رمضان وہ مقدس مہینہ ہے جس کو سال کے دوسرے مہینوں پر فضیلت اور فوقیت حاصل ہے۔ اس میں شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے، ہر نیکی کا ثواب ستر گنا ہو جاتا ہے۔ دعا کی قبولیت بڑھ جاتی ہے۔ اس ماہ میں اللہ اپنے بندوں کی مغفرت فرماتا ہے، بہت سے جہنمیوں کو آزاد کرتا ہے جن پر دوزخ واجب ہو چکی ہوتی ہے، یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے جس میں ہدایت کی اور نیک و بد کی تمیز کی گئی‘ یہ رحمت مغفرت جہنم سے نجات اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کا خاص مہینہ ہے۔
رمضان کو سلامتی اور بہترین کمائی کے ساتھ گزارنے کے لیے سب سے پہلے نگاہ کی حفاظت ضروری ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے ’’نگاہ ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے جو شخص اس سے اللہ کے خوف سے بچا رہا تو اللہ اسے ایسا ایمان نصیب فرماتے ہیں جس کی حلاوت و لذت وہ قلب میں محسوس کرے گا۔‘‘ دوسری چیز زبان کی حفاظت ہے۔ جھوٹ‘ چغل خوری‘ لغویات‘ غیبت‘ عیب جوئی‘ بدگوئی‘ بدکلامی اور جھگڑا وغیرہ سب اس میں داخل ہیں ۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے ’’روزہ آدمی کے لیے ڈھال ہے‘‘ اس لیے روزہ دار کو چاہیے کہ زبان سے فحش یا جہالت کی بات نہ کرے ۔ کسی کا مذاق نہ اڑائے اور لڑائی جھگڑے سے گریز کرے ۔ اگر کوئی دوسرا کرنے لگے تو کہے کہ میرا روزہ ہے۔ اگر وہ بے وقوف اور ناسمجھ ہے تو خود کو سمجھائے کہ تیرا روزہ ہے، تجھے ایسی بات کا جواب دینا مناسب نہیں‘ غیبت اور جھوٹ سے تو بہت ہی پرہیز کرے۔
تیسری چیز کان کی حفاظت ہے ۔ ہر مکروہ چیز سے جس کا کہنا اور زبان سے نکالنا ناجائز ہے ان کی طرف کان لگانا اور سننا بھی ناجائز ہے ۔ غیبت کرنے والا اور سننے والا دونوں گناہ میں شریک ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بقیہ اعضا کو بھی ہر طرح کے غلط کاموں سے بچانا ضروری ہے۔ رمضان میں صرف دن میں روزہ اور رات کو تراویح نہیں پڑھی جاتی بلکہ درحقیقت یہ مہینہ مسلمانوں کی سالانہ تطہیر، تزکیہ نفس کا مہینہ ہے، کوئی بھی مشین ہو یا گاڑی ہو کچھ عرصے کے استعمال سے اس میں میل کچیل آنے لگتا ہے، ہماری زندگی کی مشینری گیارہ مہینے کی مصروفیات میں میل کچیل کا شکار ہو جاتی ہے اور زنگ آلود ہونے لگتی ہے، اللہ نے رمضان کا مہینہ عطا فرمایا تاکہ ہم اپنے گناہوں کے میل کچیل کو صاف کر لیں۔ صرف ڈھائی فیصد سالانہ غربا، مساکین، مسافروں اور ضرورت مندوں کو فراخ دلی اور خوش دلی سے ادائیگی ۔
یہ ساری عبادات روحانی ترقی اور تعلق خداوندی کا ذریعہ بنتی ہیں ۔ بے دلی سے کی ہوئی عبادات کا اجر و ثواب کم ہوتا ہے۔ ہم سال کے گیارہ مہینے اسی کیفیت میں گزارتے ہیں۔ رمضان کو قرآن سے ایک خاص نسبت ہے، اللہ نے نزولِ قرآن کے لیے اس مہینے کو منتخب فرمایا ۔ آپؐ حضرت جبریلؑ سے رمضان میں قرآن کا دور فرمایا کرتے تھے اس لیے تلاوت قرآن اس ماہ میں کثرت سے کرنا سنت سے ثابت ہے ۔ رمضان سے پہلے گناہ کے دو محرک ہوتے ہیں نفس اور شیطان ۔ رمضان میں شیطان کا محرک اللہ تعالیٰ نے ختم کر دیا اب صرف نفس کا محرک رہ گیا ہے اور ایک دشمن سے مقابلہ آسان ہوتا ہے جس کا رمضان خیریت سے بغیر گناہ کے گزر گیا اس کا پورا سال ان شاء اللہ خیریت سے گزر جائے گا۔ روزہ اللہ کے لیے ہے اور اس کا اجر وہی دے گا ۔ روزہ دار کے منہ کی بُو بھی مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں لیلٰۃ القدر میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ روزے دار کی دعا قبول ہوتی ہے ۔
روزہ بروز قیامت سر محشر انسان کی بخشش کے لیے اللہ کے ہاں سفارش کرے گا ۔ روزے دار کو دو خوشیاں نصیب ہوتی ہیں ایک خوشی تو افطار کے وقت دوسری خوشی اس وقت ملے گی جب انسان اپنے رب سے ملے گا۔ اس ماہِ مبارک کا پہلا عشرہ اللہ کی خصوصی رحمتوں کا ہوتا ہے، دوسرا عشرہ خاص طور پر بخشش اور مغفرت کا ہوتا ہے اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی اور خلاصی کا ہوتا ہے۔ رمضان المبارک میں دعا استغفار ذکر الٰہی درود شریف کی کثرت کریں۔ چلتے پھرتے اپنی زبان کو ان کلمات کا عادی بنا لیں۔ صدقہ، خیرات اور زکوٰۃ دل کھول کر ادا کریں۔
