(ترکی کا سفرنامہ۔۔۔ پانچواں پڑاؤ)
’’محبت اور عقیدت ہماری روح کو سرشار کرتی ہے۔‘‘
ہماری بچپن کی تربیت کچھ ایسی تھی کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ والہ وسلم، خاتم النبین کے بعد پنجتن پاک اور شہداء کربلا سے محبت اور عقیدت اسی طرح کوٹ کوٹ کر بھری گئی تھیں کہ آج تک روح ان کی محبت اور عقیدت سے سرشار ہے۔
اورجس گھرانے میں بیاہ کر آئی وہاں کا عالم بھی یہی تھا۔ یہاں بھی اس عقیدت اور محبت میں بڑھ کر اولیاء اﷲ اور بزرگان دین بھی شامل ہوگئے تھے۔ اب ہمارا عالم تو یہ ہے کہ جب بھی کسی شہر جاتے ہیں تو وہاں اگر کسی بزرگ کا مزار ہوتا ہے تو وہاں حاضری دے کر فاتحہ ضرور پڑھتے ہیں جیسے اسلام آباد جائیں تو بری امام اور لاہور جاتے ہیں تو داتا دربار ضرور حاضری لگاتے ہیں اور فاتحہ ضرور پڑھتے ہیں۔ اب کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ ہمارا تعلق دھمال ڈالنے والے طبقہ سے ہے ہرگز نہیں یہ ہمارا راستہ نہیں ہے۔ ہمارا رستہ تو ان کی تعلیمات اور ان کی اسلام کے لیے خدمات کی طرف سے ہوکر گزرتا ہے۔ راستے پر ایک مزے کی بات یاد آئی۔
ہمارے میاں سعید صاحب کا تو یہ عالم ہے کہ قائداعظم کے مزار کے سامنے سے بھی فاتحہ پڑھے بغیر نہیں گزرتے اور کلفٹن پر عبداﷲ شاہ غازی کے مزار پر حاضری اور فاتحہ ضرور پڑھنے کے لیے رکتے ہیں بے شک کتنی بھی دیر ہوجائے۔
ایک بار بچوں کو کسی سال گرہ میں لے کر جارہے تھے۔ عبداﷲ شاہ غازی کے مزار کے پاس سے گزرے تو میاں نے گاڑی ایک طرف کھڑی کی اور فاتحہ پڑھنے چلے گئے۔ اتنے میں اذان بھی ہوگئی۔ مجھے تو معلوم تھا کہ اب تو میاں نماز پڑھ کر ہی واپس آئیں گے مگر بچوں کی حالت قابل دید تھی۔
ایک کہتا تھا کہ وہاں سب مہمان بھی آ چکے ہوں گے، دوسرا گرہ لگاتا اب کیک بھی کٹ چکا ہوگا۔ بیٹی کا منہ پھول کر گپا ہوچکا تھا کیوںکہ جس بچی کی سال گرہ تھی اس سے ان کی بہت دوستی تھی مگر سونے پر سہاگہ یہ ہوا مزار پر کسی نے پاکٹ مارنے کی کوشش کی اور وہاں موجود افراد نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑلیا۔ اب آدھے گھنٹے کی بجائے وقت ایک گھنٹہ ہوگیا۔
بچے تو اب کہنے لگے تھے کہ ’’امّاں ابا کو ڈھونڈنے چلتے ہیں کہیں گم نہ ہوگئے ہوں۔‘‘ میں نے کہا،’’ابّا اتنے چھوٹے نہیں ہیں کہ گم ہوجائیں۔‘‘ اتنے میں گم شدہ ابّا آگئے جو اسٹوری انہوں نے سنائی تھی اس پر ابّا کو معافی مل گئی تھی۔
مگر جب ہم سال گرہ میں پہنچے تو میدان خالی ملا نہ مہمان، نہ میزبان کی بیگم صرف بدحواس سے بچی کے والد تھے جو بیوی کے انتظار میں کبھی گیٹ پر جاتے، کبھی واپس آتے تھے اور ہم سے معذرت بھی کرتے جاتے تھے۔
