کراچی: گزشتہ دنوں واٹس ایپ حلقے ’بزم ِ زباں فہمی‘ میں ایک طے شدہ مسئلے کی بابت نئے سِرے سے بحث چھِڑ گئی تو خاکسار نے اپنی معروضات پیش کردیں، مگر اس موضوع کی اہمیت کے پیش ِ نظر، ضروری سمجھا کہ یہاں اپنے قارئین کرام کو بھی شامل تحقیق کیاجائے۔
استفسار کیا گیا کہ آیا اَتائی درست ہے یا عَطائی؟ وہاں کیا ہوا، اسے فی الحال چھوڑیں، ابھی ہم لغات اور فضلاء کے کالموں سے استفادہ کرتے ہیں۔ فرہنگ ِآصفیہ میں اَتائی نہیں، بلکہ عطائی ہے۔
مؤلف مولوی سید احمد دہلوی صاحب نے فرمایا کہ” یہ اِسم ِ مذکر، اردو ہی کا ہے یعنی بے اُستادا ; وہ شخص جس نے کسی اُستا د کے بغیر اَپنے شوق سے کوئی کام حاصل کیا ہو جیسے عطائی نان خطائی، جب دل میں آئی توڑ کھائی“۔
یہ کہاوت اس منفرد لغت کے سِوا کہیں اور دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس تفصیل سے قطع نظر، فرہنگ آصفیہ کے مقابل اور قدرے ہم پلّہ لغت، نوراللّغات میں اَتائی کو ہندی الاصل لفظ قراردیتے ہوئے یہ مطالب درج کیے گئے ہیں: جس نے کسی غیر پیشے والے کا ہنر شوقیہ سیکھا ہواور وہ اُس کا پیشہ آبائی نہ ہو; جس نے کوئی ہنر یا فن باقاعدہ نہ سیکھا ہو جیسے ’کہنے کو تو وہ اَتائی ہے، مگر اَچھے اَچھے درزیوں کے کا ن کاٹتا ہے‘۔
آگے چلتے ہیں تویہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ مولوی سید تصدق حسین رضوی کی مرتبہ ’لغاتِ کِشوری‘ (مطبوعہ منشی نَوَل کِشور) اور اُس کے ضمیمے (مرتبہ عبدالمؤمن فاروقی) میں سِرے سے عطائی اور اَتائی دونوں ہی نظراَنداز ہوگئے؛ کمال ہوگیا صاحبو! ایسی علمی وتحقیقی لغت میں یہ اہم لفظ شامل نہیں!
ہمارے دو بزرگ معاصرین ’اَتائی یا عطائی‘ کے موضوع پر خامہ آرائی کرچکے ہیں۔
ان دونوں حضرات سے بھی مدتوں پہلے بچوں کے ماہنامہ ’نونہال‘ کے بانی حکیم محمد سعید شہید نے اس بارے میں آواز اُٹھائی تھی۔ پہلے ذکر کرتا ہوں اپنے مشفق کرم فرما سید اَطہرعلی ہاشمی مرحوم کا جنھوں نے آج سے تقریباً ساڑھے آٹھ سال پہلے اس بابت لکھتے ہوئے فرمایا تھا کہ ”کچھ الفاظ ایسے ہیں جو عام لوگوں کی زبان پر غلط چڑھ گئے ہیں لیکن یہ غلط العام نہیں ہوئے۔ غلط اُلعام فصیح کہلاتا ہے۔ انہی میں ایک لفظ ’اَتائی‘بھی ہے اور یہی صحیح ہے۔
جانے یہ کیسے ’عطائی‘ہوگیا، جب کہ ’اتائی‘ ہندی زبان کا لفظ ہے اور اس میں عربی کے ’ع‘ اور ’ط‘ کا کوئی گزر نہیں“۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، ہاشمی مرحوم نے یہ بھی ارشاد کیا کہ ”اگر یہ عطا سے ہے تو کس کی عطا؟ عطا کا مطلب تو معلوم ہی ہے کہ بخشش، فیض، سخاوت، کوئی چیز کسی کو دینا۔ عربی میں عطائی بھی ہے یعنی جس نے کوئی فن باقاعدگی سے حاصل نہ کیا ہو بلکہ ویسے ہی کوئی بات جانتا ہے۔
