اگر آپ نے ریل گاڑی پر کراچی سے لاہور کا سفر کیا ہو تو حیدرآباد، نواب شاہ، روہڑی، خانیوال اور دیگر اسٹیشنوں پر موبائل چارجنگ کی سہولت فراہم کرنے والے پتھارے یا اسٹال ضرور دیکھے ہوں گے۔ ان اسٹالوں پر درجنوں چارجر لگے ہوتے ہیں جن سے چارجنگ کیبلز منسلک ہوتی ہیں اور آپ پیسے دے کر یہاں اپنا موبائل فون چارج کرسکتے ہیں۔
اسی نوع کے اسٹال آپ کو بڑی شاہراہوں پر بنے ہوئے ہوٹلوں پر بھی دکھائی دیں گے جہاں لمبے روٹ کی مسافر بسیں اور گاڑیاں آکر ٹھہرتی ہیں، تاہم آپ کو ان اسٹالوں سے اپنا موبائل فون چارج کروانے سے گریز کرنا چاہیے اور ہمیشہ اپنا ذاتی چارجر یا پاور بینک ساتھ رکھنا چاہیے کیوںکہ اسٹال پر لگے ہوئے چارجر اور کیبل کے ذریعے آپ کے فون کا ڈیٹا چوری ہوسکتا ہے۔
امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن ( ایف بی آئی ) نے حال ہی میں شہریوں کے لیے تنبیہہ جاری کی ہے کہ وہ شاپنگ مالز، ہوائی اڈوں اور دیگر مقامات پر پبلک فون چارجنگ اسٹیشنوں سے موبائل فون چارج کرانے سے گریز کریں کیوںکہ اس طرح ان کا فون کسی میل ویئر کا نشانہ بن سکتا ہے اور ان کا ڈیٹا چوری ہوسکتا ہے۔
سائبر سیکیورٹی کے ماہرین بھی طویل عرصے سے خبردار کرتے آرہے ہیں کہ (چارجر کی ) جس تار کے ذریعے آپ فون چارج کرتے ہیں وہی تار یا کیبل ڈیٹا کی منتقلی اور وصولی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب آپ اپنا آئی فون چارجنگ کیبل کے ذریعے لیپ ٹاپ سے منسلک کرتے ہیں تو بہ آسانی فون سے ڈیٹا کمپیوٹر میں منتقل کرسکتے ہیں۔
اس طرح کسی غیرمحفوظ چارجر کے ذریعے فون چارج کرنے سے ڈیٹا کی چوری کا خطرہ بھی درپیش ہوسکتا ہے۔
ایف بی آئی کے مطابق چارجنگ اسٹیشن پر لگے ہوئے چارجر سے منسلک کیبلز کے ذریعے ڈیٹا کی چوری کے واقعات سامنے آئے ہیں جہاں بظاہر یہ عام سی نظر آنے والی کیبلز موبائل فون چارج کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں موجود تمام ڈیٹا بھی سیو کررہی تھیں۔
The post پبلک فون چارجنگ اسٹیشن خطرناک۔۔۔۔؟ appeared first on ایکسپریس اردو.