Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

ریلوے کے عملے اور افسران کا حیران کرتا حُسن سُلوک

$
0
0

آپ جب تک سفر نہیں کرتے آپ زندگی کے ذائقے سے محروم رہتے ہیں۔ یہ سچائیاں آپس میں ملتی ہیں تو زندگی کا شربت بنتا ہے۔ آپ جب تک یہ شربت نہیں پیتے زندگی کا ذائقہ آپ کی سمجھ میں نہیں آتا۔ (مولانا رومی ؒ )

سن دو ہزار تئیس سفر میں گزرا۔ دو ملکی سفر اور ایک غیرملکی سفر ترکیہ سے واپسی کے بعد سن دوہزار چوبیس جنوری میں کشمیر کا سفر کیا۔ اسی طرح ہر تین ماہ بعد ایک سفر، ہر سفر میں کچھ نہ کچھ نیا ضرور سیکھا، سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی انسان گود سے گور تک سیکھتا رہتا ہے اور نئے دوست بناتا ہے فکروں سے آزاد ہوجاتا ہے۔ نئے منظر دیکھتا ہے مولانا رومی ؒ نے سفر کو زندگی کا ذائقہ کہا ہے۔

صبح دس بجے سے پہلے ہمیں چیک آؤٹ کرنا تھا لیکن اس بار سفر میٹرو ٹرین سے کرنا تھا۔ Sogutlucesme اسٹیشن سے ہمیں Fast Train ملنی تھی جو ہمیں انقرہ لے جاتی اور Fast Train ساڑھے دس بجے Sogutlucesme سے روانہ ہونی تھی۔ ہم نے نو بجے ہی ہوٹل چھوڑ دیا تھا مگر آسانی یہ تھی کہ جہاں بس ٹرمینل تھا اس کے ساتھ ہی میٹروٹرین کے لیے الیکٹرک سیڑھیاں اسٹیشن کے لیے جاتی تھیں۔ دس منٹ بعد ہی ٹرین آگئی اور اس نے ہمیں Sogutlucesme کے اسٹیشن پر اتار دیا۔

یہاں سے ہم Fast Train کے اسٹیشن پر آگئے۔ میٹرو اسٹیشن سے دو منزل اترکر مگر جب ہم وہاں پہنچے تو دس بج کر دس منٹ ہوچکے تھے۔ یعنی ٹرین جانے میں صرف بیس منٹ تھے۔ اس ٹرین کی بکنگ نہیں ہوتی۔ اسٹیشن سے ہی ٹکٹ لینے تھے۔ عزیز نے پہلے ہی ان کی ویب سائیٹ سے معلوم کرلیا تھا مگر جب ہم اسٹیشن پہنچے تو ٹکٹ دینے والے صاحب نے معذرت کرلی کہ کوئی ٹکٹ موجود نہیں ہے۔

ہم باہر آگئے اور سو چنے لگے کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ کیا واپس چلیں؟ یا بس سے انقرہ چلیں۔ ابھی ہم نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ میری نظر سامنے ایک ٹکٹ آفس پر پڑی وہاں دو خواتین یونیفارم پہنے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی ہوئی تھیں۔ نہ جانے میرے دل میں کیا آیا کہ میں ان کے پاس چلی گئی۔ ان سے ملی جلی انگریزی اردو میں پوچھا یہ کہاں کا بکنگ آفس ہے؟ وہ تھوڑی بہت انگریزی جانتی تھیں میری بات سمجھ گئیں۔

میری تو اتنی بات سمجھ میں آئی کہ بزنس کلاس فاسٹ ٹرین انقرہ۔ میں نے ان سے ٹکٹ کی قیمت کا پوچھا جو کچھ زیادہ نہیں تھی۔ ’’پاسپورٹ پلیز‘‘ عزیز نے جلدی سے پاسپورٹ اور لیرا نکال کر دیے اور انہوں نے جلدی سے ہمارے ہاتھ میں ٹکٹ پکڑاتے ہوئے کہا ’’فاسٹ فاسٹ، صرف سات منٹ رہ گئے ہیں۔‘‘ ہم دونوں تیزی سے الیکٹرک کی سیڑھیوں کی طرف بھاگے۔

