سنیل کمار کو خوب معلوم ہے کہ اپنا خواب پورا کرنے کے لیے سخت محنت درکار ہے۔ بھارت کی ریاست ہریانہ سے تعلق رکھنے والے اس 28 سالہ نوجوان کے پاس پہلے سے ہی دو ڈگریاں ہیں:ایک بیچلر اور ایک ماسٹرز کی۔ وہ تیسری ڈگری پانے کے لیے تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ مقصد یہی ہے کہ دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک میں اچھی تنخواہ والی ملازمت پا سکے۔
وہ کہتا ہے، میں نے تعلیم حاصل کی تاکہ میں زندگی میں کامیاب ہو سکوں۔ “جب آپ سخت محنت کرتے ہیں، تو آپ کو عمدہ ملازمت حاصل کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔”کمار کے پاس اب ایک نوکری تو ہے، لیکن یہ وہ نہیں جس کے لیے اس نے تعلیم حاصل کی تھی – اور یقینی طور پر وہ نہیں جس کا اس نے خواب دیکھا تھا۔
اس نے پچھلے پانچ سال اپنے گاؤں کے اسکول کے فرش صاف کرنے میں گزارے ہیں۔ یہ ایک کل وقتی ملازمت ہے۔اس کے علاوہ وہ فارغ وقت میں طلبہ کو ٹیوشن پڑھاتا ہے۔اس کام سے بھی کچھ یافت و جاتی ہے۔ وہ ماہانہ تقریباً سات ہزار روپے کماتا ہے۔
یہ زیادہ رقم نہیں ، وہ مانتا ہے، خاص طور پر جب اسے دو بوڑھے والدین اور ایک بہن کی مدد کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس کے بس میں اتنی ہی کمائی کرنا ہے۔ وہ کہتا ہے :مثالی طور پرمجھے ایک استاد کے طور پہ کام کرنا چاہیے تاکہ اپنی ڈگریاں کام میں لا سکوں۔ اس کے بجائے مجھے صرف اپنے آپ کو کھانا کھلانے کے قابل ہونے کے لیے مزدوری کرنا پڑتی ہے۔”
’’شائنگ انڈیا‘‘کا اصلی روپ
سنیل کمار کی مایوس کن اور پریشان کن صورت حال غیر معمولی نہیں، اس سے کروڑوں بھارتی نوجوان دوچار ہیں۔یہ درست ہے کہ1990ء کے بعد معاشی اصلاحات کا منصوبہ لاگو ہونے کے بعد بھارت کی معیشت ترقی کر رہی ہے۔مگر اس معاشی ترقی سے بھارتی آبادی کا مخصوص حصہ ہی مستفید ہوا ہے۔ورنہ بیشتر عام بھارتیوں کی حالت زیادہ تبدیل نہیں ہو سکی۔وہ آج بھی غربت، بھوک ، بیماری، بیروزگاری اور رہائش نہ ہونے کے عفریتوں سے نبردآزما ہیں۔
اس دیس میں ایک طرف مکیش امبانی جیسے مٹھی بھر کھرب پتی بستے ہیں جو بیٹی بیٹے کی شادی پہ اربوں روپے خرچ کر ڈالتے ہیں۔اور دوسری طرف اسے کروڑوں بھارتی بھی آباد ہیں جن کے لیے روزانہ ایک وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا بھی کٹھن و مشکل مرحلہ بن جاتا ہے۔یہ خوفناک تضاد ’’شائنگ انڈیا‘‘کا اصلی روپ عیاں کرتا ہے جہاں سرمایہ داری نے گنے چنی طاقتوراور بارسوخ شخصیات ہی کو زیادہ فوائد پہنچائے ہیں۔معیشت کی آزادی و اصلاحات سے عوام کی حالت سدھر نہیں سکی۔
آج بھارت کو سب سے بڑا یہ مسئلہ یہ درپیش ہے کہ مملکت میں نوجوانوں کی تعداد ایک ارب کے قریب پہنچ چکی۔درحقیقت یہ کام کرنے کے قابل جوانوں اور نوجوانوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا۔ مگر اس نئی نسل کو جتنی تعداد میں ملازمتیں چاہیں، وہ ہر سال پیدا نہیں ہو رہیں۔جبکہ ہر سال لاکھوں بھارتی نوجوان تعلیم مکمل کر کے مارکیٹ میں آ جاتے ہیں۔اسی لیے ملک میں نوجوانوں کی بے روزگاری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔اس خرابی سے عالمی معیشت کے نئے معشوق کو اس وقت نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے جب وہ مذید ترقی کے منصوبے بنا رہا ہے۔
دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے طور پر بھارت کی نئی حیثیت نے عالمی معیشت کے لیے ایک نئے انجن کی امیدوں کو جنم دیا تھا کیونکہ اس دوران چین کی آبادی میں کمی آئی ہے اور وہاں بوڑھوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چین کے برعکس بھارت کی کام کرنے کی عمر کی آبادی جوان اور بڑھتی ہوئی ہے۔ مزدوری اور کھپت کا ایک وسیع تالاب جسے امریکی بائیڈن انتظامیہ کے ایک اہلکار نے “معاشی معجزہ” قرار دیا ہے۔لیکن سنیل کمار جیسے کروڑوں نوجوان بھارتیوں کے لیے اس نام نہاد معجزے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے:یہ کہ بہت کم ملازمتیں اور بہت زیادہ مقابلہ۔
معجزے سے مایوسی تک
چین کے برعکس، جہاں ماہرین اقتصادیات کو خدشہ ہے کہ وہاں بوڑھوں کی بڑھتی تعداد کو سہارا دینے کے لیے کافی کارکن نہیں ہوں گے، بھارت میں تشویش کی بات یہ ہے کہ محنت کشوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو کھپانے کرنے کے لیے کافی ملازمتیں نہیں ہیں۔
اعدادوشمار کی رو سے بھارت کی 40 فیصد سے زیادہ آبادی کی عمر پچیس سال سے کم ہے۔تشویش ناک بات یہ کہ بھارتی سماجی تنظیم، سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کی رو سے اس نئی نسل میں تقریباً آدھے نوجوان بیروزگار ہیں۔یہ تھنک ٹینک باقاعدگی سے ملازمتوں کے اعداد و شمار شائع کرتا ہے۔ بھارتی تجزیہ کار اس صورت حال کو “ٹائم بم” قرار دیتے ہوئے خبردار کرتے ہیں کہ یہ بیروزگار نوجوان بھارتی معاشرے میں بدامنی، دنگا فساد کا موجب بن سکتے ہیں۔اگر ان کے لیے ملازمتیں پیدا نہ ہوئیں تو بھارتی معاشرہ افراتفری کا شکار ہو سکتا ہے۔
سنیل کما ر اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر خاص طور پہ محنتی اور قابل تعلیم یافتہ نوجوان کو اچھی ملازمت نہ ملے تو وہ کتنی زیادہ فرسٹریشن اور ڈپریشن میں گرفتار ہو سکتا ہے۔وہ کہتا ہے: مجھے یہ سوچ کر بہت غصہ آتا ہے اور مایوسی بھی ہوتی ہے کہ میری قابلیت اور تعلیم کے باوجود میرے پاس کامیاب نوکری نہیں ہے۔میں اس ناکامی کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتا ہوں۔ اسے اپنے لوگوں کو کام دینا چاہیے۔‘‘
سنیل کمار جیسے کروڑوں بھارتی نوجوانوں اور بھارت کے حکمران طبقے کے لیے بُری خبر یہ ہے کہ ماہرین نے خبردار کیا ہے، یہ مسئلہ صرف اور بھی بڑھے گا کیونکہ بھار ت کی آبادی بڑھ رہی ہے اور ملازمتوں کے لیے مقابلہ اور بھی سخت ہو جائے گا۔امریکا کی کارنیل یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر اور بھارتی حکومت کے سابق چیف اقتصادی مشیر، کوشک باسو نے بھارت میں نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح کو “حیران کن حد تک بلند” قرار دیا۔
وہ کہتے ہیں “یہ شرح طویل عرصے سے آہستہ آہستہ چڑھ رہی ہے، یوں کہیے کہ تقریباً پندرہ سالوں سے یہ ایک سست چڑھائی پر ہے۔ لیکن پچھلے سات، آٹھ سالوں میں یہ ایک تیز چڑھائی کے مانند ہو گئی ہے۔اگر خاص طور پہ بھارتی نئی نسل کو مطلوبہ روزگار نہیں ملتا ہے، تو پھر یہ خرابی بھارت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج اور مسئلہ بن سکتا ہے۔”
