اس بار 5 جون 2024 ء کو World Environment Day یعنی عالمی یوم ماحولیا ت جس تھیم یا مرکزی خیال کے مطابق منایا جا رہا ہے وہ بحالی ِ زمین صحرائیت کی روک تھام خشک سالی سے ابھرنے کے امکانات سے متعلق ہے یعنی Land Restoration Desertification and Dreught Resilience ہے اور اس کی میزبانی سعودی عرب کر رہا ہے۔
سعودی عرب نے تھوڑے عرصے پہلے بھی ماحولیات کے اعتبار سے جی ٹونٹی کے اجلاس میں عالمی ماحولیات کی بہتری کے لیے اقدامات تجویز کئے تھے، سعودی عرب کا رقبہ 19 لاکھ 60 ہزار 582 مربع کلومیٹر ہے اور رقبے کے لحا ظ سے یہ دنیا کا 15 واں بڑا ملک ہے، یہ ایک بڑا جزیرہ نما خطہ ہے جو مختلف جغرافیائی علاقوں میں تقسیم ہے زیادہ حصہ گرم اور صحرا پر مشتمل ہے ، البتہ ساحلی علاقے التہامہ سے زمین سطح سمندر سے بلند ہونا شروع ہوتی ہے اور ایک طویل پہاڑی سلسلے (جبل الحجاز) تک جاتی ہے۔
اس کے بعد سطح مرتفع ہے ، جنوب میں مغربی عسیر خطے میں پہاڑوں کی بلندی تین ہزار میٹر یعنی 9840 فٹ تک ہے اور یہ سعودی عرب کا سب سے زیادہ سرسبز علاقہ ہے اور یہاں موسم بھی خوشگوار ہوتا ہے ، سعودی عرب میں شہزادہ محمد بن سلیمان مستقبل کے بارے میں بہت سے منصوبے رکھتے ہیں۔
اس لیے اُن کی کوشش ہے کہ ملک میں تیل کی دولت کے خاتمے یا پھر دنیا میں معدنی تیل کے متبادل توانائی کی دریافت یا ایجاد سے پہلے وہ ملک کے مستقبل کو معاشی طور پر محفوظ بنا لیں خصوصاً فوڈ سکیو رٹی کی ضمانت عوام کو دے دیں اور یہ ماحولیات کے مسائل پر قابو پا کر ہی کیا جا سکتا ہے اور اب جب کہ دنیا کلائمیٹ چینج اور گلوبل وارمنگ کے تیز رفتار عمل سے گزر رہی ہے اور یہ بھی پیش گوئی کی گئی ہے کہ یہ سال یعنی 2024 ء دنیا میں تاریخ کا سب سے زیادہ گرم سال ہو گا اور مئی میں ہی اس کا آغاز ہو چکا ہے ۔
راقم 8 مئی سے 16 مئی 2024 ء تک بلوچستان کے علاقے تربت میں رہا جو ملک کے گرم ترین علاقوں میں شامل ہوتا ہے ، یہاں درجہ حرارت 50 سنٹی گریڈ تک گیا اور جون ، جولائی اگست میں مزید بڑھے گا ۔ تو دوسری جانب سعودی عرب میںحالیہ سیلابوں اور بارشوں کی وجہ سے بہت سے علاقوں میں شدید نقصان پہنچا ہے اور سعودی عرب میں بھی یہ رجحان پایا جا رہا ہے کہ یہاں بھی چین کی طرح کی گرین گریٹ وال تعمیر کی جائے ۔
لفظ یا اصطلاح ماحول Environment بہت وسیع اور دائرہ در دائرہ انداز میں بیان کی جا سکتی ہیں ، یہاں ماحول سے معنی قدرتی ماحو ل کے ہیں جو دنیا کے مختلف ملکوں میں اُن کے ایکلوجیکل زونوں یا خطوں میں اپنی جغرافیائی موسمیاتی طے شدہ ایکو سسٹم یا نظام کے مطابق ہوتا ہے اور کسی بھی ایکالوجیکل زون یا خطے میں اُس کا ایکو سسٹم یا نظام ایک دائرے کے انداز میں کام کرتا ہے جسے اس نظام کی فوڈ چین یا خوراک کی زنجیر بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ سب اپنی حیات کی بقا کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں جو ایک کڑی سے دوسری کڑی کے ملنے سے بنتی ہے۔