بچی رونی صورت بنائے ایک طرف بیٹھی تھی۔ ہمارے بچوں کو دیکھ کر خوش ہوگئی اور ہم بھی دیر ہوجانے کی شرمندگی سے بچ گئے، مگر یہ قصہ تو برسبیل تذکرہ یادیں داستاں کے لیے آگیا تھا۔ جس طرح بحرِعرب کے کنارے پر حضرت عبداﷲ شاہ غازی، جو امام حسن ؓ کے تعلق سے حسنی بھی کہلائے جاتے ہیں، نے قیام کیا ہوا ہے، اسی طرح میزبان نبیﷺ حضرت ابوایوب انصاری نے باسفورس کے کنارے کو آباد کیا ہوا ہے۔
یہ ہماری لاعلمی تھی کہ ہمیں یہ معلوم نہ تھا کہ میزبان نبیﷺ استنبول میں دفن ہیں۔ ہماری ٹریول کمپنی کے ریحان ولی نے کہا کہ ’’جب آپ لوگ استنبول جائیں تو حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر ضرور جائیے گا اور میرا سلام پہنچا دیجیے گا‘‘ اور ادھر کچھ دوستوں نے بھی یہ ذمے داری دی تو معلوم ہوا کہ استنبول میں یہ عظیم صحابیؓ مدفون ہیں۔
ہم نے جب عزیز سے ’’ایوب‘‘ چلنے کا کہا تو وہ چلنے پر رضامند ہوگئے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ جو کچھ ہمارے ہاں مزارات پر ہوتا ہے وہی کچھ وہاں پر بھی ہوگا۔ دھمال، قوالیاں اور گداگر۔ ہم پہلی بار استنبول کی بس میں سفر کررہے تھے کیوں کہ Aminonu ٹرمینل ہے وہاں لائن سے اسٹاپ بنے ہوئے تھے ہر اسٹاپ کے ساتھ بس کا نمبر وقت اور روٹ درج تھا مگر ترکی زبان میں تھا۔
عزیز نے گوگل پر لکھ کر ترجمہ کرلیا تھا اور ہم اسی اسٹاپ پر آگئے پانچ منٹ بعد بس آگئی کیوںکہ یہی وقت درج تھا۔ ہم نے ڈرائیور کے ساتھ لگے کمپیوٹر پر دو دفعہ استنبول کارڈ استعمال کیا، کیوںکہ اگر آپ دو افراد ہیں تو دو دفعہ کارڈ استعمال کرنا پڑتا ہے مگر بس میں سوار ہونے کے لیے لائن لگانا پڑتی ہے، جوان ہو یا بوڑھا یا بچہ سب کو اپنی باری پر سوار ہونا ہے اور عورت یا مرد کی بھی تخصیص نہیں ہوتی، نہ احترام میں کسی عورت کو کوئی سیٹ دیتا ہے۔
نہ جوان بوڑھے لوگوں کے لیے کھڑے ہوتے ہیں یعنی ’’ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز‘‘ بس کا بھی کمپیوٹرائز نظام بہت بہترین تھا۔ ہمارے یہاں تو کنڈیکٹر دھپ دھپ کرکے بس چلاتا ہے۔ ’’جانے دو استاد، ڈبل ہے‘‘ کی کوئی آواز نہ آئی، ’’چل مائی اندر چل‘‘ کے جملے بھی کانوں میں نہ پڑے اور ہم اپنے کنڈیکٹروں کے مخصوص انداز کو ترستے ہوئے بس میں سوار ہوگئے اور بس کے دروازے بند ہوگئے۔ اب جو بھی اسٹاپ آتا کمپیوٹر صاحب اس اسٹاپ کی آواز لگاتے اور مسافر سوار ہوتے اور اترتے رہے۔ ہم بھی اطمینان سے بیٹھے رہے کیوںکہ اندازہ ہوگیا تھا، اسٹاپ آتے ہی معلوم ہوجائے گا۔
ترکی میں سیاح بہت آتے ہیں اور ترکی میں سفر کا ذریعہ جو سستا بھی ہے وہ بس میٹرو ٹرام ہے۔ ہمارے اسٹاپ کا نام ’’ایوب‘‘ تھا، ہمارے ساتھ وہاں کافی لوگ اترے اور سوار ہوئے کیوںکہ ہمارے دائیں طرف تو سمندر تھا۔ موسم خاصا خوش گوار تھا۔ دھوپ نکلی ہوئی تھی مگر گرمی نہیں تھی کیوںکہ سورج ڈھلنا شروع ہوگیا تھا۔