وہاں جو چیکر کھڑے تھے انہیں بھی معلوم تھا کہ ٹرین روانہ ہونے والی ہے۔ انہوں نے میری اور عزیز کی سامان اٹھانے میں مدد کی۔ ہم اسٹیشن پہنچے ہی تھے کہ ٹرین روانگی کی وارننگ سیٹی بجنے لگی۔ وہاں کھڑے ہوئے پوٹر نے میرا بیگ اٹھاکر ٹرین میں رکھا۔ عزیز نے بھی اپنا ہینڈ کیری ٹرین کے کھلے دروازے سے اندر پھینکا حالاں کہ یہ بزنس کلاس کا ڈبا نہیں تھا۔ وہ آگے تھا مگر پوٹر نے ترکی میں کہا کہ ابھی اس میں سوار ہوجاؤ ورنہ دیر ہوجائے گی۔ یہ کوئی فلمی سین تھا اگر فلمالیا جاتا تو بہت نیچرل اور شان دار ہوتا۔ ہمارے ٹرین میں سوار ہوتے ہی دروازے بند ہونا شروع ہوگئے تھے اور ٹھیک ساڑھے دس بجے ٹرین روانہ ہوگئی۔ چیکر نے ہمارے ٹکٹ چیک کرکے ہمیں آگے جانے کا اشارہ کیا۔ ابھی ٹرین کی رفتار بہت کم تھی۔

ہم آسانی سے بزنس کلاس میں پہنچ گئے۔ یہاں بزنس کلاس میں داخل ہوتے ہی سامان رکھنے کی جگہ بنی ہوئی تھی۔ ہمیں سامان رکھ کر اپنا سیٹ نمبر دیکھنا تھا، وہ کافی آگے تھا۔ ہماری جہاں سیٹ تھی وہاں کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر ایک تُرک خاتون پہلے سے بیٹھی ہوئی تھیں۔ سامنے والی سیٹ پر ایک اور صاحب تھے۔ خاتون نے اشارے سے ہمیں اپنے پاس بیٹھنے کو کہا۔ عزیز نے ٹکٹ نمبر دیکھنا چاہا تو سامنے بیٹھے ہوئے صاحب انگریزی میں بولے جلدی سے بیٹھو یہی سیٹ ہے۔ اتنے میں ٹرین نے رفتار پکڑلینی ہے۔

Seat Aragmentکچھ اس طرح تھا کہ چار سیٹوں کے درمیان ایک میز تھی۔ درمیان سے راستہ تھا اور پھر کھڑکی کے ساتھ آمنے سامنے دو سیٹیں تھیں۔ ٹرین نے رفتار پکڑلی تھی، اب تعارف کا مرحلہ شروع ہوا۔ وہ ترک خاتون انقرہ میں نرس تھیں اور ہمارے سامنے بیٹھے ہوئے صاحب جرمن ایئرلائن کے فرسٹ افسر تھے، اپنے ماں باپ سے ملنے استنبول آئے تھے اور انقرہ اپنے کسی رشتے دار سے ملنے جارہے تھے۔

وہاں سے وہ جرمنی کی فلائٹ لے کر واپس جاتے۔ ہم پہلے پہلے یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ آپس میں رشتہ دار ہیں لیکن وہ ہماری طرح اجنبی تھے۔ ان کا نام محمت طیب تھا۔ اب وہ ہمارے ترجمان تھے جو کہتی وہ ترجمہ کرکے بتا دیتے تھے۔

اوچیے (Queen) نے ہم سے کہا کہ میں نے تم دونوں کو دیکھتے ہی محمت سے کہا تھا کاش یہ لوگ ہمارے ہم سفر ہوں۔ میری دعا قبول ہوئی کیوں محمت میں نے کہا تھا۔ محمت نے کہا اوچیے صحیح کہہ رہی ہے۔

میں نے کہا تھا کہ اب ہمارا سفرخوش گوار گزرے گا۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ ہم پاکستانی ہیں تو محمت اور اوچیے نے ہمارا بہت گرم جوشی سے استقبال کیا۔ اوچیے کے معنی انگریزی میں Queenکے ہیں ماشاء اﷲ محمت اور اوچیے دونوں ہی خاصے باتونی تھے جو کچھ اوچیے کہتی محمت ترجمہ کرکے اسے بتا دیتا اور ہماری باتیں ترکی میں اوچیے کو بتاتا۔ محمت کی انگریزی کی وجہ سے بہت آسانی ہوگئی تھی۔

