میری نظر میں، انسان کی سب سے بڑی دریافت، اپنی ذات کی تلاش ہے، کیوںکہ اس کے بغیر مشکل حالات میں انسان کی ہمت جواب دے جاتی ہے اور بے ہِمت اور بے سمت انسان کام یابی کی منزل پر، کبھی نہیں پہنچ پاتا۔ اس لیے ہمارے اندر ناکامی کا خوف، ہمیں باہر کی دُنیا سے ڈراتا رہتا ہے، اور ہمیں خود سے لڑاتا رہتا ہے۔
میں اکثر اپنی تحریر اور تقریر میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ اگر آپ اپنے اندر کی دُنیا کو سمجھ جائیں گے، تو آپ کو باہر کی دُنیا کی سمجھ آجائے گی، ورنہ یہ زندگی آپ کو بہت رلائے گی۔ دُنیا میں اس سے زیادہ خوبصورت کوئی احساس نہیں کہ انسان اپنے اندر کی خوب صورتی سے واقف ہو، اور باہر کی دُنیا کو وہ خوب صورتی دکھا سکے۔
اپنی ذاتی، خاندانی، روحانی اور پیشہ ورانہ زندگی میں کام یابی کے لیے اپنی ذات کی تلاش اور زندگی کا مقصد دریافت کرنا انتہائی اہم اور بنیادی امر ہے۔ آج کے اس مضمون ہم معروف ماہرنفسیات وکٹر فرینکل کی کتاب Men’s Search For Meaning پر گفتگو کریں گے اور اس کے مرکزی خیال اور پیغام پر روشنی ڈالیں گے۔ 154 صفحات پر مشتمل یہ کتاب میں نے 15 مارچ 2020 میں پڑھی تھی اور اسے ایک ہی نشست میں، تقریباً 5 گھنٹوں میں پڑھ ڈالا تھا۔
یہ کتاب 1946 میں پہلی مرتبہ جرمن زبان میں شایع ہوئی اور اب تک 90 سے زاید زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے اور اس کی ایک کروڑ کے قریب کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ یہ اردو زبان میں بھی ترجمہ ہوچکی ہے۔ میں نے اس کتاب سے بہت کچھ سیکھا ہے اور جو کچھ میں نے سیکھا ہے، جو مجھے سمجھ میں آیا ہے، میں وہ آپ کے ساتھ شیئر کروں گا۔
اس کتاب کے متعلق یہ کہوں گا کہ یہ ان لوگوں کو ضرور پڑھنی چاہیے جو اپنی زندگی میں مشکلات کا سامناکر رہے ہیں، جو اپنی زندگی کا مقصد تلاش کے لیے جستجو کررہے ہیں یا وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ان کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے اور وہ بس اپنی زندگی گزار رہے ہیں؟ انہیں اپنے زندگی کے مقصد کے حصول کے لیے اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
یہ کتاب جرمن ماہر نفسیات وکٹر فرینکل کی زندگی کے بارے میں ہے۔ اس کتاب کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصہ میں اُنہوں نے اپنی زندگی کے تکلف دہ ترین واقعات کو بیان کیا ہے۔ وہ یہودی تھے اس لیے اُنہیں ہٹلر کے دور میں نازی کیمپوں میں اذیت برداشت کرنا پڑی تھی۔ وہ پیشہ کے اعتبار سے ایک سائیکالوجسٹ تھے جو کہ مختلف اسپتالوں میں کام کرتے تھے اور دوسری عالمی جنگ کے دوران انہیں بھی کیمپ میں رکھا گیا تھا۔ اس میں انہوں نے وہ سارے واقعات بتائے ہیں۔ عام طور پر شروع میں، جب آپ کتاب پڑھتے ہیں، تو آپ کو لگتا ہے کہ شاید وہ ہم دردی حاصل کرنے کے لیے لکھ رہے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔
انہوں نے بڑے خوب صورت انداز میں زندگی کے ان واقعات کو جو انہوں نے دیکھے، سمجھے اور جو ان کے ساتھ پیش آئے لکھا ہے۔ ایک بڑی خوب صورت بات یہ لکھی ہے کہ وہ لوگ جن کی زندگی کا کوئی مقصد تھا یا جنہوں نے ہمت نہیں ہاری تھی انہوں نے زندگی کو بڑے کینوس سے دیکھا تھا، وہ مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود نازی کیمپ میں زندہ بچ نکلے تھے۔ اور بہت سارے لوگ ایسے تھے جن کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں تھا، جو حالات اور مشکلات کا بہت زیادہ رونا روتے تھے جو دُکھوں کی وجہ سے پریشان تھے، جو یہ سمجھتے تھے کہ شاید ان کی زندگی کا امتحان ہے۔ وہ ان کیمپس سے زندہ بچ نہیں پائے تھے۔ اس لحاظ سے یہ بڑی زبردست کتاب ہے۔
وہ نطشے کے ایک قول سے بہت متاثر ہیں جس کا مفہوم یوں ہے،’’جس انسان کے پاس زندگی میں جینے کی وجہ یعنی ’کیوں‘ ہے وہ زندگی میں ’کیسے ہوگا‘ کو خود تلاش کرلیتا ہے۔‘‘
وکٹر فرینکل کہتے ہیں۔ ہر انسان کی زندگی کا مقصد ایک دوسرے سے الگ ہے اور وہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا اس کی تلاش نہیں کر سکتا۔ اس کتاب کا بنیادی مقصد ہے کہ انسان اپنی زندگی کے مقصد کو جانے اور جب وہ اپنی زندگی کے مقصد کو پا لیتا ہے، تو دُنیا کی کوئی بھی مشکل، پریشانی، مصیبت اور تکلیف اسے اپنی زندگی کا مقصد پانے سے نہیں روک سکتی ہے۔
وکٹر فرینکل نے پہلے حصے میں اپنے براہ راست تجربات بتائے ہیں اور ان میں کس طرح سے انہیں مشکلات رہیں، لیکن زندگی کا مقصد جب انہیں واضح تھا۔ تو انہوں نے اپنی زندگی میں ساری تکلیف اور دُکھ کو برداشت کیا تھا۔ وکٹر فرینکل یہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کی زندگی میں کچھ مقصد ہیں، کچھ ادھورے کام ہیں، جو آپ نے کرنے ہیں، تو یہ آپ کو زندگی کا مقصد حاصل کرنے، اور مشکلات میں آپ کو سنبھالنے، تسلی دینے کے لیے بہت مددگار ثابَت ہوں گے۔
وہ اپنا ایک واقعہ بتاتے ہیں کہ جب ان کو نازی کیمپ میں رکھا گیا تو ان کے پاس اپنی کتاب کا ایک مسودہ تھا جو کہ وہ ابھی لکھ رہے تھے۔ جب وہ مسودہ ان سے لے لیا گیا تو انہیں احساس ہوا کہ یہ مسودہ بہت اہم ہے اور یہ کتاب جو انہوں نے لکھنی ہے، ان کے سوا کوئی اور نہیں لکھ سکتا ہے۔ یہ ان کی زندگی کا مقصد بن گیا تھا۔ انہیں ایک خواہش تھی اور وہ پُراُمید تھے کہ جب وہ یہاں سے رہا ہوں گے تو وہ اپنی کتاب کو دوبارہ لکھیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ زندگی میں کچھ ایسے مقصد، ایسے اہداف اور ایسی محبتیں بہت ضروری ہیں جو انسان کو زندہ رکھیں اور اس کی زندگی کو مقصد دیتی رہیں۔
وہ ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ کئی قیدیوں کو کرسمس کے قریب اپنی رہائی کی اُمید تھی۔ جب ایسا ممکن نہ ہوا تو بہت سارے قیدی مرگئے تھے۔ بعد میں پتا چلا کہ ان کی اُمید ختم ہوگئی تھی اب انہیں اپنی زندگی کا مقصد نظر نہیں آرہا تھا کہ اب ان کے لیے رہائی بہت مشکل ہے۔
اس کتاب میں انہوں نے اپنے تجربات میں کہا ہے کہ نفرت آپ کو اندر ہی اندر کھا جاتی ہے اور اگر آپ نفرت کا نفرت کے ساتھ ہی مقابلہ کریں گے تو آپ کے لیے جینا بہت مشکل ہو جائے گا۔