کم وقت میں زیادہ نیکیاں کمائیں۔ امربالمعروف نہی عن المنکر پر عمل کریں۔ رمضان کے ہر لمحے اپنی زبان کو اللہ کے ذکر سے تر رکھیں۔ روزہ تقویٰ کے نفاذ کا ذریعہ ہے،دنیا اور آخرت میں سکون اور عافیت کا آسان ترین ذریعہ ہے۔ تلاوت قرآن کثرت سے کرنا چاہیے کیونکہ نزول قرآن اسی مبارکہ اور بابرکت مہینے میں ہوا۔ قرآن اور رمضان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا جاتا ہے جس شخص نے صرف ایک دن کا اعتکاف اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا، اللہ اس کے اور دوزخ کی آگ کے درمیان تین خندق کا فاصلہ حائل کر دیتے ہیں۔
اس فاصلے کی مقدار مشرق و مغرب کے درمیان فاصلے جتنی ہے۔ رمضان المبارک میں حضرت جبرائیل علیہ السلام پورا قرآن مجید رسول اللہ ﷺ کو سنایا کرتے تھے اور ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے سنا کرتے تھے۔ اس لیے رمضان کو قرآن سے بڑی مناسبت ہے۔ اس لیے رمضان المبارک میں کم از کم تین پارہ یومیہ تلاوت کا معمول بنائیں۔ رمضان میں تلاوت کے لیے کوئی خاص وقت بھی متعین نہ کریں بلکہ ہر نماز کے بعد حسب سہولت تلاوت کر لیں۔ اس طرح قرآن مجید سے شغف اور تعلق میں اضافہ ہو گا اور اس کے ذریعے اجر کا جو ذخیرہ جمع ہو گا اس کا اندازہ لگانے کی ضرورت نہیں۔ اس کو پورے طور پر اللہ رب العالمین کے لیے چھوڑ دیں۔ اس ماہ مبارک میں جتنا ہو سکے دوسروں کی مدد کریں۔ ویسے تو سب کی مدد کریں لیکن خاص طور پر ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کریں۔
رمضان المبارک کا ایک نام شہر المواساۃ یعنی ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ بھی ہے۔ اس ماہ مبارک میں دوسروں کی خبر گیری کرنا اس ماہ کے مقاصد میں سے ہے۔ غریبوں کی خصوصی مدد کے لیے اس مہینہ میں صدقۃ الفطر واجب کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی جتنا ہو سکے اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ بہت سے لوگ اسی ماہ مبارک میں اپنی زکوۃ بھی نکالتے ہیں یہ بھی اچھا عمل ہے۔ اس مہینہ میں ایک ضروری کام خدمت ہے۔ جہاں تک ہو سکے اپنے معاشرے اور اپنے گرد و پیش کی خدمت اور خبر گیری کریں ۔ خدمت کا آغاز اپنے گھر والوں سے کریں ۔ جن کے پاس ان کے والدین کی دولت موجود ہو وہ سب سے زیادہ ماں باپ کی خدمت کریں ۔ ان کے علاوہ میاں بیوی ایک دوسرے کی خدمت کریں ۔
اپنے بچوں کی خبر گیری کریں ۔ ضعیف رشتہ داروں اور محلے کے بزرگوں کی خدمت کریں ۔ خدمت بھی ایک عظیم عبادت ہے۔ رمضان المبارک میں دنیائے انسانیت کی سب سے بڑی نعمت انسانوں کو ملی یعنی قرآن مجید کا نزول ہوا۔ اللہ کی اس عظیم نعمت پر اللہ رب العزت کا شکریہ ادا کرنا بہت ضروری ہے ۔ اگر یہ نعمت نہ ہوتی تو نہ جانے ہم کن اندھیریوں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہوتے۔ اس لیے یہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس پر اس کا زیادہ سے زیادہ شکریہ ادا کریں ۔ اس کے علاوہ بھی اس کی بے شمار نعمتیں ہیں جو ہم پر ہمہ وقت سایہ فگن ہیں ۔
خود اللہ کا فرمان ہے کہ اس کی نعمتوں کو گننا چاہیں تو نہیں گن سکتے ۔ اس لیے اس کی تمام نعمتوں پر شکر ادا کریں ۔ شکر عبادت بھی ہے اور شکر کی وجہ سے نعمتوں میں اضافہ بھی ہوتا ہے ۔ شکر کا ایک مطلب یہ ہے کہ زبان سے شکر ادا کریں ۔ ایک مطلب یہ ہے کہ اس نے جس کام کا حکم دیا ہے اس کو بجا لائیں ۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ اپنے اعضا و جوارح سے کوئی ایسا کام نہ کریں جو اس کی نافرمانی کا موجب ہو۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ روزہ ڈھال ہے۔ اگر کوئی روزے سے ہو تو اس کو فحش گوئی نہیں کرنی چاہیے ۔