سمندر کیوںکہ دائیں جانب تھا اور بس نے ہمیں بائیں جانب اتارا تھا لیکن کسی مزار کے آثار نہ تھے۔ ایک وسیع سرسبز صاف ستھرا قطعہ تھا جہاں جا بجا بینچیں لگی ہوئی تھیں۔ بچے کھیل رہے تھے۔ سمندر کے کنارے بھی دور تک بینچیں لگی ہوئی تھیں اور وہاں بھی کنارے پر کشتیاں کھڑی ہوئی تھیں اور سمندر میں بھی چھوٹی بڑی بوٹس موجود تھیں۔
بائیں جانب ایک سڑک اونچائی کی سمت جارہی تھی اور ایک طرف اونچے اونچے درخت تھے اور سرسبز گھاس کے قطعے تھے۔ ایک طرف بازار تھا جہاں ہوٹل اور دکانیں تھیں۔ ہم نے صبح کا ناشتہ کیا ہوا تھا اور اب بہت شدت کی بھوک لگ رہی تھی۔ عزیز سے بھوک بالکل برداشت نہیں ہورہی تھی اس لیے جیسے ہی پہلا ہوٹل نظر آیا ہم وہیں بیٹھ گئے۔ یہاں لائن سے کافی ہوٹل تھے۔ اندر بھی بیٹھنے کا انتظام تھا اور باہر بھی فٹ پاتھ پر کرسیاں میزیں لگیں ہوئی تھیں۔
اس وقت تک ہمیں ترکش کھانوں کا اندازہ نہیں تھا مگر ہم نے کراچی میں ترکش کباب کھائے ہوئے تھے بہت لذیذ ہوتے ہیں۔ ہم نے کبابوں کے ساتھ دال کا سوپ، سلاد اور Aran نمکین لسی جو پیک ہوتی ہے اور ترکش روٹی ڈبل روٹی کی طرح ہوتی ہے کیوںکہ ہم لوگوں کو چپاتی کھانے کی عادت ہے۔
اس لیے ترکش روٹی جو سلائس کی طرح کٹی ہوئی تھی وہ کھانا بہت عجیب سا لگ رہا تھا مگر دال کا سوپ اور کباب اتنے مزے دار تھے کہ چپاتی کی کمی محسوس نہیں ہوئی اور اس کے ساتھ Aran مزا آگیا۔ کھانا اتنا تھا کہ ہم دونوں نے پیٹ بھرکر کھایا۔ وہاں ہر ہوٹل میں کھانے کے ساتھ ان کی قیمتیں درج تھیں اور بہت مناسب تھیں۔
حالاںکہ یہ وقت تو ہمارے ہاں چائے کا ہوتا ہے مگر ہم نے آج اس وقت کھانا کھایا تھا اور وہ بھی پیٹ بھر کر لسی کے ساتھ تو چائے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم جہاں بیٹھے ہوئے تھے وہاں سے چڑھائی کی طرف جو پتھریلی سڑک جارہی تھی وہاں سے لوگ اس طرف آرہے تھے جن کے ساتھ بچے بھی تھے۔ ہمیں کچھ ایسے لڑکے نظر آئے جن کی عمریں بمشکل نو دس سال ہوں گی انہوں نے سفید اور سنہرا ترکش لباس پہنا ہوا تھا اور سر پر پگڑی نما ٹوپی تھی، یہ بچے بہت پیارے لگ رہے تھے۔ کچھ کے ساتھ ان کے بزرگ بھی تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے فینسی ڈریس شو سے واپس آرہے ہوں۔
ہم نے سوچا کہ شاید آگے کوئی اسکول بھی ہوگا مگر آج تو اتوار ہے اسکول کی چھٹی ہوگی۔ ہمیں کچھ بچے ایسے ہی لباس میں اس طرف جاتے بھی نظر آئے جدھر سے بچے آرہے تھے ہم اور عزیز بھی اسی طرف آگئے۔
ہم ذرا آگے بڑھے تھے کہ دائیں جانب اس قبرستان کی دیوار نظر آئی جہاں سے اونچائی پر بنی ہوئیں قبریں صاف نظر آرہی تھیں۔ یہ قبریں زمین سے تین چار فٹ بلند تھیں اور اس پر لگا کتبہ بھی تین سے چار فٹ بلند تھا جس پر ایک پگڑی نما گول پتھر لگا ہوا تھا۔ تمام قبریں سفید پتھر کی بنی ہوئی تھیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ سفید پتھر میں زردی گھل رہی تھی۔ کچھ کے پتھر بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے۔ یہ ایک بہت بڑا قبرستان تھا۔