اس کی مثال ہم اپنے ملک پاکستان کے گرم ، سر د، معتدل خطوں سے دے سکتے ہیں جیسے گرم علاقوں میں اُن کے ایکالوجیکل زونوں میں اپنے الگ ایکوسسٹم ہوتے ہیں اور ہر ایکو سسٹم کے تحت اُس کے ایکالوجیکل زون میں مخصوص درخت ، پھل ، جڑی بوٹیاں ، پرندے ، آبی جانو ر اور اِن کی اقسام ، رینگنے والے جانور اور اِن کی اقسام حشرات ،گوشت خور درندے اور ان کی اقسام وغیرہ خوراک کے حصول کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اور اگر کسی وجہ سے کسی ایکالویکل زون میں اس زنجیر کی کوئی ایک کڑی مکمل ختم ہو جائے تو یہ پورا ایکو سسٹم عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے اور پھر پورا کا پورا ایکالوجکل زون تباہ ہو جاتا ہے ۔
فرض کریں کہ ہمارے بلوچستان میں جہاں حیرت انگیز طور پر تقریباً 6 ایکالوجیکل زون ہیں یہاں ، ضلع خاران ، چاغی یا نوشکی میں جہاں تلور کا شکار خاص مو سم میں کھیلا جاتا ہے اور خصوصاًٍ عرب شیوخ یہاں جن بازوں یا شاہین سے ہی شکار کھیلتے ہیں وہ بھی اِن ہی علاقوں سے پکڑ کر اِن شیخوں کو لاکھوں روپے میں فروخت کئے جاتے ہیں، اگر مقامی طور پر باز اور شاہین بالکل ہی ختم ہی ہو جائیں تو یہاں دوسرے جانوروں کی بہتات ہو جائے جیسے چوہے، وہ درختوں کی جڑیں یہ جنگلی چوہے کھا جائیں گے، یوں یہ ایکالوجیکل سسٹم ہی تباہ ہو جائے گا۔
انسانی تاریخ کے اعتبار سے قدرتی ماحول کے لحاظ سے دنیا کے مختلف علاقے اپنے اندازے کے قدرتی ماحول یا سسٹم میں ہزاروں برسوں سے کام کر رہے ہیں ، پہلے جب انسان نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے تحت اپنی ایجادات اور دریافتوں کے تحت قدرتی ماحول کو متاثر کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کی تھی تو دنیا بھر میں اپنے اپنے خطوں میں اور پھر مجموعی طور پر پوری دنیا کے ایک عالمی قدرتی نظام میں خلل واقع نہیں ہوا تھا ، اگر ہم یہ کہیں کہ 1492 ء سے پہلے تک تو انسان کو اپنی پوری دنیا کا نقشہ بھی معلوم نہیں، اسی سال کرسٹوفر کولمبس کی جانب سے امریکہ دریافت کر نے کے بعد یہاں کے دیگر خطے بھی انسان کے سامنے آئے، پھر انیسویں صدی کے آخر یعنی 1890 ء میں بھی جب دنیا میں انسانی آبادی تقریباً سوا ارب کے قریب تھی تو دنیا بھر کے ملکوں میں قدرتی ماحول متوازن تھا مگر اس کے بعد آبادی میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا اور آج دنیا کی آبادی ساڑھے آٹھ ارب ہو چکی ہے ۔ UNEP اقوام متحدہ ماحولیاتی پروگرام کے مطابق دنیا بھر میں پلاسٹک کی سالانہ پیداوار 400 ملین ٹن یعنی چالیس کروڑ ٹن ہے ۔ پلاسٹک کی اس مقدار میں سے 9.6% ری سائیکل ہوتا ہے، 19 ملین ٹن سے 23 ملین ٹن پلاسٹک جھیلوں ، دریاؤں اور سمندروں میں آلودگی پیدا کر رہا ہے ۔
پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے ،ایک اندازے کے مطابق ملک میں سالانہ 5 کروڑ ٹن پلاسٹک استعمال ہوتا ہے ۔ بلو چستان رقبے کے اعتبار سے ملک کا تقریباً43% اور آبادی کے لحاظ سے تقریباً 8% ہے ، یوں محتاط اندازے کے مطابق بلوچستان میں سالانہ ڈیڑھ سے دو ٹن پلاسٹک استعمال ہو تا ہے۔ ( پاکستا ن کا رقبہ 796096 مربع کلو میٹر ہے اور آبادی 2017 ء کے مطابق 22 کروڑ اور 2023 ء کے مطابق24 کروڑ 14 لاکھ 90 ہزار ہے ۔