ترکی کے لوگوں کی عادت ہے کہ تعارف کے فوری بعد موبائل کھول کر اپنی فیملی کی تصویریں ضرور دکھاتے ہیں۔ یہی اوچیے اور محمت نے کیا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ دونوں نے ویڈیو کال کرکے ہمارا تعارف اپنی فیملی سے کروادیا۔ محمت کے پاس تو اتنے فون نہیں آرہے تھے مگر اوچیے کے پاس تو دس پندرہ منٹ بعد کوئی فون آتا اور وہ انہیں بتاتی کہ میں Fast Train کی بزنس کلاس میں سفر کررہی ہوں اور میرے ساتھ یہ لوگ ہم سفر ہیں یعنی ہم لوگوں کی طرح بزنس کلاس میں سفر ایلیٹ لوگوں کی پہچان ہوتا ہے، حالاںکہ ہمیں تو اکانومی کلاس میں ٹکٹ نہیں ملا تھا، ورنہ ہم  400 لیرا بھی زیادہ خرچ نہ کرتے مگر اچھے ہم سفر مل جائیں تو سفر اچھا کٹ جاتا ہے۔

ہم استنبول سے نکلے تو ہمارے ساتھ ساتھ Sea of Marmara چل رہا تھا۔ Sea of Marmara ترکی ٹریڈ کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ہم نے Marmaraکے کنارے دور تک بحری جہاز کھڑے دیکھے کیوںکہ صبح کا وقت تھا اس لیے سمندر روشن، چمک دار اور پرسکون تھا۔ سامنے کی پہاڑیاں اور ان پر بنے مکانات بہت خوب صورت لگ رہے تھے۔ محمت اور اوچیے اس جگہ کے مطابق بہت کچھ جانتے تھے۔ مارا مارا کے کنارے ریزورٹس اور ساتھ باغیچے بنے ہوئے ہیں۔ یہ امراء کا رہائشی علاقہ بھی تھا جو دوسری طرف تھا۔

یہ علاقہ ختم ہوتے ہی فیکٹری ایریا شروع ہوگیا، کیوںکہ فاسٹ ٹرین کی رفتار بہت تھی اس لیے یہ سب کچھ کسی فلم کی طرح تیزی سے بدل رہا تھا مگر جو بات نوٹ کرنے والی تھی وہ یہ تھی جو بھی رہائشی کالونی نظر آتی تھی اس کی چھتیں سرخ رنگ کی تھیں۔ اس یکسانیت کی وجہ سے خوب صورتی میں اضافہ ہوگیا تھا۔

ٹرین نے یہ سفر تقریباً پانچ گھنٹے میں طے کیا، مگر یہ پانچ گھنٹے بالکل بھی گراں نہیں گزرے۔ انقرہ آنے سے پہلے اوچیے نے اپنے ہاتھ میں پہنی ہوئی چاندی کی رنگ میری انگلی پہناتے ہوئے کہا، ترکی کی دوست کی طرف سے پاکستانی دوست کی محبت کے نام، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ محمت نے اس کی تائید کرتے ہوئے کہا تم میری بہن ہو اور یہ میری بہن کا بیٹا ہے۔ اس نے عزیز کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے جذباتی لہجے میں کہا۔ میں نے ساری زندگی سفر کیے ہیں مگر یہ سفر یاد گار رہے گا۔ ہم خداحافظ کہتے ہوئے جذباتی ہورہے تھے۔ انقرہ اسٹیشن پر ہم نے تصویریں کھنچوائیں رابطہ نمبر اور ٹوئٹر اور فیس بک اکاؤنٹ کا تبادلہ تو ہم پہلے ہی کرچکے تھے۔

ہم الیکٹرک سیڑھیوں سے اوپر آگئے۔ وہاں بہت رش تھا۔ معلوم ہوا قونیہ جانے والی ٹرین کے مسافروں کے لیے اعلان ہورہا ہے۔ لوگ بھاگم بھاگ اس سمت جارہے تھے جہاں ایک لمبی لائن چیکنگ کروانے والوں کی لگی ہوئی تھی۔

عزیز نے کاؤنٹر سے معلوم کیا کہ کیا دو دن بعد کی قونیہ کے لیے بکنگ ہوسکتی ہے مگر کاؤنٹر سے انکار ہوگیا۔ معلوم ہوا اسی وقت ٹکٹ لینا پڑتا ہے۔ یعنی طریقہ وہی ہے جو انقرہ آنے کے لیے فاسٹ ٹرین کا تھا۔ جب ہم اسٹیشن سے باہر آئے سامنے ہی نیچے جانے والی سیڑھیاں تھیں جہاں سے ہم کو میٹرو ٹرین لینی تھی مگر اصل مسئلہ انقرہ کارڈ لینے کا تھا۔ میٹرو اسٹیشن کا کاؤنٹر بند تھا۔ ہم کو انقرہ کارڈ ملنا مشکل تھا اور انقرہ کارڈ کے بغیر ہم نہ تو میٹرو نہ ہی بس میں سفر کرسکتے تھے۔ ہم پریشان کھڑے تھے کیوںکہ جب ہم مشین میں کارڈ ڈالتے جب آٹومیٹک گیٹ کھلتا اور ہم اندر جاسکتے تھے۔

