دنیا میں بہ لحاظ آبادی پانچویں بڑی مملکت، پاکستان میں پارلیمانی الیکشن منعقد ہو چکے۔چونکہ کسی ایک سیاسی جماعت کو اکثریت نہیں ملی لہذا مختلف جماعتیں حکومت بنانے کے لیے ایک دوسرے سے رابطے کرنے لگیں۔
سیاست دانوں کے مابین کرسیاں اور عہدے پانے کی دوڑ لگ گئی۔اس دوران یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاکستان کے عوام کیسی حکومت چاہتے ہیں؟ظاہر ہے، نظریاتی اور عملی طور پر بھی ہر حکومت کی بنیادی ذمے داری یہ ہے کہ وہ عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرے اور اپنے اقدامات سے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں لائے۔
عام آدمی کون ؟
پاکستان کی کم ازکم 80 فیصد آبادی یعنی ساڑھے چوبیس کروڑ میں سے تقریباً بیس کروڑ پاکستانی ’’عام آدمی‘‘ کی کٹیگری میں شامل ہیں۔ان لوگوں کی کم از کم ماہانہ آمدن بیس پچیس ہزار اور زیادہ سے زیادہ ماہانہ آمدن پچاس ساٹھ ہزار ہے۔ان کروڑوں پاکستانیوں کی بنیادی ضرورتیں محدود ہیں…دو تین وقت کا کھانا مل جائے، سر چھپانے کو جگہ اور مناسب لباس۔بچے تعلیم پائیں اور علاج کی سہولت بھی ملے۔کام کے مقام تک پہنچنے میں آسانی ہو۔بس پاکستانی عوام کی یہ بنیادی ضرورتیں ہیں ۔گویا یہ وہ ضرورتیں ہیں جو ایک عام پاکستانی چاہتا ہے کہ اسے بہ آسانی میسّر آ جائیں۔مگر کیا یہ انھیں آسانی مل رہی ہیں؟
ناکامی پہ شرمساری
حقائق یہ آشکارا کرتے ہیں کہ پاکستان کا حکمران طبقہ ایسی عمدہ گورنس یا حکومتی انتظام نہیں کر سکا کہ عوام آسانی سے اپنی بنیادی ضروریات پا لیں بلکہ خاص طور پہ پچھلے چھ برس کے دوران مہنگائی کا بم عام آدمی کے سر پہ پھوڑ دیا گیا جس سے وہ پریشان و حیران ہے۔ڈپریشن و بے چینی اس کے مزاج کا حصہ بن رہی ہے کیونکہ عام استعمال کی اشیا پانے کی خاطر بھی پہلے کی نسبت اسے کہیں زیادہ بھاگ دوڑ کرنا پڑتی ہے۔چھ سال پہلے کی نسبت کئی اشیا کی قیمتیں دگنی تگنی بڑھ چکیں۔ عام آدمی کی پریشانیوں میں اضافہ ہونا ہی پاکستان کے حکمران طبقے کی سب سے بڑی ناکامی ہے جس پہ اسے شرمسارہونا چاہیے۔
بھارتی حکمران طبقے کی بہتر کارکرردگی
بھارت میں پچھلے دس سال سے ایک انتہاپسند گروہ حکومت کر رہا ہے۔وہ اپنے مخصوص مفادات پورے کرنے کی خاطر اقلیتوں پہ مظالم ڈھا رہا ہے۔تصویر کا دوسرا رخ مگر یہ ہے کہ اس کے دورحکومت میں مہنگائی کنٹرول میں رہی ہے۔مثلاً آج بھارت میں ایک کلو آٹا 60 روپے، ایک کلو چاول 60سے 170 روپے،پکانے کا تیل فی لیٹر120 روپے، ایک کلو دال 60 سے 100 روپے، سبزی 30 سے 80 روپے فی کلو، چکن 160 روپے فی کلو اور انڈے 70روپے درجن دستیاب ہیں۔ پٹرول کا ریٹ 96.72 روپے لیٹر ہے۔ بجلی فی یونٹ 9 روپے میں ملتی ہے۔گیس کا ریٹ بھی کم ہے۔
