کراچی: ہرچند کہ انسان کے دیگر مخلوقات میں نمایاں ہونے اور اُس کے شرفِ فضیلت کو کسی ظاہری شے سے نمایاں نہیں کیا جاسکتا، وہ فقط اپنے عمل اور کردار ہی سے ’اشرف المخلوقات‘ ہونا ثابت کرتا ہے،مگر بقول غالبؔ
بسکہ دشوار ہے ہرکام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
انسان بن کردِکھانا ہی بہت مشکل اور صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات کی آزمائش ہے۔جب وہ اپنی سطح سے گرتا ہے تو کسی کو کہنا پڑتا ہے کہ
شیطان کی دنیا میں ضرورت نہیں یارَب
بربادیٔ انسا ں کو اِنسان بہت ہیں
وہ اس حال کو جاپہنچتا ہے کہ اُسے قرآنی تعلیمات کے عین مطابق، ’شیطان کا بھائی‘ قراردے دیا جاتا ہے اور کہنے والے تو یہ بھی کہہ اُٹھتے ہیں کہ
کیا ہنسی آتی ہے مجھ کو حضرتِ انسان پر
فعلِ بَد تو اِن سے ہو، لعنت کریں شیطان پر
(انشاء اللہ خان انشاءؔ)
اور اِس کے بالکل برعکس ہمیں وہ لوگ ملتے ہیں جن کے کردارپر فرشتے رشک کرتے ہیں، یعنی
دامن نچوڑ دوں توفرشتے وضوکریں
اور یہی انسان کہیں فخر ومباہات میں کہہ اُٹھتا ہے کہ
نہ سمجھو خاک کا پُتلا، جمال ِ کبریا میں ہوں
مگر اَپنے گریبان میں جھانک کر حقیقت کا اِدراک کرنا بھی ضروری ہے۔بعض لوگ برملا یہ بھی کہتے ہیں کہ
فرشتہ مجھ کو کہنے سے مِری تحقیر ہوتی ہے
میں مسجودِ ملائک ہوں، مجھے انسان رہنے دو
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی،کہنا یہ تھا کہ ہم باطن میں کیسے ہی کیوں نہ ہوں، انسانیت کے معیار پرپورے اُتریں نہ اُتریں، مگرکوشش کرتے ہیں کہ لوگوں میں ہمیں نمایاں، ممتاز اور معزز سمجھا جائے۔ سر پرپہنی جانے والی ٹوپی، عمامہ،پگڑی، صافہ اور دستار، ظاہری وضع قطع کے لحاظ سے ہمیں دیگر سے ممتاز کرنے کا سبب بنتی ہے۔
دستار، فارسی اِسم مؤنث ہے جو اُردو اور پنجابی میں یکساں مستعمل ہے۔اس کے مترادفات میں پگڑی،عمامہ، لُپڑی،منُڈاسا،پھِیٹا،چِیرا،سرپوش اور سرپیچ بھی شامل ہیں۔مختلف علاقوں اور تہذیبوں میں دستار کے اپنے اپنے طریق رائج ہیں۔ سکھ مذہب میں دستار کی اپنی اہمیت ہے۔
کہتے ہیں کہ اس کی لمبائی اُن کے یہاں چودہ گز تک ہوتی ہے۔بلوچ قوم کی روایتی دستار کی تیاری اور باندھنے کے عمل میں ایک گھنٹہ صَرف ہوتا ہے۔کسی بھی دربار سے منسلک یا علمی فضیلت پانے والے کا عمامہ، عمامہ ئ فضیلت یا دستارِ فضیلت کہلاتاہے۔یعنی فضیلت حاصل ہونے یا فاضل ہوجانے کی پگڑی۔یا۔وہ دستارجو کسی مدرسے میں کسی نصا ب کی تکمیل کے بعد، کامیاب طالب علم کے سرپر باندھی جاتی ہے۔شعر میں دستارِ فضیلت کا استعمال ملاحظہ فرمائیں:
تجھ سے عالِم ہوئے اے طفلِ دبستاں معقول
گو فضیلت کی نہیں باندھی ہے دستار اَبھی
(شعورؔ)
فارسی میں دستارِ سیمابی کا مطلب ہے سفید پگڑی;یہ ترکیب ہمارے یہاں اردومیں رائج نہیں!