ہم کو پریشان دیکھ کر ایک آفس میں کام کرنے والا ورکر آگیا۔ اب مسئلہ وہی زبان یار من ترکی کا تھا۔ وہ تو انگریزی کے ایک لفظ سے بھی واقف نہیں تھا مگر وہ جو کہتے ہیں محبت کی کوئی زبان نہیں ہوتی، انسان بے کہے سنے سمجھ جاتا ہے۔

عزیز نے اسے استنبول کارڈ دکھایا اور اس سے کہا کہ پاکستان وہ ساری بات سمجھ گیا۔ وہ فوری طور پر اپنے آفس میں گیا اور اپنے انچارج کو بلا لایا جو تھوڑی بہت انگریزی جانتا تھا۔ اس نے ہم سے معذرت کرتے ہوئے کہا ہم آپ کو کارڈ نہیں دے سکتے وہ آپ کو کاؤنٹر سے ملیں گے مگر میں اپنا کارڈ آپ کے لیے استعمال کرسکتا ہوں آپ جب اسٹیشن سے اتریں تو وہاں سے کارڈ خرید لیجیے گا۔

یہ ایک ایسی رعایت تھی جو دوسرے ملک میں کسی کو مل جائے تو یہ اس ملک کے لوگوں کے تہذیب یافتہ اور باشعور ہونے کی دلیل ہے۔ ہمیں ابھی تک ترکی میں جو بھی لوگ ملے تھے انہوں نے ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا تھا۔

اس افسر انچارج نے پوچھا آپ کو اس جگہ کا معلوم ہے جہاں آپ کو جانا ہے؟ اسٹیشن کا نام کیا ہے؟

عزیز نے بتایا کہ ہمیں  Kanizalyجانا ہے۔ وہ اپنا کارڈ استعمال کرکے اپنے آفس میں چلاگیا مگر وہ لڑکا ہمارے ساتھ اسٹیشن تک آیا اور ہمیں وہیں انتظار کرنے کا کہہ کر واپس چلاگیا۔ ہم جب ترکی آرہے تھے تو سب نے کہا تھا کہ بغیر گائیڈ کسی نئے ملک جانا ٹھیک نہیں ہے، خاص طور پر ترکی، یونان، اسپین وغیرہ ایسے ملک میں جہاں گائیڈ کا ساتھ ضروری ہوتا ہے، مگر بغیر گائیڈ کے ٹرپ کرنے کا رسک تو عزیز نے لیا تھا۔

اسے اتفاق ہی کہہ لیں کہ جس جگہ عزیز نے ہوٹل بک کروایا تھا وہ انقرہ کی سب سے بڑی مسجد کے ساتھ کی گلی میں تھا اور اسٹیشن سے اس کا فاصلہ بھی زیادہ نہیں تھا، مگر اصل مسئلہ ابھی باقی تھا جو انقرہ کارڈ کا تھا۔ ہم جیسے ہی اسٹیشن سے باہر آئے وہاں آفس کے باہر ایک صاحب کھڑے تھے جو یونیفارم پہنے تھے یقیناً وہ میٹرو کے ملازم تھے۔

عزیز نے ان سے کارڈ کاؤنٹر کا پوچھ لیا۔ انہوں نے کمپیوٹر بند کیا اپنے کاؤنٹر کو دوسرے کے حوالے کیا اور عزیز کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ ان کی عمر اچھی خاصی تھی مگر کیا پھرتی تھی کہ وہ آگے آگے اور عزیز اور میں پیچھے پیچھے بس چلے جارہے تھے۔ انقرہ میں چڑھائیاں اترائیاں استنبول سے کم ہیں مگر پھر بھی یہ سڑک خاصی چڑھائی لیے ہوئے تھی۔ میری تو سانس پھول گئی مگر عزیز ان کے ساتھ چل رہا تھا۔

