غزل
اس لئے خوشیوں کی بہتات نہیں رہتی ہے
اب میری تجھ سے ملاقات نہیں رہتی ہے
وقت کے ساتھ خدو خال بھی ڈھل جاتے ہیں
عمر بھر حسن کی سوغات نہیں رہتی ہے
میں نے دنیا کو کبھی دل میں جگہ دی ہی نہیں
میرے حجرے میں یہ بد ذات نہیں رہتی ہے
جس قدر سخت ہوں تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں
زندگی بھر تو کہیں رات نہیں رہتی ہے
میر نے بات بہت خوب کہی ہے جامی
عشق میں عزتِ سادات نہیں رہتی ہے
(مستحسن جامی ۔خوشاب)
۔۔۔
غزل
تمہیں لگا تھا کہ میں بھی زمانے جیسا ہوں
مگر یہ دیکھ، میں دنیا سے لاکھ اچھا ہوں
یہاں تو ماؤں سے بچے نہیں سنبھلتے ہیں
اور ایک میں کہ ترا غم سنبھالے بیٹھا ہوں
بتاؤ؟ ترکِ مراسم کی جلدی کس کو تھی
زوالِ شوقِ محبت پہ میں تو روتا ہوں
خود ہی رقیب ہوں اپنا، خود ہی ہوں عاشق بھی
میں اپنے رزق پہ خود آنکھ رکھ کے بیٹھا ہوں
خدا کے کام ہیں بھائی، جسے عطا کر دے
میں کیسے کہتا پھروں، میں فلاں سے اچھا ہوں
(فرقان فرضی۔ ڈسکہ)
۔۔۔
غزل
ہو رہیں ہر قدم اِس رہ میں خسارے نزدیک
زندگی صرف محبت ہے ہمارے نزدیک
اتنے یاروں سے خوش اسلوب رفاقت کا سبب
ہم نے رکھا کیے سب دور نہ سارے نزدیک
تھرتھراتے ہوئے دل اور سیہ شب کی قسم
یونہی آیا نہیں اُس ذات کے بارے، نزدیک
پھر تہِ آب کسی موج کے تیور بگڑے
پھر ہوا خوش میں کہ وہ آئے کنارے نزدیک
یہ غلام آج بتاتے ہیں حکومت کے اصول
اِن کا بنتا ہے کہ رہتے ہیں تمہارے نزدیک
وقت کے چہرۂ مکروہ کو کیسے دیکھیں
جن کے دامن میں کوئی چیز نہ پیارے نزدیک
(زبیرحمزہ۔ قلعہ دیدار سنگھ)
۔۔۔
غزل
اس مصیبت کی وضاحت نہیں ہوتی مجھ سے
اپنی خوشیوں کی حفاظت نہیں ہوتی مجھ سے
یہ درختوں سے محبت کا صلہ ہے شاید
اب پرندوں کو شکایت نہیں ہوتی مجھ سے
جن کے محراب سے نفرت کو ہوا ملتی ہو
ایسے فرقوں کی حمایت نہیں ہوتی مجھ سے
اب اکیلے میں ہی تسکین مجھے ملتی ہے
اب کسی بزم میں شرکت نہیں ہوتی مجھ سے
اب اسی فکر میں دن رات گزر جاتے ہیں
کیوں حسینوں کو محبت نہیں ہوتی مجھ سے؟
(معروف شاہ۔ اسکردو)
۔۔۔
غزل
تخیلات کی دیوی ہے مہرباں مجھ پر
بنا رہی ہے غزل پھر سے آشیاں مجھ پر
نزولِ شعر و سخن ہے کہ ہے یہ علمِ غیب
رموز دنیا کے سارے ہوئے عیاں مجھ پر
اس عالمِ رنگ و بو میں سبھی روا ہے مگر
اُس ایک شخص کی بیگانگی گراں مجھ پر
دلوں کی بات بہت دیر چھپ نہیں سکتی
تمہاری سوچ رہے گی نا اب نہاں مجھ پر
کہاں کہاں مرے بارے میں بات ہوتی ہے
اٹھا رہے کئی پاکیزہ انگلیاں مجھ پر
زمانہ دے نہیں پایا مرا مقام مجھے
میں کر رہا ہوں اسی واسطے فغاں مجھ پر
(سید محمد تعجیل مہدی۔ سیوا سادات، جھنگ)
۔۔۔
غزل
پیار کے دعوے داروں نے
لوٹا دل مکاروں نے
کانٹے پھینکے راہوں میں
اب کی بار بہاروں نے
تیری یاد دلا دی ہے
آج بھی رات ستاروں نے
اس نے آنچل لہرایا
رقص کیا نظاروں نے
کتنے عاشق دفن کئے
گاؤں کے سرداروں نے
میرا اپنا دل توڑا
میرے اپنے پیاروں نے
سیدھے پہنچے سینے میں
تیر جو مارے یاروں نے
ظلم کی ہے بنیاد رکھی
دین کے ٹھیکے داروں نے
میں نے اس کو چاہا اور
پتھر مارے ساروں نے
آنکھیں، گیسو، چہرہ، لب
کیف کو مارا چاروں نے
(نوید کیف ۔چنیوٹ)
۔۔۔
غزل
آنکھوں سے رابطے ذرا ہموار تو رکھو