وہ کہتے ہیں جب وہ قید سے رہا ہوئے تو وہ امریکا شفٹ ہو گئے تو یہ تب بھی جرمن زبان میں ہی لکھتے تھے۔ ایک خاتون نے انہیں کہا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں کہ اب بھی ہٹلر کی زبان میں لکھتے ہیں اور آپ کو ایسا نہیں لکھنا چاہیے، ہٹلر نے آپ کے ساتھ اتنا ظلم کیا تھا۔
وکٹر فرینکل کہتے ہیں کہ جرمن، ہٹلر کی زبان نہیں ہے۔ اس لیے میں اس سے کیسے نفرت کا اظہار کر سکتا ہوں۔
ساری نسل، سارے لوگ، کسی بھی قوم کے بُرے نہیں ہوتے ہیں۔ وہ ایک اور مثال دیتے ہیں کہ جب وہ نوجوان تھے اور ایک اسپتال میں ایک ایسے جرمن ڈاکٹر کو جانتے تھے جو کہ بہت ظالم تھا اور ان کے لیے وہ شیطان کی حیثیت رکھتا تھا لیکن جب اس کی ڈاکٹر کی موت ہوئی تو ان کو کسی نے اُس ڈاکٹر کے متعلق بتایا کہ وہ بہت نرم دل اور بہت اچھا انسان بن گیا تھا اور اس نے اپنی زندگی کو تبدیل کرلیا تھا۔ وکٹر فرینکل لکھتے ہیں کہ کیا آپ کسی انسان کی تقدیر اور حتمی منزل کا تعین کرسکتے ہیں؟
وہ بتاتے ہیں کہ جب امریکی فوجیوں نے جرمنی پر قبضہ کیا تو پھر ان کو وہاں سے رہائی ملی تو ایک جرمن فوجی کمانڈر تھا، جس کو سب قیدی مارنا چاہتے تھے لیکن امریکی فوجیوں نے انہیں یہ یقین دلایا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے بلکہ اسے عزت کے ساتھ اس کی حفاظت کریں گے۔
کتاب کے دوسرے حصے میں وہ لوگو تھراپی پر بات کرتے ہیں اور اس میں بھرپور تفصیلات اور زندگی کے تجربات کے بارے میں بتاتے ہیں۔
اپنی زندگی کا مقصد تلاش کرنے کی تحریک کے حوالے سے یہ بہت ہی زبردست کتاب ہے۔ لوگو تھراپی میں وہ لوگوں کو آزاد سوچ، خوشی کی تلاش، اور اپنے مشغلے میں مگن رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ بطور ماہرنفسیات وہ لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ آپ خودکشی کیوں نہیں کر لیتے؟ جس کے بعد وہ لوگوں کو اپنی زندگی کو بامعنی اور بامقصد بنانے کی تحریک اور سوچ دیتے ہیں۔ ان کے مطابق زندگی کی حقیقت اور مقصد کی تلاش، مشکل حالات میں زیادہ آسان ہو جاتی ہے۔ یہ کتاب مشکلات، پریشانیوں اور دُکھوں کے باوجود زندگی کے مقصد کو حاصل کر لینے میں آپ کی معاونت کرتی ہے۔
ذہنی اور نفسیاتی طور پر مضبوط لوگ، مشکل حالات میں بھی زندگی کا مقصد ڈھونڈ لیتے ہیں، وہ لوگ زندگی میں ہر طرح کی مشکل سے گزر کر کام یابی حاصل کرتے ہیں۔
وکٹر فرینکل ’’مینس سرچ فار میننگ‘‘ انسانی گہرائی، وجود، اور مصائب کا سامنا کرتے ہوئے زندگی کے معنی کی تلاش کے متعلق گہری تحقیق ہے۔ یہاں کتاب کے 10 اہم نکات یہ مندرجہ ذیل ہیں۔
1: معنی کی تلاش:
اس کتاب میں وکٹر فرینکل نے واضع کیا ہے کہ انسانی زندگی میں بنیادی محرک معنی کی تلاش ہے، اور جو لوگ اپنے مصائب میں معنی تلاش کرلیتے ہیں وہ انتہائی مشکل حالات کو بھی برداشت کرنے کے لیے بہتر طریقے سے تیار ہوتے ہیں۔
2: انتخاب کرنے کی آزادی:
اس کتاب میں وکٹر فرینکل نے بتایا کہ نازی حراستی کیمپوں میں قید جیسے انتہائی سخت حالات کا سامنا کرنے کے باوجود، انسان اب بھی اپنے رویے اور اپنی صورت حال پر ردعمل کااظہار کرنے کا انتخاب کرنے کی آزادی برقرار رکھتے ہیں۔ یہ اندرونی آزادی انسانی وجود کا ایک بنیادی پہلو ہے۔
