اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور شرم و حیا کا درس دیتا ہے، اسلام نے ہر انسان کو اس کے حقوق دیئے ہیں، عورت ، مرد ، بچہ ، بوڑھا اور جوان سب کو اس کی حیثیت کے مطابق حقوق دیئے ہیں۔
دین اسلام فطری دین ہے اس میں حیا کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے ، اللہ رب العزت پردہ کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ’’اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ ہو، جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی ‘‘ (الاحزاب،33) اسی طرح اللہ جل شانہْ نبی کریم ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں ’’ اے نبی اپنی بیویوں ، صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں، یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ اس کی پہچان ہو ، تو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (الاحزاب:59) ارشاد نبویﷺ ہے’’حیا ایمان کا حصہ ہے‘‘ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ہر دین کی ایک خصوصیت ہوتی ہے اور اسلام میں خصوصیت ’’حیا‘‘ ہے ۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں‘‘ (سورہ نور 30) اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں مرد کو بھی اپنی حدود و قیود میں رہنے کی طرف اشار ہ کیا گیا ہے اور لازم قرار دیا ہے کہ مرد بھی خواتین کی عزت و احترام کا خیال رکھتے ہوئے اپنی نظریں جھکائے رکھیں تا کہ گناہوں سے بچ سکیں۔ قرآن مجید میں مختلف جگہوں پر کئی مرتبہ پردے کا حکم آیا ہے، سورہ الاحزاب میں ’’عورت کو سر سے پاؤں تک پردہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے‘‘ پردے کے متعلق حدیث پاک میں ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ’’عورت پردہ میں رہنے کی چیز ہے کیونکہ جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے تلاش کرتا ہے‘‘۔
(ترمذی شریف جلد نمبر 1 حدیث نمبر 1181) حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں ’’اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے اس بناؤ سنگھار کو دیکھ لیتے جو اب عورتوں نے ایجاد کر لیا ہے تو ان کو (مساجد میں نماز پڑھنے سے) اسی طرح منع فرما دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو مساجد میں نماز پڑھنے سے منع کر دیا گیا تھا۔
(تبیان القرآن بحوالہ مسلم شریف) اسلام تو اتنا پاکیزہ اور صاف ستھرا مذہب ہے کہ یہ اپنے ماننے والوں کو نظر تک نیچے رکھنے کا حکم دیتا ہے ۔ جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے’’مسلمان مردوں کو حکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے بہت ستھرا ہے، بے شک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے، اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ظاہر ہو اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنا سنگھار ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر (سورہء النور) مذکورہ آیت اس امر کی نشاندہی کر رہی ہے کہ بدنگاہی اور بدنظری ہی زناکی پہلی سیڑھی ہے اسی کی بدولت فحش کاریوں کے دروازے کھلے چلے جاتے ہیں، بدنگاہی اور بے پردگی کے سبب اپنی دنیا وآخرت دونوں برباد کر لیتے ہیں۔
اسی بدکاری کی روک تھام کے لیے قرآن کریم نے بدنظری پر حرمت کی مہر لگا دی۔ اسی طرح پردہ کی اہمیت وافادیت پر بے شمار احادیث موجود ہیں ایک مرتبہ حضرت حفصہ بنت عبدالرحمن رضی اللہ عنہا باریک دوپٹہ اوڑھے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ نے ان کے دوپٹہ کو چاک کر دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ نورمیں کیا فرمایا ہے اور اس تنبیہہ کے بعد ایک اور چادر منگوا کر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو عنایت فرمائی، اسی طرح ایک دفعہ حضرت ام سلمہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا حضورﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر تھیں کہ حضرت عبد الرحمن ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا آگئے۔
حضورﷺ نے پردہ کا حکم دیا تو انھوں نے کہا وہ تو نابینا ہیں ( یعنی وہ نہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں اور نہ پہچان سکتے ہیں) آپﷺ نے فرمایا تم تو نابینا نہیں ہو (ترمذی شریف) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ عورت کا کمرہ میں نماز پڑھنا گھر (آنگن) میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور (اندرونی) کوٹھڑی میں نماز پڑھنا کمرہ میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے (سنن ابو داؤد، جلد نمبر اول، حدیث نمبر 567) یعنی عورت جس قدر بھی پردہ کرے گی اسی قدر بہتر ہے ، صحن میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں کمرہ میں نماز پڑھنا افضل ہے اور کمرہ میں نماز پڑھنے کے مقابلہ میں کمرہ کے اندر بنی ہوئی کوٹھڑی میں نماز پڑھنا زیادہ افضل ہے’’حیا ِ‘‘ عورت کا زیور ہے۔
اس کا مکمل اہتمام عورت کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے پردہ عورت کو شیطان اور شیطان کے چیلوں سے بچانے اور تحفظ کا مکمل حصار فراہم کرتا ہے ۔ اسلامی معاشرے میں عورت پردے میں رہ کر تعلیم بھی حاصل کر رہی ہے کاروبار بھی کر رہی ہیں اور قوم کی خدمت احسن طریقے سے انجام دے رہی ہے ، مسلم خواتین پائلٹ ڈاکٹرز، انجینئرز اور زندگی کے تمام شعبہ جات میں محفوظ طریقے سے اپنا کردار نبھا رہی ہیں، یہی اسلامی معاشرے کا حسن ہے ۔ عورت کا پردے سے باہر ہونا مر د و زن دونوں کو گناہ کی طرف مائل کرتا ہے جس سے نہ صرف رشتوں کا تقدس پامال ہوتا ہے بلکہ معاشرتی بدحالی کا بھی موجب بنتا ہے ۔
عورت کے پر دہ کو اس قدر لازمی قرار دیا گیا ہے کہ اس کیلئے عبادت بھی پردہ کے بغیر اور بے پردہ جگہ پر کرنا منع فرمایا گیا ہے ۔ بے پردگی کی ابتدا نظروں کے بے حجابانہ استعمال سے ہوتی ہے ۔ درحقیقت، مرد اور عورت کے ناجائز تعلق کا پہلا تیر، نظر ہی ہے۔ اسی لیے حدیث مبارکہ میں اسے’’نظروں کا زنا‘‘ کہا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے’’(اے نبیﷺ ) مومن مردوں سے کہہ دیں کہ وہ نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں (سور? النور)‘‘ اگلی آیت میں فرمایا’’ اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں (سور? النّور)‘‘ کیونکہ نظر کی آوارگی ہی جنسی آوارگی کا باعث ہوتی ہے ، چنانچہ پاک دامنی کی پہلی شرط، نظر کی حفاظت ہے اور نظر کی حفاظت کے فوراً بعد شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے ۔
حدیث میں ہے کہ اللہ نے فرمایا ’’یقیناً نگاہ، ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے جو شخص مجھ سے ڈرکر اسے چھوڑ دے گا، میں اْسے اس کے بدلے میں ایسا قیمتی ایمان دوں گا ، جس کی حلاوت وہ اپنے دِل میں پائے گا (طبرانی)‘‘ دراصل بے پردگی، بے حیائی کا نقطہ آغاز ہے اور بے حیائی، ام الخبائث، جس نے مغربی معاشرے میں جنسی آوارگی کے سبب شرفِ انسانیت کو حیوانیت کے منصب پر لا بٹھایا ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کی عظمت، وقار اور اشرف المخلوقات کے اعلیٰ و ارفع اعزاز کے تحفظ و تقدس کے لیے پردے کو فرض قرار دیا ۔
فرضیت کے اس اقدام کے پیچھے بیش بہا حکمتیں، بے انتہا اسرار و فضائل اور عظیم مقاصد پنہاں ہیں، جو دنیا میں شیطان کی شکست اور آخرت میں جنت کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ سب سے پہلے اس بات کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ پردہ اور حیا، دونوں ایک دوسرے سے مشروط و مربوط ہیں ۔ پردے کے بغیر حیا کی حفاظت ممکن نہیں اور حیا کے بغیر ایمان ممکن نہیں۔ پردہ، عورت کو ایمان کی قوت، خود اعتمادی اور تحفظ فراہم کر کے اْسے اللہ اور اس کے رسولﷺ کا فرمانبردار اور اطاعت گزار بناتا ہے۔ پردہ، بدکاری، بے حیائی، بے شرمی، بے غیرتی، فسق و فجور ، فتنہ و فساد اور شیطان کی مذموم سازشوں کے خلاف جہاد کا نام ہے۔ پردہ، دلوں کی طہارت، شرم و حیا کی علامت ، شرافت کی نشانی اور عفت و عصمت کے تحفظ کا آہنی حصار اور محفوظ قلعہ ہے۔ پردہ، نسوانیت کی شان، مومن عورت کی آن، مذہب و ثقافت کی پہچان، تحفظ و پاکیزگی کا مظہر اور بے حیائی کے خلاف مضبوط ڈھال ہے۔
پردہ، عورت کے حسن، اْس کی نزاکت و شرافت ، اْس کے فخر و امتیاز ، شرم و حیا ، شائستگی و وقار اور عزت و ناموس کا محافظ ہے۔ پردہ، لوگوں میں عورت کے عزت و احترام کا باعث بن کر اْسے معاشرے میں وہ باعزت مقام بخشتا ہے ، جس کی وہ مستحق ہے۔ پردہ، ہمارا دینی و سماجی شعار ہے ، جو عورت و مرد اور معاشرے کو نیکیوں کی جانب راغب کرنے، برائیوں سے بچانے، شیطان کے مکر و فریب اور فتنہ و فساد سے محفوظ رکھنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ ہم ایک اسلامی ملک کے باشندے ہیں دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے ہم سب پر اسلامی قوانین کا نفاذ ہوتا ہے، ہمارے معاشرے میں مغربی رسم و رواج کو اپنانا فیشن بن چکا ہے، ہماری شادیوں میں سنتوں کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں اور رسم و رواج کو فروغ دیتے ہیں۔
ناچ گانے و دیگر لغویات میں ہم مشغول ہو جاتے ہیں ، ہم اپنی اقدار کو بھول کر یا چھوڑ کر مغربی اقدار کو اپنانے کو اپنا اسٹیٹس سمجھتے ہیں ، اغیار کے رسم و رواج کو اپنا کر ہم دین اسلام سے منحرف ہو رہے ہیں، جس کے بھیانک نتائج ہمارے سامنے ہیں ، بچیوں کے ساتھ زیادتی اور ان کی بڑھتی ہوئی تعداد اس کا منہ بولتا ثبوت ہے، مذکورہ احادیث کریمہ سے پردہ کی اہمیت و افادیت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پردہ خواتین کے لیے کس حد تک ضروری ہے، بلکہ ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے پردے کا ماحول از حد ضروری ہے ، یہ پردہ اور حیاہی انسان کو معزز بناتا ہے۔
ان کا فقدان عزت وعظمت کا جنازہ نکال دیتا ہے اور آج کے اس پر فتن دور میں مغربی تہذیب و تمدن نے ا نداز اور لباس کی ایسی شکل ہے کہ لباس کا مقصد ہی فوت ہوکر رہ گیا ہے ، بہت سی خواتین لباس پہن کر بھی برہنہ معلوم ہوتی ہیں۔ آج جس قدر برائیوں، معاشرتی خرابیوں اور بدکاریوں کے سیاہ بادل معاشرہ انسانی اور تمدنی زندگی پر چھائے ہوئے ہیں یہ سب بے پردگی اور فیشن زدہ عریانی کی دین ہے۔ مسلمانوں کی پستی اور تنزلی کے اسباب میں سے ایک سبب مسلم خواتین کا فحاشی و عریانی کو رواج دینا ہے۔ ان سے روگردانی ہی کو تو گناہ کہا گیا ہے۔
کون مسلمان ہو گا جو یہ نہیں مانتا کہ اسلام میں پردے کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔ بحیثیت مسلمان ہم سب یہ تسلیم تو کرتے ہیں لیکن اس پر عمل کو ضروری نہیں سمجھا جاتا ۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے تو پردے کا یہ عالم تھا کہ خواتین تو کیا مرد بھی سر پر پگڑی یا ٹوپی لازمی پہنتے تھے اور ایسا نہ کرنا بے ادبی سمجھا جاتا تھا اب کیا ہوا کہ مرد و عورت دونوں سر ڈھانپنے اور پردہ کرنے کو ضروری نہیں سمجھتے بلکہ ایسا کرنے والوں کو دقیانوسی اور غیر مہذب سمجھا جاتا ہے۔
معاشرے کی بہتری اور اسلام کی سربلندی کیلئے ہم سب کو اپنی اپنی جگہ پر اپنا کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے، والدین بچوں کے لباس اور گفتگو پر خصوصی توجہ دیں، اللہ سے دعا ہے کے اللہ کریم ہمیں صحیح معنوں میں اسلام کے مطابق زندگی گزارنے ، اسلامی اقدار کو اپناتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
The post حجاب ۔۔۔عورت کی عزت و عصمت کا محافظ appeared first on ایکسپریس اردو.