اسلام میں نیکی کے ہر عمل کو صدقہ سمجھا جاتا ہے جو کہ عربی زبان کے لفظ صدق (حق) سے ماخوذ ہے ۔ صدقہ مومن کے ایمان کا لازمی جزو ہے جس کے ذریعے وہ جہانوں کے خالق یعنی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرتا ہے اور غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرتا ہے۔
صدقہ رضاکارانہ طور پر خدا کو خوش کرنے کے لیے دیا جاتا ہے، صدقہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو رب کریم کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے،صدقہ کرنا ہر مسلمان کا شیوہ ہو ناچاہیئے چونکہ صدقہ مصیبتوں ،آزمائشوں، پریشانیوں کو ٹالتا ہے، ہر آنیوالی پریشانی میں رکاوٹ کا سبب ہے اس کے علا وہ صدقہ و خیرات کرنے کے بے حساب فوائد ہیں، صدقہ کرنا کسی مصیبت سے محفوظ رہنے اور آئی مصیبت کو دور کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
سنن ترمذی میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صدقہ اللہ تعالی کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔ المعجم الاوسط میں ہے: چپکے سے صدقہ کرنا اللہ تعالی کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے۔ المعجم الاوسط کی دوسری روایت میں ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صدقہ دینے میں جلدی کرو، اس لیے کہ مصیبت اس سے آگے نہیں جاتی۔ سنن ترمذی میں ہے: اللہ تعالی نے یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو حکم دیں کہ وہ صدقہ دیں، صدقہ کی مثال اس آدمی کی ہے جسے دشمن نے قید کیا ہو اور اس کا ہاتھ اس کی گردن سے باندھ دیا ہو تاکہ اس کی گردن اڑا دیں تو صدقہ آکر کہتا ہے کہ میں اسے کم یا زیادہ جتنا ہو، اس کے بدلے اسے چھڑاتا ہوں، تو اسے چھڑا کر لے جاتا ہے۔ سنن الترمذی (3 / 52)
معلوم ہوا کہ صدقہ کرنا متعدد خیروں کا مجموعہ ہے، اس لیے صدقہ کی کثرت شرعاً محبوب عمل ہے اور صدقہ کے مذکورہ فضائل بہرصورت نصیب ہوں گے، خواہ آدمی اپنے ہاتھ سے صدقہ کرے، یا اپنے والدین کے ہاتھ سے صدقہ دلوائے، اس میں شرعاً کوئی تعین نہیں ہے، موقع محل اور نیت و اخلاص کے اعتبار سے صدقہ دینے والا خود اس کا فیصلہ کر سکتا ہے، لہٰذا والدین کی طرف سے اگر صدقہ کرنا ہو تو خود بھی کر سکتے ہیں اور چاہیں تو والدین کے ہاتھ سے صدقہ کروا دیں، بہر صورت اس کے ثمرات ان شاء اللہ حاصل ہوں گے، لیکن صدقہ میں اصولی طور پر اخفا پسندیدہ ہے، حتیٰ کہ دائیں ہاتھ سے صدقہ کرے تو بائیں کو پتا نہ چلے۔
حضر ت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: اپنے بھائی کی خوشی کی خاطر ذرا مسکرا دینا بھی صدقہ ہے کوئی نیک بات کہہ دینا بھی صدقہ ہے، تمہارا کسی کو بری بات سے روک دینا بھی صدقہ ہے،کسی بے نشان زمین کا کسی کو راستہ بتا دینا بھی صدقہ ہے جس شخص کی نظر کمزور ہو اس کی مدد کر دینا بھی صدقہ ہے، راستہ سے پتھر،کانٹا اور ہڈی کا ہٹا دینا بھی تمہارے لیے ایک صدقہ ہے اور اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں پانی ڈال دینا بھی صدقہ ہے۔
(ترمذی شریف، ترجمان السنہ) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے (یعنی دینا لینے سے بہتر ہے ) تو شروع کر اپنے اہل وعیال سے (یعنی پہلے انہی کو دے ) عیال کون ہیں؟تیری ماں ،تیرا باپ، تیری بہن ،تیر ابھائی پھر جو زیادہ قریب ہو پھر جو اس کے قریب تر ہو (معارف الحدیث، طبرانی ، مسلم وبخاری) حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ مرد نے جو اپنے اہل اور اپنی ذی رحم اور ذی قرابت پر خرچ کیا وہ سب اس کیلئے صدقہ ہے۔