دوسری سمت پاکستان میں درج بالا اشیا کی قیمتیں دگنی تگنی بلکہ بعض کی تو چوگنی زیادہ ہیں۔ بھارت اور پاکستان ، دونوں ملکوں میں کم از کم تنخواہ تقریباً برابر ہے۔ بھارت میں عام آدمی ماہانہ 20 تا 25ہزار کماتا ہے تو پاکستان میں 25 تا 30ہزار، مگر وطن عزیز میں شدید مہنگائی نے اس کی آمدن مٹی کر دی ہے۔اشیائے ضرورت مہنگی ہونے کا سب سے زیادہ نقصان عوام کو ہوتا ہے کیونکہ اس طرح ان کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں مگر آمدن میں اس حساب سے اضافہ نہیں ہوتا۔لہذا بہت سے گھرانے بچت کی خاطر ناگوار اقدامات کرنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔ مثلاً دو وقت کھانا کھاتے ہیں، بچوں کو سکول سے نکلوا کر کام پہ بٹھا دیتے ہیں۔پیدل چل کر دفتر پہنچتے ہیں۔کم سے کم بجلی و گیس استعمال کرتے ہیں۔غرض مہنگائی براہ راست عام آدمی کو نشانہ بناتی اور اسے خوار کرتی ہے۔
پاکستانی بجٹوں کا تقابل
ماضی میں پاکستان میں اتنی زیادہ مہنگائی نہیں تھی جو آج دیکھنے کو ملتی ہے۔وجہ یہ ہے کہ پاکستانی حکمران طبقے کے اخراجات کم تھے۔اس نے آج کی طرح خود کو بہت زیادہ نہیں پھیلایا تھا۔پھر اس کا طرز زندگی بھی سادہ تھا۔تنخواہیں اور مراعات کم تھیں۔مثال کے طور پہ1988-89ء میں حکومت پاکستان کا کُل خرچ 202.2ارب روپے رہا۔اس میں سے 51.1 ارب روپے دفاع، 48.1ارب روپے ترقیاتی منصوبوں اور 38.1 ارب سود کی ادائیگی پہ خرچ ہوئے۔گویا حکومت چلانے کا خرچ تقریباً 46 ارب روپے رہا۔(بحوالہ سٹیٹ بینک پاکستان)
آج جاری مالی سال میں حکومت پاکستان کا بجٹ ’’14 ہزار 460 ارب روپے ‘‘تک پہنچ چکا۔اور اس بجٹ میں ’’7 ہزار 300ارب روپے‘‘صرف سود اور قرضوں کی ادائیگی پہ خرچ ہوتے ہیں۔ اس بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے’’ 1ہزار 9 ارب ‘‘کی رقم ضرور رکھی گئی مگر اس کا بیشتر حصہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، کرپشن اور فضول اسکیموں پہ خرچ ہوتا ہے۔عوام کی فلاح وبہبود کی سرگرمیوں پہ کم ہی رقم خرچ ہو پاتی ہے۔
قرضوں کی لعنت
جب پاکستانی حکمران طبقہ شاہانہ طرز زندگی کی جانب مائل ہوا تو اس نے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے قومی وعالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینا اپنا وتیرہ بنا لیا۔اس کی اسی روش نے بھی پاکستان کے حالیہ مالی مسائل کو جنم دینے میں اہم کردار ادا کیا۔مثال کے طور پہ 1988ء میں پاکستان پہ کل قرضے کی مالیت 630.5 ارب روپے تھی۔(بحوالہ سٹیٹ بینک پاکستان)ایکسپریس ٹریبون کی حالیہ رپورٹ کے مطابق یہ قومی قرضہ اب ’’81ہزار200ارب روپے‘‘تک پہنچ چکا۔
درج بالا اعدادوشمار سے عیاں ہے کہ1947ء سے لے کر 1988ء تک، ان اکتالیس سال میں پاکستانی حکمران طبقے نے ملک وقوم کو 630.5 ارب روپے کا مقروض بنایا۔جبکہ 1989ء سے کر دسمبر 2023ء تک،ان پینتیس برسوں میں اس طبقے نے پاکستان اور پاکستانی قوم کو مزید ’’60 ہزار 569ارب روپے‘‘ کا مقروض بنا ڈالا۔یہ حساب یہ بھی تلخ حقیقت آشکارا کرتا ہے کہ پچھلے پینتیس برس کے دوران حکمران طبقہ اپنے اخراجات کو آسمان پہ لے گیا ۔اس نے شاہانہ طرززندگی اختیار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