ہم یہاں سے کچھ آگے کی طرف بڑھے تھے تو یہاں پر بازار ختم ہوگیا تھا۔ دائیں طرف کوئی عمارت تھی جیسے کوئی چھوٹی سی مسجد ہو مگر بڑے سے پرانے دروازے پر تالا پڑا تھا۔ ساتھ سفید پتھر کی بنی ہوئی دس بارہ سیڑھیاں تھیں جن کی چوڑائی کوئی بیس فٹ تو ہوگی۔ ان سے پہلے بائیں طرف ایک اور گول عمارت تھی جو کم از کم پندرہ فٹ کی گولائی میں تھی اور ایک چھوٹی سی کھڑکی سے لوگ اندر جھانک رہے تھے اور فاتحہ پڑھ کر آگے بڑھ جاتے تھے ۔
ہم نے بھی اس کھڑکی سے دیکھا، اندر ایک اونچی سی قبر تھی بالکل ایسی جیسی ہم نے باہر قبرستان میں قبریں دیکھی تھیں مگر اس پر ایک سبز کپڑا پڑا ہوا تھا۔ ایک عورت نے مجھے ٹھوکا دیا کہ اپنی زبان میں دعا پڑھنے کا اشارہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا اشارہ بھی کیا۔ اس کا مطلب تھا بی بی ٹھہرنے کی ضرورت نہیں ہے، آگے بڑھو۔ فاتحہ پڑھ کر میں اور عزیز سیڑھیوں کی منڈیر پر آکر بیٹھ گئے ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ پیچھے سے ایک بلّی پھلانگ کر آئی ایک دوسری بلّی اونچائی سے عزیز کی گود میں کود کر آگے بڑھ گئی۔ سامنے کچھ لوگ ڈسپوزیبل برتنوں میں بلیوں کے لیے کھانا رکھ رہے تھے۔
وہاں Cat Foodکی دعوت عام تھی۔ شاید بلیاں بھی اس دعوت کی عادی تھیں۔ ایک بعد ایک آتی۔ ہم نے بیٹھتے وقت غور ہی نہیں کیا تھا کہ ہم کہاں بیٹھے ہیں۔ جب بلیوں کے کودنے کی جگہ دیکھی تو معلوم ہوا یہ بھی ایک پرانا قبرستان ہے بالکل ایسی ہی قبریں تھیں جیسی ہم پہلے بھی دیکھ چکے تھے مگر وہ بہت بڑا قبرستان تھا۔ یہ ایک احاطے میں پچیس تیس تھیں اور ہر قبر پر ایک بلی بیٹھی تھی اور احاطے کی دیوار سفید پتھر کی موٹی جالیوں کی بنی ہوئی تھی۔
ہم اٹھ کھڑے ہوئے سیڑھیاں چڑھتے ہی ایک بہت وسیع پتھریلی اینٹوں سے بنی جگہ تھی جہاں ایک بہت بڑا فوارہ تھا جس کے گرد بینچیں لگائیں گئیں تھیں۔
سامنے ہی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار کا دروازہ تھا۔ ان کے مزار کے کئی دروازے ہیں۔ یہ مسجد کی طرف کا دروازہ تھا۔ بلاشبہہ یہ ایک شان دار بڑا دروازہ تھا جس کے اوپر ایک بڑی محراب پر آیت قرآنی درج تھیں۔
داخل ہوتے ہی وسیع صحن تھا، جس کا صحن بھی سفید پتھروں سے بنایا تھا تھا یہاں سے ایک زینہ اوپر مسجد کی طرف جارہا تھا۔ جہاں سے خطاب کی آواز آرہی تھی جو ترکش زبان میں تھا۔ دوسری طرف حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی قبرمبارک تھی اور مزار تھا۔