غورکریں تو ایسا لگتا ہے کہ جدید دور میں گریجویشن پر پہننے والی ہُڈ [ Graduation hood/cap]اور اس کے ساتھ پہنے جانے والے جُبّے [Scholar’s robe]کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں ہماری مشرقی روایت میں شامل جُبّہ ودَستارسے ملتے ہوں گے۔یہ اور بات کہ اس قیاس کو ثابت کرنا محال ہے۔
فارسی میں دستارسے ایک لفظ دستاراں بنایا گیا جس کا مطلب ہے پیشگی اُجرت،نیز کسی استاد کی طرف سے اپنے شاگرد کودیا جانے والا انعام۔یہ لفظ ہمارے یہاں رائج نہیں، اگرہوجائے تو اچھا ہی ہوگا; جبکہ دستاربزرگ (بلااضافت)کے معانی تو بالکل ہی جُدا ہیں: بے غیرت، دَےّوث۔دستارباندھنے والے کو دَستاربندکہاجاتا ہے۔نوراللغات میں اس کا ذکر ملتا ہے۔
فارسی میں اس کی جمع ’دستاربندا ں کے مفاہیم یوں بیان کیے گئے ہیں: سادات، مشائخ، علماء وفُضَلاء، مفتی، وُزَراء، اُمَراء مُنشی، متصدّی۔یہ بھی ہمارے یہاں رائج نہیں۔فارسی میں فریادکرنے،انصاف چاہنے یعنی انصاف کے لیے دُہائی دینے کو ”دستار بَرزمین زَدَن“ کہاجاتا ہے۔کسی کی گردن میں پگڑی ڈال کرکھینچنے کا عمل بے عزتی کے مصداق ہے، یہ ہمارے خطے میں رائج رہا;اسے فارسی میں دستاردَرگُلو کردن (یعنی بے عزت کرنا، ذلیل کرنااور بزور مطیع کرنا)کہتے ہیں۔
اوپرفارسی کا ذکر آیاتو لگے ہاتھوں ایسے فارسی سخنور کا ذکر کرتے چلیں جو میرزا غالبؔ اور علامہ اقبال دونوں ہی کے لیے مشعل ِ راہ تھے یعنی ابوالمعانی بیدلؔ عظیم آبادی(1644ء بمقام عظیم آباد یعنی پٹنہ۔1720ء بمقام دہلی)۔بیدلؔ عظیم آبادی کاشعر ہے:
زِشیخ مغزِ حقیقت مجو کہ ہمچو حباب
سرے ندارد اَگر وَا کُنَد دستارش
جسے ہمارے نامورشاعر احمدندیم قاسمی صاحب نے اردو کے قالب میں یوں ڈھالا:
شیخ دستار اُتاریں تو کوئی فیصلہ ہو
لوگ کہتے ہیں کہ سَر ہوتے ہیں، دستاروں میں
ہمارے دورمیں ایک صاحب ہوگزرے ہیں، نازؔ خیالوی جنھوں نے اس سے جُدا ایک مضمون باندھا جسے یار لوگ مماثل سمجھتے ہیں:
جب سے دستارِ فضیلت پائی ہے دربار میں
جانے کیوں شانوں پہ اَپنا سَر نہیں لگتا مجھے
غالب ؔ نے تو بیدل ؔ کی شعوری وغیرشعوری تقلید میں اپنے عہد کے تمام شعراء کو پیچھے چھوڑدیا،یہاں تک کہ بعض محققین نے اُن پر استفادے سے زیادہ چربے اور سرقے ا لزام لگایا۔بہت سال پہلے فارسی میں ایک مقالہ نظر سے گزرا جس کا موضوع ہی غالبؔ کی ’بیدل نوازی‘ اورکلام ِ غالبؔ میں اُن سے استفادے، چربے کے ساتھ ساتھ سرقے کا جابجا ظاہر ہونا تھا۔
(خاکسار نے ماضی میں اپنے مربی محترم ادیب سہیل مرحوم سے وعدہ کیا تھا کہ اسے اُردوکا جامہ پہناؤں گا، مگر ہوا یوں کہ جب اُنھوں نے لگاتار دو مقالے،ماہنامہ قومی زبان میں شایع کیے اور اُن پر ’فارسی سے (براہ ِراست) ترجمہ‘ نہیں لکھا تو خاکسار اُن سے خفا ہوا اور پھر اِس تیسرے مقالے کو ہاتھ لگانے سے انکارکردیا۔بیدل ؔ سے غالبؔ کے استفادے کے موضوع پر بعداَزآں، اردومیں بھی کچھ تحریریں پڑھنے کا اتفاق ہوا، مگر افسوس بیدل ؔ جیسے عظیم سخنور پر کوئی مبسوط مضمون لکھنے کے لیے وقت نہ نکال پایا۔اے کاش کبھی اس باب میں بھی کچھ کرسکوں)۔
جب دستار کی بات ہوتی ہے تو پھر ہمیں اردو اَدب،خصوصاً شاعری میں اس کا استعمال بکثرت نظرآتا ہے۔حضرت ولیؔ گجراتی دکنی کے کلام میں ’دستار‘ اور اس سے متعلق مضامین جابجا ملتے ہیں۔اُن کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
شیخ مَت گھر سوں (سے) نکل آج کہ خوباں (محبوب) کے حضور
گول دستار تیری، باع ثِ رُسوائی ہے
حضرت ولیؔ گجراتی دکنی کے معاصر،سراج اورَنگ آبادی کا شعر ہے:
کھل گئے اوس کی زلف کے دیکھے
پیچِ دستارِ زاہد ِمکّار
(اوس: اُس، کے دیکھے: کو دیکھ کر۔س ا ص)
قاضی احمدمیاں اخترؔ جوناگڑھی نے ’مضامین ِ اختر جوناگڑھی‘ میں ایک متأخر گُجراتی شاعر کا یہ شعر بھی(بغیر نام کے) نقل کیا ہے:
بولا کُمہار شیخ کی دَستار دیکھ کر
سمجھا وہ سَر پہ رَکھ کے میرا چاک لے چلے!