ہر جگہ مقابلہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے پاس بڑھتی آبادی کے مسائل حل کرنے کے لیے مختلف آپشن موجود ہیں۔ان میں سے ایک پہلے سے ہی عالمی سطح پر مسابقتی اور محنت سے کام کرنے والے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو ترقی دینا دینا ہے۔ اس میں 2021 ء میں صرف 15% بھارتی افرادی قوت کام کر رہی تھی۔
لیکن اس طرح کی معاشی اصلاحات انجام پا گئیں تب بھی ان بھارتی نوجوانوں کی کم ہی مدد کریں گی جو ابھی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہائی اسکول کی طالبہ میگھا کماری کو لیجیے جسے زندگی کی دوڑ کے مقابلے میں برتری حاصل کرنے کے لیے زیادہ سخت محنت درکار ہے۔
سترہ سالہ میگھا کماری نے مشرقی ریاست جھاڑکھنڈ میں اپنے آبائی شہر، ڈمکا کو چھوڑ دیا ہے۔وہ کوٹا میں وائبرینٹ اکیڈمی میں پڑھ رہی ہے جو اس کے شہر سے 800 میل (1,300 کلومیٹر) سے زیادہ دور ہے اور شمالی ریاست راجستھان کا ایک شہر ہے۔
یہ اکیڈمی بھارت میں ایسے کئی تعلیمی مراکز میں سے ایک ہے جہاں اعلیٰ درجے کے کالجوں کے لیے کوالیفائی کرنے کی امید رکھنے والے طلبہ اضافی امتحانی تیاری کے کورسز اور ٹیوشن سیشنز کے ساتھ ہائی اسکول کے باقاعدہ نصاب کو پڑھنے جاتے ہیں۔میگھا کماری اس ہجرت کو پروفیسر بننے کا اپنا خواب پورا کرنے کے بہترین موقع کے طور پر دیکھتی ہے، لیکن یہ خواب مالی اور ذاتی طور پر بہت زیادہ قیمت پر ملتا ہے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں باقاعدہ کل وقتی کارکنوں کی اوسط تنخواہ حالیہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق تقریباً سوا اٹھارہ ہزار روپے فی مہینہ ہے، اکیڈمی میں ایک سال کی ٹیوشن فیس تقریباً بارہ ہزار روپے سے لے کر ڈیرھ لاکھ روہے تک ہے۔
کماری کے مطابق وہ اس مدد کو بھی شدت سے یاد کرتی ہے جو اس کا خاندان ساتھ رہتے ہوئے اسے فراہم کرتا تھا۔کماری کہتی ہے “اکیڈمی کا ماحول واقعی انتہائی مسابقتی ہے۔ پھرتنہا اور خاندان سے دور رہنا اور اس طرز زندگی کے تمام تناؤ سے گزرنا ایک طالب علم کے لیے بہت مشکل ہے۔”
سماجی زندگی نہیں، محبت کی زندگی نہیں
کماری کی حالت بھی غیر معمولی نہیں ۔’’بچپن سے ہم اس کٹھن صورت حال اور مقابلے کا سامنا کر رہے ہیں۔” 28 سالہ سارنگ اگروال بتاتا ہے جوبھارتی سول سروس کے داخلہ ٹیسٹ کے لیے پڑھ رہا ہے ۔کہتا ہے:’’بھارت میں ہر امتحان میں مقابلہ ہوتا ہے،ہر جگہ سخت مقابلہ۔کوئی سماجی زندگی نہیں، محبت کی زندگی نہیں … اور کوئی پلان بی نہیں۔‘‘
سنیل کمار اور میگھا کماری کی طرح اگروال بھی مقابلے کے بارے میں سب جانتا ہے۔ وہ ان ’’10 لاکھ سے زیادہ‘‘جوانوں میں شامل ہے جو ہر سال سول سروس میں کسی عہدے کے لیے درخواست دیتے ہیں۔بھارتی سول سروس ملک کی سب سے زیادہ پسندیدہ ملازمتوں میں سے ایک ہے۔جبکہ لاکھوں درخواست گذاروں میں سے صرف 1% کو ملازمت ملتی ہے۔بھارت میں ایک پوری صنعت نوجوانوں کی مدد کرنے کے لیے پروان چڑھ چکی تاکہ وہ بھارتی سول سروس میں جگہ بنا لیں اور جسے وہ زندگی کے سنہرے ٹکٹ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
“جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہوا ہے، مقابلہ بڑھ گیا ہے۔ اس لیے اچھی ملازمتیں پانے کے امکانات بھی کم ہو گئے ہیں،” مدھوسودن بتاتا ہے۔وہ اسٹڈی آئی کیو میں مواد اور حکمت عملی کا ڈائریکٹر ہے۔یہ ادارہ سول سروس کے داخلہ امتحان میں نوجوانوں کو مطالعہ کرنے میں مدد دینے میں مہارت رکھتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ بھارت کے نوجوان مسابقت کا شدید دباؤ محسوس کر رہے ہیں۔’’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان دنوں طلبہ میں تناؤ کی سطح بہت زیادہ ہے۔ طالب علم میرے پاس آتے اور کہتے ہیں ’’سر، میں سو نہیں پا رہا ہوں۔‘‘