ہم جیسے ہی دروازے سے داخل ہونے لگے تو دیکھا ایک ترک خاتون اپنے دو بچوں کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ان کے نو دس سال کے بیٹے کے ہاتھ میں ایک ٹوکری تھی جس میں کچھ مٹھائیاں رکھی ہوئی تھیں لیکن بچے نے کوئی فینسی لباس نہیں پہنا ہوا تھا بلکہ عام سے لباس میں تھا۔ اس بچے نے وہ ٹوکری میرے سامنے کردی اس وقت تک ہمیں یہاں کے رسم و رواج کا علم نہیں تھا۔ میں شکریہ کہہ کر آگے بڑھ گئی۔ اس وقت خاتون کے چہرے پر حیرت اور اداسی تھی جو میری سمجھ میں نہیں آئی لیکن جیسے ہی ہم اندر صحن کی طرف آئے وہاں تو کئی ایک اسی عمر کے لڑکے زرق برق لباس پہنے ہاتھوں میں ٹوکریاں اٹھائے ہر ایک کے سامنے وہ ٹوکریاں کررہے تھے۔
لوگ اس میں سے مٹھائی اٹھالیتے تھے۔ یااﷲ میں نے یہ کیا غلطی کردی، میں الٹے قدموں پلٹ کر دروازے کی سمت بھاگی۔ عزیز بھی میرے پیچھے ’’امّاں کہاں جارہی ہیں‘‘ کہتا بھاگا۔ ’’کہیں میں نے کوئی بدشگونی تو نہیں کردی‘‘ اس خاتون کا اداس حیرت زدہ چہرہ میرے سامنے تھا۔ اس خاتون کے سامنے پہنچ کر میں نے معذرت کرتے ہوئے اپنی اردو میں کہا کہ مجھے اس رواج کا معلوم نہیں تھا۔ اب اس ٹوکری میں ترکش ڈیلائٹ کا ایک ٹکڑا پڑا تھا شاید وہ ہمارے لیے ہی بچا ہوا تھا۔ میں نے وہ ٹکڑا اٹھاکر آدھا عزیز کو دیا، آدھا میں نے کھالیا اس خاتون نے میرے ہاتھ پکڑلیے پھر جو وہ اپنی ترکش میں شروع ہوئی تو صرف درمیان میں تشکرم، تشکرم ہی سمجھ آرہا تھا۔ اس کے چہرے پر جو خوشی تھی وہ بیان سے باہر تھی۔
ہم صحن میں واپس آئے تو وہی ننھے منے ترکش دولہا ٹوکریاں ہر ایک کے سامنے کررہے تھے۔ کچھ لڑکے سادہ لباس میں بھی تھے مگر سب کی عمریں لگ بھگ نو دس سال کی تھیں۔ میں تو سمجھ گئی کہ یہاں ضرور کوئی منت ہوگی جو یہ مٹھائی دینے کا طریقہ ہے وہ منت پوری ہونے پر کیا جاتا ہے لیکن عزیز کے لیے سمجھنا مشکل تھا اور میرے لیے سمجھانا مشکل تھا۔
ہم نے تو اپنے گھرانوں میں امام حسین ؓ کا لڑکوں کو فقیر بنانا، حضرت عباس کا سقہ بنانا وغیرہ دیکھا ہوا تھا۔ یہ ایسی ہی کوئی منت تھی جو حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے منسوب تھی لیکن اب عصر کی اذان ہورہی تھی اور مزار کو بند کردیا گیا تھا، صحن میں بہت بڑے اور قدیم درخت لگے ہوئے تھے جن کے ساتھ تین فٹ کی دیوار کا احاطہ تھا، وہاں اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ساتھ ہی وضوخانہ تھا اور عورتوں کے لیے نماز کی صف بندی ہورہی تھی۔