اس ساری داستان کا تلخ ترین اور خوفناک پہلو یہ ہے کہ حکومت پاکستان اپنے عوام پہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگا کر رقم حاصل کررہی ہے تاکہ اپنے اخراجات پورے کر سکے۔ٹیکسوں میں حد سے زیادہ اضافہ بھی پاکستان میں مہنگائی کو جنم دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس اضافے سے امرا کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا، البتہ عام آدمی خرچوں کی بھرمار تلے آ کر رُل جاتا ہے۔
دو دنیائیں
حالات سے عیاں ہے کہ پچھلے پینتیس برسوں کے دوران رفتہ رفتہ عوام اور پاکستان کا حکمران طبقہ دو مختلف دنیاؤں میں آباد ہو چکے۔ایک دنیا میں آسائشوں اور سہولتوں کی فراوانی ہے۔اس دنیا کے لوگ دنیاوی لذتوں سے بخوبی لطف اندوز ہوتے ہیں۔دوسری دنیا میں آسائشوں کے بجائے سختیوں اور پریشانیوں کا ڈیرا ہے۔اس دنیا میں روٹی، کپڑے اور مکان کی بنیادی ضرورتیں ہی پوری ہو جائیں تو بڑی بات ہے۔اور خطرناک بات یہ ہے کہ حکمران طبقہ اب یہ شعور وادراک نہیں رکھتا کہ عوام کیا چاہتے ہیں اور ان کی بنیادی ضروریات کیا بخوبی پوری ہو رہی ہیں؟
خوراک کی مہنگائی کا عذاب
مثال کے طور پہ شعبہ خوراک ہی کو لیجیے۔مختلف وجوہ مثلاً آبادی میں اضافے، ایندھن و کھاد مہنگا ہونے، کھیتوں کے ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں بدلنے، قحط و سیلاب وغیرہ کی وجہ سے غذائیں مسلسل مہنگی ہو رہی ہیں۔پاکستانی حکمران طبقے کو چاہیے تھا کہ وہ ایسے اقدمات کرتا کہ عوام کو اشیائے خورونوش سستے داموں مل جاتیں۔اس نے کچھ اقدام کیے بھی مگر وہ خوراک کی بڑھتی قیمتیں نہیں روک سکے۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ2018ء میں نئی حکومت نے آتے ہی غذاؤں کی خرید وفروخت پہ لگے ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی ۔یہی نہیں، نئے ٹیکس بھی لگائے گئے۔اس کے بعد ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت تیزی سے گرنے لگی۔اس خرابی کا نتیجہ یہ نکلا کہ درآمدی خوراک مثلاً دالیں اور مسالے مہنگے ہو گئے۔تیسری اہم وجہ بھی چند برس سے سامنے آئی ہے ، وہ یہ کہ پاکستان سے غذائیں باہر جانے لگیں۔
پاکستان سے غذاؤں کی ایکسپورٹ
سرکاری ادارے ، ادارہ شماریات پاکستان نے جنوری24ء میں تازہ ترین رپورٹ جاری کی۔اس کی رو سے جون 23ء تا دسمبر 23 ء پاکستان سے’’ 3.48ارب ڈالر‘‘ (تقریباً نو سو ستر ارب روپے)کی غذائیں بیرون ملک بھجوائی گئیں۔پچھلے مالی سال کے دوران اسی عرصے میں 2.32 ارب ڈالر کی خوراک ایکسپورٹ ہوئی تھی۔ باہر بھیجی گئی غذاؤں میں چاول، گوشت، سبزیاں، پھل اور خشک میوہ شامل ہے۔