مجھ کو ذرا مشرفِ دیدار تو رکھو
ملنا نہیں ہے ٹھیک یوں ہر اک سے بارہا
ہم جیسے دلبروں کو طلبگار تو رکھو
یہ چپ تمہاری کر دے اذیت میں مبتلا
انکار لب پہ ہو بھلے، اظہار تو رکھو
حالانکہ دوریاں ہوئیں حالات کے سبب
دل میں، ہمارے وصل کے ادوار تو رکھو
احساسِ لمس ایسا دو گھائل کرے مجھے
مجھ عشق کے مریض کو بیمار تو رکھو
غم باٹنے سے غم میں اضافہ ہے ہو رہا؟
مانو جو میری ڈھنگ کا غمخوار تو رکھو
جانم! میں اپنے کام سے رکھوں گا کام، پر
تم اپنے کام سے بھی سروکار تو رکھو
یہ دل خدا کا گھر ہے سو اس واسطے ثمرؔ
رکھنا ہے جو بھی صاحبِ کردار تو رکھو
(ثمر جمال۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
اک سڑک ایک راستہ ہو گا
درد کا دل سے واسطہ ہو گا
کوئی گزرا ہے مسکراتے ہوئے
اب یہاں ایک حادثہ ہو گا
جو محبت کی بات کرتا تھا
اب کہیں پر وہ لاپتہ ہو گا
تیرے لہجے کی خوشبو کہتی ہے
تیرا پھولوں سے رابطہ ہو گا
یہ جو سینے میں درد رہتا ہے
یہ محبت کا ظابطہ ہو گا
(احمد قاسم۔ عارف والا)
۔۔۔
غزل
شہر سے گاؤں کی جانب پیار ہو جانے کے بعد
لوٹ جاتے ہیں مگر بے کار ہو جانے کے بعد
دو بدو لڑنے سے ہٹ کر کوئی چارہ ہی نہ تھا
آخری دیوار کے مسمار ہو جانے کے بعد
تیرا چہرہ دیکھتا ہوں خواب کی آغوش میں
تیری آنکھیں نیند سے بیدار ہو جانے کے بعد
فی زمانہ ڈھونڈتا ہوں اب کوئی تازہ خمار
میں خمارِ عشق سے بے زار ہو جانے کے بعد
جب تلک میں تھا کہانی میں فقط میں ہی تو تھا
چھوڑ دی جو ثانوی کردار ہو جانے کے بعد
(بلال سرور۔ ساہیوال)
۔۔۔
غزل
وہ تو ایسے گماں میں رہتا ہے
تیر جیسے کماں میں رہتا ہے
میرا پوچھے اگر اُسے کہنا
دربدر سا جہاں میں رہتا ہے
اُس کے سانسوں کی ہے مہک ایسی
جیسے گل، گلستاں میں رہتا ہے
میں چلوں جانبِ حرم کیسے
دل مرا ایں و آں میں رہتا ہے
کیا وہ ایواں کے خواب دیکھے گا
خود جو کچے مکاں میں رہتا ہے
دیکھا مہوش کے سنگ تو بولے
خار گل کی اماں میں رہتا ہے
(اقبال جعفر۔ دُرگ)
۔۔۔
غزل
میں چاہتا بھی یہی تھا رہے ملال مجھے
کسی کے ہجر کی کرنی تھی دیکھ بھال مجھے
کہاں پہ چھوڑ گیا قافلہ محبت کا
تری طلب ہے نہ اپنا ہی کچھ خیال مجھے
مرے نصیب میں لکّھا تھا ٹوٹنا لیکن
میں تجھ سے کہہ تو رہا تھا کہیں سنبھال مجھے
کسی طرح سے یہ ممکن ہے تیرے ہوتے ہوئے؟
کسی کا اپنی طرف کھینچ لے جمال مجھے
ہمیشہ جانبِ منزل قدم بڑھاتا رہا
پھر اک امید شکن کر گیا نڈھال مجھے
جسے کہ فرطِ محبت سے ہو گیا ہے غرور
سکھا رہا ہے تعلق میں اعتدال مجھے
نہیں ہے بادِ مخالف سے مسئلہ مجھ کو
دیا ہے تیرے تغافل نے اشتعال مجھے
تری قسم ہے جدائی میں کھا گئی فیصل
درونِ کنجِ قفس حسرتِ وصال مجھے
(فیصل کاشمیری۔ وزیرآباد، گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
جناب سارے مر گئے ہیں
وہ خواب سارے مر گئے ہیں
رقیب میرے نہیں رہے اب
عذاب سارے مر گئے ہیں
سوال ایسا کر گیا ہے
جواب سارے مر گئے ہیں
بہار میں یہ کیوں ہوا ہے؟
گلاب سارے مر گئے ہیں
یہ مجھ پہ ہی تنقید کیونکر
خراب سارے مر گئے ہیں؟
(عدنان اکبر عدنان۔نیٹھڑی، فیصل آباد)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.