(گول دستار کو،کُوزہ گر کا چاک قراردینا نہایت منفرد مضمون ہے جو کہیں اور نہیں ملتا)
میر تقی میرؔکا مشہورِزمانہ شعر ہے:
میرؔ صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار
یہ شعر اُس دورِ زوال کی یادگار ہے جب شُرفائے دِلّی ہرجگہ اور ہرشعبے میں زبوں حالی کا شکار تھے۔ّآگے چلیں تواردو زبان وبیان کی اصلاح کے علَم بردار امام بخش ناسخؔ یہ کہتے نظر آتے ہیں:
کس کی ہولی،جشن نو روزی ہے آج
سرخ مے سے ساقیا، دستار رنگ!
اب آج کل کا کوئی شاعر اس شعرکے دوسرا مصرع نقل کرے گا تو ”دستارکو رَنگ“ کردے گا۔
مآخذ سے مزیدخوشہ چینی کرتے ہیں تو یہ شعر نظرآتا ہے:
ہوگیا تا شَرق وغَرب اپنا زمانے میں فروغ
صورت ِ خورشید جب دستار سرَسے دُور کی
(برق لکھنویؔ)
پھر اِس شعر میں ’دستاربَدَل‘ (یعنی آپس میں دستاربدل کر بھائی ہونے کا اظہار کرنے والا)کی اصطلاح معنیٰ خیز ہے;نادرشاہ دُرّانی نے مغل بادشاہ محمد شاہ (رنگیلا) سے دستاربدلنے کے بہانے ’کوہِ نور‘ ہیرا ہتھیالیا تھا۔غالباً اسی تناظر میں یہ شعر کہاگیا:
ہم کو معلوم ہے پیچ،ہم سے نہ اے یاربَدل
اب ہوا ہے تو کسی بانکے سے دستاربَدل
(شیخ قلندربخش جرأ تؔ)
ہمارے عہد کے معتبر سخنور، محقق اوراَخیر عمر میں بطور نعت گو شہرت پانے والے پروفیسر سید اِقبال عظیم (مرحوم)8] جولائی 1913 ء بمقام میرٹھ تا 22 ستمبر 2000ء بمقام کراچی [ کا یہ شعر اُن کی (ٹیلیوژن پرپیش کی گئی)ایک غزل کا گویا حاصل تھا:
جھک کر سلام کرنے میں کیاحرج ہے مگر
سراِتنا مت جھکاؤکہ دستار گرپڑے
ہمارے بزرگ معاصر محترم محسنؔ بھوپالی (مرحوم)] 29ستمبر 1932ء بمقام ہوشنگ آباد، بھوپال تا 17 جنوری2007ء بمقام کراچی[ کے مشہور اَشعار میں یہ بھی لائق ِ ذکر ہے:
اب کے موسم میں یہ معیار جنوں ٹھہرا ہے
سر سلامت رہیں، دستار نہ رہنے پائے
پچھلے دنوں رحلت کرنے والے مقبول شاعر جناب منوّر رانا (مرحوم) 26] نومبر 1952 ء بمقام رائے بریلی تا 14 جنوری 2024ء بمقام لکھنؤ[کا یہ شعر مشہور ہے:
پھینکی نہ منورؔ نے بزرگوں کی نشانی
دستار پرانی ہے مگر باندھے ہوئے ہے
ہمارے بزرگ معاصر، شاعر ونقادجناب عباس رضوی کا شعر ملاحظہ کیجئے:
کیا کروں خلعت و دستار کی خواہش کہ مجھے
زیست کرنے کا سلیقہ بھی زیاں سے آیا
ہمارے ایک اورمعاصر محترم اجمل سراج کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
کچھ کہنا چاہتے تھے کہ خاموش ہو گئے
دستار یاد آ گئی، سر یاد آ گیا
چند اور شعراء کے یہاں دستارکامضمون دیکھیے:
کج کلاہی پہ نہ مغرور ہوا کر اِتنا
سر ُاتر آتے ہیں شاہوں کے بھی دستار کے ساتھ
(سلیم صدیقی)
سر پہ دستار جب سلامت ہے
دل میں آتی ہوئی انا سے ڈر
(اصغر شمیم)
اپنی ناموس کی آتی ہے حفاظت جن کو
جان دے دیتے ہیں دستار نہیں دیتے ہیں
(عبدالشکور آسیؔ)
دستار کے ہر تار کی تحقیق ہے لازم
ہر صاحبِ دستار،معزز نہیں ہوتا