بھارت میں جنم لیتے مسابقتی بازار میں سب سے زیادہ کارفرما بھی ان کی حد تک جانچے جاتے ہیں۔مثال کے طور پہ اگروال نے چار بار سول سروس کا امتحان دیا ہے لیکن کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔ اپنے خواب کو جاری رکھنے پر اس کے خاندان کو بہت زیادہ قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ جب ٹیوشن فیس، خوراک اور رہائش کو مدنظر رکھا جائے تو سالانہ تقریباً ڈھائی لاکھ روپے کی لاگت آتی ہے۔
“میرے اہل خانہ مجھ پر خرچ کیے گئے پیسوں سے تین چار کاریں خرید سکتے تھے۔” سارنگ اگروال کہتا ہے۔’’ مگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پاس کوشش جاری رکھنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ۔ایسا کوئی پلان بی نہیں جو مجھے کوئی اور راہ دکھا دے ۔‘‘
جنگ زدہ علاقوں کی طرف
بھارت میں بیروزگاری کی شرح اتنی زیادہ ہو چکی کہ بھارتی اب ان علاقوں میں بھی بغرض ملازمت جا رہے ہیں جو جنگ و جدل کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، مثلاً یوکرین اور اسرائیل۔ ان ممالک میں کسی کو علم نہیں ہوتا کہ کب وہ موت کے منہ میں چلا جائے گا۔ اس کے باوجود بھارتی جوق در جوق ان ملکوں میں جانے کو تیار ہیں ۔اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت میں بیروزگار کتنی زیادہ فرسٹریشن و مایوسی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔حتی کہ وہ ملازمت پانے کو موت پر بھی ترجیح دے رہے ہیں۔
بھارت میں اب یہ نعرہ مقبول ہے :اسرائیل جاؤ، زیادہ کماؤ، اور مر جاؤ۔ بھارتی قرض سے بچنے کے لیے بھی جنگ اور موت کا خطرہ مول لینے کو تیار ہیں۔میزائل حملے میں پہلے بھارتی کے مارے جانے کی خبر سن کر بھی مایوس کنسٹرکشن ورکر اسرائیلی بھرتی ایجنسیوں کے ذریعے ملازمتوں کی درخواست دے رہے ہیں کیونکہ بھارت میں ترقی کے مواقع کم ہیں۔
27 سالہ امان کمار کو لیجیے جو ایک سرکاری صنعتی تربیتی ادارے کے گیٹ پر کلائی میں نارنجی رنگ کا کاغذ پہنے کھڑا ہے۔وہ اسرائیل کی تعمیراتی صنعت میں بھرتی ہونے کے لیے مکمل کیے گئے ٹیسٹ کے نتائج سننے کا انتظار کر رہا ہے۔
اسرائیل، جو 7 اکتوبر سے حماس کے ساتھ جنگ میں ہے، نوے ہزار فلسطینیوں کے ورک پرمٹ منسوخ اور ان کی جگہ بھارت مزدوروں کو تعینات کرنے کے لیے تیار ہے۔ مئی 2023 ء میں بھارت اور اسرائیل نے ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے تھے جس میں سول انجینئرنگ کا احاطہ بھی شامل تھا۔
اس کے تحت ماہ دسمبر 2023 ء میں بھرتی کرنے والوں نے ریاست ہریانہ میں 10,000 کارکنوں کو ٹارگٹ بنایا جہاں ریاستی حکومت نے 52,000 درخواستیں تقسیم کیں اور انہیں سہولت فراہم کی۔جبکہ اسرائیلی ریکروٹ ایجنسیاں بھارت کی سب سے بڑی ریاست، اترپردیش یا یوپی سے بھی 7,000 افراد بھرتی کرنا چاہتی تھیں۔
28 فروری سے آٹھ دن تک یوپی کے ریاستی دارالحکومت لکھنؤ میں بھرتی کا دوسرا دور ہوا۔ پلاسٹرنگ، ٹائل ورک، فریم ورک اور بار موڑنے کے شعبوں میں کل 6920 درخواست دہندگان نے فارم بھرے۔ان میں سے 4121 کو منتخب کیا گیا۔
