وطن عزیز کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا کے سبھی بڑے ممالک میں افریقی مملکت، نائیجیریا کو چھوڑ کر پاکستان ہی میں آبادی بڑھنے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
ہر سال پاکستان میں تقریباً پینتالیس سے پچاس لاکھ کے درمیان مذید شہری پیدا ہو جاتے ہیں۔چونکہ کھانا پینا انسان کی بنیادی ضرورت ہے، اس لیے سب سے پہلے ان نئے انسانوں کو خوراک کی ضرورت ہوتی ہے جس کا مہیا کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔مگر ہمارا حکمران طبقہ پاکستانی قوم کو سستی، غذائیات سے پُر اور باآسانی دستیاب ہو جانے والی خوراک مہیا کرنے سے قاصر رہا ہے۔وہ ابھی تک موثر ’’فوڈ سکورٹی پالیسی ‘‘نہیں بنا سکا جس کے ذریعے ہی عوام پاکستان کو وافر وعمدہ خوراک مل سکتی ہے۔حکمران طبقے کی نااہلی و کوتاہی حالیہ گندم اسکینڈل نے عیاں کر دی۔
گندم اسکینڈل
پچھلے سال ماہ اگست میں تب کی نگران حکومت نے فیصلہ کیا کہ باہر سے گندم منگوائی جائے کیونکہ ملکی سطح پر اس کا ذخیرہ کم رہا تھا۔گندم منگوانے کی ذمے داری نجی کمپنیوں کو سونپ دی گئی۔ ان کمپنیوں نے مارچ 24ء تک ’’پینتیس لاکھ ٹن‘‘گندم منگوا لی۔ حالانکہ اتنی زیادہ گندم کی ضرورت نہیں تھی۔اس خریداری پر ایک ارب دس کروڑ ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ لگ گیا۔
مارچ کے بعد مقامی گندم مارکیٹ میں آئی تو کسانوں کو اس کے اچھے دام نہیں ملے کیونکہ درآمدی گندم وافر تعداد میں موجود تھی۔یوں وہ مقامی کسانوں کے لیے خسارے کا سودا بن گئی۔ انھیں اپنی فصل کے موزوں پیسے نہ مل سکے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ تیرہ لاکھ ٹن درآمدی گندم کیڑا لگی پائی گئی۔یوں اس نے پاکستانیوں کو بیمار کر ڈالا۔
اس سارے قضیے سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم کو خوراک مہیا کرنے والے محکموں کے ارباب اختیار کو یہی نہیں معلوم کہ کتنی گندم درکار ہے۔انھوں نے بس اٹکل پچو گندم درآمد کرنے کے احکامات جاری کر دئیے۔چناں چہ مارکیٹ میں ضرورت سے زائد درآمدی گندم آ گئی جس نے مقامی کسانوں کی فصل کو نقصان پہنچا دیا۔
اکثر کسانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے فصل پہ جو خرچہ کیا تھا، وہ بھی حاصل نہ ہو سکا۔یہ افواہ بھی ہے کہ درآمدی گندم منگوانے کے عمل سے کرپشن وابستہ ہے اور اس سودے بازی میں مخصوص سرکاری ونجی افراد نے اربوں روپے ناجائز طور پہ کما لیے۔گویا زائد درآمدی گندم منگوانے کے فیصلے نے کرپشن کے بطن سے جنم لیا۔
کھیت مٹ رہے ہیں
سوال یہ ہے کہ اگر پاکستانی کسانوں کو اسی طرح کھیتی باڑی میں مالی نقصان ہوتا رہا تو وہ کیوں پیشہ ِ زراعت سے منسلک رہیں گے؟ان کی ترجیح تو یہی ہو گی کہ کسی تعمیراتی کمپنی کو اپنی زرعی زمین منہ مانگے داموں فروخت کر دیں۔یوں ان کے کھیتوں کی جگہ ہاوئسنگ سوسائٹی نمودار ہو جائے گی۔پاکستان کے کئی شہروں میں یہی عمل انجام پا رہا ہے اور کھیت آبادیاں بنتے چلے جا رہے ہیں۔
اگر یہی رجحان جاری رہا تو اہل پاکستان کو خوراک کہاں سے ملے گی؟کیا تب مصر کی طرح بیشتر خوراک بیرون ممالک سے منگوانا پڑے گی؟اس خریداری کے لیے ڈالر کہاں سے آئیں گے؟حکومت تو کنگال ہوئی پڑی ہے۔ڈالر لینے کے لیے ہر دوسرے تیسرے ماہ آئی ایم ایف، سعودی عرب یا چین کے پاس پہنچ جاتی ہے۔لہذا خوراک باہر سے منگوانے کے لیے اربوں ڈالر کہاں سے آئیں گے؟