(طبرانی ،معارف الحدیث) حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جس کی تین لڑکیاں ہیں یہ ان کو ادب سکھاتا ہے ان پر رحم کرتا ہے،ان کا کفیل ہے تو اس کیلئے یقیناً جنت واجب کی گئی ،کسی نے کہا:یارسول اللہ ﷺ بھلا اگر دو ہی لڑکیاں ہوں؟ فرمایا گودو ہی ہوں بعض لوگوں نے سمجھاکہ اگر ایک لڑکی کیلئے سوال کیا جاتا تو ایک کو بھی آپﷺ فرما دیتے۔ طبرانی نے یہ زیادہ کیا ہے کہ اس نے ان کا نکاح بھی کر دیا (احمد ،بزار، طبرانی ) حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو مسلمان بندہ کوئی درخت لگائے یا کھیتی کرے تو اس درخت یا اس کھیتی میں سے جو پھل یا جودانہ کوئی انسان یا کوئی پرندہ یا کوئی چوپایہ کھائے گا وہ اس (درخت یا کھیتی والے ) بندہ کیلئے صدقہ اور اجروثواب کا ذریعہ ہو گا ۔(صحیح بخاری ومسلم ،معارف الحدیث ) حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں انہوںنے عرض کیا :یارسول اللہﷺ !کونسا صدقہ افضل ہے؟
آپﷺ نے فرمایا : وہ صدقہ افضل ترین صدقہ ہے جو غریب آدمی اپنی کمائی سے کرے اور پہلے ان پر خرچ کرے جس کا وہ ذمہ دار ہو(یعنی اپنی بیوی بچوں پر ) (سنن ابی داؤد ،معارف الحدیث) حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جتنے انسان ہیں سب کے جسم میں تین سوساٹھ جوڑ بنائے گئے ہیں ۔ (ہر جوڑ کی طرف سے ایک صدقہ ادا کرنا واجب ہوتا ہے ) تو جس نے اللہ اکبر کہا یا الحمدللہ یا لاالہ الااللہ یا سبحان اللہ یا استغفراللہ کہا ہرایک ایک صدقہ شمار ہو جاتا ہے اسی طرح جس نے لوگوں کے راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دیا ۔
(ترجمان السنہ، ادب المفرد) حضوراقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ اگر تم سے کچھ اور نہ ہو سکے تو بے کس اور حاجت مند کی مدد ہی کیا کرو (بخاری) اور یہ بھی ارشاد فرمایا: بھولے بھٹکے ہوئے کو اور کسی اندھے کو راستہ بتانا بھی صدقہ ہے (ترمذی) نیز یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو شخص راستہ چلنے میں کوئی کانٹا راستہ سے ہٹا دے تو اللہ تعالیٰ اس کے کام کی قدر کرتا ہے اور اسکے گناہ معاف کرتا ہے (ترمذی ،سیرۃ النبیﷺ) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوئے اور عرض کیا : حضرت میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے اور انہوں نے ترکہ میں کچھ مال چھوڑا ہے اور صدقہ وغیرہ کی کوئی وصیت نہیں کی ہے، تو اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا میرا یہ صدقہ ان کیلئے کفارئہ سیأت اور مغفرت ونجات کا ذریعہ بن جائے گا ؟ آپﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ سے اسی کی امید ہے۔
(تہذیب الآثار لبن جریر،معار ف الحدیث) حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پر اس کی راہ میں کشادہ دستی سے خرچ کرتی رہو اور گنومت (یعنی اس فکر میں مت پڑ و کہ میرے پاس کتنا ہے اور اس میں سے کتنا راہ خدا میں دوں) اگر تم اس کی راہ میں اس طرح حساب کر کر کے دو گی تو وہ بھی تمہیں حساب ہی سے دے گا اور اگر بے حساب دو گی تو وہ بھی اپنی نعمتیں تم پر بے حساب انڈیلے گا اور دولت جوڑ جوڑ کر اور بند کر کے نہ رکھو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ یہی معاملہ کرے گا (کہ رحمت اور برکت کے دروازے تم پر خدانخواستہ بند ہو جائیں گے ) لہٰذا تھوڑا بہت جو کچھ ہو سکے اور جس کی توفیق ملے راہِ خدا میں کشادہ دستی سے دیتی رہو ۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم ،معارف الحدیث )