اسی وقت مزار کے پچھلے دروازے سے ایک بزرگ نکلے ان کی کمر اتنی جھکی ہوئی تھی کہ وہ دوہرے ہوکر چل رہے تھے۔ یقیناً ان کی عمر سو سال سے اوپر تو ہوگی، مگر وہ اتنی تیزی سے چل رہے تھے لگ نہیں رہا تھا کہ وہ اتنے عمررسیدہ ہیں۔ ان کے ساتھ بھی کئی لوگ تھے مگر سب پیچھے چل رہے تھے۔ جو لوگ وہاں موجود تھے وہ ان کے لیے راستہ چھوڑ کر ایک طرف ہوگئے جن خواتین کو معلوم تھا کہ وہ کون ہیں وہ بھی احترام میں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ میرے ساتھ ایک malaysiaکی فیملی بیٹھی ہوئی تھی اور انگریزی جانتی تھی۔ ان کی ماں نے درخت سے پشت لگاکر آنکھیں بند کرلی تھیں۔ بیٹی نے ماں کا کاندھا ہلاتے ہوئے انگریزی میں کہا
<Mama Stand Up Ya Hazrat Molana is going for Namaz Are You Coming I am going>
جب مجھے اندازہ ہوا کہ یہ کوئی بہت بڑے بزرگ ہیں جن کے پیچھے سب نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔ عزیز کہنے لگا،’’امّاں میں بھی نماز پڑھنے جارہا ہوں۔ آپ جب تک پاسپورٹ اور پیسوں کا بیگ سنبھال لیجیے۔ میرے آنے کے بعد آپ چلی جائیے گا۔‘‘ مسجد کا وسیع وعریض صحن انسانوں سے بھرا ہوا تھا۔ وضوخانے کے باہر تک جگہ نہیں تھی۔ لوگ لائن لگاکر وضو کے لیے کھڑے تھے۔ یقیناً یہ حضرت ابوایوب انصاری ؓسے عقیدت و محبت تھی اور یہ جو بزرگ تھے وہ بھی اسی سلسلے سے تھے۔
حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی حضور صلی اﷲ علیہ والہ وسلم سے محبت اور عقیدت کی بہت سی روایات موجود ہیں۔ جب قسطنطنیہ فتح ہوا اس وقت آپ کی عمر 80 سال تھی۔ ابھی قسطنطنیہ فتح نہیں ہوا تھا کہ آپ کی طبیعت خراب ہوگئی تو آپ نے فتح کی بشارت دیتے ہوئے اس جگہ کی نشان دہی کردی تھی جہاں انہیں دفن کیا جانا تھا۔
قسطیلہ کی فتح کے بعد ان کو وصیت کے مطابق دفن کردیاگیا اور جو قبریں آس پاس موجود ہیں وہ تمام شہدا کی ہیں۔ جو مزار ہم نے دروازے سے پہلے دیکھا تھا وہ حضرت کے کسی ساتھی اور صحابی کا تھا جو جنگ میں شہید کردیے گئے تھے۔ اہل ترکی کی ان سے محبت و عقیدت بے مثالی ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اگر یہاں بیٹے کے لیے منت مانگی جائے تو قبول ہوتی ہے میں نے یہاں کئی اور خواتین کو دیکھا جو حاملہ تھیں۔
جس وقت مزار دوبارہ کھولا گیا وہاں پہلے سے ایک لمبی لائن تھی۔ میں نے عزیز کی تلاش میں نظریں گھمائیں تو وہ بھی لائن میں لگے نظر آئے، خواتین کی لائن علیحدہ تھی۔ مجھے حیرت ہوئی وہ کہہ رہے تھے کہ یہ سب بدعت ہے مزار پر نہیں جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا تھا بس آپ چلی جائیے گا، یہ محبت اور عقیدت تو میری بچپن کی تربیت کا حصہ تھی مگر شاید ہم سے اپنے بچوں کی تربیت میں کچھ کمی رہ گئی تھی یا جو کچھ ہمارے یہاں مزارات پر ہوتا ہے اس نے نئی نسل کو ایسا سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ کچھ کمی جو رہ گئی تھی وہ یوٹیوب پر چلنے والے ہزاروں مذہبی چینلز نے پوری کردی ہے، لیکن مجھے اس وقت بہت خوشی ہورہی تھی۔
ابھی تک وہ پڑھائی اور نوکری میں مصروف رہا تھا، اب مجھے اس کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا تھا مگر اب تو بہت کچھ ڈسکس ہورہا تھا۔ میں تو سمجھ رہی تھی کہ مزارشریف میں داخل ہونے میں دیر لگے گی مگر لائن تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی مگر دروازے سے ان خواتین کو داخل نہیں ہونے دیا جارہا تھا جنہوں نے اسکرٹ پہنے ہوئے تھے یا سر کھلا ہوا تھا اور وہ مرد جو نیکر وغیرہ میں آئے تھے۔ وہاں سر پر پہننے والے اسکارف اور بڑے اسکرٹ رکھے ہوئے تھے جو باندھ کر اندر جانے دیا جارہا تھا۔
مزار میں ایک طرف تبرکات کی زیارت کروائی جارہی تھی اور ذرا آگے چار پانچ سیڑھیوں کے بعد ایک چبوترا تھا وہاں حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا مزار مبارک تھا جس پر سبز رنگ کی چادر پڑی تھی اور کلمہ اور درود شریف لکھا ہوا تھا۔ اس پورے احاطے میں آیت قرآنی سنہری رنگ میں سبز رنگ کے خوب صورت ٹائلوں پر لکھی ہوئی تھیں۔ میرے تو قدم جم گئے تھے۔ دل چاہ رہا تھا کہ یہاں کھڑی رہوں، آنسو خودبخود آنکھوں سے رواں ہورہے تھے۔ یا اﷲ میری کون سی نیکی تھی جو مجھے یہ زیارت نصیب ہوئی۔ میں نے جلدی جلدی فاتحہ پڑھی اور جن لوگوں نے مجھے سلام پہنچانے کو کہا تھا وہ آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ وہاں کے خدام کسی کو بھی وہاں زیادہ دیر کھڑا نہیں ہونے دے رہے تھے۔
ایک طرف قاری صاحب بلند آواز میں تلاوت کررہے تھے۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں جو میں اس وقت کی کیفیت بیان کرسکوں۔ اس قدر خوش گلو اور خوش الحان قاری تھے کہ ایک سحر طاری کردیا تھا۔ دل چاہ رہا تھا کچھ دیر ٹھہرکر قرأت کو سنا جائے مگر وہاں تو کھڑے ہونے کی اجازت نہ تھی میں اس منظر کو نظروں میں لیے اور کانوں میں رس گھولتی آواز کو لیے باہر آگئی۔ لگ رہا تھا کہ جیسے میں نے کوئی خواب دیکھا تھا اور ابھی تک اس خواب کی کیفیت میں ہوں۔
باہر آئی تو عزیز کہیں نظر نہیں آیا۔ میں ادھر ایک طرف بنی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی یہ دوسرا صحن تھا۔ سامنے ایک بہت قدیم اور گھنا درخت تھا جس کے چاروں طرف سے پتھریلی جالیوں سے بند کیا ہوا تھا۔ وہاں آس پاس لوگ کھڑے تھے اور قرآن پاک پڑھ رہے تھے۔ وہاں مجھے عزیز ایک صاحب کے ساتھ بات کرتا نظر آگیا۔ عزیز مجھے دیکھتے ہی آگیا۔ وہ صاحب بھی اس کے ساتھ تھے۔ ’’امّاں! یہ آپ سے ملنا چاہ رہے تھے۔‘‘ میرا اس وقت کسی سے بات کرنے کا موڈ نہیں تھا مگر وہ شکل سے پاکستانی لگ رہے تھے اونچی شلوار نیچا کرتا سیاہ داڑھی عمر کوئی پچاس سال ہوگی۔ ’’کیوں؟‘‘
میں نے کہا۔
’’امّاں! یہ کہہ رہے ہیں آپ لوگ بہت مہنگے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں میں آپ کو بہت بہترین اور کم قیمت میں کمرا دلوا دیتا ہوں۔ آپ لوگ پاکستانی ہیں مجھے آپ کی مدد کرکے خوشی ہوگی۔‘‘
میں نے کہا،’’آپ ہمیں اپنا نمبر دے دیں، ہم آپ سے خود رابطہ کرلیں گے۔‘‘ اور ہم آگے بڑھ گئے۔
لیکن وہ صاحب ہمارے پیچھے ہی باہر آگئے اور ہمیں پھر روک لیا۔ ’’وہ دیکھیں اس طرف جو گلی نظر آرہی ہے وہاں ہی ہوٹل ہے۔ وہاں کچن بھی ہوگا۔ آپ وہاں خود ہی کھانا پکالیا کیجیے گا۔ آپ کو بہت سستا پڑے گا۔‘‘
میں نے کہا،’’بھائی! ہمیں کمرا کتنے لیرا کا ملے گا۔‘‘ وہ کہنے لگے،’’دوسو لیرا یا پھر ڈھائی سو لیرا۔‘‘
میں نے کہا،’’بھائی! ساری زندگی کچن میں چولہا جھونکتے گزرگئی۔ کیا اب چھٹیوں میں بھی چکی چولہا کرتی رہوں؟‘‘
وہ کہنے لگے، ’’اگر آپ کچن استعمال نہیں کریں گی تو میں پچاس لیرا اور کم کروا دوں گا۔‘‘ وہ ہمارا پیچھا چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔
اس وقت عزیز کے دل میں نہ جانے کیا خیال آیا اس نے ان صاحب سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا،’’سر آپ مجھے نمبر لکھوادیں ابھی ہمیں کسی سے ملنے جانا ہے وہ ہمارا انتظار کررہے ہوں گے۔ چلیے امّاں دیر ہورہی ہے۔‘‘
انہوں نے عزیز کو نمبر دے دیا۔ راستے میں عزیز نے معذرت کرتے ہوئے کہا،’’امّاں مجھے اندازہ نہیں تھا مگر انہوں نے مجھے روک کر خود ہی بات کرنی شروع کردی تھی سوری امّاں۔‘‘
میں نے کہا،’’بیٹا یہ بھی ایک تجربہ تھا انسان سفر میں بہت کچھ سیکھتا ہے۔ یہ صاحب کسی ہوٹل والے کے ایجنٹ لگتے تھے مجھے تو ان کو دیکھتے ہی اندازہ ہوگیا تھا اب احتیاط کرنا۔‘‘
’’میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ میری امّاں سے بات کرلیں۔ میری تو سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا تھا کہ ان کی اتنی پرخلوص پیشکش کا کیا جواب دوں۔‘‘
’’ انہیں معلوم کیسے ہوا کہ ہم مہنگے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’یہی سفر کی خوب صورتی ہے ۔ انسان نت نئے لوگوں سے ملتا ، ان سے سیکھتا ہے۔‘‘
’’مگر مجھے لگا آپ کو ان سے مل کر اچھا نہیں لگا۔‘‘ عزیز کو بھی اندازہ ہوگیا تھا۔
میں نے کہا،’’ہر جگہ کا تقدس و احترام ہوتا ہے۔ آپ نے مسجدوں میں لکھا دیکھا ہوگا کہ مسجد میں غیرضروری گفتگو سے پرہیز کریں۔ بے شک وہ صاحب صحیح ہوں گے ان کے نیت اور خلوص پر شک نہیں کیا جاسکتا ہے مگر یہ متبرک جگہ اس کام کے لیے نہیں ہے۔ پہلے اس جگہ کا احترام ضروری ہے۔ ہم یہاں ہوٹل کی بکنگ کروانے نہیں آئے تھے۔
ہم یہاں اپنے پڑاؤ کا اختتام کرتے ہیں اور اگلے پڑاؤ کی سمت چلتے ہیں۔
The post حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مزار مبارک پر آنسو خودبہ خود آنکھوں سے رواں تھے appeared first on ایکسپریس اردو.