(ریاض راہیؔ)
ان تمام اشعار کی تشریح میں مزید بہت کچھ کہا اور لکھا جاسکتا ہے، مگر اہل ذوق کے لیے یہ چنداں ضروری نہیں کہ ہر لکھنے والا اپنی بات کی وضاحت کے لیے پہلے شعر نقل کرے، پھر اُس کی تشریح بھی کرے۔بعض اوقات شعر کی تشریح بھی اُس کا سماعی حُسن متأثر کرتی ہے۔
اب ہم آتے ہیں موضوع کے دوسرے حصے کی طرف۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دستار کا دَستر خوان سے کیا تعلق ہے۔سننے پڑھنے میں تو بڑا عجیب لگتا ہے، مگر کیا یہ واقعی دو ہم رشتہ الفاظ ہیں۔آئیے دیکھتے ہیں۔اگر بات مختصر کی جائے تو یہ ہے کہ لفظ دَستار سے، پہلے پہل تو دستار خوان بنایاگیا (جیساکہ نوراللغات اور متعدد مستند فارسی لغات بشمول لغت نامہ دہخدا، ابادیس، آنلائن لغت ’واژِہ یاب‘،فرہنگ فارسی،دانشنامہ عمومی،حسن اللغات وغیرہ سے ثابت ہے)اور پھر دَسترخوان بنا اور کہیں کہیں اسے دَست خوان بھی بنادیا گیا، مگر وہ محض اپنے مخصوص تناظر تک ہی محدود ہے۔ایک مستند لغت،لغات ِ آنندراج کی رُو سے ’دست خواں‘ کا مطلب ہے سرداروں یاشاہوں کے یہاں نیاز کی تقسیم والا ہاتھ:”دَر َسرای ملوک،دستِ نیاز“۔
یہ بات یقینا چونکانے والی ہے کہ کہاں سَر پر پہننے یا باندھنے والا کپڑا اور کہاں وہ چَورَس۔یا۔ چوکور یا مستطیل کپڑا جو کھانا پیش کرنے کے لیے فرش یا میز پر بِچھایا جاتا ہے یعنی کھانے کی میز پر (یا کسی اور جگہ اسی مقصدسے)بِچھایا جانے والاکپڑا یا چادر، مگر حقیقت یہی ہے۔لفظ دستار کے فارسی معانی میں دَست مال یعنی رُومال بھی شامل ہے، جبکہ دسترخوان کو بھی مختصراً دستارکہاجاتاہے۔بندہ یہ قیاس کرنے میں حق بجانب ہے کہ بعض لوگ بڑا رُومال حسبِ ضرورت اپنے سفرمیں کھاناکھانے کے لیے بِچھاتے ہیں، اسی سے دسترخوان کا تصور اُبھراہوگا۔راقم کے ا س قیاس کی تصدیق لغت نامہ دہخدا،غیاث اللغات،لغاتِ آنندراج وغیرہ سے ہوتی ہے جس میں یہ بھی درج کیا گیا کہ دسترخوان(اسمِ مرکب) سے مراد وہ کپڑ ا ہے جس کا نام دَستاراور خوان کومِلاکر بنایا گیااور جو کسی بھی غذا یا کھانے کے پکوان کو ڈھانپنے کے لیے، کھانا کھانے کے لیے میز یا فرش پربِچھانے کے لیے استعمال ہو۔ناظم الاطباء کے اندراج کی رُو سے دسترخوان کے معانی میں ”پیشگیر“ اور”سینہ بند(Bra)بھی شامل ہیں۔مؤخرالذکر پڑھ کرتو بہت سے اہل ِادب کے ہوش اُڑجائیں گے۔
فرہنگ ِآصفیہ کے فاضل مؤلف سید احمد دہلوی اس بابت تحقیق نہ کرسکے اور لکھ گئے کہ ”دسترخوان“ ہندوستان کے فارسی داں حضرات کا بنایا ہوا لفظ ہے،اُن کی تقلید میں نوراللغات کے مؤلف مولوی نےّر الحسن بھی یہی قراردیتے تھے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔یہ مرکب لفظ آج بھی ایران میں موجودہے اور اس کی وہاں موجودگی ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ مقامی فارسی کی ایجادنہیں!
