یہ پچھلے سال ماہ اپریل کی بات ہے، بارہ سالہ رشمی نے اپنی ماں ، دیوی کو بتایا کہ وہ نزدیکی شہر ، علی راج پور میں ایک زیر تعمیر عمارت میں کام کرنے جا رہی ہے۔وہ بھارت کی ریاست، مدھیہ پردیش کے گاؤں، چکتلہ کی باسی تھی۔ دیوی ایک بیوہ ہے جو کئی برس سے تن تنہا اپنے بچوں، چار بیٹوں اور چار بیٹیوں کی پرورش کر رہی ہے۔
چکتلہ اور اردگرد کے دیہات میں عرصہ دراز سے رواج ہے کہ کوئی بچہ ہوش سنبھالے تو اسے مزدوری پہ لگا دیا جاتا ہے۔وہ کھیتوں میں کام کرتا ہے یا کسی زیرتعمیر عمارت میں۔اس طرح خاندان کے لیے کمانے والا بن جاتا ہے۔وہ کم ازکم اپنا بوجھ خود اٹھاتا ہے۔دیوی کہتی ہے :’’یہاں ہماری زمین ہے، اور میں اس پر کام کرتی ہوں۔ لیکن زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نو افراد والے خاندان کے لیے کتنا اناج مہیا کر سکتا ہے؟ خاندان کے ہر فرد کو کام کرنا پڑتا ہے، یہ یہاں کا معمول ہے۔‘‘
اس سے پہلے رشمی کو گجرات کے علاقے کاٹھیاواڑ بھیجا گیا تھا، جہاں اس نے تین مہینے مزدوری کرتے ہوئے گزارے۔ رشمی نے اپنی ماں سے دو سو روپے مانگے تاکہ وہ وہ قریبی بازار سے کچھ کپڑے خرید لے۔ رشمی پھر بازار چلی گئی مگر رات کا اندھیرا چھا گیا، وہ گھر نہیں لوٹی۔ماں اسے بازار میں ڈھونڈنے گئی جو اس کے گھر سے دس کلومیٹر دورہے لیکن وہ نہیں مل سکی۔ رشتے دار اور دوسرے گاؤں والے بھی تلاش میں شامل ہو گئے لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
دیہی آبادی کی پھوٹی قسمت
اکیسویں صدی میں بھارت بے شک معاشی قوت بن گیا ہے مگر ترقی و خوشحالی کے آثار صرف شہروں تک محدود ہیں۔قصبوں اور دیہات میں پہلے کی طرح غربت، بیماری، جہالت اور بیروزگاری کے امراض پھیلے نظر آتے ہیں۔اور انہی علاقوں میں بھارت کی بیشتر آبادی مقیم ہے۔گویا معاشی ترقی نے شہری باشندوں کو یقیناً خوشحال بنا دیا مگر وہ بھارتی دیہی آبادی کی پھوٹی قسمت بدل نہ سکی۔
دیہی بھارت کو لاحق بیماریوں میں ایک بیماری یہ بھی ہے کہ وہاں چھوٹے چھوٹے بچوں سے کام کرائے جاتے ہیں۔دوسری سنگین بیماری یہ کہ بچوں ، لڑکیوں اور عورتوں کا اغوا یا گمشدہ ہو جانا عام ہے۔اس معاملے میں بھارتی ریاست، مدھیہ پردیش سرفہرست ہے۔یاد رہے، سابقہ ریاست بھوپال کا علاقہ اب مدھیہ پردیش کہلاتا ہے۔
گمشدگی اور اغوا
سرکاری اداروں کے اعداد وشمار عیاں کرتے ہیں کہ صرف 2019ء تا 2021ء کے درمیان مدھیہ پردیش سے دو لاکھ لڑکیاں اور عورتیں اغوا کی یا گمشدہ ہو گئیں۔واضح رہے ، یہ سرکاری عدد ہے۔ریاست میں ہزارہا والدین بدنامی کے ڈر سے اپنی بچیوں کے اغوا یا گم ہونے کی رپورٹ درج نہیں کراتے۔لہذا حقیقی اعدادوشمار کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔2022ء میں ’’روزانہ ‘‘مدھیہ پردیش میں ’’بتیس ‘‘بچے اغوا ہوئے اور ان میں پچھتر فیصد لڑکیاں تھیں۔درج کرائی رپورٹوں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ لڑکیوں کے اغوا کے واقعات ان اضلاع میں زیادہ ہوتے ہیں جہاں قبائلی یعنی آدی واسی آباد ہیں۔