امیدوار بتاتے ہیں کہ یہ کوئی مختصر عمل نہیں ۔ امان کو جسے دسمبر میں منتخب کیا گیا تھا، کاغذات، ہیلتھ سرٹیفکیٹ جمع کروانے اور ویزا کے مکمل طریقہ کار سے گزرنا پڑا۔ اس کے پاس ساختی ‘فٹر’ کے طور پر ڈپلومہ ہے، حالانکہ اس نے ‘بار موڑنے'(bar bending)کا امتحان دیا تھا۔ وہ بتاتا ہے کہ وہ تین سال سے فٹ ہے، لیکن اس کی ماہانہ تنخواہ صرف 10,000 روپے ہے۔اس ملازمت میں کوئی سماجی تحفظ موجود نہیں ۔
دیگر نوجوان اور درمیانی عمر کے بھارتیوں کی طرح جو بھرتی مہم میں شریک ہوئے ، اس کا واحد مقصد اپنے خاندان کی کفالت اور قرض ادا کرنے کے لیے زیادہ کمانا ہے۔ وہ اسرائیل جانے کے لیے بالکل تیار ہے۔ امان کا خاندان بھارت کے ذات پات کے اہرام میں نیچے ہے۔وہ ایک اچھوت یا دلت ہے۔تاہم گھر والے نہیں چاہتے کہ وہ باہر جائے۔ والدین نے اسے بار بار ہندوستان میں نوکری تلاش کرنے کو کہا ہے۔
بینک بیلنس چھوڑ کر مروں
امان کہتا ہے: “مجھے کام کرتے تین سال ہو گئے اور میری آمدنی وہی ہے۔مجھے کوئی انشورنس نہیں ملی اور ہمیشہ نوکری کھونے کا خطرہ رہتا ہے۔ اسرائیل جانا زیادہ کمانے کے بہترین مواقع میں سے ایک ہے۔ بھارت میں بالکل کوئی آپشن نہیں ۔ اگر آپ کوئی اور نوکری تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کو اس سے کم تنخواہ کی پیشکش ہو گی جو آپ اس وقت کما رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اسرائیل جانا بہتر ہے، وہاں زیادہ کمائیں چاہے ایک بار مر جائیں۔میں یہاں مر سکتا ہوں یا میں وہاں مر سکتا ہوں۔آپ کے جنازے کے لیے والدین قرض لیں گے۔اس سے بہتر ہے کہ آپ اہل خانہ کے لیے بینک میں پیسے رکھ کر مر جائیں۔‘‘
انڈیپینڈنٹ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے مطابق بھارت میں بے روزگاری کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔حقیقی شرح نو دس فیصد تک ہو سکتی ہے۔مودی سرکار مگر درست اعداد وشمار پوشیدہ رکھتی ہے۔وہ دنیا والوں کو بھارت کا اصل چہرہ نہیں دکھانا چاہتی جہاں غربت اور بیروگاری کا دور دورہ ہے۔
نتائج کا انتظار کرتے ہوئے امان اپنی ماں اور بہن کو فون پر بتاتا ہے کہ اسرائیل میں ملازمت جنگ کے علاقے میں نہیں اور وہ محفوظ رہے گا۔’’میں ان کو قائل کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہوں۔ میرے والد مجھ سے زیادہ بات نہیں کرتے۔ انہوں نے اس ہفتے اسرائیل میں ایک بھارتی شخص کے مارے جانے کی خبر پڑھی ہے اور زیادہ پریشان ہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں یہاں ناکام ہو گیا ہوں کیونکہ مجھے ایسی نوکری نہیں مل سکی جو میری صلاحیتوں اور مہارتوں کے مطابق قیمت ادا کرے۔ یہ ایک اچھا موقع ہے۔‘‘
بھارت میں کوئی موقع نہیں
34 سالہ میلان موریا، جو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے پارلیمانی حلقے، وارانسی)یوپی) سے تعلق رکھتا ہے ، اپنے کاغذات کی جانچ پڑتال کے لیے 313 کلومیٹر (195 میل) کا سفر طے کر کے لکھنؤ پہنچا۔ اس نے دسمبر میں بھرتی کا امتحان دیا اور کوالیفائی کر لیا۔