فارسی اوراردوکے علاوہ پشتومیں بھی دسترخوان کو یہی نام دیا جاتا ہے، جبکہ تلفظ کے فرق سے یہی لفظ ترکی کی آذری زبان، قزاق، قرغیز اور قدیم فارسی بولی تونی میں بھی موجودہے۔ (تاجیکی: دَستَورخوَن، ترکی آذری: دسترخان،قزاق: دسترخان، قرغیز: دسترکَون، قدیم فارسی بولی تونی: دسترخو)۔لغات کی رُو سے خُراسان(موجودہ افغانستان، قدیم یا کلاسیکی فارسی کا وطن)،وسطِ ایشیا اور خطہ ئ ہند میں دسترخوان کو سُفرہ بھی کہاجاتاہے۔
اردو ترکی /ترکی اردو لغت(از پروفیسر ڈاکٹر احمد بختیار اَشرف و ڈاکٹر جلال صوئیدان) کے بیان کے مطابق، تُرکی زبان میں دسترخوان کو ”سُفرہ بیزی“ کہاجاتا ہے، جبکہ المنجد عربی اردو لغت کی رُو سے السُفرہ یعنی دسترخوان کا ایک اور مطلب مسافرکا کھاناہے اور عربی میں ”السِّماط“ کے معانی ہیں: صف بستہ ;نیا دسترخوان۔
نوراللغات میں دسترخوان کے باب میں یہ بھی درج ہے کہ(روزمرّہ میں) دسترخوان پرکھانا لگادینا اور کھانا چُن دینا صحیح استعمال ہے۔دسترخوان بڑھانا سے مُراد ہے، کھانا کھانے کے بعد دسترخوان اُس جگہ سے اُٹھادیا جائے۔دسترخوان کا توبہ توبہ کرنا سے مراد ہے،کھانا لگے ہونے کے باوجود کوئی کھانا شروع نہ کرے جیسے زنانہ بولی میں کہاجاتا تھا:”تمھاری باتیں ختم نہیں ہوچکتیں، یہاں دسترخوان توبہ توبہ کررہاہے“۔دسترخوان کرنا کا مطلب ہے بزرگانِ دین کی نیاز کرنا، فاتحہ کا کھانا کھِلانا۔نوراللغات میں ہے:
یار نے تجھ کو کھِلایا اپنے ساتھ
بحرؔ اَب گھر چَل کے دسترخوان کر
(بحرؔ لکھنوی)
جو بِلّی کسی کے کھانا کھانے کے وقت آموجودہواُسے ’دسترخوان کی بِلّی‘ کہاجاتاتھا اور کنایے میں اس سے مراد کام چور، نوالہ حاضر (مفت خور)آدمی اور دسترخوان کی مکّھی ہے۔
کیوں حریض ِ منّت ِ دنیا ہو شادؔ
ہم نہیں مکّھی ہیں دسترخوان کی
(شادؔ لکھنوی)
ہدیہ تہنیت: میں واٹس ایپ حلقے ”بزم زباں فہمی“ کی فاضل رُکن ڈاکٹر عظمیٰ زرّیں نازیہ صاحبہ کا سپاس گزارہوں کہ انھوں نے ’دستار‘ اور ’دسترخوان‘ کے تعلق کی طرف واضح اشارہ کیا اور مجھے اس موضوع پر لکھنے کی تحریک دی۔
اہم اعلان: خاکسار اپنی مصروفیا ت کے باعث آیندہ ایک ماہ ’زباں فہمی‘ لکھنے سے قاصر ہے۔بشرطِ فرصت وصحت پھر ملیں گے اگر خدالایا۔
The post زباں فہمی نمبر 204؛ دستار سے دسترخوان تک appeared first on ایکسپریس اردو.