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:کہ صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت کو دفع کرتا ہے ۔ (جامع ترمذی، معارف الحدیث)حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ خیرات کرنے میں (حتیٰ الامکان ) جلدی کیا کرو۔کیونکہ بلا اس سے آگے بڑھنے نہیں پاتی ۔
(رزین ،حیوٰۃ المسلمین) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :کہ صدقہ سے مال میں کمی نہیں آتی (بلکہ اضافہ ہوتا ہے ) اور قصور معاف کر دینے سے آدمی نیچا نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس کو سربلند کر دیتا ہے اور اس کی عزت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور جو بندہ اللہ تعالیٰ کیلئے فروتنی اور خاکساری کا رویہ اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو رفعت اور بالاتری بخشے گا۔ (صحیح مسلم ،معارف الحدیث)حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاسات چیزیں ہیں جن کا ثواب بندہ کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے اور یہ قبر میں پڑا رہتا ہے ،جس نے علم (دین ) سکھایا، یا کوئی نہر کھودی، یا کوئی کنواں کھدوایا یا کوئی درخت لگایا ،یا کوئی مسجد بنائی ،یا قرآن ترکہ میں چھوڑگیا یا کوئی اولاد چھوڑی جو اس کے مرنے کے بعد بخشش کی دعا کرے (ترغیب از بزار و ابو نعیم) اور ابن ماجہ نے ابجائے درخت لگانے اور کنواں کھدوانے کے صدقہ کا اور مسافرخانہ کا ذکر کیا ہے ۔
(ترغیب )اس حدیث سے دینی مدرسہ کی اور رفاہِ عامہ کے کاموں کی فضیلت ثابت ہوئی ۔ (حیٰوۃ المسلمین) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اصلی مسکین (جس کی صدقہ سے مدد کرنی چاہیے ) وہ آدمی نہیں ہے جو (مانگنے کیلئے ) لوگوں کے پاس آتا جاتا ہے (در،در پھرتا ہے اور سائلانہ چکر لگاتا ہے ) اور ایک دو لقمے یا ایک دو کھجوریں (جب اس کے ہاتھ پر رکھ دی جاتی ہیں تو ) لے کر واپس لوٹ جاتا ہے،بلکہ اصلی مسکین وہ بندہ ہے جس کے پاس اپنی ضرورتیں پوری کرنے کا سامان بھی نہیں ہے اور (چونکہ وہ اپنے اس حال کو لوگوں سے چھپاتا ہے اس لئے )کسی کو اس کی حاجت مندی کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ صدقہ سے اس کی مدد کی جائے اور نہ وہ چل پھر کر لوگوں سے سوال کرتا ہے (صحیح بخاری ،مسلم،معارف الحدیث)۔
اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں صدقہ کی اہمیت اور برکت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اس سے متعلق واقعہ پڑھیے اور اللہ رب العزت کی قدرت کے کرشموں میں سے ایک چھوٹا سا کرشمہ دیکھئے۔ مصر کا ایک امیر بزنس مین تھا ابھی اس کی عمر صرف پچاس سال کے لگ بھگ تھی کہ ایک دن اس کو دل میں تکلیف کا احساس ہوا، اور جب اس نے قاہرہ کے سب سے بڑے ہسپتال میں اپنا علاج کرایا تو انہوں نے معذرت کرتے ہوئے اسے یورپ جانے کا کہا۔ وہ اپنے تمام گھر والوں کو مل کر اور سامان سفر باندھ کر یورپ پہنچا۔ یورپ میں تمام ٹیسٹ مکمل کرنے کے بعد وہاں کے ڈاکٹروں نے اسے بتایا کہ تم صرف چند دن کے مہمان ہو، کیونکہ تمہارا دل کام کرنا چھوڑ رہا ہے۔وہ شخص بائی پاس کروا کر مصر واپس آگیا اور اپنی زندگی کے باقی دن گن گن کر گزارنے لگا۔
ایک دن وہ ایک دکان سے گوشت خرید رہا تھا جب اس نے دیکھا کہ ایک عورت قصائی کے پھینکے ہوئے چربی کے ٹکڑوں کو جمع کر رہی ہے۔ اُس شخص نے عورت سے پوچھا تم اسے کیوں جمع کر رہی ہو؟عورت نے جواب دیا کہ گھر میں بچے گوشت کھانے کی ضد کر رہے تھے، چونکہ میرا شوہر مر چکا ہے اورکمانے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے اس لیے میں نے بچوں کی ضد کی بدولت مجبور ہوکر یہ قدم اٹھایا ہے۔