نہ شور و غوغا کرنا چاہیے ۔ اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہے تو وہ کہے کہ میں روزے سے ہوں ۔ یعنی میں جھگڑا نہیں کروں گا (بخاری) ۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ ان کو روزے کے ثمرات میں بھوکا رہنے کے علاوہ کچھ نہیں ملتا (ابن ماجہ)۔ اس لیے اس پر خصوصی توجہ رہنی چاہیے کہ روزے کے ذریعے ہمارے نفس کی اصلاح ہو ، باطن کا تزکیہ ہو، ہمارے اندر تقویٰ پیدا ہو ۔ کسر نفسی پیدا ہو، صبر و برداشت کا مادہ پیدا ہو، ہم معاف کرنا سیکھ جائیں ، ہمارے اندر جتنے یہ خصائص پیدا ہوں گے، تقویٰ کا معیار اسی اعتبار سے بلند ہوتا جائے گا۔ اور روزے کے مقاصد بھی پورے ہوں گے، اس ماہ مبارک کے آخری عشرے میں لیلٰۃ القدر کا نزول ہوتا ہے جو رسول اللہ ﷺ کی امت پر رب ذوالجلال کی طرف سے ہونے والی خصوصی عنایات میں سے ایک عظیم عنایت اور رحمت ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’جب شب ِ قدر آتی ہے تو جبریلؑ فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں اور ہر وہ بندہ جو کھڑا یا بیٹھا ہوا اللہ کا ذکر کر رہا ہو بلکہ کسی بھی طریقے سے ذکر و عبادت میں مشغول ہو اس کے لیے دعائے رحمت و مغفرت کرتے ہیں۔
اگر کسی خوش نصیب کو زندگی بھر میں صرف دس راتیں ہی گزارنے کی توفیق مل جائے تو گویا اس نے آٹھ سو تینتیس سال چار ماہ سے زیاہ کامل عبادت میں گزرنے کا ثواب حاصل کر لیا۔ رمضان گزرنے کے بعد لیلۃ القدر یعنی پہلی شوال کو عبادت کو متعین قرار دیا گیا ہے کیوں کہ مزدور نے جو مہینہ بھر مزدوری کی ہے اللہ اس کی مزدوری بخشش اور مغفرت کی صورت میں دیتا ہے اس لیے اس رات کو فضول کاموں میں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے معبود کا شکر ادا کرنا چاہیے جس نے عبادت کی توفیق عطا فرمائی اور انعامات سے نوازا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک میں اللہ کو یاد کرنے والا شخص بخشا بخشایا ہے اور اللہ سے مانگنے والا نامراد نہیں رہتا ۔
اعتکاف: روزے دار کے لیے اعتکاف میں بیٹھنا مستحب ہے۔ اعتکاف اسی مسجد میں ہوتا ہے جس میں باجماعت نماز پڑھی جاتی ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رمضان کے اخیر عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے ۔ دوران اعتکاف تلاوت قرآن پاک، سبحان اللّٰہ والحمدللّٰہ اور لاالہ الا اللّٰہ کی کثرت اور اللہ تعالیٰ کے افعال و صفات میں غور و فکر اللہ تعالیٰ کی قربت کا سبب بنتے ہیں۔ فضول گفتگو سے بچا جائے ۔ معتکف کو ضرورت کے بغیر گوشہِ خلوت سے باہر آنا جائز نہیں۔ مثلاً غسل واجب ہو جائے تو غسل کے لیے آنا جائز ہے، یا سخت بیماری کا ڈر ہو یا ضرورتِ بشری۔ عورت گھر میں اعتکاف کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص عشرہ رمضان میں اعتکاف کرے اس کو دو حج اور دو عمروں کا اجر ہے۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص ایک دن کا اعتکاف بھی اللہ کی رضا کے واسطے کرتا ہے تو حق تعالیٰ شانہٗ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں آڑ فرما دیتا ہے جن کی مسافت آسمان اور زمین کی درمیانی مسافت سے زیادہ چوڑی ہے۔ شب قدر میں قیام: رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک رات ’’شب قدر‘‘ کہلاتی ہے۔ اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینہ کی مقبول عبادت سے بہتر ہے۔ لہٰذا 21، 23، 25، 27، 29، کی پانچ راتوں میں جاگنے والے اور قیام کرنے والے نے یقیناً شب قدر کو حاصل کر لیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں اسے تلاش کرو، اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کی صحیح طور پر قدر دانی کر نے کی توفیق نصیب فرمائے ۔آمین
The post رمضان المبارک،غم خواری و روٹھے رب کومنانے کا مہینہ appeared first on ایکسپریس اردو.