اگر کوئی آپ کو ’میڈم‘ کہتا ہے اور آپ ’ورکنگ وومن‘ ہیں، تو اس ’طعنے‘ کا مطلب اچھی طرح جانتی ہوں گی۔
ویسے تو ہمارے معاشرے میں پڑھی لکھی یا کام کرنے والی خواتین کو ’میڈم‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے کہنے والے کیا دل سے بھی ان کی عزت بھی ’میڈم‘ کی طرح ہی کرتے ہیں؟ کیا ان کے اردگرد موجود افراد کا رویہ بھی ان کے ساتھ واقعی میڈم والا ہی ہوتا ہے اور کیا ان کو وہی عزت، مراعات، درجات اور حقوق بھی حاصل ہوتے ہیں۔۔۔؟
ایک سروے کے مطابق ملازمت پیشہ شادی شدہ خواتین اپنے شوہر کے مقابلے میں نہ صرف جسمانی طور پر زیادہ مشقت کرتی ہیں، بلکہ زیادہ ذہنی اور نفسیاتی دباؤ کا بھی شکار ہوتی ہیں۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں اور عام رجحان بھی یہ ہی ہے کہ عموماً ملازمت پیشہ خواتین، چاہے شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ، مردوں کے مقابلے میں ان کو گھریلو کام کاج زیادہ کرنا ہوتا ہے۔
برطانوی جریدے کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں خواتین مردوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ دیکھ بھال اور گھریلو کام کاج کرتی ہیں۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو گھر سے نکل کر کام کرنے والی پڑھی لکھی عورت یا گھر گھر جاکر کام کرنے والی ملازمہ میں فرق صرف تعلیم کا ہی دکھائی دیتا ہے، کمانے والی عورت تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ گھر کے افراد کا رویہ اور سلوک دونوں کے ساتھ کم و بیش ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔
روایتی طور پر خواتین کی ذمہ داری صرف گھر کے کاموں کو سمجھا جاتا ہے، لیکن ان خواتین کا کیا، جو اپنے گھر کے حضرات کے ساتھ ملک کر معاشی ذمہ داری بھی اٹھا رہی ہیں۔
آج کے معاشی حالات میں ایک آدمی کی تنخواہ سے گھر چلانا مشکل ہی نہیں تقریباً نا ممکن ہو چکا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ گھر سے باہر کام کرنے والی خواتین مرد کے شانہ بشانہ نہیں، بلکہ اس سے زیادہ کام کرتی ہیں۔ انھیں گھر اور دفتر دونوں جگہ کا کام کرنا پڑتا ہے۔
نوکری کرنے والی خواتین کی پہلی مخالفت تو ان کے اپنے گھر سے شروع ہوتی ہے۔ بہت سے خاندانوں میں عورت کا نوکری کرنا ہی ’غیر مناسب‘ یا ’غیر اخلاقی‘ تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عموماً ملازمت پیشہ خواتین کے لیے ’اپنے شوق میں جاب کر رہی ہو‘، ’تم کو کسی نے زبردستی ملازمت کرنے کے لیے تھوڑی کہا ہے‘ والا رویہ اور جملہ مشترکہ ٹارچر ہے۔
گزشتہ سال گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس کی درجہ بندی میں پاکستان 142ویں نمبر پرتھا۔ جس کا مطلب ہے کہ صنفی برابری کے اعتبار سے پاکستان ان چند بدترین ممالک میں شامل کیا گیا جہاں صنفی مساوات یا تو صرف کاغذات میں ہے یا پھر تقریروں میں!