نئی بستیوں کی تعمیر سے مقامی خوراک کی پیداوار میں کمی واضح طور پر فوڈ سیکورٹی کو نقصان پہنچاتی ہے۔ خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں خوراک کے متبادل ذرائع آسانی سے قابل رسائی یا سستے نہیں ۔ جیسے جیسے مقامی پیداوار میں کمی آئے، درآمد شدہ خوراک پر انحصار بڑھ سکتا ہے، جو معیار، مقدار یا قابل استطاعت کے لحاظ سے ہمیشہ قابل بھروسا نہیں ہوتی۔ درآمدی خوراک بین الاقوامی منڈی کے اتار چڑھاو، تجارتی پابندیوں اور جغرافیائی سیاسی عدم استحکام کا شکار بھی رہتی ہے۔ پاکستان میں خوراک کی اونچی قیمتوں کا کم آمدنی والی آبادی پر منفی اثر پڑتا ہے۔اس سے غذائی عدم تحفظ اور غذائی قلت بڑھ جاتی ہے۔
عمدہ فوڈ سیکورٹی پالیسی عنقا
اب بھی پاکستان ہر سال دس ارب ڈالر سے زائد رقم کی اشیائے خورونوش بیرون ممالک سے منگواتا ہے۔اس خوراک میں دالیں، کھانا پکانے کا تیل، سبزیاں، پھل اور میوہ جات شامل ہیں۔
حال یہ ہو چکا کہ صرف دس سال پہلے تک پاکستان گندم برآمد یا ایکسپورٹ کرنے والے ملکوں میں شامل تھا۔اب وہ ہر سال گندم درآمد یعنی امپورٹ کرتا ہے۔بنیادی وجہ یہی ہے کہ حکومت کی توجہ زراعت پہ کم ہے۔ لہذا وہ ابھی تک معیاری اور عمدہ فوڈ سیکورٹی پالیسی ہی تشکیل نہیں دے سکی۔ اس پالیسی کے فقدان کی وجہ سے پاکستانی زراعت ترقی نہیں کر سکی اور مسلسل زوال پذیر ہے۔
مہنگی کھاد
مثال کے طور پہ حکومت ہر سال کھاد کی کمپنیوں کو اربوں روپے کی سبسڈی یا امداد دیتی ہے۔مقصد یہ ہے کہ وہ کھاد سستی کر کے کسانوں کو فروخت کر سکیں۔مگر بیشتر پاکستانی کسانوں کو شکایت ہے کہ انھیں کھاد آسانی سے نہیں ملتی۔اور یہ کہ کھاد ان کو بلیک میں مہنگے داموں خریدنا پڑتی ہے۔یہی حال بیج اور کیڑے مار ادویہ کا ہے۔ یہ اشیا بھی انھیں مہنگی پڑتی ہیں۔مطلب یہ کہ سرکاری سبسڈی زرعی کپمنیاں ڈکار جاتی ہیں اور اس کے مالی فوائد سے کسان مستفید نہیں ہو پاتے۔
گویا کھیتی کرنا مہنگا عمل بنتا جا رہا ہے۔بجلی و تیل کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں جس سے مسئلہ گھمبیر ہو چکا۔کسان بڑی محنت کر کے فصل اگاتے ہیں۔اگر محنت کا پھل میٹھا نہ ملے تو کسان بددل ہو کر کاشت کاری تک ترک کر دیتے ہیں۔یہ عجوبہ پاکستان میں جنم لے چکا اور اسے پیدا کرنے کا ذمے دار ہمارا حکمران طبقہ بھی ہے۔وہ پچھلے ستتر برس میں عوام دوست سرکاری پالیسیاں اور بہترین فوڈ سیکورٹی پالیسی تشکیل نہیں دے سکا۔
غیر کاشت شدہ اراضی
ستم ظریفی یہ کہ ریاست پاکستان کے پاس غیر کاشت شدہ اراضی کا وسیع رقبہ موجود ہے۔تاہم اسے برائے کار نہیں لایا جا سکے۔ایک وجہ تو حکمران طبقے کی کوتاہی ہے کہ وہ رقبہ موزوں افراد میں تقسیم نہیں کر سکا۔دیگر وجوہ میں آپ وہوائی تبدیلیاں، بڑھتی ہوئی آبادی دیہات سے شہروں میں مزدوروں کی منتقلی شامل ہیں۔
اس باعث پاکستان انتہائی ضروری زرعی طلب پورا کرنے کے لیے اپنی زرعی صلاحیت بروئے کار لانے سے قاصر رہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کے سارے قابل کاشت رقبے پہ کھیتی باڑی ہونے لگے تو زرعی شعبے کی موجودہ مالیت 70 بلین ڈالر سے بڑھ کر 200 بلین ڈالر ہو سکتی ہے۔اس طرح نہ صرف اپنے لوگوں کا پیٹ بھرا جا سکے گا بلکہ زرعی برآمدات بڑھنے سے سرکاری خزانے میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔
The post پاکستان معیاری فوڈ پالیسی کی تلاش میں appeared first on ایکسپریس اردو.