کچھ دور جاکر سب وے تھی۔ وہ عزیز کو لے کر اس سب وے میں چلے گئے۔ کافی دیر گزرگئی۔ میری فکر بڑھتی جارہی تھی۔ میں وہیں باغ کی چھوٹی سی منڈیر پر بیٹھی رہی۔ خدا خدا کرکے دونوں اس سب وے سے نمودار ہوئے وہ صاحب ہاتھ ہلاتے ہوئے جس طرف سے آئے تھے ادھر ہی چلے گئے۔ عزیز نے بتایا کہ یہ سب وے میٹرو کا اسٹیشن بھی ہے اور یہاں سے انقرہ کارڈ مل جاتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے یہ کون صاحب تھے؟ ان کا عہدہ اسٹیشن ڈائریکٹر کا تھا۔

اب جناب میرے ذہن میں پھر وہی موازنہ شروع ہوگیا اگر ہمارے ہاں کوئی عہدہ مل جائے تو بندہ تو ہواؤں میں اڑنے لگتا ہے۔ معلوم نہیں ان کی حکومت نے پر کاٹ کر رکھے ہوئے ہیں یا قوم ہی ایسی ہے کہ کوئی ہواؤں میں اڑنا نہیں چاہتا تھا،، جو بھی تھا ہمارا کام تو ہوگیا تھا۔ ہمارا ہوٹل یہاں سے زیادہ دور نہیں تھا Kanizaly کا علاقہ تھا۔ ہوٹل بھی تھوڑے فاصلے پر تھا۔ وہاں تک ہمیں پیدل جانا تھا۔ ہم ذرا آگے آئے تو معلوم ہوا کہ یہ انقرہ کا مشہور چوک ہے۔ درمیان میں جنگی مناظر کے سنگی مجسمے بنے ہوئے تھے۔ آس پاس خوب صورت فوارے اور بینچیں نصب تھیں جہاں بیچوں اور باغ میں بچے اور لوگ موجود تھے، اس کے سامنے سے بسیں گزر رہی تھیں ایک بس اسٹاپ ذرا فاصلے پر تھا۔

یہ بات بہت اچھی تھی کہ ہمارے پاس سامان زیادہ نہیں تھا۔ میرا اور عزیز کا ہینڈ کیری اور عزیز کا بیک پیک تھا۔ یہ انقرہ کا سب سے معروف علاقہ تھا۔ اتنا رش ہمیں انقرہ میں اور کہیں نظر نہیں آیا۔ عمارتیں بھی بہت بلند و بالا تھیں۔

اتنی بلند عمارتیں استنبول میں نہیں دیکھیں۔ یہ ہوٹل اور آفس کا علاقہ تھا۔ سڑک کراس کرنے اور سگنل کا نظام تو استنبول سے بھی اچھا تھا۔ سڑک کراس کرکے ہم جوں ہی ہوٹل جانے والی سڑک پر آئے تو وہیں اسٹریٹ، ہوٹل اور ریسٹورنٹ کی قطاریں تھیں۔ آج جمعرات تھی۔ ہم کو اتوار تک یہاں رکنا تھا۔ اس وقت شام کے چھے بجے تھے۔ یہ وقت آفیسز کی چھٹی کا بھی تھا۔ اس لیے ہوٹلوں میں بہت رش تھا۔ اس وقت دل چاہ رہا تھا کہ کسی طرح ہوٹل پہنچ جائیں حالاںکہ سفر میں تھکن نہیں ہوئی مگر میٹرو سے ہوٹل آنے میں خاصی دیر لگ گئی۔

مگر ہوٹل دیکھ کر ساری تھکن دور ہوگئی۔ یہ ایک سویٹ تھا۔ کمرہ علیحدہ اور ٹی وی کم ڈرائنگ روم علیحدہ مگر مسئلہ یہ تھا کہ آپ پورا دن گزار کر آئیں وہ کرایہ رات کے حساب سے لگاتے ہیں۔ میری تو نیند کی وجہ سے آنکھیں بند ہورہی تھیں میں جوتے اتارکر جو بیڈ پر لیٹی اب جو آنکھ کھلی تو بھوک کی وجہ سے کھلی۔

عزیز نے مجھے جو اٹھتے دیکھا تو کہنے لگا۔ اماں میں کب سے انتظار کررہا تھا کہ آپ اٹھ جائیں تو کھانا کھانے چلتے ہیں۔ میں نے کہا بیٹا بھوک تو مجھے بھی بہت زبردست لگی ہوئی ہے مگر باہر جانے کی ہمت نہیں ہورہی ہے۔ تم معلوم کرو ہوٹل میں ڈائننگ روم تو ہوگا۔ عزیز کہنے لگا ڈائننگ روم تو ہے مگر اب بند ہوچکا ہے ہم باہر جاکر کھانا کھائیں گے، لیکن اگر آپ کی ہمت نہیں ہورہی ہے تو میں جاکر دیکھتا ہوں کچھ نہ کچھ ضرور مل جائے گا۔