ایک کھرب روپے مالیت کے قریب غذائیں بیرون ممالک بھجوانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی قلت کے باعث پاکستان میں خوراک کی قیمتیں مذید بڑھ گئیں۔گوشت اور بیشتر سبزیاں وپھل عوام کی قوت خرید سے باہر ہو گئے۔اس کے باوجود عام آدمی کی بیشتر آمدن کھانے پینے کی چیزیں خریدنے پہ صرف ہونے لگیں کیونکہ قابل رسائی اشیا کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھ رہی تھیں۔
دنیا بھر میں حکومتوں کا وتیرہ ہے کہ ملک میں کسی بھی وجہ سے ایک غذا کی کمی ہو جائے تو اسے باہر بھجوانا روک دیا جاتا ہے۔مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کی قیمت نہ بڑھے اور عوام اسے کچھ زیادہ قیمت دے کر خرید لیں۔وہ اتنی زیادہ مہنگی نہ ہو کہ عوام کی رسائی سے دور ہو جائے۔مثلاً بھارت کی مودی حکومت نے پچھلے چند ماہ سے چاول اور پیاز کی ایکسپورٹ پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔مقصد یہی ہے کہ ملک میں ان غذاؤں کی قیمت مستحکم رہے اور عوام انھیں خرید سکیں۔یہ مودی حکومت کا قابل تعریف اور عوام دوست اقدام ہے۔
بھارت نے چاول اور پیاز کی برآمد پہ پابندی لگائی تو عالمی خریدار یہ غذائیں پاکستان سے خریدنے لگے۔ان غذاؤں کے بیرون ملک جانے سے پاکستان میں ان کی قیمت تیزی سے بڑھنے لگی۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ عوام کو پریشانی و مہنگائی سے بچانے کے لیے حکومت پاکستان بھی ان غذاؤں کی ایکسپورٹ پہ پابندی لگا دیتی۔مگر ایسا کوئی اقدام نہیں کیا گیا کیونکہ حکمران طبقے کو ڈالر درکار تھے۔
حالانکہ یہ ضروری نہیں کہ خوراک کی ایکسپورٹ سے منسلک پاکستانی کمپنیاںاپنے ڈالر پاکستان لے آئیں۔یہ ڈالر عموماً پاکستان آ کر بھی واپس باہر چلے جاتے ہیں۔خوراک کی ایکسپورٹ کرنے والی یہ کمپنیاں خوب کمائی کر رہی ہیں۔وہ مارکیٹ سے سستے داموں غذائیں خریدتی اور انھیں باہر بھجوا کر اربوں روپے کماتی ہیں۔ مگر اس سارے عمل میں پاکستانی عوام گھاٹے اور نقصان میں رہتے ہیں۔انھیں بچی کھچی غذائیں، چاول، سبزیاں اور پھل مہنگے داموں خریدنا پڑتے ہیں۔انھیں تکلیف ومشکلات میں مبتلا کرنے کی ذمّے دار پاکستانی حکومت ہے۔
سونے پہ سہاگہ، اب ڈالروں کی ہوس میں مبتلا بعض پاکستانی یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ پاکستان سے گندم یا اس سے بنی اشیا کی بیرون ملک بھجوانے کی اجازت دی جائے۔خدارا کچھ تو ہوش کے ناخن لیں اور عوام کے مصائب کا خیال کریں۔ایک کلو آٹا ڈیرھ سو روپے سے بڑھ چکا۔اگر گندم کی اشیا باہر بھیجی جانے لگیں تو آٹے کی قیمت میں تیزی سے مذید اضافہ ہونے لگے گا۔اب بھی عوام کی اکثریت بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتی ہے۔ڈالروں کے پجاری کیا انھیں بھوک اور غربت کا نشانہ بنا کر جان سے مار ڈالنا چاہتے ہیں؟انھیں عوام کے غیظ وغضب سے ڈرنا چاہیے جو خون ریز اور تشدد آمیز عوامی انقلاب کی صورت رونما ہو سکتا ہے۔
