بڑھتے ہوئے عالمی درجۂ حرارت (گلوبل وارمنگ) کے نتیجے میں ہونے والے موسمی تغیرات کے اثرات دنیا بھر میں مشاہدے میں آرہے ہیں۔ کہیں غیرمتوقع طور پر شدید بارشیں ہورہی ہیں، سیلاب آرہے ہیں تو کہیں خشک سالی ڈیرے ڈال رہی ہے۔ دو سال قبل پاکستان میں بدترین سیلاب نے تباہی مچائی تو رواں سال متحدہ عرب امارات کی ریاستوں میں شدید بارش نے سب کو حیران کردیا ہے۔
عالمی موسم میں آنے والے بدلاؤ اور اس کے اثرات پر برسوں سے عالمی سطح پر بحث جاری ہے اور ان اثرات سے نمٹنے یا ان کی شدت کم سے کم کرنے کے لیے اقدامات پر زور دیا جارہا ہے، تاہم عالمی معاہدوں کے باوجود عالمی درجۂ حرارت میں کمی کے لیے تاحال کوئی نمایاں اقدامات نہیں کیے جاسکے، کیوںکہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک سمجھتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کی غرض سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی لانی ہوگی جس کا ان کی صنعتی ترقی پر منفی اثر پڑے گا، کیوںکہ سب سے زیادہ یہ ماحول دشمن گیس فیکٹریوں، کارخانوں اور دیگر صنعتی سرگرمیوں کے نتیجے میں خارج ہوتی ہے۔
عالمی طاقتوں کی بے حسی کا نتیجہ جہاں قدرتی آفات کی صورت میں پاکستان جیسے ممالک بھگت رہے ہیں وہیں خود یہ ممالک بھی محفوظ نہیں اور ان ممالک کو بھی قدرتی آفات کا سامنا ہے جن میں امریکا بھی شامل ہے۔
امریکا میں گلوبل وارمنگ یا عالمی گرماؤ کے مختلف شعبوں پر اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے تحقیقی جائزے لیے جارہے ہیں۔ گذشتہ برس امریکا کے مالیاتی نظام پر گلوبل وارمنگ کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے امریکی فیڈرل ریزرو نے 6 سب سے بڑے سرمایہ کاری بینکوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں کہ شدید سمندری طوفان، آتش زدگی اور سیلاب اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں رکازی ایندھن (فوسل فیول) کے استعمال کو ترک کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کے ان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ان بینکوں میں جے پی مورگن چیس، بینک آف امریکا، ویلز فرگو، گولڈمین ساشے، مورگن اسٹینلے اور سٹی گروپ شامل ہیں۔
امریکا کے مرکزی بینک نے یہ جائزہ رپورٹ اب جاری کردی ہے جس کا شدت سے انتظار کیا جارہا تھا۔ جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شمال مشرقی امریکا میں ایک بڑا سمندری طوفان وال اسٹریٹ بینکوں کو قرضوں کی واپسی میں رکاوٹ بن سکتا ہے کیونکہ سمندری طوفان اور اس کے مابعد اثرات کی وجہ سے ان بینکوں کے قرض گیر، قرض واپس کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
اس جائزہ رپورٹ کی بنیاد انہی بینکوں سے حاصل کردہ اعدادوشمار پر ہے جس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ قدرتی آفات کے ساتھ ساتھ روایتی ایندھن سے متبادل ماحول دوست ایندھن پر منتقلی کے مالیاتی شعبے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جن میں کھاتے داروں کا دیوالیہ ہوجانا بھی شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگر 2050 میں شمال مشرقی امریکا میں شدید سمندری طوفان آتا ہے تو اس سے خطے میں پانچ بینکوں کے مشترکہ طور پر نصف سے زائد ریئل اسٹیٹ کے شعبے کو رہائشی تعمیرات کے مقاصد کے لیے دیے گئے قرضے متاثر ہوں گے۔
رپورٹ میں قدرتی آفات سے بینکوں کا کاروبار متاثر ہونے کی پیش گوئی تو کی گئی ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ہر بینک نے کیا تیاری کر رکھی ہے اور نہ ہی خطرے کی شدت کا اندازہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بجائے یہ رپورٹ مستقبل میں قدرتی آفات اور ماحول دوست توانائی پر منتقلی کے اثرات کو جانچنے کی پیچیدگیوں کی جھلک پیش کرتی ہے، اور یہ کہ دنیا کے سب سے بڑے بینکوں کے لیے یہ دونوں (قدرتی آفات اور ماحول دوست توانائی پر منتقلی) کیا معنی رکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس جائزے کے بیشتر حصوں میں بینکوں کو مشکل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ جائیداد کی انشورنس کی کوریج کے اعدادوشمار خاصا فرق آرہا تھا۔
فیڈرل ریزرو نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس (جائزے) کا مقصد بڑے بینکاری اداروں کے موسمی تغیرات سے جڑے خطرات اور چیلنجز سے نمٹنے کے طریقہ ہائے کار کے بارے میں جاننا اور ان خطرات کی نشاندہی، نگرانی اور ان سے نمٹنے میں بینکوں اور ریگولیٹرز کی اعانت کرنا ہے۔
ماضی میں گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کے سلسلے میں اقوام عالم سے اقدامات کا مطالبہ کرنے والے ادارے و افراد، بعدازآں بائیڈن انتظامیہ نے بھی مالیاتی نگرانوں پر زور دیا کہ وہ امریکا ککے مالیاتی نظام کے لیے گلوبل وارمنگ کے خطرات پر غور کریں۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے 2021 میں ایک ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کیے تھے جس میں انتظامیہ سے کہا گیا تھا کہ موسمی تغیرات کے مالیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اس کے بعد چوٹی کے مالیاتی نگرانوں کی تنظیم نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں اس کے تمام اراکین بشمول فیڈرل ریزرو، سے کہا گیا کہ وہ موسمی تغیرات کے مالیاتی نظام پر اثرات کا جائزہ لیے۔
فیڈرل ریزرو کے اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے ایوان میں ری پبلکن پارٹی کے نمائندوں نے کہا کہ مالیاتی نگرانوں کو موسمی تغیرات سے متعلق مسائل سے الجھنے کا اختیار نہیں ہے۔ مخالفین نے فیڈرل ریزرو پر مالیاتی نگرانی کا استعمال کرتے ہوئے تیل و گیس کی صنعت کو دیوالیہ کرنے کرنے کی کوشش کا بھی الزام عائد کیا۔
اس کی نفی کرتے ہوئے فیڈرل ریزرو کے حکام نے کہا ہے کہ اس جائزہ رپورٹ کی بنیاد پر بینکوں کے لیے کوئی نئے قواعد و ضوابط جاری نہیں کیے جائیں گے اور نہ ہی مرکزی بینک انہیں کسی مخصوص صنعت کے ساتھ کاروبار کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کوئی ہدایت دے گا، بلکہ اس رپورٹ کا مقصد صرف یہ جاننا ہے کہ مستقبل میں موسمی تغیر ملکی مالیاتی نظام کو کس طرح متاثر کرسکتا ہے۔
The post موسمی تغیر امریکی مالیاتی نظام کو کیسے متاثر کرے گا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.