ماہرین عمرانیات کہتے ہیں کہ لڑکیوں اور عورتوں کے اکثر اغوا یا گمشدگی کے واقعات غربت، بیروزگاری، آب وہوائی تبدیلیوں کی وجہ سے کھیت اجڑ جانا ، تعلیم کی کمی، حقوق سے شناسائی نہ ہونا اور ذات پات کے نظام کی موجودگی سے جنم لیتے ہیں۔ ان تمام اسباب کی وجہ سے دیہی بھارت میں بچوں، لڑکیوں اور عورتوں کے گم ہونے یا اغواکی وارداتیں عام ہیں۔ان واقعات میں عموماً خواتین کو بے حرمتی کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔نیز ان سے بیگار لی جاتی ہے۔ان کو فروخت کر دینا بھی عام ہے۔
حکمران طبقے کے دامن پر بدنما دھبہ
یہ خوفناک حقائق جدید بھارت کے لیے بہت بڑا المیّہ ہیں جس کا وزیراعظم ، نریندر مودی دعوی کرتا ہے، اگلے ایک عشرے میں بھارت سپرپاور بن جائے گا۔مودی جی، پہلے اپنے دیس سے خواتین کا خوفناک استحصال تو روک لو، پھر بھارت کو سپرپاور بنا کر اپنی انا، غرور اور جنگجویانہ فطرت کو تسکین دے لینا۔رشمی جیسی لاکھوں بھارتی ناریوں کا اغوا بھارت کے حکمران طبقے کے دامن پر بدنما دھبہ ہے۔
بھارت میں بہتر زندگی گذارنے کی خواہشات بھی گمشدگی یا اغوا کا باعث بن جاتی ہیں۔رشمی کے معاملے کو لیجیے۔ دیوی نے اپنی 12سالہ بیٹی کی گمشدگی کی رپورٹ مقامی پولیس چوکی میں درج کرانے کی کوشش کی اور رشمی کا آدھار کارڈ اور دیگر تفصیلات جمع کرائیں۔ لیکن دیوی کو محسوس ہو گیا کہ پولیس شکایت کی پیروی میں سنجیدہ نہیں ۔
’’اے ایس آئی نے مجھے کہا، وہ ضرور کسی لڑکے کے ساتھ بھاگی ہوگی۔وہ واپس اجآئے گی۔ میں نے ان سے التجا کی کہ وہ اس کیس کو سنجیدگی سے لیں۔‘‘ دیوی یاد کرتے ہوئے بتاتی ہے۔
رشمی کی کال
جولائی 2022 ء تک رشمی کو لاپتہ ہوئے تین ماہ ہو چکے تھے۔ اور اس بات کا کسی کو علم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہو سکتی ہے۔ پھر ایک دیہاتی نے اسے سرکاری پروگرام، آجیویکا مشن کے بارے میں بتایا جس کا مقصد سماجی اور اقتصادی طور پہ دیہی آبادی کی مدد کرنا تھا۔ دیوی کا رابطہ اس کے ایک ممبر سے ہوا، جس نے اسے ایک این جی او، چائلڈ لائن کی رکن، منیشا بگولے سے جوڑ دیا۔بگولے نے دیوی کے گھر جانا شروع کر دیا۔ کئی گھنٹے وہاں گزارکر سراغ تلاش کرنے کی کوشش کی جو رشمی کے معاملے میں مدد کر سکے۔ ایسے ہی ایک وزٹ کے دوران دیوی کو ایک نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی۔ یہ رشمی تھی۔
کال پر رشمی نے اسے بتایا کہ وہ گجرات کے علاقے جھلوٹ میں ہے اور اس سے ملنے کو کہا۔ پوری کال کے دوران رشمی نے اپنی صورت حال کی تفصیل نہیں بتائی اور زبردستی کی استقامت برقرار رکھی۔ لیکن اس کی آواز میں کانپنے والا خوف واضح تھا۔ ’’اُس نے اس بارے میں کچھ ظاہر نہیں کیا کہ وہ وہاں کیوں ہے یا وہ ٹھیک ہے۔” بگول کہتی ہے جو اسپیکر فون پر گفتگو سن سکتی تھی۔
پس منظر میں بگولے اور دیوی نے ایک آدمی کی مدھم آواز کو سنا جو رشمی سے کہہ رہا تھا کہ جلدی کال ختم کرو اور کام پر جاؤ۔اس آواز نے بگول کے بدترین خوف کو بڑھا دیا… رشمی کو ممکنہ طور پر اسمگل کیا گیا تھا۔
لڑکی مل گئی