کافی انتظار کے بعد عزیز لدا پھندا واپس آیا۔ پیزا تو وہ کھانے کے لیے لایا تھا اور صبح کے ناشتے کا سامان بھی لے کر آگیا تھا، کیوںکہ اس ہوٹل میں صبح کا ناشتہ بھی نہیں ملتا تھا۔ اگر کبھی آپ کا جانا ترکی یا کسی اور ملک میں بھی ہو تو یہ ضرور معلوم کرلیں کہ ہوٹل میں صبح کا ناشتہ ملتا ہے؟ یہ ایک ایسی سہولت ہوتی ہے جس کی وجہ سے سیاح کافی بچت کرسکتے ہیں سیاح ہوٹل سے خوب ڈٹ کر ناشتہ کرلیتے ہیں پھر دوپہر کے وقت ہلکی سا اسنیک اور چائے پی لیتے ہیں پھر رات کا کھانا کھالیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے عزیز نے بکنگ کرواتے وقت ہوٹل والوں سے پوچھا نہیں ہوگا مگر استنبول میں یہ سہولت موجود تھی۔ اسی وجہ سے بھی ہم سمجھے کہ انقرہ میں بھی موجود ہوگی۔

دوسرے دن جمعہ تھا۔ میں نے خاصی نیند لے لی تھی۔ اس لیے ہمیشہ کی طرح سویرے آنکھ کھل گئی کیوںکہ چائے وغیرہ کا سامان دوسرے کمرے میں تھا وہاں الیکٹرک کیٹل موجود تھی۔

عزیز چائے کے جو ساشے لے کر آیا وہ عام چائے کے تھے، اس لیے دودھ کے پیکٹ بھی ساتھ تھے۔ ہوٹل میں ناشتہ تو نہیں ملتا مگر میکروویوز اون اور فریج موجود تھا، کیوںکہ میں اپنے گھر میں بھی میکروویوز استعمال نہیں کرتی ہوں اس لیے اس کا استعمال بھی نہیں آتا ہے۔ اس لیے ٹرکش ڈبل روٹی، ٹھنڈا مکھن اور جام لگاکر کھائی۔ دو کپ چائے پی کر تازہ دم ہوگئی۔

اب جو کھڑکی کا پردہ ہٹایا تو نہ استنبول کی طرح باسفورس میں تیرتی ہوئی کشتیوں کا نظارہ تھا۔ ایک طرف کسی ہوسٹل کی پچھلی دیوار تھی یا ساتھ لگی ہوئی رہائشی بلڈنگ تھی جس کی بالکنیوں میں صرف اتنی جگہ تھی کہ دو کرسیاں رکھی جاسکتیں۔ ایک دو بالکنیوں میں گملے بھی رکھے ہوئے تھے۔ میں نے گھبرا کر کھڑکی کا پردہ برابر کردیا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ باہر نکلنا بھی بے کار ہوگا۔ اس لیے اپنی ڈائری لے کر بیٹھ گئی تاکہ جو پوائنٹ ذہن میں ہوں وہ لکھ لوں کیوںکہ فون بھی استعمال نہیں کرسکتی تھی کہ آج میرا چارجر بھی گرکر ٹوٹ گیا تھا اور موبائل میں بیٹری ختم ہوچکی تھی۔

آج کا انقرہ بڑی بڑی اونچی عمارتوں کا شہر ہے اور ترکی کا دارالحکومت ہے۔ یہاں سرکاری دفتروں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور استنبول سے اس کا رہن سہن بالکل جدا ہے۔ یہ شہر جدید ترکی کا شاہ کار ہے مگر اس کی تاریخی اہمیت بہت زیادہ ہے۔

انقرہ کی تاریخ دوسو Bc 200 Halli civilization سے شروع ہوتی ہے جو دسویںصدی 100 صدیPhrygiansپھر انقرہ Lyalians کا عہد رہا۔ اس کے بعد Perisian عہد فارس اور پھر مقدونیہ اور پھر Galatiansکا دور حکم رانی رہا۔ اس کے بعد رومن آئے اور ایک دور بازنطینیہ کا بھی رہا۔ کچھ عرصے انقرہ پر سلجوق بھی حکم راں رہے۔ ترکی کے جمہوریہ بننے تک یہاں خلافت عثمانیہ کا دور تھا۔ انقرہ میں قدیم ترین تہذیبوں کے بہت سے آثار موجود ہیں مگر ہمارا قیام انقرہ میں زیادہ نہیں تھا۔ اس لیے ہم نے انقرہ کاسل اور ایک دو خاص مقام دیکھنے کا فیصلہ کیا، لیکن جب ہم ہوٹل کی سمت آرہے تھے تو جس طرف گوگل نے راستہ دکھایا وہاں انقرہ کی سب سے بڑی مسجد تھی۔