اس میں نمبر 1 ۔ پنجاب رقبہ ۔ 205344 مربع کلومیٹر آبادی ۔ 12 کروڑ76 لاکھ 90 ہزار ۔ نمبر 2۔ سندھ رقبہ 140914 مربع کلومیٹر، آبادی 5 کروڑ 56 لاکھ 90 ہزار۔ نمبر3 ۔ خیبر پختونخوا ۔ رقبہ 74921 مربع کلو میٹر + فاٹا 27220 مربع کلومیٹر آبادی چار کروڑ سے زیادہ۔ نمبر4 ۔ بلوچستان رقبہ 347190 مربع کلومیٹر اور اس کی آبادی اب دو کروڑ 15 لاکھ ہو چکی ۔ نمبر5 ۔ اسلام آبادآبادی 2003368 ۔ نمبر 6 ۔ آزادکشمیر رقبہ13297 مربع کلومیٹر ۔آبادی 4045366۔ نمبر 7 ۔ گلگت بلتستان رقبہ 72971 مربع کلومیٹر، آبادی 1249000 ) ۔ ہمارے ملک میں 1951 ء میں ملک کی پہلی مردم شماری میں آج کے پا کستان کی کل آبادی 3 کروڑ 40 لاکھ تھی، اور جنگلات کا رقبہ آج کے مقا بلے میں دگنا تھا اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک میں ماحولیاتی مسائل میں کس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور حکومت کی جانب سے اور ماحولیات کے لیے کا م کر نے والے دوسرے اداروں کی طرح سے کو شش کی جا رہی ہے کہ ملک میں ماحویاتی مسائل کو حل کیا جائے۔ پاکستا ن میں ماحولیات کے قوانین اور ماحولیات کے شعبے میں کام کر نے والا سرکاری ادارہ The Pakistan Environmental Protection Council 1984 ء میں قائم ہوا ۔1997 ء میں حکومتِ پاکستان نے ماحولیات کے تحفظ کا قانون منظور کیا ۔ ماحولیات کے شعبے میں سرکاری سطح پر کا م کرنے والے ادا رے یہ ہیں
نمبر1 ۔ پاکستا ن انوائر منٹل پروٹیکشن ایجنسی ۔Pakistan Environmental Protection Agency
نمبر2 ۔ Energy Efficiency and Consarvation Authorty ENERCON
نمبر3 ۔ Pakistan Forest Institute
نمبر4 ۔ National Council for Conservation of Wildlife
نمبر5 ۔ The Zoological Survey Department of Pakistan
نمبر6 ۔ Akthar Hameed Khan National Center Rural Development and Muncipal Adminstration ۔
ملک میں ماحولیاتی مسائل کے اعتبار سے سب سے اہم بلو چستان اس لیے ہے کہ یہ ملک کے کل رقبے کا تقریباً 43% ہے اور اسی صوبے کے پاس ملک کے کل 1000 کلومیٹر ساحل میں سے 770 کلومیٹر طویل ساحل ہے ، بلوچستان میں صوبائی سرکاری سطح پر ماحولیات اورPDMA کے علاوہ غیر سرکاری سطح پر ماحولیات کے شعبوں میں بھی کام کر نے والی NGOs تنظیمیں 1 ۔ Islamic اسلامک ریلیف پاکستان ،2 ۔ BRSP بلوچستان رولر سپورٹ پروگرام، 3 ۔ عورت فانڈیشن ۔ 4 ۔ SPO ، 5 ۔ PPAF ہیں ۔ اس کے علاوہ سماجی ، سیاسی اور خصوصاً ماحولیات کے مسائل کے حل کے لیے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے خصوصاً UNEP یو نائٹیڈ نیشن انوائرمنٹ پروگرم اور سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ گولز کے حوالے سے صوبہ بلوچستان میں صوبائی محکموں اور یہاں کام کر نے والی NGOs کی تکنیکی اور مالی مدد کر تی ہیں۔