اس پھینکی ہوئی چربی کے ساتھ تھوڑا بہت گوشت بھی آجاتا ہے جسے صاف کر کے پکا لوں گی۔ بزنس مین کی آنکھوں میں آنسو آگئے اس نے سوچا میری اتنی دولت کا مجھے کیا فائدہ میں تو اب بس چند دن کا مہمان ہوں، میری دولت کسی غریب کے کام آجائے اس سے اچھا اور کیا۔ اس نے اسی وقت اس عورت کو کافی سارا گوشت خرید کر دیا اور قصائی سے کہا اس عورت کو پہچان لو، یہ جب بھی آئے اور جتنا بھی گوشت مانگے اسے دے دینا اور پیسے مجھ سے لے لینا۔ اس واقعے کے بعد وہ شخص اپنے روزمرہ کے معمولات میں مصروف ہو گیا، کچھ دن اسے دل میں کسی تکلیف کا احساس نہ ہوا، تو اس نے قاہرہ میں موجود لیبارٹری میں دوبارہ ٹیسٹ کرائے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ رپورٹ کے مطابق آپ کے دل میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن تسلی کیلئے آپ دوبارہ یورپ میں چیک اپ کروا آئیں۔
وہ شخص دوبارہ یورپ گیا اور وہاں ٹیسٹ کرائے، رپورٹس کے مطابق اس کے دل میں کوئی خرابی سرے سے تھی ہی نہیں۔ ڈاکٹر حیران رہ گئے اور اس سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیا کھایا کہ آپ کی بیماری جڑ سے ختم ہوگئی۔اُسے وہ گوشت والی بیوہ یاد آئی اور اس نے مسکرا کر کہا، علاج وہاں سے ہوا جس پر تم یقین نہیں رکھتے، بے شک میرے نبی ﷺ نے سچ کہا تھا کہ صدقہ ہر بلا کو ٹالتا ہے۔ قرآن نے جن آٹھ مصارف صدقات کو بیان کیا ہے۔
اِن مصارف میں کوئی جانور کتا، بلی، چیل، کوا، مچھلی اور چیونٹی نہیں ہے بلکہ یہ آٹھ کے آٹھ انسانوںکا ہی احاط کرتے ہیں، قرآن مجید میں زکوٰۃ و صدقات کے یہی حق دار بیان کئے گئے ہیں۔ جن کی مختصر تفصیل یہ ہے۔ فقیر: فقیر سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس کچھ نہ کچھ مال تو ہو، مگر ان کی ضرورت کے لئے ناکافی ہو۔ وہ تنگ دستی میں گزربسر کرتے ہوں اور اپنی’’سفید پوشی‘‘ کا بھرم رکھتے ہوئے کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کرتے ہوں۔ مساکین: یہ بہت ہی تباہ حال لوگ ہوتے ہیںجن کے پاس اپنے تن کی ضرورت پوری کرنے کے لئے بھی کچھ نہ ہو۔ حضرت عمر ؓ ایسے لوگوں کو بھی مساکین میں شامل فرماتے تھے جو کمانے کی طاقت رکھتے ہوں مگر انہیں روزگار نہ ملتا ہو۔ عاملین: اس سے مراد محکمہ زکوٰۃ کے ملازمین ہیں جو زکوٰۃ و صدقات کی وصولی اور حساب و کتاب پہ متعین ہوں، ان کی تنخواہیں زکوٰۃ و صدقات کی مد سے دی جائیں گی۔
تالیف قلب: وہ نو مسلم جو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے اپنے خاندان قبیلہ سے الگ کر دیا گیا ہو اور اس کا روزگار تباہ ہو گیا یا وہ لوگ جن کو اسلام کی حمایت یا اسلام کی مخالفت سے روکنے کے لئے روپیہ دینے کی ضرورت ہو۔ غلام:جو لوگ غلامی سے آزادی چاہتے ہوں، انہیں زکوٰۃ و صدقات کے مال سے آزاد کرایا جا سکتا ہے۔ قرض دار: جو لوگ قرض کے بوجھ تلے دبے ہوں اور ادائیگی قرض کی کوئی صورت نہ پاتے ہوں تو ا نہیں زکوٰۃ وصدقات کی مد سے قرض کی ادائیگی میں مدد دی جا سکتی ہے۔
فی سبیل اللہ: تمام نیک کاموں پر، جہاد، دین کی تبلیغ اور رفاہِ عامہ کے کاموں اور اِن کاموں میں مصروف افراد کی نشوونما کے لئے۔ مسافر: مسافر کی بھی صدقہ اور زکوٰۃ سے مدد کی جاسکتی ہے،چاہے اس کے پاس اپنے وطن میں کتنا ہی مال کیوں نہ ہو۔ لیکن اگر حالت مسافرت میں وہ محتاج یا ضرورت مند ہو تواُس کی مدد صدقہ و زکوٰۃ سے کی جا سکتی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صدقہ و خیرات کر نے کی توفیق نصیب فرمائیں ۔آمین
The post صدقہ …بلاؤں و مصیبتوں کو ٹالتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.