں سہا۔ تاریخی عمارتیں تباہ کر دی گئیں ، حسین نقش و نگار لوٹ لے گئے، لائبریریاں جلبادی گئیں، مسلم اوریہودی آبادیوں کو قتل کر دیا گیا پھر مذہب کی تبدیلی پر مجبور کردیا گیا۔
آج اگر کوئی عمارت باقی ہے تو وہ مسجدِ قرطبہ ہے؛ وہ جس کے ستوں بیشمار، وہ جس کی خونِ جگر سے نمود، وہ جو ہے معجزہ ہائے ہنر، وہ جس کا عشق سے وجود۔ وہ جس کے ایک سو آٹھ فٹ اونچے مینار سے اذان کی آواز بلند ہوتی تھی تو وادی الکبیر کسی اور جہاں کا منظر پش کرتی تھی، وہ جس کے ہال جتنا بڑا کمرہ دنیا کی کسی اور مسجد میں نہ تھا، وہ جہاں عالم علم بانٹتے تھے اور طلبہ علم سمٹتے تھے۔ آج وہ اپنے ماضی کا ایک دھندلا عکس پیش کرتی ہے۔ وہ تباہ نہ ہوئی کہ مسلم آبادی کی طرح اسکا بھی مذہب بدل دیا گیا۔
آج وہ علم ہنرکی شناخت ایک چرچ ہے۔ اس میں مسیحی نشاں نصب کر دیے گئے، مجسمے گاڑ دیے گئے، مینار میں گھنٹیاں لگادی گئیں۔ مگر ظاہر بدلنے کے باوجود بھی ایک باطن کا رنگ ہے، کسی عالم کی خوشبو ابھی بھی وہیں ہے، صدیاں گذرنے کے باوجود اذاں کی آواز ابھی بھی وہیںگونج رہی ہے، طلبہ کا ہجوم اب بھی وہاں بیٹھا ہے، اورایک گرد آلود مسافر بھی اس صف میں کہیںْ آخر میں۔ دو زانو ہے۔ اپنے روحانی استاد کی مانند دل میں صلوت و درود، لب پہ صلوت و درود۔
قرطبہ پہنچنے کے بعد شام کو پرانے شہر کو نکل پڑے۔ وہاں عرب اور یہودی رہائشی علاقے دیکھنے کے قابل ہیں، تنگ گلیاں، مسجدِ قرطبہ بند تھی سو اس کے پاس سے گذر کر دریا کا پل عبور کیا۔ پل پر مختلف چیزیں بچنے والے دکاندار اور ایک موسیقاروں کا گروپ تھا۔ ایک خطاط اندلسی رسم الخط میں نام لکھ کر سیاحوں سے پیسے کما رہا تھا۔ پُل پرایک عورت کا مجسما بھی ایک جانب بنا ہوا تھا۔ وہ کوئی مذہبی شخصت تھی۔اس کے مجسمے کے سامنے چراغ جل رہے تھے اور اس کے قدموں مں پھول پڑے تھے۔
ہمارے سامنے سے ایک ادھیڑ عمر ہسپانوی عورت پل سے گذرتے گذرتے اْس مجسمے کے سامنے رکی، سینے پر صلیب کا نشان بنایا اور چل پڑی۔ اسپن میں جابجا لوگوں کو کھلے عام اپنے عیسائی مذہبی عقائد کا اظہار کرتے دیکھا۔ یورپ کے باقی علاقوں میں یہ نہ دیکھا تھا، شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ جن کا زبردستی مذہب تبدیل کروایا گیا تھا، انہیں اپنے نئے مذہب کا دوسروں کے سامنے اظہار کرنا تھا۔ زندہ رہنے کے لئے کیا کچھ نہیں کرنا پڑتا۔
پل سے گذر کر ایک ریسٹورنٹ میں کافی پی۔ کچھ مقامی پولیس اہلکار بھی وہاں کافی پی رہے تھے۔ اپنے ملک کے لحاظ سے بغور دیکھا کہ انہوں نے قیمت بھی ادا کی۔ فٹ بال ورلڈ کپ کا کواٹر فائنل روس اور کروشیا کے درمیا ن ہو رہا تھا، سو وہیں ریسٹورنٹ میں میچ دیکھا۔ اس کے بعد واپس اپنے ٹھکانہ کو ہو لیا۔ جلدی سو گئے کہ اگلے دن جلد اٹھ کرمسجد قرطبہ جانا تھا۔
اگلے روز عقید ت مند صبح صبح اٹھا، نہایا، باوضو ہوا کہ زندگی کی ایک بڑی خواہش پوری ہو رہی تھی۔ صدی قبل استادِ روحانی اس علاقے سے گذرتے کہہ گئے تھے، “مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں “۔ گہنگار بھی اْس سفر کی تقلید میں حاضر تھا، یوں کہ دل میں صلوت و درود لب پہ صلوت و درود۔
ٹکٹ انٹرنیٹ سے کئی دن پہلے ہی خرید لی تھی، کیونکہ پتہ لگا تھا کہ ٹکٹ عین وقت پر نہیں ملتی اور ہم تومسجد دیکھنے کی خواہش سے ہی اندلس آئے تھے۔ مسجد کے باہر کے دروازے سے داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک وسیع صحن ہے جس میں مختلف درخت لگے تھے، صحن کے درمیان میں ایک فوارہ تھا۔ صحن کے ایک طرف سے مسجد میں جانے کا راستہ تھا جبکہ دوسری جانب بلند مینا ر تھا جو کبھی موذن اذان کے لیے استعمال کرتا تھا۔ مینار کے اردگرد ابابیلیں بیچینی سے چکر کاٹتی اڑ رہی تھیں، ساتھ ساتھ انکی تیز آوازیں فضا میں گونجتی تھیں۔
مسجد کے اندر ہر چیز بدل چکی ہے، صلیبں اور مجسمے نصب ہیں۔ گھنٹیاں بجتی ہیں، چرچ کی عبادت شروع ہونے کو تھی۔ سکیورٹی کے افراد مسجد میں ہرجگہ کھڑے تھے، ہر ایک پر نظر رکھے۔ مسافر محراب کی تلاش میں تھا، وہ جہاں قبلہ رو ہوکر امام کھڑا ہوتا تھا اور مقتدی ایک جہاں تھا، عالموں، فلسیفوں، ہنرمندوں، بہادروں، عقدیت مندوں، عاشقوں کا جہاں، کہ مسافر کے اُستاد کہہ گیا تھا کہ “اے حرمِ قرطبہ عشق سے تیرا وجود”۔ عاشق اب محراب کی تلاش میں تھا۔
کوئی نشاں نہ تھا، کوئی رہنما نہ تھا، قبلہ رو مسجد یوں تبدیل کی گئی تھی کہ سمت کا نہ پتہ لگے۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے آخر محراب تک جا پہنچے۔ آگے راستہ بند کیا گیا تھا کہ سیاحوں میں شامل کوئی عاشق ہوش سے بیگاِنہ نہ ہو جائے۔
محراب صدیوں سے ویران تھی۔ جہاں سے علم و فضل کا دریا بہتا تھا، وہ دھارے خشک تھے۔ مسافر کے پاس نذر کرنے کو کچھ بھی نہ تھا سوائے دلِ مضطرب اور آنسووں کے۔ محراب کے سامنے جنگلے کے ساتھ لگ کر مسافر نے دو نفل کی نیت کر لی، قبلہ رو، دل گداز، آنکھ پْرنم۔ کھڑے کھڑے دو رکعتیں ادا کیں۔ خیال کسی اور جہان میں لے جاتا تھا، جہاں مسلمان جنگجووں کی فتوحات کا منظر تھا۔ آنکھ کھلتی تھی تو حققت سامنے تھی۔ حققت جو تلخ تھی،جرمِ ضعیفی کی سزا، نسلوں کو اجاڑتی، روح کو تار تار کرتی ہے۔
اگلی تصویر مسجد قرطبہ میں محراب کے بالکل سامنے کی ہے۔ محراب پر سنہرے رنگ میں قرآنی آیات لکھی ہیں۔ محراب کے اوپر گھوڑے کی نعل کی شکل کی قوس ہے۔ سامنے کے ستونوں پر خوبصورت ڈیزائن بنایا گیا ہے۔ستونوں سے عبارات مٹ چکی ہیں مگر پھر بھی کچھ ستونوں پر کلمہ لکھا نظرآیا۔ مسجد کے کونے کونے میں سکیورٹی کے لوگ پھرتے تھے۔ مسافر کو سجدے کی شدید خواہش تھی سو ایک کونے کی اوٹ میں قبلہ رو ہوکر سجدہ ریز ہوا، سبحان ربی الاعلی، سبحان ربی الاعلی۔تصویر کھینچنے والے کے ہاتھ بھی لرز رہے تھے۔
مسجد قرطبہ مں منبر کے حصے کی تلاش تھی۔ کافی ڈھونڈنے کے بعد ملی۔ اس حصے کی رسائی بند تھی سو مسافر نے اس کے سامنے کھڑے ہوکر تصور میں دو نفل ادا کیے۔ رکوع، سجود، قیام سب تصور میں تھا، حققت تھی تو سامنے مسجد قرطبہ کا منبر۔ مسجد سے نکلے اور قرطبہ شہر کے نواح میں واقع مدینہ الازھرہ کی جانب عازم سفر ہوئے۔ مدینہ الازہرہ قرطبہ شہر کے باہر بسایا شہر تھا، پہاڑوں کے دامن میں ، یہاں خلیفہ کی رہائش گاہ اور شاہی دفاتر تھے۔ ( جاری ہے )
The post پرانے قرطبہ میں نصب ابن رُشد کا مجسمہ مسلمانوں کے علمی عروج کی یاد دلاتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.