3: مشکلات کے متعلق رویہ:
اس کتاب میں وکٹر فرینکل مصائب سے نمٹنے کے لیے رویے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ اگرچہ افراد ہمیشہ مصیبتوں سے بچ نہیں سکتے، لیکن وہ اس بات کا انتخاب کر سکتے ہیں کہ اس کا جواب کیسے دیا جائے، اس لیے اپنی مشکلات کے درمیان بھی معنی اور مقصد تلاش کریں۔
4: مقصد تلاش کرنا:
زندگی میں معنی تلاش کرنے میں ایک مقصد کی شناخت اور اس کا تعاقب کرنا شامل ہے جو اپنی ذات سے بالاتر ہو۔ وکٹر فرینکل بتاتے ہیں کہ انسان کام، محبت اور زندگی کے چیلینجوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت کے ذریعے مقصد تلاش کر سکتے ہیں۔
5: ترقی کے راستے میں مصائب کا کردار:
وکٹر فرینکل کا موقف ہے کہ مصائب ذاتی ترقی اور تبدیلی کے لیے ایندھن کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔ مشکلات کا سامنا کرنے اور ان پر قابو پانے کے ذریعے، انسان، گہری طاقت اور اپنے بارے میں گہری سمجھ پیدا کر سکتے ہیں۔
6: اُمید کی طاقت:
مایوسی کے عالم میں اُمید برقرار رکھنا بقا اور ثابت قدمی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ وکٹر فرینکل نے مشاہدہ کیا کہ وہ لوگ جو اُمید قائم رکھتے ہیں، حتیٰ کہ انتہائی سنگین حالات میں بھی، ان کے پاس مصائب کو برداشت کرنے اور معنی تلاش کرنے کا زیادہ امکان تھا۔
7: انا پرستی سے بالاتر ہونا:
وکٹر فرینکل زندگی کے بارے میں ایک خودغرضانہ نقطہ نظر کے خلاف بات کرتے ہیں اور تجویز کرتے ہیں کہ انسانی زندگی کی حقیقی تکمیل، انا پرستی سے بالاتر ہو کر اور خود سے بڑی کسی چیز کی خدمت کرنے سے حاصل ہوتی ہے، وہ کوئی بھی اعلیٰ مقصد ہو، بامعنی کام ہو، یا دوسروں کی بھلائی ہو۔
8: حال میں رہنا:
وکٹر فرینکل ماضی پر غور کرنے یا مستقبل کے بارے میں فکر کرنے کے بجائے موجودہ لمحے میں جینے اور یہاں اور اب میں معنی تلاش کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔
9: قبولیت اور ہتھیار ڈالنا:
وکٹر فرینکل کہتے ہیں کہ اگرچہ افراد کو تکلیف کے بارے میں اپنا رویہ منتخب کرنے کا اختیار ہے، لیکن انہیں ایسے حالات کو قبول کرنا بھی سیکھنا چاہیے۔ جو ان کے قابو سے باہر ہیں۔ موجودہ لمحے کی حقیقت کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے امن اور سکون کا احساس پیدا ہو سکتا ہے۔
10: معنی کی مرضی:
وکٹر فرینکل نے ’’مطلب کی مرضی‘‘ کے تصور کو متعارف کرایا ہے، وہ تجویز کرتے ہیں کہ افراد اپنی زندگی میں مصائب اور مایوسی کے باوجود، فعال طور پر معنی تلاش کر کے مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔
’’انسانی مقصد کی تلاش‘‘ کتاب سے یہ اسباق انسانی زندگی اور نفسیات کے بارے میں ہمارے لیے گہری بصیرت پیش کرتے ہیں اور زندگی کی چاشنی کے درمیان معنی، مقصد اور سکون تلاش کرنے کے لیے راہ نمائی فراہم کرتے ہیں۔
The post زندگی میں مقصد کی تلاش۔۔۔ کام یابی کی بنیاد appeared first on ایکسپریس اردو.