ہمارے معاشرے میں صنفی برابری پر عملی پیش رفت آج بھی ایک خواب لگتی ہے۔ جب گھر کا مرد (چاہے تعلیم یافتہ ہو یا نہیں) باہر سے کام کرکے گھر آتا ہے تو کم و بیش پورا گھر خاص طور پر امی جان ان کے آگے پیچھے بچھ بچھ جاتی ہیں، جب کہ اسی گھر کی کوئی خاتون (کمانے والی بہو، بہن یا بیٹی) کے کام پر جانے سے پہلے اور کام سے گھر آنے کے بعد توقع کی جاتی ہے کہ ناشتا وکھانا وغیرہ بنا کر جائے اور باقی کام واپسی پر مکمل کرے۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے، جو ہر گھر کی کہانی ہے۔
حضرات کام سے واپسی پر اتنے تھکے ہوئے ہوتے ہیں کہ پانی بھی ان کی خدمت میں گھر کا کوئی فرد ان کی خدمت میں لا کر پیش کرتا ہے، جب کہ سارا دن باہر کام کر کے آنے والی خواتین کو چائے کی ایک پیالی بھی خود ہی بنانا ہوتا ہے۔
اس کا یہ مطلب تو بالکل بھی نہیں کہ خواتین گھر کا کام نہ کریں یا اپنی ذمہ داری پوری نہ کریں، لیکن اگر ایک عورت گھر چلانے میں مرد کا ہاتھ بٹا سکتی ہے، تو گھریلو کاموں میں حضرات بھی خواتین کا ہاتھ بٹا کر ان کو بھی برابر اور خاص ہونے کا احساس دلا سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ نے عورت کو ہر لحاظ سے مکمل بنایا ہے۔ وہ اپنے اندر تخلیق کرنے، پالنے پوسنے اور حالات بدلنے کی بے مثال طاقت رکھتی ہے، لیکن خواتین سے امتیازی سلوک، بدسلوکی، تعلیم، صحت جیسے بنیادی حقوق سے محرومی صرف پس ماندہ یا دیہی گھرانوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس غیر منصفانہ رویے کا شکار اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانوں کی خواتین بھی ہوتی ہیں۔
مجموعی طور پر خواتین دنیا کی آبادی کا تقریباً نصف حصہ ہیں، جب کہ عورت معاشرے کی وہ اہم بنیاد ہے، جس کی آغوش میں نسلیں پھلتی پھولتی اور تربیت حاصل کرتی ہیں۔ ایک عورت سات نسلوں کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
معاشرے کی بلندی اور زوال میں سب سے نمایاں کردار ایک عورت کا ہوتا ہے۔ اس ہی لیے کہا جاتا ہے کہ ایک پڑھے لکھے معاشرے کی بنیاد تعلیم یافتہ اور بااخلاق عورت ہوتی ہے۔ اگر عورت احساس کم تری، خوف اور ذلت کا شکار ہو گی، تو ایسی ہی نسلیں پروان چڑھائے گی، جو جرأت، ہمت، حوصلہ، عزت نفس اور خودداری سے محروم ہوں گے۔
جب تک معاشرے میں ہم خواتین کو برابر مواقع فراہم نہیں کریں گے۔ ان کے لیے مساوات پر مبنی سازگار ماحول پیدا نہیں کریں گے، تب تک معاشرے اور کسی بھی شعبے میں بہتری کا عملی تصور ممکن نہیں۔
ایک ترقی یافتہ معاشرے میں عملی طور پر صنفی مساوات کا اطلاق کرنے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں موجود دقیانوسی خیالات اور رویوں پر نظر ثانی کی جائے۔ خواتین کو مشین کے بہ جائے اتنا ہی انسان سمجھا جائے، جتنا ایک مرد کو سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ’میڈم‘ پکارے جانے والی خواتین کو ان کے دفتری ساتھی اور گھروالے بھی دل سے عزت بھی ’میڈم‘ کی طرح ہی کریں۔
اس کے علاوہ اگر صنفی مساوات کو عملی طور پر حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ صرف قوانین میں تبدیلی کے بہ جائے اس کا اطلاق بھی بامقصد طریقے سے کیا جائے۔ اگر خواتین معاشرے میں خود کو مقام اور اہمیت دینا چاہتی ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں پہلے سے موجود اور رچے بسے سماجی رویوں میں تبدیلی لائی جائے۔ ورنہ ’میڈم‘ صرف الفاظ کی حد تک محدود رہے گا۔ فکری اور عملی طور پر کبھی لاگو نہیں ہو سکے گا۔
The post ’ارے آپ تو میڈم ہیں ۔۔۔!‘ appeared first on ایکسپریس اردو.