اس بار سندھ کا سفر اگرچہ کاروباری سفر تھا لیکن کافی عرصہ بعد پروگرام بنا تو حسبِ معمول سفر کے لیے طاہر کو فون کیا اور کچھ اپنے ذاتی پروگرام کا بھی تڑکا لگالیا۔
طاہر میرا کافی سال پرانا دوست ہے۔ ایک مکمل ’’آوارہ گرد‘‘ اور میری طرح بے چین رُوح اور خانہ بدوش فطرت رکھنے والا شخص۔ ایک بہترین دوست اور نہایت محبت میں گُندھا ہوا شخص ہے جو سفر میں بہترین رفیق ہے۔ اس بار سفر روایتی انداز یعنی ریل گاڑی میں کرنے کا پروگرام بنا کہ اس ٹور کو مزید یادگار بنایا جاسکے۔
رات برستی بارش اور شدید سردی میں ساہیوال اسٹیشن کے آہنی چھجے تلے ریل گاڑی کا انتظار کررہا تھا جو زیادہ طویل نہ ہوا کہ بس 10 منٹ کی تاخیر سے ریل گاڑی پہنچ گئی۔
اگلی صبح بجے ہم روہڑی پہنچ چکے تھے جہاں ’’میر حسن‘‘ ہمارے انتظار میں تھا۔
میرحسن ایک ٹیکسی ڈرائیور پلس گائیڈ ہے جسے سندھ کے چپے چپے سے واقفیت ہے۔ اس کے ہم راہ کافی سال پہلے میں اندرون سندھ کا دورہ کرچکا تھا اور تب سے اس کی انسان دوستی اور میزبانی کا معترف تھا، تو جب سکھر کا پلان بنا تو فوری میر حسن ذہن میں آگیا اور رابطہ کرکے سکھر کے قُرب و جوار کے کچھ علاقے دکھانے کا کہا۔ میر حسن نے کہا کہ آپ بس پہنچ جائیں باقی میری ذمے داری ہے۔
سو مجھے تسلی تھی کہ ہم سکھر اور روہڑی کی تہذیب کو کافی حد تک دیکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ وقت محدود تھا لیکن میرحسن کی مہارت اور ہماری آوارہ گرد خصلت کو بروئے کار لانا تھا کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اپنی مرضی کی چیزیں کشید کرلی جائیں۔
……………
دریا کے بیچوں بیچ ہماری گاڑی ریت ملی مٹی اُڑاتی جارہی تھی۔ اب وہاں دریا نہ تھا بلکہ کچی سڑک تھی جو کہ دریا کے پہلے راستے میں چلتی تھی۔ 962ء عیسوی میں زلزلے کے باعث دریائے سندھ نے اپنا راستہ بدل لیا تھا تو اب یہاں بائیں ہاتھ عجیب و غریب شکلوں والی چٹانیں تھیں اور دائیں ہاتھ کھجوروں کے ان گنت باغات تھے جو سرد ہوا کے باعث ٹھٹھرتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔
اس سے پہلے روہڑی بائی پاس سے ہم مشرق کی طرف اُتر کر کچھ آگے گئے تو ’’محمد بن قاسم‘‘ پبلک اسکول سے سڑک دائیں جانب مُڑگئی۔ تب میرحسن ہمیں معلومات دینا شروع ہوگیا کہ پہلے یہاں راجا داہر کی حکومت تھی جو ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے رکھتا تھا۔
آخر محمد بن قاسم نے یہاں آکر لوگوں کو ظالم راجا سے چھٹکارا دلایا اور ’’اُڑوڑ‘‘ میں، جو کہ یہاں کا دارالحکومت تھا، 125 ہجری میں ایک مسجد تعمیر کروائی جس کا نام ’’بن قاسم مسجد‘‘ رکھا گیا۔ ’’بن قاسم مسجد‘‘ کا اب صرف ڈھانچا کھڑا تھا بلکہ صرف دو دیواریں نامکمل سی کھڑی رہ گئی تھیں۔ سب کچھ زلزلے نے مٹا ڈالا تھا، کچھ کھدائی بھی ہوچکی تھی اور مسجد خندق نما کھڈوں سے گِھری ہوئی تھی۔ یہاں ایک کنویں کے آثار کا بھی پتہ چلا جسے جدید دور کی آہنی دیواروں سے بند کردیا گیا تھا اور اب وہاں پانی کا پلانٹ لگا تھا۔
پانی کا تو کوئی اتاپتا نہیں تھا، البتہ ایک دل چسپ روایت معلوم ہوئی کہ بہت عرصہ پہلے اس کنویں سے خالص دودھ نکلتا تھا اور لوگ اس سے فیض یاب ہوتے تھے، پھر لالچ نے سر اُٹھایا اور لوگوں نے دودھ بیچنا شروع کردیا۔ تب قدرتی طور پر کنواں ہی سُوکھ گیا اور اب وہاں کچھ نہیں تھا سوائے چند روایتوں کے۔
مسجد کی دیواروں کے ادھورے محراب اپنی گم گشتہ کہانیاں سناتے تھے اور ہمیں ’’نئی پہاڑی‘‘ کی طرف موڑتے تھے۔ یہ صرف برائے نام نئی پہاڑی تھی ورنہ بہت پُرانی تھی اور بہت دل چسپ و عجیب روایات لیے ہوئے تھی۔ دُور سے ہی سڑک کے کنارے ایک عجیب سا ٹاور نما پہاڑ نظر آیا جیسے کوئی پچاس منزلہ عمارت کھڑی ہو۔ عجیب سی ہیت والی پہاڑ نما چٹان تھی جس میں بڑا سے کٹاؤ دُور سے ہی نظر آرہا تھا۔
……………
روایات کسی بھی جگہ کی ہوں اس جگہ اور اس کے موسموں کو زندہ رکھتی ہیں، یوں کہ انسان اسی کیفیت میں سانس لیتا ہے اور اسی احساس میں چلا جاتا ہے جب روایات جنم لیتی ہیں۔
ہم بھی انہی روایات میں سانس لیتے تھے اگرچہ اندھی عقیدت جہالت کی طرف لے جاتی ہے لیکن جہاں اندھی عقیدت کے ساتھ دلیلیں بھی ہوں تو آپ ان سے اختلاف نہیں کرسکتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان کو کم از کم سُننا تو پڑتا ہے۔ ہم بھی سُنتے تو تھے لیکن بحث نہیں کرتے تھے کہ بحث فساد کا باعث بنتی ہے اور ہم تو صرف ’’آوارہ گرد‘‘ تھے، ’’سیاح‘‘ تھے۔ ہمارا کام صرف دیکھنا اور بیان کرنا تھا فیصلہ کرنا نہیں، ہم تو وہی بیان کرتے ہیں جو دیکھا اور سُنا۔
میرحسن اپنے آباؤاجداد سے سُنی کہانیاں ہمیں سنارہا تھا کہ ’’ایک ظالم بادشاہ تھا جس نے ظلم کے پہاڑ توڑے ہوئے تھے اور کسی کی عزت اس کے ہاتھوں محفوظ نہ تھی۔ یہاں تک کہ جس لڑکی کا بیاہ ہوتا شرط یہ ہوتی کہ پہلی رات بادشاہ کے ساتھ گزارے گی ورنہ اس کی شادی نہیں ہوگی اور عزت تو پامال ہوگی ہی۔‘‘
تو قِصہ یوں بنا کہ ایک دوشیزہ کی شادی طے پاگئی ’’رواج‘‘ کے مطابق اسے شادی کی پہلی رات بادشاہ کے ساتھ گزارنی تھی۔ لڑکی کی ماں بھلے بہت غریب تھی لیکن وہ اپنی بیٹی کی عزت پامال ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔
اس نے رب کے آگے دامن پھیلا دیا کہ بس تُو ہی میری مدد کرسکتا ہے۔ تو ایک معجزے کے تحت حضرت علیؓ کا ظہور ہوا اور انہوں نے ظالم بادشاہ کو للکارا لیکن بادشاہ ڈر کے مارے ’’نئی پہاڑی‘‘ کے درمیان آ چُھپا۔ حضرت علیؓ نے اپنی تلوار کا وار اس پہاڑی پر کیا تو اوپر سے نیچے تک اس کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ اسی طرح دوسری سمت سے وار کیا گیا تو پہاڑی کے چار ٹکڑے ہوگئے اور ظالم بادشاہ جو پہاڑی کے اندر چُھپ گیا تھا ایک معجزے سے پتھر کی چٹانوں میں بدل گیا اور پتھر ہوگیا۔
روایت تو تھی ہی لیکن ساتھ دلیل کے طور پہ ترچھا پتھر بھی دکھایا گیا جس کے اوپر ایک چھوٹا پتھر پڑا ہوا تھا۔ اسے ظالم بادشاہ قرار دیا گیا تھا اور چھوٹا پتھر اس کا سر کہلاتا تھا۔ ایک دوسری روایت کے مطابق یہ پہاڑی کٹاؤ حضرت علیؓ کے ساتھی جن کا نام بھی علی ہی تھا کے ’’کالکان دیوی‘‘ سے مقابلے کے دوران بنے جسے شکستِ فاش دی گئی اور وہاں بکھرے پتھر دیوی کے سپاہی تھے۔
یہ سب سُن کر ہم ایک دوسرے کو بس دیکھتے تھے لیکن بے تاثر رہتے تھے۔ روایات کو سُنتے اور بغیر تبصرہ کیے ہم چٹان کے قدموں تک پہنچ گئے۔ عجیب سی کٹاؤ والی گھیرے دار پہاڑی تھی جس کے اندر تہہ در تہہ غار بنے تھے جو کٹاؤ کے بیچوں بیچ خم کھاتی ہوئی اوپر تک جاتے تھے۔ ان غاروں میں جانا ممکن نہ تھا کہ ایک تو تنگ بہت تھے دوسرا ان کی دیواریں نوکیلی تھیں۔
ہم خاموشی سے اس عجوبہ نما چیز کو دیکھتے تھے اور اس پر چڑھنے کا راستہ تلاش کرتے تھے جو کہ کٹاؤ کے اندر انتہائی نوک دار لیکن پھسلن زدہ پتھر پر چڑھتا نظر آتا تھا۔ یہاں سے چڑھنا کافی مشکل دکھائی دیتا تھا اور میرحسن بھی ہمارے شہری حلیوں سے دھوکا کھا کے ہمیں خبردار کرتا تھا کہ یہاں چڑھائی بہت مشکل ہے بلکہ خطرناک ہوسکتی ہے اور ہم اس کی نادانی پر ہنستے تھے کہ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ ہم کن کن پہاڑوں پر چڑھ کے معلق ہوچکے ہیں اور یہ پتھر تو بچوں کا کھیل تھا اگرچہ احتیاط اور توجہ تو بچوں کے کھیل میں بھی لازمی ہوتی ہے تو ہم نے بھی کی کہ بلند پہاڑوں سے تو نہ پھسلے لیکن چھوٹی سی چٹان سے پھسل کر ہڈی فریکچر کروانے کا خدشہ مول نہیں لیا جاسکتا تھا۔
ویسے بھی ایک کوہِ نورد بہت محتاط ہوتا ہے بلکہ کسی حد تک ڈرپوک بھی ہوتا ہے اور اس کی وجہ راستے کی خطرناکی نہیں بلکہ اس کی جسمانی فٹ نیس سے منسلک ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اگلے سفروں کے لیے بچا کے رکھنا چاہتا ہے تو احتیاط بے حد ضروری چیز ہے۔ باقی پھر نصیب کی بات آجاتی ہے اور ایک آوارہ گرد ہمیشہ اپنے اچھے نصیب کی دعا کرتا ہے۔ ہم نے بھی اپنے اچھے نصیب کی دعا کی اور میرحسن کی نسبت زیادہ پُھرتی اور آسانی سے اوپر چڑھ گئے جسے وہ ستائش کی نظر سے دیکھتا تھا۔
یہ چٹان ہیئت کے اعتبار سے ہی عجیب نہیں تھی بلکہ یہاں پر پتھر بھی عجیب قسم کے اور کتھئی رنگ کے تھے۔ ایک چیز بہت منفرد تھی کہ یہ سب چھوٹے چھوٹے پتھر بالکل ایک سائز کے تھے اور ہزاروں بلکہ لاکھوں تھے۔ کچھ اوپر جاکر ان پتھروں کا سائز بدل گیا اور کانچ کی گولیاں جو بچے گلیوں میں کھیلتے ہیں کے برابر ہوگیا اور حیران کن طور پر یہ بھی ایک ہی سائز کے تھے۔ ان پتھروں میں سے چند کو نشانی کے طور پر اٹھا لیا گیا کہ یہی آگے ہم سفر ہوں گے تو راہ نمائی بھی کریں گے اور یہ سفرنامہ لکھنے میں مدد بھی۔
یہ چھوٹے چھوٹے پتھر نہ ہوتے تو شاید اس چٹان کے بارے میں لکھ نہ پاتا۔
……………
تیز ہوا تھی جو ہمارے ماتھے سے بال اُڑاتی تھی اور ہماری شرٹوں کے اندر آئے پسینے کو ٹھنڈا کرتی تھی۔ عجیب سا منظر تھا۔ ہم جیسے ایک بیس منزلہ عمارت پر کھڑے تھے اور وہ باقاعدہ لرزتی محسوس ہوتی تھی۔
بلندی تو زیادہ نہیں تھی لیکن ارد گرد میدان تھا اور اس چٹان کی موجودگی بھی غیرمتوقع تھی تو یہ بلندی زیادہ بھی لگ رہی تھی اور کچھ پُراسرار بھی۔ ہوا بھی سرسراتی ہوئی یوں گزرتی جیسے سرگوشیاں کرتی ہو۔ یہ سرگوشیاں ہمیں ماضی کی دھند میں لے جاتی تھیں جہاں یہ مدھم آوازوں میں بدلتی تھیں۔ ایک طرف رام رام اور جے کار کے نعرے سنائی دیتے تھے اور ایک طرف نعرۂ تکبیر کی آوازیں آتی تھیں۔
یہ ’’کالکان دیوی‘‘ کی راج دہانی تھی جس کا ظہور ’’ہنگلاج یاترا‘‘ کے دوران ہوا تھا۔
محمد بن قاسم کی آمد کے بعد یہ علاقہ ’’الور‘‘ کہلایا اور راجاداہر کے خلاف فیصلہ کن جنگ یہیں ہوئی۔
روایت ہے کہ راجا داہر کو پنڈتوں نے خبر دی تھی کہ اگر کالکان دیوی کی آشیرباد مل جائے تو محمد بن قاسم کو شکست دی جاسکتی ہے لیکن کالکان دیوی خود ڈر کے ایک سرنگ کے راستے ’’ہنگلاج‘‘ کی طرف بھاگ گئی اور راجاداہر کی شکست حتمی ہوگئی۔
اگلا پڑاؤ ’’کالکان دیوی‘‘ کا استھان تھا لیکن ابھی ہم ’’نئی پہاڑی‘‘ کے اوپر بنی ایک خانقاہ کو تکتے تھے جسے بطور ’’زیارت‘‘ بنایا گیا تھا۔ یہاں بھی روایتیں تھیں کہ یہ درویشوں کی پسندیدہ جگہ تھی اور وہ یہاں ڈیرا ڈالے رکھتے تھے۔ جگہ کی ہیئت، خاموشی اور پراسرار خاموشی اس کی تائید کرتی تھی۔ خانقاہ تو سبز رنگ کی تھی لیکن ہم پاکستانیوں کی ’’اپنائیت‘‘ کی بدولت سبز رنگ کب کا اُڑ چکا تھا بلکہ اسے کھرچ کھرچ کے شاید بطور نشانی ساتھ لے جایا گیا تھا۔
اندر عامل بابا اور حکیموں کے اشتہار لگے ہوئے تھے۔
ایک دیوار پر ’’طاہر‘‘ بھی لکھا ہوا تھا جس پر میں اپنے دوست کو چھیڑتا تھا کہ ’’ہم سے بھی پہلے ہمارے قصے ان گلیوں تک پہنچے۔‘‘
ہم نے بھی کچھ اپنے ادھورے قِصے وہیں چھوڑے اور خانقاہ میں بنی محرابوں سے پرلی طرف جھانکے جہاں سے منظر کھلتا اور بچھتا چلا جاتا تھا اور دریا کی سابقہ گزرگاہ سے ہوتا ہوا کجھوروں کے جھنڈ تک جاپہنچتا تھا جہاں شنید تھی کہ نہر بہتی ہے اگرچہ نظر نہ آتی تھی لیکن کھجوروں کے درختوں کا منظر اس اونچائی سے بہت بھلا لگتا تھا۔
پہاڑی سے واپس اُترتے ہوئے بھی ہم تو کسی کشمیری ہاتو کی مانند روانی سے اترتے چلے گئے جب کہ میرحسن اپنی احتیاط سے اُترتا تھا اور اپنے بچپن کے قصے سناتا تھا کہ کیسے وہ اس چٹان کے بیچوں بیچ اوپر تک چلا جاتا اور اس کی بھول بلیوں میں بنے غاروں تک جاپہنچتا لیکن ممکن نہیں۔
……………
’’کالکان دیوی‘‘ کا مندر روہڑی کے مشرق کی طرف ’’سادھ بیلہ‘‘ نامی چھوٹے سے پہاڑی سلسلے کی غار میں بنایا گیا ہے۔
اس کے قدیم ہونے کی حتمی مدت ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی۔
سادھ بیلہ کے پہاڑی غار ہندو سادھو، رشی، مہنت لوگوں کی قیام گاہ تھی۔ یہ قیام گاہیں آج بھی قائم ہیں اور ہندو زائرین یہاں سالانہ یاترا کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔
سفید سنگِ مرمر سے بنی مندر کی یہ عمارت کچھ اپنا ہی اثر طاری کرتی ہے۔ سنگِ مرمر کی سیڑھیاں اوپر ٹیلے تک پہنچتی ہیں جہاں مندر کی مرکزی عمارت ہے۔
یہاں زائرین کے لیے اگر بتیوں، دیے اور پوجا پاٹھ کے سامان کا اسٹال لگا تھا۔ ہم چوںکہ ہندو زائر نہ تھے محض سیاح تھے سو مندر کی اندرونی عمارت کی طرف بڑھتے گئے جس کی چوکھٹ پر ہندو عورتیں اپنے روایتی شوخ رنگوں کے چولے پہن کے بیٹھی تھیں اور راجستھانی انداز میں پورے بازوؤں پر سفید چوڑیاں چڑھائے ہوئے تھیں۔
ان کے لباس نے تو متاثر کیا کہ یہ ہماری پہلی راجستھانی خواتین تھیں جو براہ راست سامنے آئیں لیکن کوئی ایسی صورت نہ تھی جس کے ساتھ تصویر بنوانے کی خواہش پیدا ہوتی اگرچہ شوخ رنگ ہر طرف بکھرے نظر آتے تھے۔ چھوٹے سے صاف ستھرے سنگِ مرمر کے چمک دار صحن کے داہنی طرف ایک دروازہ تھا جو کہ ٹیلے کے اندر کھلتا تھا۔ ہم بھی اس کے اندر داخل ہوگئے اور بے دھڑک تو نہ ہوئے بلکہ قدرے جھجھکتے ہوئے داخل ہوئے اور یہ جھجک ازلی طور پر ہمارے خمیر میں شامل کی گئی تھی۔
ہم ہر آہٹ پر چونکتے تھے کہ ابھی ایک آواز آئے گی کہ ہمارے مندر کو بھرشٹ نہ کیا جائے اور باہر نکل جاؤ لیکن ایسا کچھ نہ تھا اور ہم بہت آرام سے گھومتے رہے اگرچہ ہم میں جھجھک بہت تھی۔ اس کمرے میں پرانا سا قالین بچھا تھا جس پر پنڈتوں اور پروہتوں کا کچھ سامان پڑا تھا، تکیے، چادریں، کھیس وغیرہ۔ دیوار پر مختلف بھگوانوں کی فریم شدہ تصاویر ٹنگی تھیں اور ایک عدد پرانا سا ٹیلی فون بھی تھا جس کی مدہم گھنٹی سنائی دیتی تھی۔ اسی کمرے کے بائیں طرف ایک چھوٹا سا بغلی دروازہ تھا جہاں پر سر جھکا کر ہی داخل ہوا جاسکتا تھا۔
ہم ایمان کی روشنی سے منور تو تھے لیکن یہاں جُھکنا ہماری مجبوری تھی سو ہم جُھک گئے۔
……………
زمانہ جیسے سیکڑوں بلکہ ہزاروں سال پیچھے چلا گیا کہ بغلی دروازے سے جُھک کے داخل ہوئے ہیں تو کچھ آگے جاکے سر اونچا کرنا پڑا اور سر اٹھاتے ہی حیرت میں آگئے کہ یہ ایک نئی دنیا تھی۔ ایک سیاہ غار جس میں زیادہ تر سر جھکا کے چلنا پڑتا تھا۔ دروازے سے داخل ہوتے ہی بائیں طرف پانی کے مٹکے رکھے ہوئے تھے جو چکنی مٹی کے تھے ساتھ ان پر پیالے دھرے تھے۔
ہم ہندو زائرین ہوتے تو تبرک سمجھ کر ان پیالوں کا پانی پیتے بلکہ یادگار کے طور پر ساتھ لے جاتے لیکن یہاں ہم اپنے عقیدے کے پکے تھے ڈگمگائے نہیں بلکہ مضبوطی سے قائم رہے اور آگے بڑھتے گئے۔ سیاہ پتھروں کے غار کا فرش سفید سنگِ مرمر سے بنایا گیا تھا جس سے کچھ ڈھارس بندھتی تھی اور ہم آگے کی طرف چل دیے۔
سامنے ہی کالکان دیوی دائیں ہاتھ میں گُرز اٹھائے ہمیں روکنے کی کوشش کررہی تھی اور ناکام اس لیے رہی کہ دیوار گیر شیشے کے باکس میں قید تھی اور شیشہ بہت مضبوط تھا جو اسے باہر نہیں آنے دیتا تھا ورنہ شاید ہم بھی وہیں قید ہوجاتے۔
یہاں پر ایک اور بار جُھکنا پڑا بلکہ اس بار گھٹنے بھی زمین پر لگانے پڑے اور وجہ عقیدت نہیں بلکہ پھر مجبوری تھی کہ اس دیوی کے دائیں پہلو میں نیچے کی طرف ایک راستہ جارہا تھا جس میں جُھک کے بلکہ کچھ رینگ کے داخل ہونا پڑتا تھا۔
اس راستے کے اوپر سیاہ نوکیلے اور چمک دار پتھر تھے جن سے سر بار بار بچانا پڑتا تھا کہ یہ ہم پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے تھے یا صرف ہمارا احساس تھا جو ایسا لگتا تھا اور کیوں نہ لگتا کہ ہم راجاداہر کی راج دہانی میں گُھسے ہوئے تھے۔ اب اُس کا راج تو ختم ہوگیا تھا لیکن باقیات ابھی موجود تھیں جس کا ثبوت میرے دوست ’’سنی داہر‘‘ کا میسنجر پر پیغام تھا کہ تم میرے آباؤاجداد کے علاقے میں گھوم رہے ہو تو میرا پرنام پہنچا دینا اور میں نے پہنچا دیا اور ثبوت کے طور پر ان کی تصویر بھی بھیج دی۔
اگر بتیوں کی تیز دھوئیں دار خوشبو ایک انوکھا تاثر پیدا کررہی تھی اور اس کا سبب ایک ’’دلہن دیوی‘‘ تھی جو کہ تیز روشنی میں شیشے کے باکس میں قید تھی اگرچہ سرخ عروسی جوڑے میں تھی۔ اس کے چرنوں میں کچھ مرجھائے پھول تھے اور ساتھ لوبان میں جلتے دیے تھے جن میں کچھ ادھ جلے بُجھے ہوئے دیے بھی تھے۔ جانے کیسی کیسی ناآسودہ خواہشات تھیں جو اس دیوی سے پورا کروانے کی آس میں زائرین کو یہاں تک لاتی تھی۔
ہم اگرچہ ادھر ہی تھے اور کافی ناآسودہ خواہشات بھی ہم راہ تھیں لیکن بہت سی خواہشات وہاں پہنچنے تک پوری ہوچکی تھیں اور جو رہ گئی تھیں ان کی تکمیل کی آس لیے بغیر منت مانگے وہاں سے ہٹ گئے کہ ہمارا عقیدہ الگ تھا جو ان پر یقین کرنے سے گریزاں تھا۔ حالاں کہ جو خواہش اور دعا منظور ہونی ہوتی ہے وہ پہلے سے لکھی جاچکی ہوتی ہے۔
اس دلہن دیوی کے دیدار سے فارغ ہوکر باہر نکلے ہیں تو ایک کتھئی رنگ کی دھاریوں والی مانو بلی جانے کہاں سے نکل کر ہمارے قدموں میں لوٹ پوٹ ہونے لگی۔ چوںکہ جانور کا کوئی مذہب یا دھرم نہیں ہوتا سو ہم نے اس کا پیار سے سر کھجایا اور اگلے بھگوانوں سے تعارف کرنے کے لیے آگے چل دیئے اگرچہ ہمارا عقیدہ الگ تھا۔
……………
سہ پہر کی دھوپ ماند پڑتی جارہی تھی اور ہم لوہے کے مضبوط پُل کی ریلنگ پر کھڑے نیچے دریائے سندھ کو دیکھتے تھے جہاں مٹیالے پانی کی لہریں سست روی سے بہتی تھیں۔
یہ عجیب ہیئت کا آہنی معلق پُل ہے جو کہ 1887 میں تعمیر کیا گیا۔ یہ ’’لینس ڈاؤن پُل‘‘ تھا جو کہ دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔ اس سے پہلے ہم دوپہر میں ’’کالکان استھان‘‘ مندر جو کہ ’’اُروڑ‘‘ کی غار میں بنایا گیا تھا کی ٹھنڈک بھری روشنی میں گھومتے تھے۔
یہ روشنی جدید دنیا میں ہمیں کھینچ لاتی تھی کہ اسی کی عطا کردہ تھی ورنہ وہاں ’’بھگوانوں‘‘ کا راج تھا جو ہمیں صدیوں پہلے کے قصے کہانیوں میں اُلجھا لیتے تھے ان میں سب سے دل چسپ کہانی ’’کالکان دیوی‘‘ کی تھی جو کہ ایک کم سن جنگجو سے ڈر کر غار میں بنی سُرنگ کے راستے فرار ہوگئی اور ’’ہنگلاج‘‘ میں نمودار ہوئی۔ اگرچہ یہ عبرت ناک شکست تھی لیکن اندھی عقیدت شکست میں بھی مصلحت کا پہلو تلاش کرلیتی ہے۔
یہاں بھی یاتری بطورِخاص اس سرنگ کو دیکھنے آتے تھے کہ ان کے مطابق یہ ان کی دیوی کی گرزگاہ تھی۔
ہمیں بھی اس سرنگ کا خاص طور پہ دیدار کروایا گیا اگرچہ اس کے لیے باقاعدہ جُھکنا اور گُھٹنے ٹیکنے پڑے۔ ایک چند گز لمبی سرنگ پہاڑوں کے اندر جاتی دکھائی دی جو کہ ایک دو موڑ مُڑنے کے بعد نظر سے اوجھل ہوگئی۔ یہاں حد بندی کی گئی تھی اور سرنگ کے اندر جانے کی ممانعت تھی۔ یہاں بھی ہر طرف اگربتیوں کی تیز دھوئیں دار خوشبو ناک میں گُھستی تھی اور ادھ جلے دیے کہ جو زائرین نے جلائے تھے بھی نظر میں آئے جن سے باقاعدہ تیل گرتا تھا۔
ہم نے ایک الوداعی نظر اس غار میں ڈالی اور واپس مُڑ گئے۔
ہم ہندو زائر نہ تھے ورنہ اُلٹے قدموں لوٹتے۔
کتھئی رنگ کی بِلّی بار بار راستے میں آتی تھی اور ہم سے اپنا جسم رگڑ کر اپنائیت کا اظہار کرتی تھی۔ جانے کیا نظر آگیا تھے اُسے ہم لوگوں میں۔
باہر چندے کا بکس اور تبرک کا اسٹال بھی لگا تھا۔ چوں کہ ہم ہندو زائر نہ تھے سو ہم نے چندا ڈالنے اور تبرک خرید کے بانٹنے سے گریز کیا اور سفید سنگِ مرمر کی سیڑھیاں اُتر کر باہر آگئے۔
لینس ڈاؤن پل کی تعمیر برطانوی فرم ویسٹ وُڈ بیلی اینڈ کمپنی نے 1887 میں مکمل کی تھی۔ یہ معلق پل ہے جو درمیان سے رات کو اوپر اٹھا لیا جاتا تھا۔ 1960 کے بعد اسے اٹھانا بند کردیا گیا اور ٹریفک کے لیے ہر وقت کھول دیا گیا۔
1887ء میں اس پل کی تعمیر پر 38،22،000/- روپے خرچہ آیا۔ اس کے ساتھ میں ریل کا معلق سلور گرے پل چمکتا تھا اس چمک کے باعث ہماری تصاویر دھندلی آتی تھیں۔
یہ ایک قباحت تھی کہ قربت کے باعث پل مکمل طور پر نہ دکھتا ویسے بھی حُسن کو مکمل آب و تاب سے دیکھنے کے لیے کچھ مخصوص فاصلے کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ یہ آنکھوں میں نہیں سماتا۔ اس مخصوص فاصلے کے لیے ہم وہاں سے ہٹ گئے اور دریا پار کرکے پرلے کنارے پہ پہنچے جہاں پتہ چلا کہ یہاں ’’سادھو بیلہ‘‘ نامی مندر بھی ہے جو کہ دریا کے بیچوں بیچ ایک جزیرے پہ بنا ہے جہاں کشتی لے جاسکتی ہے۔ مندر کا نام سن کر میں تو فوری ورغلایا گیا لیکن طاہر کا دل کالکان دیوی اور دیگر دیوتاؤں سے اُوبھ چکا تھا۔ سو اس نے بغاوت کردی جو اس لیے کام یاب ٹھہری کے مندر ہی بند تھا، سو ہم اس کے پڑوس میں ’’سات سہیلیوں کی قبریں‘‘ پر چلے گئے۔
روایت کے مطابق 9 صدیاں قبل یہاں سات سہیلیاں تھیں جن کی باہمی محبت اتنی زیادہ تھی کہ موت بھی ایک ساتھ ہی آئی اور ان کی قبریں بھی ساتھ ساتھ بنیں۔
دریائے سندھ کے کنارے کئی سو فٹ بلند ٹیلے پر جہاں سے دریا بہت نیچے یوں دکھائی دیتا ہے کہ ذرا سا جھانکے نہیں اور دھڑام سے دریا میں جاگرے۔ ہم نے احتیاط کی لیکن جھانکنا بھی ضروری تھا۔ ویسے بھی سندھ ساگر سے اپنا پرانا رشتہ ہے جو کبھی گلگت کے راستے چلاس کے قریب ہوئی لینڈ سلائیڈ سے جُڑ جاتا ہے کہ میں تب بھی اس کے کنارے پر بیٹھا اس سے باتیں کرتا تھا اور کبھی یہ تعلق کوہاٹ کے قریب ’’خوشحال گڑھ‘‘ کی پہاڑیوں تک جاپہنچتا ہے جہاں یہ بل کھاتا تنگ کناروں میں بہتا ہے۔
جہاں میں مکمل خاموشی اور تنہائی میں اس کی مدھم روانی کو دیکھتا تھا اور کبھی یہ تعلق ’’غازی گھاٹ‘‘ تک لے جاتا ہے جس کے کنارے ’’انڈس کوئین‘‘ کا ڈھانچا آج بھی موجود ہے، اگرچہ معدوم ہونے کے قریب ہے اور اب یہاں سکھر میں اس کے جنوبی کنارے جہاں کشتیاں کھڑی تھیں اور انہی کشتیوں کی قربت میں شام کا اندھیرا گہرا ہوگیا تھا۔ تو اس ٹیلے پر کھڑے ہوکے میں اس سے ہم کلام ہوتا تھا اور اپنے رشتے کو تازہ کرتا تھا۔ یہاں سے ’’لینس ڈاؤن پُل‘‘ کا سب سے شان دار منظر نظر آتا ہے۔
دسمبر کی شام کافی سرد ہوتی جارہی تھی اور ہمیں حیدرآباد جانیکے لیے ٹرین بھی پکڑنی تھی سو اب وقت کم تھا۔ سورج کی آخری کرنیں ان سات سہیلیوں کی قبروں کو زرد کرتی تھیں اور یہ پیلاہٹ ہمارے چہروں پر بھی پڑتی تھی۔ تب میں نے ان قبروں پر دعا کرتے ہوئے رب سے یہ دعا کی بھلے دوستی کی یہ داستان امر ہوگئی ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ میری قبر میرے دوستوں سے پہلے بنے اور وہ اس پر آکے فاتحہ پڑھیں۔
کہتے ہیں کہ آوارہ گردوں کی ایسی دعائیں رد نہیں ہوتیں اور میری بھی دعا ہے یہ رد نہ ہو۔
The post اروڑ، روہڑی، لینس ڈاؤن پُل appeared first on ایکسپریس اردو.