زیادہ پرانی بات نہیں جب طبیب و حکیم حضرات کسی ماہرِ فن کے پاس بیٹھ کر یہ علم حاصل کرتے تھے، اور آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ یہ طبیہ کالج وغیرہ تو بہت بعد کی بات ہے۔ اب جسے کوئی علم عطا ہوگیا ہو اُسے عطائی تو کہا جا سکتا ہے، اناڑی نہیں۔ خاص طور پر ایلوپیتھی کے معا لجین تو گھر بیٹھے ڈاکٹر نہیں بن سکتے، لیکن یہ بھی گلی گلی مل جائیں گے“ (بہ سلسلہ ’خبرلیجئے زباں بگڑی‘: مؤرخہ 03اکتوبر2015ء بروزہفتہ)۔
(اپنے تجربے،مشاہدے اور شُنید کے مطابق،ضمناً عرض کرنے کی جسارت کرتاہوں کہ اکثر جعلی معالجین،ہومیوپیتھک ڈاکٹر یاحکیم نہیں،بلکہ ایلوپیتھک ڈاکٹر ہوتے ہیں،حالانکہ اُنہی حضرات کا دعویٰ اس کے برعکس دیگرکے خلاف، اس قدر زورشور سے سننے پڑھنے میں آتا ہے کہ ایک عام آدمی معمولی سردردسے لے کر عارضہ قلب اور ہیپاٹائٹس،ایڈز سے لے کر سرطان تک، ہرمرض کی فوری دوا کے لیے چھوٹے بڑے ایلوپیتھک معالج سے رجوع کرتا ہے، علاج کے لیے اپنا ’پیٹ کاٹ کر‘ یا کہیں سے بھی اُدھار مانگ کر یا خیرات لے کر رَقم جمع کرتا ہے اور بقول خاکسار کسی ڈاکٹر یا اَسپتال کی خدمت کرتا ہے۔حیدرآباد،سندھ کا سب سے مشہور ڈاکٹر درحقیقت ایک کمپونڈر تھا، جس کی وفات بہت سال پہلے ہوئی اور یہ بات پورا شہر جانتا تھا۔معاف کیجئے گا ہمارے یہاں تو معالجین کی مہارت کا یہ عالَم ہے کہ پینتیس چالیس سال کی ’مشق ِ ستم‘ کے باوجود، کوئی نام نہاد اور مشہور Specialistمریض کو یہ بتانے سے قاصر ہوتا ہے کہ فُلاں شکایت یا مرض کی وجہ کیا ہے اور پھر تشخیص تو عموماً کئی ہزارروپے کے مختلف Testsکروانے کے بعد ہوتی ہے۔یا۔ اُس کے بھی بعد، مریض پرکئی قسم کی اَدویہ کے تجربات کے بعد، حتیٰ کہ اُس کے مَرجانے کے بعد ہوتی ہے یا کبھی نہیں بھی ہوتی۔یہ ساری باتیں جملہ معترضہ کے زُمرے میں آتی ہیں، مگر سچ یہی ہے۔اصل نکتہ یہ ہے کہ حضور! اپنی کتابی معلومات اور دَوا ساز اِداروں کے نمایندوں کی بتائی ہوئی بلکہ پڑھائی ہوئی پَٹّیوں کے علاوہ خود بھی کچھ تحقیق فرمالیاکریں، اپنی معلومات کا دائرہ وسیع کریں تو علاج معالجہ بھی جدید دورکے تقاضوں کے مطابق ہوگاورنہ ’آزمائش و خطا‘ [Trial and error]کا سلسلہ تاعمر چلتا رہے گا: س ا ص)۔
ہم جیسے سرپھِرے خواہ کتنے ہی کالم، مضامین اور پیغامات (آنلائن) تحریر کریں، کتنی ہی تحقیق کرکے کچھ عرض کریں ہمارے ذرائع ابلاغ اپنی سی چال چلتے رہتے ہیں اور نسلِ نو بھی اُن کی ہر صحیح غلط پر آنکھ بند کر کے عمل کرتی ہے۔ ابھی اس لفظ کی بابت بات ہورہی ہے کہ لگے ہاتھوں عرض کروں کہ سید اطہرعلی ہاشمی مرحوم نے اُسی کالم میں یہ بھی لکھا تھاکہ ”بعض لوگ عطائی کی جگہ اتائی لکھنے کو غلط سمجھنے لگے ہیں۔ گزشتہ دنوں ٹی وی چینل ’اب تک‘ پر خبر تھی کہ ایک اتائی ڈاکٹر آپریشن کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ اتائی کا صحیح املا دیکھ کر خوشی ہوئی جس پر ’اب تک‘ کا عملہ تحسین کا مستحق ہے۔ کسی اناڑی یا خودساختہ ڈاکٹر کے لیے عطائی کا لفظ ویسے بھی بے معنی ہے۔ بہرحال وہ جعلی ڈاکٹر جو آپریشن کرتے ہوئے پکڑا گیا وہ ”اتائی“ تھا۔ اسی کو نیم حکیم بھی کہا جا سکتا ہے جس کے بارے میں مثل مشہور ہے: ’نیم حکیم خطرۂ جان‘۔
ابھی اس بارے میں عرض کرنا باقی ہے کہ خاکسار کی رائے کیا ہے، پہلے اپنے دوسرے بزرگ فاضل ڈاکٹررؤف پاریکھ صاحب کے اسی موضوع پر کالم سے خوشہ چینی کرتا ہوں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ”علمی اردو لغت (مرتبہ وارث سرہندی) کے مطابق اَتائی کے معنی ہیں جو شخص کسی فن یا ہنر کو باقاعدہ حاصل نہ کرے اور سرسری مطالعے یا معمولی تجربے کی بنا ء پر اِس میں دخل دے۔ معنی تو درست ہیں لیکن علمی اردو لغت نے(علمی اردو لغت کے مؤلف: س ا ص) معنی لکھتے ہوئے اس کا ایک مترادف ”عطائی“بھی لکھا ہے۔ لیکن یہ املا صحیح نہیں ہے۔ درست لفظ اَتائی ہے“۔
موصوف نے یہ بھی فرمایا کہ ”بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ’عطائی‘ کا لفظ ’عطا‘ سے بنا ہے اوراُن کے خیال میں اِس کے معنیٰ ہیں، وہ شخص جس کو قدرت کی طرف سے کوئی علم یا فن یا مہارت ’عطا‘ہوگئی ہو اور اسے اس کے اکتساب میں محنت نہ کرنی پڑی ہویااُستاد سے کچھ سیکھنا نہ پڑا ہو۔ اسی لیے عطائی کا لفظ’بے اُستادا، غیر تربیت یافتہ، اناڑی‘کے معنوں میں بھی رائج ہے۔ اس لفظ کو اسی لیے نیِم حکیم کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے“۔
ڈاکٹررؤف پاریکھ صاحب نے جب لغات کھنگالنے کا عمل شروع کیا تو اُن پر منکشف ہواکہ ”معروف انگریز لغت نویس جان ٹی پلیٹس (John T. Platts) نے اپنی اردو، ہندی اور انگریزی کی لغت میں لفظ ”اتائی“ کو الف ہی سے لکھا ہے۔ اتائی کی اصل بتاتے ہوئے پلیٹس نے سنسکرت کے دو لفظ لکھے ہیں: آتم اور ادھیِت۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (دہلی) کی شائع کردہ ہندی اردو لغت (مرتبہ نصیر احمد خان)کے مطابق آتم کے معنی ہیں خود کا یا اپنا جبکہ ادھیت کے معنی ہیں پڑھنا، مطالعہ کرنا، حاصل کرنا، سیکھنا۔ گویا”اتائی“کا لفظ سنسکرت کے جن دو الفاظ سے مل کر بنا ہے اس کے معنی ہیں خود پڑھنا یا خود سیکھنا۔
اس طرح اتائی وہ شخص ہے جو خود ہی کوئی فن سیکھ لے۔ پھر پلیٹس نے اتائی کے معنی بتائے ہیں جو یہ ہیں:کوئی ساز بجانے والایا ناچنے گانے والا جو معاوضہ نہ لے۔ اس کے بعد وہ لکھتا ہے کہ مغربی ہندستان میں اس لفظ کے معنی ہیں وہ گویّا یا موسیقار جس نے خود کو سکھایا ہو۔ اسی لیے اتائی کا لفظ بے استادا یا غیر تربیت یافتہ نیز نیم حکیم اور اناڑی کے مفہوم میں بھی مستعمل ہے۔
گویا اتائی کے معنی ہیں خود آموزموسیقار یا گویّا جس نے باقاعدہ اس فن کی تربیت حاصل نہ کی ہو۔اس کے بعد یہ لفظ دیگر معنوں میں بھی آگیا۔ البتہ اس کا ”عطا“ سے کوئی تعلق نہیں اور اس ضمن میں اردو لغت بورڈ کی لغت کے مدیران نے اتائی کا اشتقاق لکھتے ہوئے قیاساً لکھ دیا ہے کہ عربی لفظ ”عطا“ سے اردو میں بنایا گیا ہے۔
مذکورہ بالا حوالہ جات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بورڈ کا قیاس درست نہیں ہے۔ اتائی کی اصل عربی کا کوئی لفظ نہیں ہے۔ اسی لیے اس کے املا میں ”ع“ اور ”ط“ لکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بورڈ نے بھی درست املا یعنی اتائی ہی لکھا ہے اور یہ الف کے الفاظ کی تقطیع میں شامل ہے لیکن اس کے اشتقاق کے اندراج کے وقت مدیران ِ لغت کوالتباس ہوا ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ بورڈ نے حرفِ عین (ع) کی تقطیع والی جلد میں ”عطائی“درج کرنے کے بعد اشتقاق میں لکھا ہے ”اتائی کا ایک املا“۔ گویا عین والی جلد کی اشاعت کے وقت بورڈ کا نقطہئ نظر تبدیل ہوگیا تھا(غالباً اس لیے کہ مدیر ِ اعلیٰ بھی تبدیل ہوگئے تھے)“ : اتائی یا عطائی؟ الفاظ اور محاوروں کا درست استعمال- پانچویں قسط، مؤرخہ 18 جولائی، 2018ء۔راقم سہیل احمدصدیقی کامشاہدہ: بورڈ کی مختصر اُردو لغت (ج ۱) میں بھی ’عطائی‘ کا متبادل املاء موجودہے۔
ریختہ ڈکشنری (آنلائن)کے اندراج کے مطابق اَتائی کی اصل عربی ہے،حالانکہ عربی میں اَتائی اور عطائی دونوں ہی موجود نہیں۔اس لغت کے مرتبین نے اتائی کو مذکر اِسم ہی شمار کیا اور تعریف میں لکھا:”جو کسی پیشے کو باقاعدہ حاصل کئے بغیر اس میں دخل دے، بے استادا(بیشتر طبیب یا موسیقار کے لیے مستعمل)۔وِکی لغت (وِکی پیڈیا) نے لفظ اتائی کے باب میں یوں بیان کیا: ہندی۔ اسم۔ مذکر:
1۔ عطائی
2۔ جو شخص کسی فن یا ہنر کا باقاعدہ حاصل نہ کرے اور سرسری مطالعہ یا معمولی تجربہ کی بنا پر اس میں دخل دے۔ ناواقف فن۔ بے استادا۔ اَناڑی
3۔ علاج معالجہ میں تھوڑا سا دخل رکھنے والا نیم حکیم
ایک اور آنلائن لغت اُردوآئی این سی کے اندراج کے مطابق،اتائی:”ایسا ہنروَر جس کا آبائی پیشہ نہ ہو،بے اُستاد،بے اُستادا(بیشتر طبیب یا موسیقار کے لیے مستعمل)،جِس نے کوئی ہنر یا فن باقاعدہ نہ سیکھا ہو،جو کسی پیشے کو باقاعدہ حاصل کیے بغیر اس میں دخل دے،غیر پیشہ، غیر ماہر، نیم حکیم“ جبکہ اسی لغت میں مزید وضاحت یوں کی گئی ہے: ”مترادفات:اَناڑی،جعلی،عطائی،ناواقف“۔ایک تیسری آنلائن لغت میں اچھا کام یہ کیا گیا کہ لفظ اَتائی کے مفاہیم انگریزی میں بھی بیا ن کردیے گئے جن کی جدیددور میں بہت ضرورت پڑتی ہے۔وہ مطالب یوں ہیں: انگریزی معنی:quack,Inexpert,unskillful۔۔ اتائی۔ عطائی۔ ڈاکٹر۔ حکیم۔Quack salver۔۔۔ اتائی:نو آموز،ابجد خواں،طفل مکتب،کسی بھی علم میں نو آموز
جبکہ ایک چوتھی آنلائن لغت کہتی ہے کہ:
Synonyms For Abecedarian, Similar to Abecedarian
Amateur,Dabbler,Fledgling,Learner,Neophyte,Novice,Tenderfoot
اس ساری نقل کے بعد لازم ہے کہ ہم بابائے اردو مولوی عبدالحق کی مرتبہ ’اردو اِنگلش ڈکشنری‘ (مطبوعہ انجمن ترقی اردو)کا حوالہ بھی لائیں جس میں اس لفظ کو ہندی الاصل قراردیتے ہوئے اس کے انگریزی میں معانی یوں درج کیے گئے ہیں:
An amature; an artist, who has had no formal training; a self-taught artist.
لفظ ’عطائی‘ ہے یا ’اَتائی‘، اس بابت سیر حاصل گفتگو ہوچکی، بندہ فقط یہ کہنے کی جسارت کرتا ہے کہ بعض اوقات کسی لفظ کے مآخذ اور اس کے مادّہ اشتقاق نیز استعمال کی پوری کتھا دیکھتے ہوئے یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ آیا منطقی اعتبار سے کوئی اور پہلو بھی ممکن ہے؟ میری رائے میں اس حقیقت کے برعکس کہ عربی میں عطاء سے عطائی نہیں اور یہ تصور بھی غلط ہے، کیا یہ ممکن نہیں کہ عوام النّاس، خصوصاً اَن پڑھ طبقے میں یہ لفظ ہندی کی بجائے عربی کے تناظر میں گھڑا گیا ہو، دریں حالیکہ ہندی میں لفظ موجود تھا؟ مزید یہ کہ مجھے لگتا ہے کہ کوئی نِیم حکیم ہرگز اپنے آپ کو ’اَناڑی‘ کہہ کر متعارف کروانا پسندنہیں کرے گا، جبکہ ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو کسی کے اپنی سند معلوم کرنے پر جواب میں کہتے ہیں کہ بس جی ہم تو عطائی ہیں، فُلاں بزرگ نے ہمیں یہ علم بخشا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ تمام لغوی معانی اپنی جگہ، مگر کم ازکم حکمت میں یہ ممکن ہے کہ اَتائی، خود کو عطائی کہتا اور سمجھتا ہو۔
The post زباں فہمی نمبر 203؛ اَتائی یا عطائی ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.