حالت نہیں بدل سکی
آپ بازار چلے جائیے یا کسی دفتر میں ، وہاں آپ کو کوئی نہ کوئی ایسا پاکستانی ضرور ملے گا جو اپنے مسائل کا ذمے دار حکمران طبقے یا حکومت کو قرار دے گا۔ کیا یہ دعوی سچ ہے؟جواب یہ ہے کہ یہ آدھا سچ ہے۔ ظاہر ہے، عام طور پہ کسی شہری کے سبھی مسائل حکومتیں پیدا نہیں کرتیں، انھیں جنم دینے میں انسان کی اپنی غلطیاںاور کوتاہیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں حکمران طبقہ اپنے فرائض بخوبی ادا نہیں کر سکا اور عوام کو موثر انداز میں خدمات فراہم کرنے میں ناکام رہا جو حکومتی نظام کا بنیادی فرض ہے۔
اسی لیے پاکستانی عوام کی حالت 1947 ء سے زیادہ نہیں بدل سکی۔ وہ آج بھی غربت ، جہالت اور بیماری میں مبتلا ہیں۔ لاکھوں پاکستانیوں کی بنیادی ضروریات بھی آسانی سے پوری نہیں ہو پاتیں۔سرکاری سہولیات زندگی کا معیار بھی واجبی ہے۔ جابجا ٹوٹی پھوٹی سڑکیں نظر آتی ہیں۔ اسپتالوں اور اسکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔بس شہر میں متوسط طبقہ پہلے کی نسبت کچھ خوشحال ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ بجٹ کے پندرہ ہزار کھرب روپے کہاں جاتے ہیں؟یہ جاننے کے لیے حکومتی نظام کو سمجھنا ضروری ہے۔
پاکستان کا حکومتی نظام
اعداد وشمار کی رو سے پاکستان کی افرادی قوت تقریباًساڑھے نو کروڑ باشندوں پہ مشتمل ہے۔ ممتاز پاکستانی ماہر معاشیات، ڈاکٹر عشرت حسین کی رو سے اس افرادی قوت کا بڑا حصہ ، تقریباً نو کروڑ نجی ملازمتیں یا اپنے چھوٹے بڑے کاروبار کرتا ہے۔ جو بیروزگار ہیں، ان میں سے بھی اکثر روزانہ وقتی کام کر کے کچھ نہ کچھ رقم کما لیتے ہیں تاکہ گذارا ہو سکے۔ دستاویزی معیشت میں ڈیرھ سے پونے دو کروڑ پاکستانی کام کر رہے ہیں۔ بقیہ سات کروڑ سے زیادہ پاکستانی غیردستاویزی معیشت کا حصہ ہیں جو براہ راست ٹیکس بالکل نہیں یا بہت کم دیتی ہے۔
پچاس سے ساٹھ لاکھ پاکستانی سرکاری ملازم ہیں۔ ان میں سب سے بڑی تعداد سول ملازمین کی ہے جن کی تعداد ’’بتیس یا تیتیس‘‘ لاکھ ہے۔ان میں سے بائیس لاکھ صوبائی حکومتوں میں کام کرتے ہیں۔دس گیارہ لاکھ وفاقی حکومت سے منسلک ہیں۔ اس کے بعد مسلح افواج اور دیگر سیکورٹی اداروں کا نمبر آتا ہے۔ مسلح افواج چھ لاکھ اکیاون ہزار فوجیوں پرمشتمل ہیں۔ جبکہ پانچ لاکھ پچاس ہزار فوجی محفوظ یا ریزرو افواج میں تعینات ہیں۔ دیگر سیکورٹی اداروں میں تقریباً تین لاکھ افراد اپنی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔ اگر وفاقی و صوبائی حکومتوں کے کنٹریکٹرز کو بھی شامل کر لیا جائے تو سرکار سے تنخواہ لینے والوں کی تعداد پچاس لاکھ سے بڑھ جاتی ہے۔
ماہرین کی رو سے وفاقی سطح پہ35 فیصد ملازمین سیکورٹی اداروں (رینجرز، فرنٹئیر کانسٹیبلری، پولیس، ایف آئی، آئی بی اور مسلح افواج میں کام کرتے سویلینز)میں اپنی ذمے داریاں ادا کرتے ہیں۔20فیصد ملازمین انفراسٹرکچر کے اداروںمثلاً ریلوے، ڈاک، شاہراہوں، بندرگاہوں ، ایوی ایشن میں تعینات ہیں۔ 18 فیصد بجلی کی پیداوار، ٹرانسمیشن و تقسیم اور آئل و گیس کے اداروں میں کام کر رہے ہیں۔ بقیہ27 فیصد سماجی شعبوں، کمرشل و تجارتی پروموشن، ٹیکس اداروں، ریگولیٹری اداروں، عدلیہ ، تحقیق و تربیت کے اداروں، مختلف نیم سرکاری اداروں ، پارلیمان اور اسلام آباد کیپیٹل اتھارٹی سے منسلک ہیں۔
صوبائی حکومتوں میں 41فیصد سرکاری ملازم تعلیم، 19 فیصد پولیس اور 15فیصد صحت کے شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ بقیہ افرادی قوت زراعت، ورک وہاؤسنگ، آب پاشی، صنعت ، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ، خوراک، آب وسیوریج، اربن ڈویلپمنٹ خزانہ، ریونیو، مقامی حکومتوں ، عام انتظامیہ وغیرہ سے منسلک ہیں۔
سرکار پہ خرچ
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (Pakistan Institute of Development Economics)ایک سرکاری ادارہ ہے۔ معاشیات داں اور ڈپٹی چئیرمین پلاننگ کمیشن، ندیم الحق اس کے سربراہ ہیں۔ ادارے نے اکتوبر 23ء میں ’’سرکاری ملازمین کا زندگی بھر کا خرچہ‘‘(Life Time Cost Of Public Servants)نامی ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی۔اس رپورٹ کے مطابق آج تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں پہ سالانہ’’ آٹھ ہزار ارب روپے‘‘ خرچ ہو رہے ہیں۔گویا پاکستان کے سالانہ بجٹ کا آدھے سے زائد حصہ!
رپورٹ کی رو سے وفاقی و صوبائی حکومتوں کے باقاعدہ ملازمین کی تنخواہوں پر تین ہزار ارب روپے خرچ آتا ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین کو ڈیرھ ہزار ارب روپے کی پنشن دی جا رہی ہے۔ سرکاری منصوبوں سے منسلک تمام ملازمین اور نیم سرکاری اداروں کے عملے کو سالانہ تین ہزار ارب روپے منصوبے انجام دینے کی خاطر دئیے جاتے ہیں۔ ایک ہزار ارب روپے افواج کی تنخواہوں اور پنشن پہ خرچ ہوتے ہیں۔یہ کل رقم آٹھ ہزارارب روپے بنتی ہے۔
اب دیکھنا چاہیے کہ وفاقی و صوبائی سطح پر سرکاری ملازمین کی تقسیم جنھیں ’’بیوروکریسی‘‘ کہا جاتا ہے، کس نوعیت کی ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین کے مطابق بیورکریسی کے تین بڑے درجے ہیں: 1تا 5 اسکیل یا گریڈ کی تنخواہ پانے والے’’ غیر ہنر مند‘‘کہلاتے ہیں۔ 6 تا 16 اسکیل کے ملازمین ’’نیم ہنرمند ‘‘درجے میں آتے ہیں۔ جبکہ 17 تا 22 اسکیل کے افراد کو ’’ہنرمند‘‘کہا جاتا ہے۔
پاکستان کے سرکاری ملازمین میں سے ’’50 فیصد ‘‘غیر ہنرمند درجے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں نائب قاصد، قاصد، مالی، چپڑاسی، ہرکارے، جمعدار ، صفائی کرنے والے وغیرہ شامل ہیں۔ نیم ہنرمند میں ڈرائیور، کلرک، اسسٹنٹ، سپرنٹینڈینٹ وغیرہ آتے ہیں۔ڈاکٹر عشرت حسین کا دعوی ہے کہ حکومت تنخواہوں کا ’’80فیصد‘‘حصہ غیر ہنرمند اور نیم ہنرمند افراد کو دیتی ہے۔ جبکہ20 فیصد ‘‘ہنر مند سرکاری ملازمین کو ملتا ہے۔ہنرمندملازمین میں جونئیر واعلی سرکاری افسر شامل ہیں۔ سرکاری محکموں، شعبوں اور اداروں کے سربراہ22 اسکیل کی تنخواہ و مراعات پاتے ہیں۔
افواج پاکستان میں مروجہ تعلیم و تربیت کے بعد سیکنڈ لیفٹینٹ 17 اسکیل میں داخل ہوتا ہے۔ جیسے جیسے اس کا رینک بڑھے، پے اسکیل بھی بڑھ جاتا ہے۔ لیفٹینٹ جنرل کو 22اسکیل یا گریڈ کی تنخواہ حکومت کی جانب سے ملتی ہے۔ صوبے دار میجر سے فوجی جوان تک 1 تا 16اسکیل میں آتے ہیں۔ پاک فوج میں اس وقت دو جنرل،30 لیفٹینٹ جنرل اور210 میجر جنرل کام کر رہے ہیں۔
سیکورٹی فورسز میں عملے کی تعداد زیادہ رکھنا اور انھیں جدید اسلحے سے لیس کرنا پاکستانی قوم کی ضرورت ہے۔ وجہ یہ کہ ہمیں ایک طاقتور دشمن پڑوسی، بھارت کی جانب سے جارحیت کا سامنا ہے۔ اس کی پاکستان مخالف سازشوں، سرگرمیوں اور کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہمارا دفاع مضبوط ہونا چاہیے۔ اسلام دشمن عالمی طاقتیں بھی ہمارے ایٹمی پروگرام کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ہم اسی وقت دشمنوں کا بھرپور انداز میں مقابلہ کر سکتے ہیں جب دفاع پر کثیر رقم خرچ کی جائے۔
تشویش ناک صورت حال
لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ خاص طور پہ 1989ء کے بعد پاکستان کی حکومت چلانے والی انتظامیہ یا حکمران طبقہ اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کر سکا اور اس کی کوتاہیوں، غفلت اور نااہلی کے باعث آج پاکستان شدید مالی مسائل میں گرفتار ہو چکا۔ انہی مالی مسائل کی وجہ سے پاکستانی قوم مہنگائی کا عذاب بھی بھگت رہی ہے۔ ان مسائل کی جڑ اندرونی و بیرونی قرضے بن چکے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ماہرین معاشیات کے مطابق اب پاکستان اِن بھاری بھرکم قرضوں کا صرف سود ہی ہر سال ’’آٹھ ہزار ارب روپے‘‘ادا کر رہا ہے۔ یہ دماغ چکرا دینے والا انکشاف ہے اور جو پاکستان کی موجودہ سنگین مالی مشکلات عیاں کرتا ہے۔ وجہ یہ ، جیسا کہ بتایا گیا، آٹھ ہزار ارب سالانہ تو حکومت چلانے پہ خرچ ہو جاتے ہیں۔ جبکہ قرضوں کا سود دینے میں آٹھ ہزار ارب روپے لگ رہے ہیں تو پیچھے کیا بچا؟ حکومت کا سالانہ بجٹ تو پندرہ ہزار روپے سے کچھ زیادہ ہے۔ گویا اسلحے کی خریداری اور دیگر ضروری خرچے مذید قرضے لے کر پورے کیے جا رہے ہیں۔ جبکہ عوام کی فلاح وبہبود کے ضروری منصوبے بھی قرضے لے کر مکمل ہوتے ہیں۔
پنشن کا سرکاری نظام بھی غیرمنصفانہ ہے۔ گریڈ 22کے اعلی افسر ریٹائرڈ ہوں تو انھیں پانچ سے نو لاکھ روپے تک ماہانہ پنشن ملتی ہے۔ جبکہ چھوٹے ملازمین بیس سے تیس ہزار روپے ماہانہ ہی پاتے ہیں۔ اعلی ریٹائرڈ افسروں کو ماہانہ بجلی ، پٹرول مفت بھی ملتا ہے۔ نیز جج سیکورٹی بھی سرکاری خرچ پر پاتے ہیں۔ دنیا میں کسی بھی ملک میں بیوروکریسی کو پالنے پوسنے میں اتنی زیادہ رقم خرچ نہیں ہوتی۔