بگولے اور چائلڈ لائن کے دیگر کارکنوں کے ساتھ ساتھ آجیویکا کے کارکنان نے مقامی پولیس کو شامل کیا اور ان سب نے دیوی کے ساتھ جھلوٹ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ جھلوٹ پہنچ کر دیوی نے اسی نمبر پر کال کی جس سے رشمی نے اسے فون کیا تھا، لیکن اس بار ایک بزرگ آواز والا شخص ریسیونگ اینڈ پر تھا۔ اس نے دیوی کو ایک ہوٹل کا پتا دیا، جہاں اس نے کہا کہ وہ رشمی کو لے کر آئے گا۔
پولیس اہلکار، بگولے اور آجیویکا کارکنان سبھی شہری لباس میں ملبوس دیوی کے ساتھ گئے۔ وہ ہوٹل میں پھیل گئے تاکہ ان کا منصوبہ ظاہر نہ ہو۔ وہ شخص ہوٹل پہنچ گیا، لیکن رشمی کے بغیر۔ پتا چلا، وہ رشمی کا سسر تھا۔’’اس نے کہا کہ وہ رشمی کو واپس نہیں کرے گا کیونکہ اس نے اسے اپریل میں ایک آدمی سے 3۔5 لاکھ روپے میں خریدا تھا- اسی وقت وہ لاپتا ہو ئی تھی۔” دیوی بتاتی ہے۔
پولیس نے اس آدمی کو رشمی کے پاس لے جانے پر مجبور کیا۔ آخر کاربہت کوشش اور گاؤں والوں کے غصّے سے بچ نکلنے کے بعد وہ رشمی کو گھر واپس لانے میں کامیاب ہو گئے۔ پولیس حکام نے اہل خانہ کو دھمکی دی تھی کہ نابالغ لڑکی کی شادی کرنے پر ان کے خلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔
ٹھیکے دار نے بیچ دیا
رشمی کہتی ہے کہ جب وہ پچھلے سال گجرات میں مزدور کے طور پر کام کرنے گئی تھی تو عمارت کے ٹھیکیدار نے اسے کہا تھا ، اگر اسے کبھی مدد کی ضرورت ہو تو وہ واپس آجائے۔ رشمی نے سوچا تھا کہ وہ اس پیشکش کو قبول نہیں کرے گی لیکن آہستہ آہستہ اسے احساس ہوا کہ اس کی ماں پورے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے کمانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔
وہ کہتی ہے ’’میری ماں ہر شام کھیت سے لوٹ کر روتی تھی۔ اسے اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ اپنے بھائیوں کا بھی پیٹ بھرنا پڑتا ہے۔ جبکہ آمدن میں کوئی اضافہ نہیں ہو رہا تھا ۔ میں ٹیلرنگ سیکھنا چاہتی تھی لیکن ہمارے پاس سلائی مشین خریدنے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ لہٰذا ایک دن بے بسی کے عالم میں میں نے گجرات جانے والی بس میں سوار ہونے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘
گجرات پہنچ کر رشمی ٹھیکیدار سے ملی جس نے اس کی مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔مگر وہ دھوکے باز ثابت ہوا۔اس نے اسے ایک آدمی کے ہاتھ بیچ دیا۔اس آدمی نے بالآخر رشمی کی زبردستی شادی کر دی۔ شادی کے بعد رشمی کا کہنا ہے کہ اسے کمر توڑ مزدوری کرنے پر مجبور کیا گیا، اور اگر وہ اس کی پابندی نہ کرتی تو اسے مارا پیٹا جاتا ۔
رشمی اب اپنی ماں کے ساتھ گھر میں مقیم ہے۔ لیکن وہ جس کرب وبلا سے گزری اس کا صدمہ اب بھی عیاں ہے۔ “میں اس سے پوچھنے کی کوشش کرتی ہوں کہ وہاں اس کے ساتھ کیا ہوا؟ لیکن جب بھی میں تحقیقات کرنے کی سعی کروں تو وہ پیچھے ہٹ جاتی ہے۔” دیوی کہتی ہے۔
قبائلی کیوں ہجرت کر رہے ہیں؟
مدھیہ پردیش کے مغربی اضلاع میں آدی واسیوں کی بڑی تعداد بستی ہے۔ان کی سرحدیں تین ریاستوں، گجرات، راجستھان اور مہاراشٹر سے ملتی ہیں۔ ہر چند ماہ بعد مدھیہ پردیش کے قبائلی اضلاع سے ان ریاستوں میں مزدوروں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوتی ہے۔ان لوگوں کو کام کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
ریاستی حکومت ملازمتیں پیدا کرنے پر کوئی توجہ نہیں دیتی، اس لیے آدی واسیوں کے پاس پڑوسی ریاستوں تک جانے کی خاطر خطرناک راستوں پر جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اکثر ایک ٹھیکیدار ان کا انتظار کر رہا ہوتا ہے جو انھیں مزدوری کی نوکری دلواتا ہے۔
بہت سے لوگ سفر میں ہی لاپتا ہو جاتے ہیں، خاص طور پر اگر وہ کم عمر ہیں اور ان کے پاس موبائل نہیں جیسے رشمی ۔سوال یہ ہے، ان لوگوں کو ملازمتوں کے لیے اجتماعی طور پر باہر جانے کی ضرورت کیوں ہے؟ انہیں اتنے طویل اور ممکنہ طور پہ پُرخطر سفر کرنے کی کیا ضرورت پڑ گئی؟ مدھیہ پردیش حکومت کو ان تمام لوگوں کے لیے ملازمتیںپیدا کرنا چاہیں۔
کھیت تباہ ہو گئے
ایک وقت تھا جب سبھی آدی واسی خاندان اپنی زمینوں سے ہی گزارا کرتے تھے۔ حالیہ دہائیوں میں مدھیہ پردیش میں بار بار سیلاب آنے کے ساتھ ساتھ شدید بارش کا مشاہدہ کیا گیا ۔ اگرچہ موسمیاتی تبدیلی عالمی رجحان ہے، لیکن یہ ان لوگوں کو سب سے زیادہ کمزور کرتا ہے جو اپنی روزی روٹی کے لیے براہ راست زمین پر انحصار کرتے ہیں۔اور جب زمین کاشت کاری کے لیے قابل نہ رہے تو وہ دربدر ہو جاتے ہیں۔
خواتین مزدور بازار
مدھیہ پردیش میں ملازمت کے مواقع کی شدید کمی اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ علی راج پور جیسے قبائلی اضلاع میں ایک خوفناک منظر عام دکھائی دیتا ہے … نوجوان لڑکیاں اور خواتین صبح سویرے قطار میں کھڑی ہوتی ہیں ۔اس عمل کو ’’مزدور بازار‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہر صبح تقریباً نوجوان خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو علی راج پور کی مرکزی سڑکوں پر واقع لیبر سرکل کی طرف پیدل جاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد موٹر سائیکل پر سوار مرد آتے اور اپنی ضروریات کی بنیاد پر ایک، دو یا زیادہ خواتین کو دن یا ہفتے کے لیے مزدوری پر لے جاتے ہیں۔ ‘ریٹ’ 150 تا200 روپے یومیہ ہے اور کام اوسطاً سات دن چلتا ہے۔
“یہ یہاں کا معمول ہے۔ زیادہ تر خواتین غیر ہنر مند ہیں، لیکن وہ جلدی سیکھنے کے قابل ہیں۔ میں کوشش کرتا اور اس بات کو یقینی بناتا ہوں کہ ایسی خواتین کی خدمات حاصل کروں جن کی عمر اٹھارہ انیس سال ہو۔ کیونکہ قطاروں میں بہت سی نوجوان ہوتی ہیں،‘‘ نارائن کہتا ہے، ایک کاریگر جسے سلائی کے کام کے لیے مزدوری کی ضرورت ہوتی ہے۔
قطار میں موجود لڑکیوں میں سے ایک سولہ سالہ دھانی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ تیسری بار ہے جب وہ لیبر سرکل میں آ ئی۔ “مجھے اس سے پہلے دو نوکریاں ملی تھیں۔ دونوں میں سیمنٹ کا کام کرنا تھا۔ مجھے یومیہ 200 روپے ادا کیے گئے۔ یہ بہت زیادہ رقم نہیں لیکن کام چل جاتا ہے۔” دھانی بتاتی ہے۔
ایک سالہ سالہ خاتون نے بتایا جو ایک دو سالہ بچے کی ماں ہے کہ وہ یہ نوکریاں اس لیے کر رہی ہے تاکہ اپنے بچے کو اسکول بھیج سکے۔ کہتی ہے ’’میں کبھی اسکول نہیں جاسکی لیکن مجھے واقعی امید ہے کہ میرے بچے جائیں گے۔ ‘‘
مردوں اور عورتوں کے درمیان ہونے والی گفتگو میں جو ایک منٹ سے بھی کم ہوتی ہے ،کام کرنے کے حالات یا یہاں تک کہ اس کی تصدیق کے بارے میں کوئی بات نہیں کی جاتی کہ مرد کہاں سے آئے ہیں اور کام کی جگہ کتنی قریب یا دور ہے۔معاملہ طے ہو جانے کے بعد خواتین مردوں کی بائک پر سوار ہو کر سائٹ پر جاتی ہیں۔
یہ عورتوں کی نیلامی ہے
ہارسنگ ایک قبائلی سماجی کارکن ہے۔وہ ان مزدور منڈیوں کو عورتوں کی سرعام نیلامی کے مترادف قرار دیتا ہے۔ “یہ اور کیا ہے؟ ہماری بیٹیوں کو سڑکوں پر نیلام کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال نہایت سنگین ہے۔ ‘‘
چار سال سے نہیں ملی
دیوی اپنی بیٹی رشمی کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئی مگر بہت سے دوسرے خاندانوں کو یہ خوش قسمتی میسر نہ آ سکی۔ بہولی اور جینا کی بیٹی، سولہ سالہ ایلا جون 2023 ء میں لاپتا ہو ئی تھی۔وہ اب تک انھیں نہیں مل سکی۔
“ہم سب ایک ساتھ شادی میں گئے تھے۔ واپسی پر وہ ہمیں نہ مل سکی۔‘‘ باہولی بتاتا ہے۔ بہولی کا گھر گھاٹا گاؤں کے دور دراز کونے میں، ایک ناہموار پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے۔ ہر صبح اسے اور اس کی بیوی جینا کو پہلے پہاڑی سے نیچے چلنا پڑتا ہے۔ اور پھر پانی حاصل کرنے کے لیے مزید کئی کلومیٹر پیدل چلتے ہیں۔ بہولی علی راج پور میں چائلڈ لائن کے دفتر میں بھی کئی بار آ چکا۔ یہ اس کے گھر سے 40 کلومیٹر دور ہے۔
ایلا نے پہلے گجرات میں مزدور کے طور پر کام کیاتھا۔ بہولی کو امید ہے کہ اس بار بھی ایسا ہی ہوگا اور وہ جلد واپس آجائے گی۔ لیکن گاؤں میں افواہیں ہیں کہ وہ ایک لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی ۔ کسی بھی صورت میں باہولی بیٹی کی تلاش پر زیادہ وقت یا وسائل خرچ کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
وہ کہتا ہے “میں اس کے بارے میں مسلسل پریشان ہوں اور چاہتا ہوں کہ وہ جلد مل جائے۔ لیکن جلد مجھے مزدوری تلاش کرنے گجرات جانا پڑے گا۔ میں مزید تاخیر نہیں کر سکتا۔ میرے چار اور بچے ہیں جن کو کھانا کھلانا ہے۔ ایک بار جب ہم نے مون سون کے بعد فصل کاٹ لی، تو یہاں کرنے کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ اور جب میں چلا جاتا ہوں تو خاندان میں کوئی اور اس کیس کی پیروی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس لیے مجھے نہیں معلوم کہ آگے کیا ہوگا۔‘‘
گاؤں والوں کا بائیکاٹ
علی راج پور کی رہائشی ایک اور لڑکی، ساکاری چار سال سے گمشدہ ہے۔ ہرسوات گاؤں میں اس کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ کام کے لیے احمد آباد گئی تھی، جیسا کہ گاؤں میں عام ہے۔ لیکن اس کے جانے کے بعد گھر والوں نے اس سے دوبارہ کبھی نہیںدیکھا۔ “ہم نے انتظار کیا اور انتظار کیا، لیکن وہ کبھی واپس نہیں آئی۔ اور اب ہمیں نہیں لگتا کہ وہ ایسا کرے گی،” اس کی ماں گینڈی چونگر کہتی ہے۔
تاہم خاندان نے سکری کے معاملے میں گمشدگی کی ایف آئی آر درج نہیں کرائی۔اپنی بیٹی کے ’لاپتا‘ ہونے کے اعتراف کرنے کا داغ انہیں پریشان کر رہا تھا۔ “ابتدائی طور پر ہم نے سوچا کہ وہ واپس آجائے گی۔ ہم گاؤں میں ہلچل پیدا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ جن خاندانوں کی لڑکیاں لاپتا ہوتی ہیں انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن اب سب کہتے ہیں کہ ہماری بیٹی لاپتا ہے۔لہذا ہمارے ساتھ مختلف سلوک کیا جاتا ہے،‘‘ سکری کا باپ ،چونگار بتاتا ہے۔
سکری کے چچا، ہرلا کا کہنا ہے کہ گاؤں والے خاندان کو کسی بھی شادی یا سماجی تقریب میں مدعو نہیں کرتے، جب سے انہیں پتا چلا کہ ساکاری گمشدہ ہے۔’’وہ کہتے ہیں ، ہم جانتے ہیں کہ وہ کہاں ہے اور وہ خفیہ طور پر ہمیں پیسے بھیجتی ہے۔ حالانکہ یہ سب بکواس ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے ہمیں پورے گاؤں نے بے دخل کر دیا ۔‘‘
بھارتی پولیس کا خراب نظام
دوسری وجہ جس کے باعث بہت سے لوگ شکایات کے اندراج میں ہچکچاتے ہیں، وہ بھارتی پولیس کے نظام میں واضح خرابیاں ہیں۔ بہت سے خاندانوں کا کہنا ہے کہ پولیس کا پہلا ردعمل یہ سمجھنا ہے کہ ’’لڑکی ایک لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی”۔ لیکن پولیس حکام کا اصرار ہے کہ درحقیقت اکثر ایسا ہوتا ہے۔
“یہاں کے والدین سارا دن کھیتوں میں کام کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ اور اپنے بچوں کو جھگیوں میں اکیلا چھوڑ دیتے ہیں۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں۔ ایک چیز دوسری طرف لے جاتی ہے اور وہ فرار ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں،‘‘ علی راج پور پولیس اسٹیشن کا ایس ایچ او شیورام ترولے دعوی کرتا ہے۔’’اگر یہ ایک نابالغ لڑکی ہے، چاہے وہ رضامندی سے بھاگ گئی ہو، تو ہم قانون کے مطابق گمشدگی کی شکایت درج کرانے کے پابند ہیں،” وہ مزید کہتا ہے۔
مائنڈ سیٹ بھی مسئلہ
سماجی کارکنوں کا مگر کہنا ہے کہ غربت اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی بھوک ہی لڑکیوں کو کہیں اور بہتر مواقع تلاش کرنے پر مجبور کرتی ہے۔اگرچہ ایک سماجی رہنما ،تارول کا کہنا ہے کہ یہ وجہ نہیں ۔ “یہاں اب اتنی بھوک نہیں ہے۔ آپ سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھا کر مفت میں راشن حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر خواہشات بڑھنے اور پیسوں کے لالچ کی وجہ سے بھی لڑکیوں اور عورتوں کی گمشدگیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
تارول کہتا ہے ’’ یہاں بہت سے لوگ مفت راشن شراب کے بدلے بیچ دیتے ہیں۔ جو لوگ پہلے چھوٹے فون سے خوش تھے اب وہ اینڈرائیڈ چاہتے ہیں تاکہ اپنی گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ کو ویڈیو کال کرسکیں۔ وہ لوگ جو پہلے مہوا (دیسی شراب) پی کر خوش تھے، اب بیٔر چاہتے ہیں۔ یہ مادہ پرستانہ ذہنیت یہاں بہت سے مسائل پیدا کرنے کی جڑ بن چکی۔ ان لوگوں کو چاہے کتنی ہی مراعات دی جائیں، اگر ان کی ذہنیت نہیں بدلی توکوئی مثبت تبدیلی نہیںآئے گی۔”
The post بھارت کی لاکھوں بدقسمت گمشدہ عورتیں appeared first on ایکسپریس اردو.