کراچی: محمد سمیع پاکستان کے ایک ایسے گیند باز ہیں، جو ریکارڈ ساز ہونے کے باوجود کچھ پس منظر میں رہے۔ گذشتہ دنوں ہمیں ایک موقع میسر ہوا اور ہم نے ان سے ’ایکسپریس‘ کے لیے وقت لے لیا۔
یہ انٹرویو سمیع کے کم بولنے اور محتاط گفتگو کی بنا پر جلد ہی مکمل ہوگیا یہ ہمارے لیے ایک ایسا انٹرویو تھا، جس میں بات سے بات بھی ذرا کم کم ہی نکل پائی یا یوں کہیے کہ سوال تھوڑے پڑ گئے۔ بہت سے جواب تشنہ بھی لگے، تو کبھی سوالات بھی ازخود گفتگو میں چلے آئے اور کبھی ہمیں دُہرانے پڑے لیکن اس بات چیت میں آپ کو براہ راست نہ سہی، لیکن ’بین السطور‘ بہت سے جواب ضرور مل جائیں گے۔
’سمیع‘ نام کے معنیٰ بھی سننے والے کے ہیں، شاید اس لیے بھی وہ کم گو ہیں۔ تاہم دوران ملاقات دو سے زائد بار ہم نے محسوس کیا کہ محمد سمیع کی آنکھیں ’گفتگو‘ ہوئیں! اور ہمیں بہت اچھی طرح ان کی سخت جدوجہد اور ماضی کی کٹھنائیوں کا احساس دلا گئیں، جس میں ان کی قومی ٹیم سے بار بار بے دخلی اور واپسی کا ماجرا تھا۔ ہم نے محمد سمیع سے پوچھا کہ کیا انھوں نے شروع ہی سے ’کرکٹر‘ بننے کا سوچا تھا، تو انھوں نے نفی کی اور کہا کہ وہ کالج تک اس حوالے سے بالکل سنجیدہ نہیں تھے، بس یہ شوق تھا۔
”کب جا کر احساس ہوا کہ اسے ہی اپنانا ہے؟“
”جب 1998ءمیں کراچی انڈر 19 سے منتخب ہوا۔ تب کپتان سعد عمر تھے، دیگر اہم کھلاڑیوں میں دانش کنیریا، فیصل اقبال اور حسن رضا تھے۔ انڈر 19ایک سال ہی کھیلا۔ 1999ءمیں ’کسٹمز‘ میں کھیلا۔ پھر پاکستان انڈر 19 کھیلا۔ ’نیشنل بینک‘ سے سات آٹھ سال کھیلا۔ 2000ءکے انڈر 19 ورلڈ کپ اسکواڈ میں شامل رہا، قومی کرکٹ ٹیم میں 2001ءمیں شامل ہوا۔ جب ہماری ٹیم نیوزی لینڈ جا رہی تھی۔
2001ءسے 2003ءمیں ٹیم کے ساتھ رہے؟
انھوں نے کہا 2006ءتک، بس درمیان میں کچھ فٹنس کے مسائل تھے، پھر جب ٹی 20 شروع ہوئی، تو میں کچھ ٹیم سے باہر رہا۔
2004ءمیں بنگلا دیش کے خلاف محمد سمیع کے ایک ’طویل اوور‘ کا تذکرہ ہوا، جس کی چھے گیندوں کے لیے انھیں 17 گیندیں کرانا پڑ گئی تھیں، یعنی 11 گیندیں اضافی! کہا جاتا ہے کہ اس وجہ سے بھی ان کے کیریئر کو کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
محمد سمیع کہتے ہیں کہ سب کے دیکھنے کا اپنا اپنا انداز ہے، لوگ اپنے حساب سے بات کرتے ہیں، ایسے دور تو ہر کرکٹر پر آتے ہیں۔ میری مجموعی کارکردگی دیکھیے، تو پاکستان کے 75 برسوں کی تاریخ میں ابتدائی 20، 25 باﺅلروں میں شمار ہوتا ہوں۔ مجھ جیسے لڑکے کے لیے، جو اپنی مدد آپ کے تحت گلی کوچوں سے اٹھ کر آگے آیا، یہ بھی ایک بڑی کام یابی ہے، لیکن لوگوں نے یہ تاثر بنا لیا کہ میری کارکردگی نہیں رہی! وسیم اکرم، وقار یونس کے بعد کسی نے بھی پاکستان سے 400 وکٹیں نہیں لیں شعیب اختر، اور عمر گل نے بھی نہیں!
ہم نے محمد سمیع سے ’پی ایس ایل‘ میں ’اسلام آباد یونائیٹڈ‘ کی ٹیم میں آنے اور پھر یک دم غائب ہونے کا ذکر کیا تو وہ کہتے ہیں: ”بہت سے کرکٹروں کو موقعے ملے، ورنہ ٹیم میں جگہ نہیں ملتی۔ اور کرکٹ کھیلنے کے لیے عمر بہت محدود ہوتی ہے۔“
’باقاعدہ ریٹائرمنٹ لی؟‘ ہم نے ٹکڑا لگایا، جس کی وضاحت کچھ اس طرح کی کہ ”نہیں، گرنے کی وجہ سے میرے فریکچر ہوا، تو اس کے بعد مجھے لگا کہ اب کرکٹ چھوڑ دینی چاہیے، اگر کھیل رہا ہوتا تو پھر باقاعدہ ریٹائرمنٹ لیتا۔“
ہم نے کہا کہ آپ کے ساتھ فیصل اقبال، حسن رضا، دانش کنیریا بھی قومی ٹیم میں آئے، لیکن انھیں زیادہ مواقع ملنے کی کمی نظر آتی ہے، اس کے بعد سرفراز احمد کے ساتھ بھی کچھ یہی سلوک دکھائی دیا؟
”بین الاقوامی میچ کھیلنا بھی کسی اعزاز سے کم نہیں۔ اب کرکٹ اتنی ہو رہی ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ کے کھلاڑیوں کو بھی کوئی نہیں جانتا، ورنہ پہلے فرسٹ کلاس کرکٹر کو بھی شائقین پہچانتے تھے۔ کسی فاسٹ باﺅلر کے لیے کرکٹ میں اتنا لمبا وقت نہیں ہوتا۔ ٹیم میں شمولیت کے پیچھے ہماری سالہا سال کی محنت ہوتی ہے، لیکن ہماری ایک بال بھی خراب ہو تو لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ کوئی انعام نہیں! یہ کھیل ہنساتا کم اور رلاتا زیادہ ہے۔“ محمد سمیع نے بے لاگ جواب دیا۔
”اس سے تو یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہاں (کراچی) والوں کو مواقع نہیں ملتے؟“ ہمیں لگا کہ ہمارا جواب ان کے جذبات میں کہیں گم ہوگیا، اس لیے دُہرا دیا، جس پر وہ گویا ہوئے کہ ”کافی سارے عناصر ہیں، کراچی میں میدانوں کی بھی کمی ہے، نچلی سطح پر وسائل موجود نہیں“
ہم نے کہا لیکن اس کے باوجود جو اوپر آجاتے ہیں، جیسے سرفراز احمد کو دیکھ لیجیے، اور فیصل اقبال وغیرہ؟“ ان کا کہنا تھا کہ ”میرا نہیں خیال، لیکن سرفراز احمد کے ساتھ واقعی زیادتی ہوئی وہ چیمپینز ٹرافی جیت کے آئے، کپتانی کے ریکارڈ کو دیکھیے تو انھیں کپتانی سے نہیں ہٹانا چاہیے تھا، لیکن اگر یہ کہیں گے کہ انھیں ہدف بنایا گیا ہے، تو میں اس سے اختلاف کروں گا۔ اقربا پروری تو پاکستان میں ہر جگہ اور ہر ادارے میں ہے، کرکٹ بھی اسی کا حصہ ہے۔“
بین الاقوامی ٹورنامنٹ کا تذکرہ ہوا، تو سمیع نے بتایا کہ ’میں 2003ءاور 2007ءکے ایک روزہ کرکٹ ورلڈ کپ اور تین ’ٹی ٹوئنٹی‘ ورلڈکپ کا حصہ رہا، لیکن ہماری ٹیم پہلے ہی مرحلے میں باہر ہوگئی، 2003ءمیں تو اچھی فارم میں تھا، لیکن جب لیجینڈ کرکٹر وسیم اکرم، وقار یونس، شعیب اختر تھے، اس لیے مجھے موقع نہیں ملا، تب شاید کچھ کرتا۔ 2007 ءمیں آئرلینڈ کے خلاف میچ میں موقع ملا، تو تین وکٹیں لیں، لیکن یہ وکٹیں ٹیم کے کام نہیں آئیں، یہ افسوس ہے، ہماری کارکردگی بھی تبھی شمار ہوتی ہے، جب ٹٰم جیتے! اگر ہار جائیں، تو پھر کوئی کارکردگی نہیں دیکھی جاتی۔“
محمد سمیع کا کہنا ہے کہ میں ٹیسٹ کرکٹ کی کارکردگی کو مان سکتا ہوں کہ شاید کم رہی، باوجود اس کے کہ اس میں بھی ہمیں اُس ماحول اور وکٹوں کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ جب کہ میری ایک روزہ کرکٹ کی کارکردگی دیکھیے، وہ تو ایسی نہیں تھی! لیکن ٹیسٹ کی کارکردگی کی وجہ سے مجھے ون ڈے کی ٹیم سے بھی نکالا گیا یہ تو ٹھیک نہیں تھا!“
”وجوہات؟“
”بہت کچھ ہے، پسند ناپسند یا ’اقربا پروری‘ کہہ لیجیے بطور کرکٹر یہ سب برداشت کرتے ہوئے کھیلنا ہوتا ہے اور جس ماحول سے میں آیا ہوں، آپ تاریخ اٹھا کر دیکھیے کراچی سے گنتی ہی کے تو فاسٹ باﺅلر آئے ہیں، اور ان میں فاسٹ باﺅلنگ میں بین الاقوامی کرکٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں میری ہیں۔ مجھ سے پہلے کراچی سے جلال الدین اور سکندر بخت وغیرہ ’میڈیم پیسر‘ تھے۔ خوشی ہوتی ہے کہ میں نے یہ رجحان بدلا، اس کے بعد کراچی سے بہت سے فاسٹ باﺅلر کھیلے۔“
سابق فاسٹ باﺅلر محمد سمیع کے بقول 2006ءسے 2008ءکے درمیان انھوں نے مختلف لیگز کھیلیں، وہ کہتے ہیں کہ ”پھر 2010-2011ءمیں ’کم بیک‘ کیا میرے 17 تو ’کم بیک‘ ہیں! قومی کرکٹ ٹیم سے جب بھی باہر ہوا تو پھر ’ڈسٹرکٹ‘ کی سطح کی کرکٹ بھی کھیلی! مطلب یہ کہ اوپر پہنچ کر دوبارہ پھر پہلی سیڑھی تک گیا اور پھر دوبارہ اوپر آیا میں نے 17 دفعہ یہ سیڑھی چڑھی ہے!“
کیریئر میں مشکل وقت کے استفسار پر محمد سمیع کہتے ہیں ”بہت سے تھے، 2008ءمیں ’آئی سی ایل‘ سے واپس آیا، تو پابندی کی وجہ سے دشواریاں رہیں۔ قومی ٹیم میں کھیلتا تھا اور ایک آدھ میچ کے بعد پھر باہر کر دیا جاتا تھا۔ میں تینوں طرح کی کرکٹ کھیل رہا تھا، ورلڈ کپ بھی ہوا، لیکن مجھے ایک بار بھی کنٹریکٹ نہیں دیا گیا!
ہم نے کہا ”اب آپ خود دیکھیے، آپ اتنی محتاط گفتگو کر رہے ہیں، لیکن یہ ’فرق‘ تو نظر آ رہا ہے ناں؟“
”نظر تو آرہا ہے، لیکن میں کھیلتے ہوئے بھی ان چیزوں پر دھیان نہیں دیتا تھا، اگر ایسا کرتا تو میری کرکٹ ختم ہو جاتی، پھر میرے ’کم بیک‘ نہیں ہوتے!“
ہمیں محمد سمیع کی اس دلیل میں وزن محسوس ہوا۔ ہم نے کہا کہ اب تو آپ اپنی پچھلی کرکٹ کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بات کر سکتے ہیں؟ جس پر وہ بولے کہ بہت سے ایسے لڑکے بھی تھے، جو نہیں کھیل رہے تھے، لیکن اس کے باوجود ’پی سی بی‘ کے ’سینٹرل کنٹریکٹ‘ میں تھے، لیکن میرے پاس کھیلنے کے باوجود یہ کنٹریکٹ نہیں تھا، یہ بندر بانٹ اور پسند و ناپسند کا سلسلہ تو ہے۔“
”اس کا حل کیا ہے؟“
وہ کہتے ہیں کہ ”صحیح لوگ آنے چاہئیں۔ یہی چیز پنجاب اور خیبر پختون خوا میں بھی ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں سینئر کرکٹر کی خدمات لی جاتی ہیں کہ بتائیے اب آپ کیا کریں گے، لیکن یہاں ایسا نہیں ہوتا ’جس دن بلا گھوما ہیرو نہیں گھوما تو زیرو! میں جب ٹیم میں منتخب ہوا تو آگے سے آگے بڑھنے ہی کی سوچ تھی، یہ نہیں سوچا تھا کہ ٹیم سے باہر ہوں گا۔
”آپ کی 18 سال کی بین الاقوامی کرکٹ میں 17 کم بیک ہیں، یعنی ہر سال میں ایک؟“ ہم نے انھی کی گفتگو سے ایک نکتہ مذکور کیا، جس پر انھوں نے کہا ”میں یہی کہہ رہا ہوں کہ اعداد وشمار آپ کو یہ نہیں بتائیں گے، میرے کُل 36 ٹیسٹ میچ ہیں، 16 سال میں! آپ کسی کو ایک سال میں ایک ٹیسٹ میچ کھلائیے پھر اس کی کیا ’کارکردگی‘ نکلے گی، وہ بتا دیجیے گا یہاں کا طریقہ یہی ہے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے کیریئر خراب ہوئے ہیں۔“
محمد سمیع مشکل وقت کے سوال پر بتاتے ہیں کہ ”کافی دیکھے، ٹیم سے باہر ہوا۔ ’انجرڈ‘ ہو کر آٹھ، آٹھ مہینے پڑا رہا، کسی نے نہیں پوچھا! 2017ءمیں ’پی ایس ایل‘ کی ٹیم اسلام آباد یونائیٹڈ کا کپتان تھا، لیکن اگلے سال انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی نہیں تھا! میں کپتان رہا، اور مستقل کارکردگی بھی دکھائی، لیکن قومی ٹیم میں جگہ نہیں مجھ پر ’انڈر پرفارمر‘ کا ’لیبل‘ لگا ہوا ہے، لیکن آپ میرے جیسا کوئی اور دکھا دیجیے، جو گلی سے نکل کر آگے آیا اور مجموعی طور پر اس نے پندرہ، سولہ سو وکٹیں لیں ہیٹ ٹرک دیکھ لیجیے، مجموعی طور پر صرف ’انٹرنیشنل ٹی ٹوئنٹی‘ میں ہیٹ ٹرک نہیں، باقی گریڈ ون، گریڈ ٹو، ون ڈے، ون ڈے ڈومیسٹک، ٹی ٹوئنٹی ڈومیسٹک، پی ایس ایل، ’بی پی ایل‘ وغیرہ سب میں ہیٹ ٹرک ہیں۔
محمد سمیع نے ’کیریبئن پریمیر لیگ‘ سمیت دیگر لیگ بھی کھیلیں 2016ءمیں امریکا بھی لیگ کھیلنے کا موقع ملا، کہتے ہیں کہ وہاں بہت اچھی کرکٹ ہو رہی ہے۔ محمد سمیع کو قومی ٹیم میں صرف 87 ایک روزہ میچوں میں موقع مل سکا، جس میں ان کی وکٹوں کی تعداد 121 رہی، جب کہ اس فہرست میں 12 نمایاں ترین پاکستانی گیند بازوں کی وکٹوں کا ریکارڈ کچھ اس طرح ہے: وسیم اکرم 502، وقار یونس 416، شاہد آفریدی 395، ثقلین مشتاق 288، عبدالرزاق 269، شعیب اختر 247، سعید اجمل 184، عمران خان 182، عاقب جاوید 182، عمر گل 179، مشتاق احمد 161 اور شعیب ملک 158۔
’پی ایس ایل‘ کے علاوہ کسی دوسری لیگ کی پسندیدگی کے سوال پر سمیع کا جواب تھا کہ ’آئی پی ایل‘ (انڈین پریمئر لیگ) کو کہہ سکتے ہیں، وہ میں تو کبھی نہیں کھیلا، لیکن بڑے کرکٹر اپنے ٹیسٹ اور ون ڈے چھوڑ کر یہ کھیلتے رہے ہیں۔ ’ٹی ٹوئنٹی‘ متعارف ہونے کے بعد اب کرکٹ بہت زیادہ ہو رہی ہے، سب کو کھلاڑی چاہئیں۔ اب کرکٹر کا کیریئر محدود اور فاسٹ باﺅلر کا محدود تر ہوگیا ہے، ایسے میں یہ کسی بھی کھلاڑی کا حق ہوتا ہے کہ وہ ان ’ٹورنامنٹ‘ کے ذریعے اپنے حالات بہتر کرے۔‘
ہم نے محمد سمیع سے 2007ءمیں ہندوستان کی متنازع ’انڈین کرکٹ لیگ (آئی سی ایل) میں شمولیت کا سوال بھی کیا، کہ جس میں شمولیت پر ’آئی سی سی‘ کی جانب سے بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے پر پابندی کا اعلان کیا گیا تھا، وہ کہتے ہیں کہ ’وہاں جانا متنازع فیصلہ تو تھا، لیکن جب گئے تھے، تو سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔ بہت سے کھلاڑی جا رہے تھے، اور ہم کیوں گئے تھے؟ ظاہر ہے ہمیں اپنی معاشی صورت حال بھی دیکھنی ہوتی ہے۔“
ہم نے ’آئی سی ایل‘ میں شامل ہونے والے قومی کرکٹر عمران نذیر، توفیق عمر، عمران فرحت، ہمایوں فرحت، شاہد نذیر، ارشد خان، ثقلین مشتاق، حسن رضا وغیرہ کے نام لیے تو محمد سمیع نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ”اس کے بعد محمد یوسف، مشتاق احمد اور انضمام الحق بھی آگئے تھے۔ میرا کام کھیلنا ہے، اگر مجھے یہاں موقع نہیں مل رہا، تو کہیں نہ کہیں تو کھیلوں گا۔“
”لیکن آپ یہ ’لیگ‘ تو ایک طرح سے پاکستان کی نمائندگی کی قیمت پر کھیلے؟“ ہم نے وضاحت چاہی، جس پر ان کا کہنا تھا کہ ”یہ مسئلہ تو ہمارے کھیلنے کے بعد ہوا، میرا ’بریڈ اینڈ بٹر‘ یہی ہے۔ 2006-2007ءمیں یہاں کرکٹروں سے ’کنٹریکٹ‘ شروع ہوا، اس کے بعد میں تین ورلڈ کپ کھیلا۔ تینوں فارمیٹ کی کرکٹ ٹیم کا حصہ ہونے کے باوجود مجھے ایک سال کے لیے بھی ’کنٹریکٹ‘ نہیں ملا! کہیں نہ کہیں تو ہمیں بھی اپنی معاشی صورت حال دیکھنی پڑتی ہے، میرے خیال میں میرا یہ فیصلہ درست تھا، اب لوگ جو بھی کہیں!“
’میچ فکسنگ‘ کے تذکرے پر محمد سمیع نے کہا ”یہ بہت بدنامی کا باعث ہے، اگر اس کا پہلے ہی تدارک کرلیا جاتا، تو اتنا نقصان نہیں ہوتا۔“ میچ فکسنگ کے لیے رابطوں کے سوال پر بتایا کہ ’پی ایس ایل‘ کے دوران میں نے ایسی تحقیقات کا سامنا کیا، تفتیش کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ کوئی مجرم ہے، یہ پوچھ، تَاچھ پورے سال چلتی رہتی ہیں، لیکن یہاں تفتیش شروع ہونے پر بنا ثبوت ہی مجرم بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے!“
مختلف کپتانوں کے ساتھ کھیلنے کے تجربے پر محمد سمیع بتاتے ہیں کہ راشد لطیف، معین خان، مصباح الحق کے علاوہ محمد یوسف کے ساتھ سب سے زیادہ کھیلا ہوں۔ وقار یونس کے ساتھ بھی کھیلا، راشد لطیف کے ساتھ کھیلنے میں سب سے زیادہ لطف اس لیے آیا کہ 1998ءکے زمانے میں ان کی اکادمی میں بھی رہا تھا، معین خان کی کپتانی میں پہلا میچ کھیلا اور پھر وقار یونس کپتان بنے، وسیم اکرم کی کپتانی میں بھی کھیلنے کا موقع ملا۔
ہم نے ٹیم میں سب سے زیادہ دوستی کے بارے میں استفسار کیا اور ساتھ میں ان کے شرمیلے ہونے کا ذکر بھی کیا۔ جس کی وہ تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سب سے دوستی رہی، سابق بلے باز عاصم کمال کے زیادہ نزدیک رہے۔ ہم نے کہا کہ اب عاصم کمال بھی کراچی سے ایک ایسا ہی نام ہیں، جنھیں نظرانداز کیا گیا۔ جس پر انھوں نے ہم سے اتفاق کیا اور کہا ’ان کی کارکردگی تھی، انھیں کھیلنا چاہیے تھا۔‘
”محمد سمیع بالنگ میں کسے راہ نما کرتے ہیں؟“
انھوں نے بتایا کہ وسیم بھائی کو بہت زیادہ پسند کرتا تھا، حالاں کہ وہ بائیں ہاتھ سے گیند کرتے تھے، 1992ءسے کرکٹ دیکھنی شروع کی، تو عمران خان اور وسیم اکرم ہی سے زیادہ سیکھتا تھا، پھر شعیب اختر اور دیگر کو بھی دیکھا۔ شعیب اختر کے تذکرے پر ہمیں یاد آیا کہ انھوں نے کچھ اس طرح کی بات کی تھی کہ انھوں نے محمد سمیع کو زیادہ تیز گیند کرنے سے منع کیا کہ اس کے بہ جائے ’لائن‘ اور ’لینتھ‘ پر زیادہ مرکوز رہو؟ اس پر سمیع کہتے ہیں ”کافی لوگوں نے باتیں کی تھیں، مجھے نہیں یاد۔“ پھر محمد سمیع سے ان کی کرکٹ کی تیز ترین گیند کرانے کا تذکرہ بھی ہوا، جس کے بعد کہا گیا تھا کہ مشین خراب ہے، وہ کہتے ہیں کہ ”انھوں نے ایک بار نہیں دو بار تیز ترین گیندیں کرائیں، لیکن یہ بہت عجیب بات ہے کہ کروڑوں روپے خرچہ کر کے لگائی گئی مشین کو خراب کہہ دیا گیا۔ اگر خراب تھی تو پھر وہاں لگائی ہی کیوں گئی؟ تو یہ سب تو چلتا ہی رہتا ہے۔“
ہم نے دریافت کیا کہ کیا تیز بال کا کوئی ایسا کوئی ہدف رکھا تھا؟ تو انھوں نے کہا کہ ایسا کبھی دانستہ نہیں کیا نہ ہی کوئی ہدف بناکر تیز گیند کی۔“
”کس کو بال کرنا مشکل لگا؟“
سوچتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ”آسٹریلوی بلے باز ایڈم گلکرسٹ کو بہت مشکل لگا، کیوں کہ وہ ہر طرف کھیلتے تھے، اور وہ ٹیسٹ میں بھی ’ٹی ٹوئنٹی‘ کی طرح کھیل رہے ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ ہندوستان سے سچن ٹنڈولکر، راہول ڈریوڈ اور وریندر سہواگ اور ویسٹ انڈیز کے برائن لارا بھی آسان نہیں رہے۔ سچن ٹنڈولکر کو ’ٹیسٹ‘ اور ’ون ڈے‘ میں چار، پانچ دفع آﺅٹ بھی کیا ہے۔“
”ہندوستان اور پاکستان کے درمیان میچ میں تناﺅ ہوتا تھا، اب ذرا کھلا ماحول ہوتا ہے؟“
اس حوالے سے محمد سمیع کا خیال ہے کہ ”ٹینشن تو آج بھی ہے، میچ کے بعد پہلے بھی ملتے تھے، ہماری دوستیاں تھیں، لیکن دونوں طرف کے عوام کی توقعات بہت ہوتی ہیں کہ آپ کسی بھی ٹیم سے ہار جائیں، لیکن اگر ہندوستان سے ہار جائیں، تو بہت برا سمجھا جاتا ہے۔ اب تو میرے خیال میں دباﺅ زیادہ ہے، کیوں کہ دونوں حریفوں کا سامنا بہت کم کم ہو پاتا ہے۔“
کسی نے یہ کہا تھا کہ ہندوستانی بلے باز پاکستانی باﺅلروں سے زیادہ گھلتے ملتے ہیں، تا کہ نفسیاتی طور پر ان کے جذبات کو سرد کیا جا سکے اور وہ نفسیاتی طور پر انھیں ہدف نہ بنا سکیں۔ محمد سمیع اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اور وہی بات دُہراتے ہیں کہ گراﺅنڈ میں تو کھلاڑی کوشش کرتے ہیں، جب کہ کھیل کے بعد دوستی یاری اور ہنسی مذاق پہلے بھی رہا ہے۔
سابق کپتان عمران خان نے محمد سمیع کو ویسٹ انڈین باﺅلر میلکم مارشل سے تشبیہہ دی تھی، ہم نے عمران سے ملاقات کا ذکر کیا، تو انھوں نے بتایا کہ ”میں ٹیم کے ساتھ تھا، جب بھی اور ہماری اکادمی بھی آئے تھے، یوں ان سے چھے، سات ملاقاتیں ہوئیں۔“
’آئی سی سی‘ کے قواعد وضوابط کے حوالے سے وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ ’بلے بازوں‘ کو زیادہ مدد دیتے ہیں۔ تاہم جدت سے کافی مدد ملی، تیسرے ایمپائر کا کردار بڑھ گیا ہے۔ مسلسل کرکٹ سے کیریئر پر اثر پڑتا ہے، صحت متاثر ہوتی ہے۔ پہلے پورے سال کرکٹ نہیں ہوتی تھی، اب تو وقت نہیں ہے۔
”آپ کرکٹر نہیں ہوتے توکیا ہوتے؟“
اس پر محمد سمیع کا جواب تھا کہ ”یہ کبھی نہیں سوچا، اتنا وقت ہی نہیں ملا کہ کبھی پلٹ کر دیکھتا کہ اس کے علاوہ بھی کچھ ہوتا۔“
”کرکٹ کو کتنا وقت دیتے تھے؟“
”سونے اور پڑھائی کے علاوہ سارا وقت کرکٹ کے لیے تھا۔ میچ، پریکٹس، ٹیپ بال، ہارڈ بال ہر وقت کچھ نہ کچھ چلتا رہتا تھا۔ میں نے کرکٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیں سوچا، جس کو جُنون ہوتا ہے، وہ پلٹ کر دوسرا راستہ نہیں دیکھتا، یہ میرا جُنون ہی تھا جو یہ سب کرگیا۔ میرے پاس جتنا وقت تھا وہ کرکٹ کو دیا، محنت کی، جو بھی حالات آتے رہے، لیکن میں تگ ودو کرتا رہا۔“
محمد سمیع ’ایکسپریس نیوز‘ پر ورلڈ کپ 2023ءسے پہلے ’پی ایس ایل‘ کے حوالے سے بھی پروگرام میں مرزا اقبال بیگ کے ساتھ شریک ہوتے رہے ہیں۔ ہم نے پوچھا کہ آپ کے بارے میں یہ بھی تاثر تھا کہ آپ کیمرے پر زیادہ نہیں آتے۔ جس پر وہ کچھ اس طرح گویا ہوئے کہ تب کرکٹ پر زیادہ مرکوز تھا، اس لیے یہ کہتا تھا کہ میری کارکردگی ہی بہتر جواب دے گی، لیکن اب یہ کہتا ہوں کہ ٹھیک ہے ’میڈیا‘ کا بھی سامنا کرنا چاہیے۔“
٭ وسیم اکرم اور محمد سمیع کا منفرد اعزاز!
محمد سمیع، مایہ ناز کھلاڑی وسیم اکرم کے علاوہ دنیا کے وہ واحد باﺅلر ہیں، جس نے ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ دونوں میں ہیٹ ٹرک کی ہوئی ہے۔ اِسے وہ اپنے لیے بڑا اعزاز قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ پہلے ون ڈے میں شارجہ میں کی، اس کے بعد قذافی اسٹیڈیم لاہور میں سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ میچ میں یہ کارنامہ انجام دیا۔ انڈر 19، کلب کرکٹ، فرسٹ کلاس، نیشنل ٹی 20 میں بھی ہیٹ ٹرک ہے۔ صرف انٹرنیشنل ٹی 20 میں ہیٹ ٹرک نہیں ہوئی، باقی ہر طرح کے میچوں میں ہے۔
یہاں ہم قارئین کو بتاتے چلیں کہ ایک روزہ کرکٹ میں پاکستان کی جانب سے ہونے والی آٹھ میں سے آخری ہیٹ ٹرک محمد سمیع ہی کی ہے، جس میں جلال الدین، عاقب جاوید، وقار یونس کے ساتھ اُن کی ایک، ایک، جب کہ وسیم اکرم اور ثقلین مشتاق کی دو ہیٹ ٹرک شامل ہیں۔ بین الاقوامی کرکٹ میں محمد سمیع کی ایک اور ہیٹ ٹرک کا امکان 2010ءمیں آسٹریلیا کے خلاف سڈنی ٹیسٹ میچ میں بھی ہوا تھا۔ سمیع سے اس کا ذکر بھی ہوا، جس میں پہلے انھوں نے فلپ ہیوز (Phillip Hughes) کو فیصل اقبال کے ہاتھوں کیچ آﺅٹ کیا، جن کا پچھلی ہی گیند پر ایک کیچ فیصل اقبال ہی نے چھوڑ دیا تھا، اس کے بعد اگلی ہی گیند پر مایہ ناز بلے باز رکی پونٹنگ کا ایک اچھا کیچ عمر گل نے لیا، یعنی یوں وہ ایک ہی گیند کے مہمان ثابت ہوئے۔
اب محمد سمیع ہیٹ ٹرک کے امکان پر پہنچ گئے، تیسری گیند پر بلے باز شین واٹسن کے خلاف آﺅٹ کی ایک زوردار اپیل کی، لیکن انھیں ناٹ آﺅٹ قرار دیا گیا، پھر نظرثانی میں بھی تیسرے ایمپائر نے انھیں ناٹ آﺅٹ قرار دیا۔ یوں محمد سمیع ٹیسٹ کرکٹ میں دو ہیٹ ٹرک کرنے والے تیسرے کھلاڑی بننے سے رہ گئے۔ یہاں محمد سمیع کا پہلا شکار بننے والے بلے باز فلپ ہیوز (Phillip Hughes) 25 نومبر 2014ءکو ہیلمٹ کے نیچے گردن پر گیند لگنے کے باعث جان سے گزر گئے۔ چھبیس ٹیسٹ اور 25 ایک روزہ کرکٹ میچ کھیلنے والے فلپ ہیوز کی عمر بھی صرف 25 برس تھی۔
٭ ’کرکٹ اکادمی‘ دو سال میں فعال ہوجائے گی!
محمد سمیع 24 فروری 1981ءکو کراچی میں پیدا ہوئے، پہلے جہانگیر روڈ اور اب گلستان جوہر میں رہائش ہے۔ انھیں گلی محلے سے کرکٹ کا شوق ہوا، ٹیپ بال سے شروعات اسکول کی ٹیم تک لائی، پھر کلب کرکٹ اور پھر کراچی سے انڈر 19 کی ٹیم میں کھیلے۔ محمد سمیع نے بتایا کہ چار بھائیوں میں ان کا نمبر دوسرا ہے، بہن کوئی نہیں۔ پورے خاندان میں، میں پہلا فرد میں ہی ہوں جو کھیل پایا۔ گھر والے ہمیشہ ساتھ دیتے، والد کہتے تھے کہ پہلے پڑھائی پوری کرو، میٹرک گرینڈ فولک اسکول سے، انٹر ڈی جے سائنس کالج سے کیا، پھر اسلامیہ کالج میں بھی داخلہ لیا، وہاں سے کھیلا، اسلامیہ کالج میں کرکٹ بہت مضبوط تھی، دانش کنیریا بھی وہیں تھے۔ وہاں ’امتحانات‘ نہیں دے پایا، پھر جامعہ کراچی سے ’بی اے‘ کیا۔
آج کل کی مصروفیات کے حوالے سے محمد سمیع نے بتایا کہ نارتھ ناظم آباد میں ان کی کرکٹ اکادمی پر کام جاری ہے، یہ دو برس میں فعال ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ’پورٹ قاسم‘ سے وابستہ ہیں، کوچنگ کی طرف دھیان دے رہے ہیں لیول تھری کا کورس کیا ہے۔ اب فرض بنتا ہے کہ لوگوں کے لیے کام کروں۔ نچلی سطح پر توجہ دے رہا ہوں، کیوں کہ اوپر تو سب کام کر رہے ہیں، لیکن نیچے بہت ٹیلنٹ ہے، جو اوپر ہی نہیں آپاتا۔
نہایت کم گو طبیعت کے مالک محمد سمیع تفصیلی انٹرویو بہت کم دیتے ہیں۔ غیرملکی کھلاڑیوں سے کچھ خاص دوستی نہیں، وہ بتاتے ہیں کہ ان کی شادی کو 11 برس ہو چکے، ان کی شادی ’طے شدہ‘ تھی، شریک حیات خاتون خانہ ہیں۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی کے والد محمد سمیع سے ذاتی زندگی کے کسی اہم واقعے کی کھوج چاہی، تو کہنے لگے بہت سے ہیں، اس وقت ذہن میں نہیں۔ وہ جب ٹیم سے باہر ہوتے تھے تو مایوسی میں والد بہت حوصلہ بڑھاتے تھے۔ والد ’پی ڈبلیو ڈی‘ میں ملازم تھے، انھیں کرکٹ کے علاوہ فٹ بال کا شوق ہے، کہتے ہیں کہ کئی سال فٹ بال کھیلی، اسی سے خوب مشق ہوتی ہے اور فٹ بھی رہتا ہوں۔
”کبھی فٹ باﺅلر بننے کا سوچا؟“
کہتے ہیں کہ ”نہیں، یہ بہت مشکل کھیل ہے، ایک انجری کیرئیر ختم کر دیتی ہے۔ جیسے کرکٹ لوگوں کو آسان لگتا تھا، لیکن کتنی گیندیں کرنے کے بعد، سالوں کے بعد کوئی میچ میں آتا ہے۔ پھر بھی ’بہترین‘ نہیں ہوتے، مستقل لگے رہنا پڑتا ہے، جہاں رک گئے، وہیں مشکل ہو جاتی ہے۔“
٭ ”کھیل کا ہماری معیشت میں بھی بڑا حصہ ہے“
محمد سمیع کو شکایت ہے کہ ہمارے ہاں کھیلوں پر توجہ نہیں ہے، اسکولوں اور کالجوں میں کوئی ٹیمیں ہی موجود نہیں۔ کرکٹ کی وجہ سے دنیا آپ کو جانتی ہے۔ کھیل ہی ہمیں ایک نظم وضبط بھی دیتا ہے۔ ہر کھیل میں مختلف سیاسی اور دیگر اثر رسوخ والوں نے خرابی کی ہے۔ حکام کو شاید اندازہ نہیں کہ کھیل کس طرح ہماری معیشت میں حصہ ڈالتا ہے، اس کے ذریعے کتنے لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ ہم نے ٹیم میں حریف یا مسابقت کے حوالے سے پوچھا تو وہ کہتے ہیں کہ میں نے تو اس ٹیم میں جگہ بنائی جہاں وسیم، وقار، شعیب، ثقلین، عبدالرزاق، مشتاق احمد بھی تھے۔ اس سے زیادہ مقابلہ کیا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کرکٹ اکادمی‘ کے ذریعے سوچا ہے کہ اپنا تجربہ نئے لوگوں تک پہنچائیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس جانب لائیں۔ ان کی زندگی کا خوش گوار ترین دن جس دن ٹیم میں نام آیا، جس دن کھیلے۔ انھوں نے یہ خوشی اہل خانہ کے ساتھ منائی، بقول ان کے کہ ”دنیا میں ماں باپ اور گھر والوں سے زیادہ کیا اہم ہو سکتا ہے۔“
محمد سمیع نے 8 مارچ 2001ءکو آکلینڈ میں نیوزی لینڈ کے خلاف اپنے بین الاقوامی ٹیسٹ کیرئیر کا آغاز کیا۔ 8 اپریل 2001ءکو شارجہ میں سری لنکا کے خلاف ان کے ’ایک روزہ‘ کیریئر کی شروعات ہوئی۔ 36 ٹیسٹ میچوں میں ان کی 85 وکٹیں ہیں، بہترین گیند بازی اننگ میں 36 رن کے عوض پانچ وکٹیں اور میچ میں 106 رن کے عوض 8 وکٹیں ہیں۔ دوسری طرف 87 ایک روز میچوں میں 121 وکٹیں حاصل کی ہیں، بہترین گیند بازی 10 رن کے عوض پانچ وکٹیں ہیں۔ اسی طرح ٹی ٹوئنٹی کے 13 میچوں میں 21 وکٹیں ہیں، 16 رن دے کر تین وکٹیں بہترین کارکردگی ہے۔
The post قومی ٹیم میں ہونے کے باوجود کبھی ’سینٹرل کانٹریکٹ‘ نہیں ملا، فاسٹ باﺅلر محمد سمیع appeared first on ایکسپریس اردو.