دوسری جانب لاکھوں غیر سرکاری افرادی قوت کا کوئی پْرسان حال نہیں۔ جب یہ لوگ بوڑھے ہو جائیں تو ریاست انھیں کسی قسم کی امداد نہیں دیتی اور نہ کوئی خیال رکھتی ہے۔ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹس انسٹی ٹیوشن سے رجسٹرڈ غیرسرکاری ملازمین بھی ماہانہ صرف دس ہزار روپے پاتے ہیں۔ ان کی تعداد بھی خاصی کم ہے۔
درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ حکومت چلانے کا خرچ اور قرضوں کا سود حد سے کہیں زیادہ بڑھ چکے۔ ان اخراجات نے تو اب پاکستان کی بقا و سالمیت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس لیے ہنگامی طور پہ حکمران طبقے اور عوام ، دونوں کو ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جو دونوں اخراجات کو کم سے کم کر دیں۔ بدقسمتی سے پاکستانی حکمران طبقے کو معاملات کی سنگینی کا اندازہ نہیں اور وہ بے پروا بلکہ خود غرض دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے، آئے دن سرکاری افسروں ، ارکان اسمبلیوں، ججوں وغیرہ کی تنخواہوں، مراعات ، سہولتوں اور بونسوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ طرز حیات کیا ایسے ملک کے حکمران طبقے کو زیب دیتا ہے جو کھربوں روپوں کے قرضوں تلے دبا ہو اور جن کی وجہ سے عوام شدید پریشانی و مشکلات کا شکار ہو چکے ہوں؟
وطن عزیز کے حکمران طبقے میں قابل ،ایمان دار اور اہل افراد بھی موجود ہیں۔انہی کی وجہ سے یہ کارخانہ ِحکومت چل رہا ہے۔ مگر یہ عیاں ہے کہ وہ حکومت کے مالی مسائل حل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے یا پھر انھیں دانستہ ایسی پالیسیوں میں شامل نہیں کیا جاتا جو قرضوں کا بوجھ اور حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔عام خیال ہے کہ جو سرکاری افسر دیانت دار اور قانون پسند ہو، اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں اور اسے کام نہیں کرنے دیا جاتا۔رشوت خور، اقربا پروری کرنے اور قانون پیروں تلے روندنے والے انھیں نیچا دکھانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔
دراصل حکومت چلانے اور پالیسیاں بنانے اور انجام دینے والے اکثر لوگ وہی ہیں جو مروجہ حکومتی نظام سے مالی فوائد اٹھا رہے ہیں۔اسی لیے وہ کرپٹ اور عوام دشمن نظام کو ختم کرنے کے کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کرتے۔بہت سے سرکاری افسر اپنی حقیقی ذمے داری یعنی عوام کی خدمت اور ان کے مسائل حل کرنا ادا نہیں کرتے بلکہ اچھی جہگوں پہ تقرری، وقت بے مقصد سرگرمیوں میں ضائع کرنا اور اونچے گریڈوں کی تمنا میں غرق رہنا ان کا مطمح نظر بن چکا۔
The post پاکستان کے عوام کیسی حکومت چاہتے ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.