شمس الرحمن فاروقی کا شمار اُن چُنیدہ شخصیات میں ہوتا ہے جہنوں نے دُنیا کو تن تنہا کسی ادارے جتنا علمی ، فکری اور تحقیقی مواد فراہم کیا۔ اُردو زبان و ادب میں اُن خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی اور طالبان فکر و فن کی رہنمائی کرتی رہیں گی۔ ش شمس الرحمن فاروقی نے اپنے علمی سفر کا آغاز تنقید نگار سے کیا تھا۔
تنقید و تحقیق کے مختلف موجوعات پر ان کی 19 کتابیں ان کے ان کے علمی مقام و مرتبہ کا واضح ثبوت ہیں۔ اسی تصور کے زیر اثر انہوں نے الہ آباد سے ’شب خون ‘ کے نام سے ادبی رسالے کا اجراء کیا ۔ اس مجلے نے کم از کم دو نسلوں کی ادبی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ شاعری، لغت نگاری، تحقیق ،افسانہ نگاری اور ناول نگاری، غرض جس میدان میں طبع آزمائی کی داد و تحسین پائی۔
ان کے ناول ’کئی چاند تھے سر آسماں‘ نے تو پوری دنیا میں اُردو بولنے سمجھنے والے لوگوں کو متاثر کیا۔ اس کا شمار اُردو کے چند بہترین ناولوں میں کیا جاتا ہے۔ فاروقی صاحب نے بجا طور پر افسانہ نگار، ناول نگار، شاعر، نقاد، مدیر، مترجم اور مبصر کی حیثیت سے اردو علم و اَدب کو قیمتی شہ پارے عطا کیے اور فکر و عمل کی نئی راہیں تراشیں۔ اپنی پچاسی سالہ زندگی میں آخری سانس تک متحرک رہے اور علمی و اَدبی سرگرمیوں میں منہمک بھی۔
مرحوم جب بھی پاکستان آتے تو لاہور میں صحافی، مصنف اور علم و اَدب کے دیرینہ پرستار، محمود الحسن سے ضرور ملاقات کرتے۔ فنونِ لطیفہ پر تبادلہ خیال ہوتا اور گپ شپ بھی لگتی۔ اِس دوران محمود الحسن نے اْن کے تفصیلی انٹرویو بھی کئے۔ زیر نظر کتاب اِنہی علمی و اَدبی مہک میں بسی یادگار ملاقاتوں کی یادوں سے کشید کردہ ایک منفرد قلمی تحفہ ہے۔
جناب شمس الرحمن فاروقی ملاقاتوں کے دوران متفرق علمی و اَدبی موضوعات، شخصیات اور وَاقعات پر بصیرت افروز گفتگو کرتے تھے۔ اِسی گفتگو کے چیدہ چیدہ نکات زیرِ تبصرہ کتاب میں جلوہ افروز ہیں جنہیں بڑی نفاست و خوبصورتی سے پیش کیا گیا۔محمود الحسن شگفتہ طبعیت اور بلا کی قوت ِ حافظہ کے مالک ہیں۔ یہ کتاب ان کی منفرد جودت ِطبع کا مثالی نمونہ ہے۔
مثال کے طور پر مشہور مغربی مفکر، ایڈورڈ سعید کی کتاب ’’اورینٹل ازم‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے مرحوم بتاتے ہیں:
’’جب یہ کتاب شائع ہوئی، تو میں نے اْسی زمانے میں اِسے پڑھا۔ نیویارک ریویو آف بْکس(امریکا) میں برسوں اِس پر بحث ہوتی رہی۔ معترضین کا کہنا تھا کہ فلاں اقتباس غلط ہے۔ فلاں جگہ ترجمہ صحیح نہیں آیا۔ یہ معمولی باتیں تھیں جن کی طرف توجہ دلا کر یہ لوگ خوش ہو رہے تھے۔ بنیادی بات جو ایڈورڈ سعید نے کی تھی، وہ بالکل مستحکم تھی۔
مجھے تعجب اور اَفسوس بھی ہوا کہ میرے امریکی دوست جو میرے خیال میں بہت روشن خیال تھے، اْنھیں اِس کتاب سے بہت تکلیف پہنچی۔ وہ کہنے لگے کہ ’دیکھیے صاحب! سعید نے سب کو ایک ہی جگہ دھکیل کر ڈال دیا۔ ہم تو بڑے پْرخلوص لوگ ہیں اور اَپنے فائدے نہیں بلکہ علم کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔‘ مَیں نے کہا ،وہ آپ لوگوں کو الگ الگ سے تھوڑی کہہ رہا ہے کہ مسٹر اے، بی یا سی یہ کر رہے ہیں۔ وہ تو مغربی علما کے بارے میں جو عمومی تصوّر اَور تاثر ہے، اْسے بیان کرتا ہے۔
’’ایڈورڈ سعید کی بنیادی بات یہ تھی کہ جو مستشرقین ہیں، وہ علم کے فروغ کے بجائے استعمار کی مضبوطی کے لیے کام کرتے ہیں۔ اب بھی نام نہاد مستشرقین کا ایک بااثر حلقہ ہے جو اِسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے۔ ایک صاحب ہیں ابنِ ورّاق، جو فرضی نام سے لکھتے ہیں اور بقول اْن کے وہ خود کو ظاہر اِس لیے نہیں کرتے کہ مار دِیے جائیں گے، اْن کی ساری کتابیں زہر سے بھری ہوتی ہیں۔ قرآن اور حدیث کے حوالے دیتے ہیں لیکن صاف ظاہر ہوتا ہے کہ علم کی ترسیل مقصد نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں سے دنیا کو بدظن کرنا مقصود ہے۔
’’مسلمانوں سے ماضی و حال میں جو غلطیاں ہوئی ہیں، اْن کی بنیاد پر تنقید ہو سکتی ہے۔ یہ ایسی غلطیاں ہیں جن پر مسلمان مفکرین بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن نام نہاد مستشرقین ہماری کتابوں کے مفاہیم توڑ کر اور ہمارے اسلاف کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کر کے اور ہماری نیتوں کو صحیح نہ مان کر اپنی بات کرتے ہیں۔ مستشرقین کا ایسا زندہ طبقہ اب بھی موجود ہے لیکن اب کچھ لوگ یہ ماننے لگے ہیں کہ اِس معاملے میں بے ایمانی ہوئی ہے۔ مثلاً لوگ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ برنارڈ لیوس جو مشہور مستشرق ہے، وہ یہودی پہلے ہے، اِس کے بعد امریکی اور سب سے آخر میں ایک عالم یا مفکر۔‘‘
٭٭
مطلق العنان حکمرانوں اور اَدیبوں و دَانشوروں کے مابین تعلق کو بھی مرحوم بڑے جامع انداز میں بیان کرتے ہیں:
’’اربابِ اقتدار اَور خاص کر مستبد اَور آمر اربابِ اختیار ہر اْس شے سے خوف کھاتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح اْن کی قوت یا بااختیار حیثیت کو شک کی نظر سے دیکھتی یا دیکھ سکتی ہو۔ ادب میں چونکہ یہ صلاحیت بہت ہوتی ہے کہ وہ ہر شے، ہر خیال، ہر صورتِ حال پر آزادانہ اور اَپنے تصوّر یا تاثر یا وقتی جذبے کی روشنی میں اظہارِ خیال کر سکے، اِس لیے مستبد اور جابر طبقہ ادب سے خوف کھاتا ہے کہ نہ جانے کب وہ کیسی بات کہہ دے اور کس انداز میں کہہ دے۔ اِسی لیے ایسے تمام معاشروں میں جو اِستبداد پر مبنی ہوں، ادب (یعنی اظہارِ خیال) پر پابندی ہوتی ہے۔
’’یہ بات غور کرنے اور سمجھ لینے کی ہے۔ ادب یا اظہارِ خیال پر پابندی کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ جابر اور آمر کو اَدب سے خطرہ ہوتا ہے، بلکہ جابر اور آمر کو اِختلاف سے ڈر لگتا ہے۔ اختلاف اْس کے اعتماد کو متزلزل کر دیتا ہے۔ اختلاف سے اْس کے آمرانہ غرور کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اِس وجہ سے وہ اَدب یا اظہارِ خیال پر پابندی لگاتا ہے۔ یعنی یہ پابندی اِس لیے نہیں ہوتی کہ اْسے خوف ہے، ادب (یا ادب کی کوئی بھی صنف) سماج پر اثرانداز ہو گی اور یہ اثر اْس کی طاقت یا ’امنِ عامہ‘ یا ’عوام کے اخلاق‘ کے لیے مضر ہو گا۔ اْسے تو اختلافِ رائے سے خوف ہے، چاہے وہ اِختلاف کتنے ہی کمزور اَلفاظ میں یا کتنے ہی کمزور اَنداز میں بیان کیا جائے۔ (مثلاً کوئی بلاگ، جس کا پڑھنے والا بلاگ نویس کے سوا کوئی نہ ہو، حکومتیں اِس سے بھی ڈرتی ہیں۔)‘‘
٭٭
دنیا میں آج مختلف عالمی طاقتیں ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں۔ اِس موضوع پر بات کرتے ہوئے فاروقی صاحب کہتے ہیں:
’’ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ کوئی تہذیب آگے نکلتی اور دْنیا کے بڑے حصّے پر حاوی ہو جاتی ہے۔ ہم نے بھی ایک زمانے میں دنیا کو فتح کیا۔ دنیا کے بڑے حصّے پر حکمران رہے۔ لوگوں کو مہذب کیا، عقل سکھائی۔ اِس کا بدلہ یہ ہے کہ جنہیں ہم نے مہذب کیا، وہ ہمیں غیرمہذب کہہ رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے چین کو دبانے کے لیے کچھ نہیں کیا! جہاں افیون نہیں کھائی جاتی تھی، وہاں زبردستی اْنھیں اِس پر لگایا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارت آگے بڑھ رہی ہے، اِس لیے ہم آپ کو افیون ضرور کھلائیں گے، خوہ جنگ کیوں نہ کریں۔
’’چینیوں کو بدنام کیا کہ وہ اَفیم کھاتے ، جوا کھیلتے ، جھوٹ بولتے ہیں۔ یوں دنیا کی سب سے قدیم تہذیب کو بدنام کیا گیا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے پاس جب طاقت تھی، تو اْنھوں نے دوسرے لوگوں کے ساتھ بہتر معاملہ کیا۔ یہودی اِس بات کو مانتے ہیں۔ معروف اسکالر برنارڈ لیوس جو یہودی ہے، اْس نے اپنی کتاب Jews of Islam The میں مسلمانوں کے یہودیوں سے اچھے سلوک کے بارے میں لکھا ہے۔
’’دراصل جس کے ہاتھ میں طاقت ہو، وہ طرح طرح کے ظلم کرتا ہے۔ ہم لوگوں کے بارے میں کہا گیا کہ ہم ورنیکولر ہیں یعنی اْن زبانوں کے حامل جن کا رسم الخط نہیں جبکہ ہم پہلے سے لکھ رہے ہیں۔ انگریزی سے پہلے ہم لکھ رہے ہیں۔ عربی، فارسی اور اْردو بنا کر ہم لکھ رہے ہیں اور پھر بھی ہمیں ورنیکولر کہا جا رہا ہے۔‘‘
یہ سوانحی کتاب ایسے ہی فکرانگیز نکات کا قابلِ قدر مجموعہ ہے جو علم و اَدب ہی نہیں، تہذیب و ثقافت اور سیاسیات کا بھی احاطہ کرتے ہیں۔ کتاب کی پیش کش ہر لحاظ سے معیاری ہے اور قیمت واجبی۔ عقل و دَانش کے نئے در وَا کرنے والی اِس قلمی دستاویز کا مطالعہ آپ کی روح و جسم کو شادکام کر دے گا۔ اِسے اپنے کتب خانے کی زینت بنا کر آپ فخر و اِنبساط محسوس کریں گے۔
مصنّف: محمود الحسن۔ ناشر: قوسین، 124، سی۔۱، فیصل ٹاؤن، لاہور۔ فون: 042-35165309۔قیمت: 700 روپے۔
The post شمس الرحمن فاروقی ؛ جس کی تھی بات بات اک بات appeared first on ایکسپریس اردو.