یہ اتفاق ہی تھا کہ ہمیں استنبول میں فاتح مسجد ہی کے قریب ہوٹل ملا تھا۔ دوسری دفعہ جو ہوٹل ملا تھا وہ انقرہ کی سب سے بڑی مسجد جو انقرہ کے سونیئر میں بھی نظر آتی ہے اور ہوٹل بھی اس کے ساتھ کی ایک گلی میں تھا۔ عزیز نے کہہ دیا تھا اماں میں جمعہ اس مسجد میں پڑھوں گا، اس کے بعد کہیں اور جانے کا پروگرام بنائیں گے۔

جب ہم تیار ہوکر باہر آئے تو نماز میں کچھ دیر تھی۔ ہم دونوں باہر آکر مسجد کے سامنے والے باغ میں بیٹھ گئے۔ مسجد کے بالکل ساتھ ہی ایک بہت بڑا سپراسٹور تھا۔ لوگ خریداری میں مصروف تھے۔ ادھر ہی اسٹور کی کار پارکنگ تھی۔ شاید یہی کار پارکنگ مسجد کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ ہمارے حساب سے تو نماز کا وقت ہوگیا تھا، مگر اذان ہوئی نہ خطبہ کی آواز آئی نہ وہ بھاگ دوڑ نظر آئی جو جمعہ کے وقت ہمارے یہاں نظر آتی ہے۔ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ مسجد میں جگہ ملنی مشکل ہوگی۔

آس پاس کا علاقہ تو رہائشی اور بڑی بڑی بلڈنگوں کا تھا مگر اکا دکا لوگ آتے اور مسجد کے بیرونی دروازے سے اندر چلے جاتے تھے۔

میں تو عورتوں والے حصے میں چلی آئی وہاں دو خواتین بیٹھی تھیں۔ ایک ذرا عمررسیدہ تھیں اور ایک نوجوان لڑکی تھی۔ وہ بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ بعد میں دو لڑکیاں اور آگئیں۔ نماز کے بعد سب نے اٹھ کر ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا وہ جو نوجوان لڑکی اور عمررسیدہ خاتون تھیں وہ ایک دوسرے کو جانتی تھیں اور اسی علاقے کی رہائشی تھیں۔ البتہ بعد میں آنے والی جو دونوں لڑکیاں تھیں وہ انڈین مسلمان تھیں اور کچھ دنوں پہلے ہی یونیورسٹی کے گرلز ہوسٹل میں رہنے آئیں تھیں۔ وہ ہوسٹل ہوٹل کے پچھلی دیوار کے ساتھ تھا۔

وہ لڑکیاں بھی حیران ہورہی تھیں کہ انقرہ کی اتنی بڑی مسجد میں اتنے کم نمازی کیوں ہیں۔ وہ ترکی زبان جانتی تھیں۔ انہوں نے ان خواتین سے پوچھا تو وہ کہنے لگیں کہ ان فلیٹوں میں زیادہ تر دوسرے شہروں سے نوکری کے لیے اور کام سے آنے والے رہتے ہیں۔ زیادہ تر جمعہ کے دن کا کام ختم کرکے اپنے شہروں کو روانہ ہوجاتے ہیں۔ باقی غیرملکی رہ جاتے ہیں۔ ان عمارتوں میں کافی آفس بھی ہیں۔ میں اس ڈاکٹر کے ساتھ رہتی ہوں۔ اس کا کلینک بھی اسی بلڈنگ میں ہے۔ جمعہ کو بند ہوتا ہے تو ہم نماز پڑھنے آجاتے ہیں۔

چوںکہ ہم نے بھی استنبول میں مسجدوں میں بہت رش دیکھا تھا اس لیے ہمارے لیے بھی حیرانی کی بات تھی مگر اب معلوم ہوا تو دل کو اطمینان ہوا۔ عزیز نے بھی بتایا کہ مسجد میں رش زیادہ نہیں تھا مگر مسجد کو بہت بہترین حالت میں رکھاگیا تھا اور اندر سے مسجد بہت شان دار ہے۔