لیکن یہاں ضرورت یہ ہے کہ ماحولیات اور اس کے مسائل کے بارے میں عوامی سطح پر شعور بہت کم ہے بلکہ پو رے ملک ہی میں یہ صورتحال ہے یہاں یہ بتانے کی کوشش ہے کہ ملک میں ماحولیاتی صورتحال کیا ہے۔
پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کے مسائل اور نقصانات
پاکستان کے ماحولیاتی مسائل میں چار اہم مسائل ہیں۔ نمبر1 ۔ فضائی آلودگی ۔ نمبر2 ۔ زمینی آلودگی ۔ نمبر3 ۔ آبی آلودگی اور نمبر 4 ۔ شور کی آلودگی ۔ 2023 ء کے عالمی آبادی کے جائز ے،، World Population Review،، کے مطابق فضائی آلودگی کے پیمانے PM-2.5exposureCug/33)-IQ Air2020 کے تحت بدترین فضائی آلودگی کے شکار ٹاپ ٹن ملکوں کی صورتحال یوں تھی کہ فی معکب میٹر میں آلودگی صحت کے مطابق PM.2.5 طے ہے، جب کہ فضائی آلودگی کے شکار دس ممالک کو ملاحظہ فرمائیں۔
نمبر1 ۔ بنگلہ دیش 77.10 ۔ نمبر2 ۔ پاکستان 59.00 ۔ نمبر3 ۔ بھارت 51.90 ۔ نمبر4 ۔ منگولیا 46.60 ۔ نمبر5 ۔ افغانستان 46.50 ۔ نمبر6 ۔ اومان 44.40 ۔ نمبر7 ۔ قطر44.30 ۔ نمبر8 ۔ کرغزستان 43.50 ۔ نمبر9 ۔ انڈو نیشیا 40.7 ۔ نمبر10 ۔ بوسینیا ہرگوزوینیا 40.60 ۔ WHO عالمی ادارہ صحت 2019 ء کی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں کھلی آلودہ فضا میں سانس لینے کی وجہ سے 42 لاکھ افراد Premature deaths یعنی طبعی موت سے پہلے موت کا شکار ہوئے۔ اِن مرنے والوں میں سے 89% کا تعلق کم یا محدود آمدنی والے ملکوں سے تھا۔ پلاسٹک اِن اموات میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ گرین پیس ساؤتھ ایسٹ ایشیا اینڈ سنٹر فار ریسرچ کے مطابق فاسل فیول یعنی قدرتی گیس، معدنی کوئلے اور ڈیزل اور پٹرول کے استعمال سے انسانی صحت اور اقتصادیات کے شعبوں میں عالمی سطح پر 2018 ء میں 2.9 ٹرلین (کھرب) ڈالر کا نقصان ہوا جو عالمی جی ڈی پی کا 3.3% تھا۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے سالانہ چین کو 900 بلین ڈالر امریکہ کو 600 بلین ڈالر اور بھارت کو150 بلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
کلائمیٹ چینج ، گلوبل وارمنگ ۔ اندیشے ، امکانات اور خطرات:
National Atmospheric and Oceanic Administration ،نیشنل ایٹ ماسفیئریک اینڈ اوشنیک ایڈمنسٹریشن کے مطابق رواں سال بحرالکاہل کو گرم کرنے والے موسمیاتی نظام رحجان ایل نینو کے تشکیل پانے کا امکان 90% سے زیادہ ہو چکا ہے، اور اِس کا اثر اس سال یعنی 2024 ء تک بر قراررہنے کا اندیشہ ہے۔ یوں اس پیش گوئی کے مطابق اس کا بہت زیادہ اندیشہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں بحرالکاہل کے پانی کا بڑا حصہ معمول سے کہیں زیادہ گرم ہو جائے گا اور زمین کے مجموعی درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہو گا۔
اس سے قبل عالمی موسمیاتی قدرتی نظام میں گذشتہ تین برس کے دوران لا نینا لہر وجود میں آئی تھی جو کسی حد تک عالمی ماحولیاتی قدرتی نظام کے تحت دنیا کو سرد کر دیتی ہے، مگر اس کے باوجود گذشتہ 8 برس دنیا کی موسمیاتی تبدیلی کے اعتبار سے تاریخ کے گرم ترین سال گذرے اور اب اس پیش گوئی کی بنیاد پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایل نینو کے باعث اب مو سمی حالات زیادہ برے ہونگے اور پوری دنیا میں درجہ حرات میں اضافہ ہو گا۔ اس کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ سمندری درجہ حرارت ایک ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ سکتا ہے، اس دوران اس کا بھی خطرہ موجود ہے کہ ایل نینو کی شدت 55 فیصد تک بڑھ جانے سے سمندری درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہو جائے گا۔
عالمی قدرتی موسمیاتی نظام میں آخری بار یہ تبدیلی اور سمندری درجہ حرارت میں اضافہ 2014 ء سے 2016 ء کے دوران دیکھنے میں آیا تھا جب دنیا کے درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ ہوا تھا اور 2016 ء کو دنیا کا گرم ترین سال قرار دیا گیا تھا مگر اب ماہرین کی پیش گوئیوں کے مطابق عالمی قدرتی موسمیاتی نظام میں ایل نینو لہر کی اس تبدیلی کی وجہ سے دنیا میں گرمی کی شدت ماضی کے مقابلے میں بڑھ سکتی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جو دنیا میں آلودگی میں اضافہ کر نے کے اعتبار سے دنیا کے 180 ملکوں میں سے 142 ویں نمبر ہے اور دنیا کی آلودگی کے نتیجے میں گلوبل وارمنگ اور کلائمیٹ چینج کے لحاظ سے متاثر ہو نے والے ملکوں میں سے دوسرے نمبر پر ہے۔
بلوچستان میں کلائمیٹ چینج اور گلوبل وارمنگ کے حالات اور واقعات :
یہ بھی یاد رہے کہ بلوچستان میں اس موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے1997 ء سے 2003 ء تک سات سالہ شدید اور طویل خشک سالی آئی تھی۔ پھر 2010 ء کا سیلاب ، 2022 ء اور 2021 ء کے سیلاب، 2019 ء اور 2020 ء میں وبائی بیماری کرونا کے ساتھ ساتھ خشک سالی اور ٹڈی دل اور اب 2023 ء میں ناموافق موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ژالہ باری ، طوفان باد باراں ، اسی سال مئی کے اختتام اور جون کے آغاز تک سردی اور جون میں گرمی کی شدید گرم کی لہر کے آنے کے امکانات ، سیلاب کے اندیشے ہیں ۔ پاکستان میں ساحل کی کل لمبائی 1000 کلومیٹر ہے ، جس میں سے 770 کلو میٹر سے زیادہ ساحل بلوچستان کے پاس ہے ، اور تقریباً230 کلومیٹر ساحل صوبہ سندھ کے پاس ہے۔
بلوچستان کے 770 کلومیٹر ساحل میں سے 600 کلومیٹر ساحل ضلع گوادر میں ہے اور 170 کلومیٹر ساحل ضلع لسبیلہ میں ہے جہاں نہ صرف پلاسٹک کی آلودگی بڑھ رہی ہے اور آلودگی کی وجہ سے ماضی کی نسبت ہمارے ساحل کے قریب سمندر میں جھینگا مچھلی سمیت سمندری حیات کم ہو رہی ہے اور اس کے ختم ہو نے کے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں اور اگر عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضاٖفہ ہوتا ہے تواس کے اثرات بھی ہمارے ساحل پر مرتب ہو نگے، واضح رہے کہ اگر سمندر کا درجہ حرارت بڑھنے لگے تو پھر مچھلیاں ساحل کے قریب سے ہجرت کر کے گہرے اور ٹھنڈے پانی کی طرف جا تی ہیں ۔ بلوچستان اور اس کے ساحل کوسب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے ،گلگت بلتستان میں دنیا کے بڑے گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور ملک کے 1000 کلومیٹر ساحل پر سمندر ی حیات خطرے میں آچکی ہے۔
پاکستان 184 ملکوں میں سے دنیا میں آلودگی پیدا کر نے والے ملکوں میں 142 ویں نمبر پر ہے اور فضائی آلودگی میں پاکستان بنگلہ دیش کے بعد دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے ۔ اقوام متحدہ کے انوائر منٹ پروگرام کے مطابق دنیا میںسالانہ 40 کروڑ ٹن پلاسٹک استعمال ہوتا ہے ، محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 5 کروڑ ٹن پلاسٹک استعمال کیا جاتا ہے، عالمی ادارہ صحت کی 2019 ء کی تحقیق کے مطابق کھلی آلودہ فضا میں سانس لینے والوں میں دنیا بھر میں 42 لاکھ افرد اپنی طبعی موت سے پہلے ہلاک ہوئے، 89% افراد کا تعلق کم آمدنی والے ملکوں سے تھا۔
پاکستان میں فضائی ، زمینی ، آبی اور شور کی آلودگی انسانی صحت کے اعتبار سے سرخ لائن کراس کر چکی ہے جس کی وجہ سے سالانہ لاکھوں افراد اپنی طبعی عمر سے پہلے موت کی آغوش میں جا رہے ہیں، عالمی ادارے ’’گرین پیس ساؤتھ ایشیا اینڈ سنٹر فار ریسرچ‘‘ کے مطابق فاسل فیول یعنی کوئلہ ،گیس ، پٹرول اور ڈیزل کے استعمال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہو نے والی آلودگی سے 2018 ء میں دنیا کے ملکوں کو2.9 ٹرلین ڈالر کا نقصان ہو ا، امریکہ کو 900 بلین ڈالر چین کو 600 بلین اور بھارت کو 150 بلین ڈالر کا نقصا ن پہنچا ، پاکستان میں اس اعتبار سے محتاط اندازے کے مطابق 25 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ، ماحولیاتی آلودگی کے لحاظ سے پاکستان میںسب سے زیادہ نقصان بلوچستان کو پہنچ رہا ہے۔
اس صورتحال کا اظہار راقم الحروف نے گذشتہ سال کو ئٹہ میں نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ میں عالمی یوم ِ ماحولیات 5 جون 2023 ء کے موقع پر کیا تھا جہاں مجھے اس موضوع پر خصوصی لیکچر کی دعوت نیشنل پارٹی کے صدر سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کی ہدایت پر نیشنل پارٹی کے اہم رکن معروف ادیب آغا گل نے دی تھی، راقم الحروف نے ایک گھنٹے کے لیکچر میں بتایا، پلاسٹک کے استعمال کی وجہ سے پاکستان کے 796096 مربع کلومیٹر رقبے پر موجود تقریباً 25 کروڑ انسانوں کے ساتھ نباتات، حیوانات اور ہر طرح کی حیات کا پلاسٹک کی وجہ سے دم گھٹ رہا ہے،National Atmospheric and Oceanial Administration کے مطابق 2023 سے 2028 ء تک پوری دنیا میں اوسطاً درجہ حرارت میں 1.5 سینٹی گریڈ کے اضافے کا خطرہ دکھائی دے رہا ہے۔
2016 ء دنیا میں گرم ترین سال تھا مگر اب آنے والے سال مزید گرم ہو سکتے ہیں، ملک کے گرم علاقوں خصوصاً بلوچستان کے گرم علاقوں سبی، چاغی ، مکران ڈویژن میں انسانی زندگی دشوار ہو جا ئے گی۔ ملک کے1000 کلومیٹر ساحل اور خصوصاً بلوچستان کے 770 کلومیٹر ساحل پر ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے سمندری حیات کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں ۔ بلوچستان کے لاکھوں ماہی گیروں کے روزگار کو مستقبل میں خطرات لاحق ہیں ، ہم اب بھی پلاسٹک کے استعمال کو ترک کر کے ، سالانہ کروڑوں درخت لگا کر اور دیگر ایسے ہی اقدامات کر کے قدرتی آفات اور تباہیوں کو روک سکتے ہیں ۔
آخر میں نیشنل پارٹی کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے پیغام کو آغا گل نے یوں بیان کیا کہ نیشنل پارٹی متوسط اورغریب عوام کی نمائندہ سیاسی جماعت ہے اور ہماری پارٹی دانشوروں محققین کی ریسرچ اور اُن کی علمی خدمات سے ہمیشہ سے استفادہ کرتی رہے گی، جیساکہ ڈاکٹر عرفان بیگ نے کہا بلوچستان 1997 ء سے 2003 ء سات سالہ خشک سالی کا شکار رہا ہم نے کرونا کے علاوہ ماضی قریب میں زیارت، آواران کے زلزے دیکھے ابھی تھوڑے عرصے پہلے تباہ کن سیلاب ، ٹڈ ی دل اور خشک سالی برداشت کی، ہماری پارٹی بلوچستان کے 347190 مربع کلومیٹر رقبے اور اس پر آباد 2 کروڑ سے زیادہ انسانوں کے ساتھ اس دھرتی کی حفاظت کا عزم رکھتی ہے۔
ہم جہاں سیاسی، آئینی اعتبار سے صوبے کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، وہاں ہم اس کے ماحول کو بھی ہر طرح کی آلودگی سے بچانے کے لیے ہر طرح کوششیں کرتے رہیں گے۔ آج اس لیکچر کو دیئے ہوئے ایک سال پورا ہو چکا ہے اور 2024 ء میں جب ہم عالمی یوم ماحولیات منا رہے ہیں تو یہ سال تاریخ کا گرم ترین سال ہے، ہمارے خیال میں اب ضرورت اس کی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں ماحولیاتی مسائل کو حل کر نے کا تفصیلی پر وگرام بھی دیں اور نیشنل پارٹی کی طرح اپنے کارکنوں کی تربیت کا انتظام بھی کریں۔
اس بار یعنی 5 جون 2024ء کو World Environment day عالمی یوم ماحولیات کے لیے تھیم یوں ہے Land restoration Desertification and Drought Resilience (یعنی زمین کی بحالی صحرائیت اور خشک سالی کی روک تھام) پاکستان چین ،بھارت ،ایران افغانستان ، سنٹر ل ایشیا ،مشرق وسطیٰ اور اسی طرح کے ممالک میں شامل ہے جہاں دنیا کے بڑے صحر ا موجود ہیں جو وقت کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے زرخیز زمینوں کو نگل رہے ہیں اس لیے ہمیں بھی چین اور اس طرح کے دوسرے ملکوں کے جیسے اقدمات کر نے ہو نگے تاکہ ہم صحرائیت اور خشک سالی کی روک تھا م کر سکیں اس وقت ہمارے ملک میں جو صحرائی علاقے ہیں اُن کی تفصیل یوں ہے۔
پاکستان کے صحرا اور صحرائتی:
نمبر1۔ صحرائے تھر ( Thar Desert ) یہ صحرا پاکستا ن کے صوبہ سندھ میں بھارت کی سرحد کے ساتھ موجود ہے یہ دنیا کا 17 واں بڑا اور گرم صحرا ہے، پاکستا ن میں اس کا رقبہ 175000 مربع کلومیٹر ہے اور بھارت میں راجستھان میں اس کا رقبہ 320000 مربع کلو میٹر ہے، بھارت نے اس صحرا میں پوکرن کے مقام پر 1974 ء میں پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تھا اور پھر 7 اور 9 مئی 1998 ء کو مزید 5 ایٹمی دھما کے کئے تھے۔ یہاں گرمیوں درجہ حرات 50 سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ تک ہوتا ہے، اس صحرا میں انسانی زندگی بہت مشکل ہے اکثریت غربت کا شکار ہے، اور یہاں صحرائیت کا عمل جاری ہے۔
نمبر 2 ۔ صحرائے خاران ( Kharan Desert ) یہ صحرا، پاکستا ن کے شمال اور شمال مغرب میں واقع ہے، پاکستان میں اس کا رقبہ 36000 مربع کلومیٹر ہے لیکن اس کا مجموعی رقبہ 200000 مربع کلو میٹر ہے اور اس کا باقی رقبہ ایران اور افغانستان میں واقع ہے،جہاں تک تعلق صحرائے تھر کا ہے تو یہ پاکستان اور بھارت میں واقع ہے اور اس کے ارد گرد بھارت اور پاکستان کا نہری نظام کا لاکھوں مربع کلومیٹر رقبہ ہے اور بھارت میں خصوصاً اس کی صحرائیت کو روکنے کے لیئے کام کیا جا رہا ہے۔
مگر جہاں تک تعلق صحرائے خاران کا ہے تو اس کے ساتھ سرحد پر ایران اورافغانستان دونوں ہی بارانی اور نیم بارانی سر زمینوں پر مشتمل ہیں اور اِن دونوں ملکو ں میں اس صحر ا کے علاوہ بھی نزدیک ہی اور بہت سے صحرا ہیں، اسی صحرا میں پاکستان نے 29 مئی 1998 ء کو ایک ایٹمی دھماکہ کیا تھا اور اس سے ایک دن قبل اسی صحرائے خاران کے قریب واقع راس کوہ میں 28 مئی 1998 ء کو 5 ایٹمی دھماکے کئے گئے تھے۔ اس صحرا اور کی اس کی صحرائیت کو روکنے کے لیے ہمیں جلد اور بہتر اقدامات کر نے ہو نگے
نمبر3 ۔ کٹیانا صحرا، یا بیاما ناکپو، ( Desert Katpana Desert or Bioma Nakpo ) یہ پاکستان کا سرد صحرا ہے جو گلگت بلتستان میں واقع ہے، اس کا رقبہ 16100 مربع کلومیٹر ہے، یہ صحرا موسم سرما میں کئی کئی فٹ برف کے نیچے دب جاتا ہے اور گرمیوں میں اس صحرا کی ریت اور اس کے ٹیلے سامنے آجا تے ہیں۔
نمبر 4 ۔ تھل کا صحرا ( Thal Desert ) یہ صحرا پنجاب کے ضلع بھکر میں واقع ہے، اس کا رقبہ 110 مربع کلومیٹر ہے، یہ دریا ئے جہلم اور دریائے سندھ کے درمیان کوہستان نمک کے ساتھ واقع ہے اس کو صحرائیت سے محفوظ کرنے کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
نمبر5 ۔ صحرائے چولستان ( Cholistan Desert ) پاکستان کا یہ صحر ا تقریباً 150 سال پہلے ایک سرسبز علاقہ تھا اس وقت اس کا رقبہ 26300 مربع کلومیٹر پاکستان میں اور تقریباً 25800 مربع کلومیٹر ہے رقبہ بھارت میں واقع ہے۔ یہ بھی ایک گرم ترین صحرا ہے جو صوبہ پنجاب میں واقع ہے، یہاں اب چند برسوں سے جیب ریلی ( جیبو ںکی ریس ) ہوتی ہے جو اپنی نوعیت کا ملک کا ایک بڑا اسپورٹ ایونٹ ہے۔ ہمارے سامنے پاکستان کے صحراوں کی صورتحال واضح ہے، اس وقت ہمیں اپنی 25 کروڑ عوام کو ماحولیات کے حوالے سے با شعور بنانا ہے اور یوں ہم اپنے ملک کے دشمن یعنی صحرائیت اور خشک سالی کو شکست دے سکتے ہیں اور ہم اب یہ تسلیم کر لیں کہ یہ بھی ہماری سکیورٹی کا بنیادی مسئلہ ہے ۔
The post بڑھتی ہوئی صحرائیت ایکو سسٹم کیلئے خطرہ appeared first on ایکسپریس اردو.