وہ بتاتا ہے :’’کووڈ سے پہلے میں ملائیشیا میں کام کرتا تھا اور کافی کما رہا تھا۔ اب بھارت میں مجھے ایسی نوکری نہیں مل رہی جس سے میرے خاندان کے لیے کافی ادائیگی ہو اور اس لیے میں اسرائیل جا رہا ہوں۔میرا خاندان نہیں چاہتا کہ میں اسرائیل چلا جاؤں کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ میری جان کو خطرہ ہو گا، لیکن میں یہاں صرف 15,000 روپے کما رہا ہوں جو کافی نہیں ۔ میں بھاری قرض میں ڈوبا ہوا ہوں اس لیے میں نے اسرائیل جانے کا فیصلہ کیا۔‘‘
میلان سٹیل موڑنے کے علاوہ کوئی اور ہنر نہیں جانتا۔ کہتا ہے:’’کسی دوسرے شعبے میں نوکری تلاش کرنا بھی مشکل ہے اور مجھے یہاں کوئی اچھا مستقبل نظر نہیں آتا۔ آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔اس کا نتیجہ مسابقت کی صورت ظاہر ہوا۔اب لوگ کسی بھی قیمت پر کوئی بھی کام کرنے کو تیار ہیں۔ بھارت کی تعمیراتی صنعت میں کم ادائیگی اور استحصال آبادی بڑھنے کی وجہ سے ہے اور کوئی بھی ہماری مدد نہیں کر سکتا۔‘‘
میلان کا کہنا ہے “مجھے صرف اپنی میڈیکل رپورٹ جمع کرانی ہے۔ اور جب وہ میرا ویزا منظور کر لیں گے تو میں جانے کو پوری طرح تیار ہو جاؤں گا۔میں جانتا ہوں کہ میرا خاندان پریشان ہے لیکن بروقت ادائیگی سے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں میں پڑھتے ہوئے، والدین کو صحیح طریقے سے کھانا کھاتے ہوئے اور بیوی کو کچن میں خوراک کی کمی کی فکر نہ کرتے ہوئے دیکھ کر زیادہ خوشی ہوگی۔‘‘
لکھنؤ میں سرکاری انڈسٹریل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (آئی ٹی آئی) کے ایک سینئر اہلکار، مظہر عزیز کہتے ہیں کہ اسرائیل میں یوپی کے مزدوروں کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ اس لیے ریاستی دارالحکومت میں بھرتی کا دوسرا مرحلہ بھی انجام پایا ہے۔ماہ دسمبر میں بھرتی کے لیے اسرائیل کی ایجنسی نے 7,000 امیدواروں میں سے تقریباً 5,000 کارکنوں کا انتخاب کیا جو مستری، ٹائل فٹر، کارپینٹر اور بار موڑنے کا کام کرتے ہیں۔ عزیز کہتے ہیں۔ “دوسری مہم میں ایجنسیوں کا مقصد تقریباً 3,000 مزید کارکنوں کو بھرتی کرنا ہے اور یہ 5,000 تک جا سکتا ہے۔
یوپی کی حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ترجمان راکیش ترپاٹھی کا دعوی ہے کہ وفاق اور ریاست ،دونوں میں بے روزگاری کی شرح کم ہو رہی ہے کیونکہ حکومت ملازمتیں پیدا کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کا یہ موقع صرف ایک آپشن ہے۔ “بھارت میں بھی بہت سے دوسرے مواقع دستیاب ہیں۔ نیز یہ کارکنان اسرائیل کے تنازعات والے علاقوں میں تعینات نہیں ہوں گے ۔‘‘
تاہم کانگریسی رہنما، سوامی پرشاد مختلف نکتہ نظر رکھتے ہیں۔آپ یوپی میں ذات پات اور مزدوری کے مسائل پر آواز اٹھاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ حکومت نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتیوں کی ایک بڑی تعداد اسرائیل میں ملازمتوں کے لیے درخواستیں دے رہی ہے۔
“حکومت بڑھتی ہوئی جی ڈی پی پر اپنا سینہ تھوپ رہی ہے، لیکن وہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے بارے میں بات نہیں کر رہی ہے۔کیا یہ شرمناک بات نہیں ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں نوجوان دوسرے ملک میں جانے کی کوشش کر رہے ہیں جو کسی تیسرے ملک کے ساتھ جنگ میں ہے؟ حکومت کو نوکریاں پیدا کرنے پر شیخی مارنے کی بجائے اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔‘‘
The post بھارت کی ناخوش نئی نسل appeared first on ایکسپریس اردو.