ہمارا ارادہ اب کہیں جانے کا نہ تھا۔ ہم مسجد سے ملحقہ باغ میں آگئے۔ کچھ دیر میں ہوسٹل کی غیرملکی لڑکیاں بھی باغ میں آنے لگیں۔ کچھ پڑھنے لکھنے لگیں، کچھ واک کررہی تھیں۔ دونوں انڈین لڑکیاں میرے پاس بینچ پر آکر بیٹھ گئی۔

عزیز میرے موبائل کا چارجر لینے اسٹور چلاگیا۔ لڑکیاں کہنے لگیں اگر آپ کو کچھ شاپنگ کرنی ہے تو آپ انقرہ بازار جاسکتی ہیں اور قریبی ایک پارک اور بھی ہے، بہت خوب صورت ہے۔ انقرہ بازار تو بہت قریب تھا۔ میرے جوگرز مجھے بہت تکلیف دہ رہے تھے۔ مجھے نرم کھلی چپل کی تلاش تھی جو مجھے انقرہ بازار میں داخل ہوتے ہی نظر آگئی۔ قیمت بھی مناسب تھی۔ پھر میں نے وہ چپل سارے ٹور میں استعمال کیے۔

ہم پہلے فلموں میں انگریز ٹورسٹ کو دیکھتے تھے، وہ وی اسٹائل کے کھلے چپل استعمال کرتے تھے تو حیرانی ہوتی تھی اب معلوم ہوا چلنے کے لیے کھلے چپل بہت آسان ہوتے ہیں۔ یہ انقرہ کا سب سے سستا بازار تھا، کیوںکہ انقرہ دارالحکومت ہے اس لیے یہاں تنخواہ دار سرکاری ملازمین اور غیرملکی بہت بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ اس لیے چیزوں کا معیار اور قیمتیں دونوں بہت اونچی ہیں اور ایسے بازار عام آدمی کے لیے بچت کا ذریعہ ہیں۔

انقرہ بازار میں ایک بہت بڑے حصے میں نان بائیوں کی دکانیں ہیں۔ وہاں سے لوگ تھیلے بھر بھر کر روٹیاں لے جارہے تھے، چوں کہ یہاں زیادہ تر طبقہ نوکری کرتا ہے اس لیے گھر میں روٹی پکانے کا رواج نہیں ہے۔ روٹی بازار میں طرح طرح کی روٹیاں نظر آئیں جو پکانے کے بعد دکانوں کے باہر ٹھیوں پر رکھی تھیں ۔ عزیز نے ایک جگہ شیرمال اور نان کی قسم کی روٹیاں رکھی دیکھیں تو فوری طور پر ناشتے کے لیے خرید لیں۔ یہ روٹیاں بہت مزیدار تھیں۔ ہم نے پورے سفر میں پہلی بار اپنے ملک جیسی روٹیاں کھائیں، ورنہ ٹرکش ڈبل روٹی جیسی روٹیاں کھاتے ہیں۔ ناشتے میں بھی اور کھانے میں بھی یہی روٹی استعمال کرتے ہیں۔

ہم نے اور کچھ خریداری تو نہیں کی مگر بازار دیکھنے میں بہت لطف آیا۔ قریبی ہی انقرہ کا مشہور باغ تھا جس میں بہت قدیم درخت تھے۔ ایک تالاب بھی تھا جہاں بطخیں تیر رہی تھیں اور ایک کنسرٹ کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ ایک بینڈ کے کچھ ارکان اپنے آلات نصب کرنے میں مصروف تھے اور لائٹیں وغیرہ لگائی جارہی تھیں، ابھی اندھیرا ہونے میں دیر تھی۔ عزیز کنسرٹ دیکھنا چاہ رہا تھا مگر بھوک بھی بہت لگ رہی تھی۔ عزیز نے پیکٹ میں سے روٹیاں توڑ توڑ کر کھانی شروع کردی تھیں کیوںکہ روٹیوں کی اشتہا انگیز خوشبو نے ہماری بھوک کو اور بڑھا دیا تھا۔

ہم نے وہاں رکنے کا ارادہ ملتوی کردیا، کیوںکہ صبح ہمارا ارادہ انقرہ کاسل جانے کا تھا جو Kanizaly سے کافی فاصلے پر تھا۔ نئے سفر کے آغاز سے پہلے یہاں ہم اپنے پڑاؤ کا اختتام کرتے ہیں۔

The post ریلوے کے عملے اور افسران کا حیران کرتا حُسن سُلوک appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles