(ترکی کا سفرنامہ ۔۔۔ چوتھا پڑائو)
یہ احساس ہم کو اتاترک ایئرپورٹ پر اترتے ہی ہوگیا تھا کہ اس سے اکیلا کوئی شخص ہو ہی نہیں سکتا، وہ جہاں رہ رہا ہو وہاں کوئی دوسری زبان بولی جارہی ہو اور وہ اس بولی کو نہ سمجھ سکتا ہے، نہ بات کرسکتا ہو، نہ اپنے احساسات سمجھا سکتا ہے۔
ترک قوم ترکش زبان کے علاوہ کوئی دوسری زبان نہیں جانتی۔ ہم نے سنا تھا کہ ترکیہ جانے والے سیاح کا ایک اہم مسئلہ زبان بھی ہے۔ خلافت کے زمانے میں ترکی کا رسم الخط عربی تھا۔ 1928ء میں جب ترکی جمہوریہ بنا تو راتوں رات رسم الخط عربی سے رومن کردیا گیا۔ اب ترکش قوم کے پاس اپنا کوئی رسم الخط موجود نہیں ہے۔
جن لوگوں کو اس مسئلے کی بنیاد کا معلوم نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں ترکی کے لوگ اپنی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں بات کرنا پسند نہیں کرتے مگر میرا مشاہدہ یہ تھا کہ کیوں کہ ترکی میں ایک بڑا طبقہ ورکنگ کلاس کا ہے جس کے پاس تعلیم ان کے روزگار کی حد تک موجود ہے، جو بنیادی تعلیم ترکی زبان میں دی جاتی ہے وہ اس کے لیے کافی ہوتی ہے، اس لیے وہ کسی دوسری زبان کے سیکھنے کا تردد بھی نہیں کرتے، مگر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ انگریزی جانتے بھی ہیں اور بولتے بھی ہیں۔ ہمیں وہاں ایسے بھی لوگ ملے جو اردو بہت روانی سے بولتے ہیں۔ یہ قصہ آگے آئے گا۔ ابھی تو ہم اپنے چوتھے پڑاؤ کا آغاز کرتے ہیں۔
آج اتوار تھا۔ میری تو حسب عادت سویرے آنکھ کھل گئی اور عزیز حسب عادت دیر تک سوتا رہا۔ میں نے گیلری سے استنبول کی صبح کا نظارہ کیا۔ استنبول میں ابھی زندگی پوری طرح بیدار نہیں ہوئی تھی۔ جس جگہ Historia Hotl تھا وہاں سے دائیں جانب ایک سڑک اونچائی سے اترتی ہوئی باسفورس کی جانب جارہی تھی۔
باسفورس میں چھوٹی بڑی کشتیاں رواں تھیں اور کنارے لگے بلب ابھی تک روشن تھے۔ کشتیوں نے بھی اپنی روشنیاں گل نہیں کی تھیں۔ باسفورس میں اتنی کشتیاں چلتیں ہیں اور اتنی ہی کناروں میں کھڑی نظر آتیں ہیں جتنے ہمارے شہر کراچی میں موٹر سائیکلیں یا رکشے اور چنگچی رکشے۔
صبح خیز لوگوں کے لیے یہ ایک خوب صورت نظارہ ہوگا۔ میرے ہوٹل کی گیلری کے بالکل سامنے ایک اور ذرا پتلی سی گلی تھی، پتھریلی سیاہ سڑک بھی اونچائی سے نیچے کی طرف جارہی تھی، جہاں فٹ پاتھ اور سڑک کے کنارے کرسیاں اور میزیں لگائی جارہی تھیں اور کچھ لوگ ٹوپیاں پہنے آکر ان کرسیوں پر بیٹھ رہے تھے۔
میں نے سڑک کے آخری سرے پر دیکھا وہاں ایک مسجد کا پچھلا دروازہ تھا۔ بعض لوگ فجر کی نماز سے فارغ ہوکر ادھر آکر بیٹھ گئے تھے۔ فضا میں ہلکی سی خنکی محسوس ہورہی تھی تو میں اندر آگئی۔ مجھے خاصی بھوک لگ رہی تھی کیوںکہ ہوٹل والے نے کہا تھا کہ ناشتہ صبح آٹھ بجے سے دس بجے کے درمیان ملے گا۔
میں چادر لے کر پھر گیلری میں آکر کھڑی ہوگئی۔ سامنے والا ہوٹل اب مکمل آباد ہوگیا تھا۔ ہوٹل کے بالکل سامنے ایک گروسری اسٹور تھا۔ اسٹور کا مالک باہر کی جگہ پر سبزیاں اور پھل سجارہا تھا۔ کئی ایک سپلائی کی وین بھی آکر روکیں اور گاہک بھی آنا شروع ہوگئے۔ صرف ہوٹل اور گروسری کی دکانیں کھلی تھیں، اتوار کی وجہ سے دیگر سب دکانیں بند تھیں۔
مجھے ایسا لگا جیسے میں اولڈ کراچی کو کسی کھڑکی سے دیکھ رہی ہوں مگر فرق صرف یہ تھا کہ یہ علاقہ بہت صاف ستھرا تھا۔ ہمارے اولڈ کراچی کی گلیوں میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں، سڑکیں ٹوٹی تباہ حال اور گٹر کا پانی جگہ جگہ سے ابل کر ہمارا راستہ روک دیتا تھا۔ ہم تو فاتح کے غریب علاقے سے اس طرف آئے تھے۔ وہاں بھی گندگی اور کچرا نظر نہیں آیا تھا۔ خیر ہمارا مقصد موازنہ کرنا نہیں ہے مگر دل اپنے شہر کی حالت دیکھ کر بہت دکھتا ہے۔ خیر یہ ایک خوب صورت نظارہ تھا مگر جب بھوک لگی ہو تو ہر نظارہ بے کار لگتا ہے۔
بقول شاعر: ’’بھوک تہذیب کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی‘‘
عبدالعزیز کو سوتے میں سے اٹھانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے مگر یہ کیا کہ عزیز ساڑھے آٹھ بجے ہی چادر پھینک کر اٹھا اور مجھے تیار دیکھ کر کہا،’’اماں ہال میں چلی جائیں اور میرے لیے ناشتے کی پلیٹ اور چائے تیار کرکے رکھ لیجیے گا۔ میں بس دس منٹ میں آتا ہوں۔‘‘ وہ تو باتھ روم کی جانب سدھارے اور میں ہال میں آگئی۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا سب ہی غیرملکی گورے تھے۔ ناشتہ ایک خاتون بنارہی تھیں۔ ابلے انڈے، چیز، مکھن، جام، شہد، چائے اور گوشت کے قتلے، سلاد، کھیرے ، ٹماٹر اور ترکش بریڈ انہوں نے بڑی پروفیشنل سی مسکراہٹ اچھالی اور ترکش زبان میں Well Come کہا۔
میں نے پلیٹ بناتے وقت گوشت کے قتلے اٹھانے سے پہلے پوچھا حلال، ایسا لگا جیسے کسی نے ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ وہ تو ابھی تک صرف مسکراہٹ سے کام چلارہی تھیں۔ حلال، اﷲ، حلال پھر جو انہوں نے ترکش زبان میں اس کی ترکیب بتائی۔ ہر جملے کے بعد وہ گوشت کا ایک ٹکڑا میری پلیٹ میں ڈال دیتیں پھر اشاروں کے ساتھ بتاتی جاتیں کہ ایسے کھاؤ صحت کے لیے بہت بہترین ہوتا ہے۔ ادھر میری اردو بھی اسی روانی سے جاری تھی اور مزے کی بات یہ تھی کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی بات بہ خوبی سمجھ رہے تھے۔
اس پر کمال مہربانی انہوں نے میری چائے کا کپ لاکر میری میز پر رکھ دیا اور واپس جاکر پانی کا گلاس بھی خود ہی لاکر رکھ دیا۔ میں نے بیٹے کے منہ سے تشکرم سنا تھا شکریے کے لیے استعمال ہوتا ہے، میں نے ان کا شکریہ ادا کیا تو وہ اور بھی مہربان ہوگئیں اور اپنے کاؤنٹر سے بار بار چائے کے متعلق پوچھ رہیں تھیں کہ کیسی بنی ہے؟
اسی تشکرم اور شکریے کے درمیان ہم نے تین کپ چائے چڑھائی۔ چائے اتنی مزے دار بنی تھی کہ ایک کپ کی گنجائش اور نکل رہی تھی۔ عبدالعزیز نے پہلی بار کالی ترکش چائے دیکھ کر منہ بنایا تھا کیوں کہ دودھ پتی پینے والوں کے لیے کالی چائے قابل قبول نہیں تھی، مگر ایک گھونٹ چائے کا لے کر وہ بھی اس چائے کے سحر میں گرفتار ہوگیا تھا۔ پھر پورے ٹرپ کے دوران ہم نے ہر ایک گھنٹے بعد کسی نہ کسی چائے خانے پر بیٹھ کر چائے پی۔
سب سے پہلا مرحلہ تو یہ تھا کہ استنبول کارڈ کیسے حاصل کیا جائے۔ ہوٹل میں یا آس پاس تو کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں سے ہم استنبول کارڈ حاصل کرتے۔ عزیز نے ہوٹل میں ہی کئی ایک APP ڈاؤن لوڈ کرلیں تھیں۔ سامنے ہی جوس کارنر تھا جہاں انار، موسمی کا جوس مل رہا تھا اور ساتھ تربوز بھی کٹے ہوئے ایک
ڈسپوزل ڈش میں موجود تھے، قیمت صرف پانچ لیرا تھی۔ جو صاحب دکان چلارہے تھے وہ کافی عمررسیدہ ہونے کے باوجود چاق و چوبند تھے۔ وہ گلوز اور ٹوپی پہنے تھے اور ایپرن باندھا ہوا تھا۔ ہم نے ایک گلاس انار کا جوس لے لیا لیکن سمندر کی سمت جانے کی بجائے وہ راستہ لیا جو مسجد کی سمت جاتا تھا، کیوںٕکہ صبح جب میں نے لوگوں کو آتے جاتے دیکھا تو یہی سمجھی تھی کہ یہ مشہور فاتح مسجد ہے ترکش زبان میں مسجد کو CAMI کہتے ہیں۔
لوگ ابھی بھی چائے خانے میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ کچھ لوگ تاش اور لوڈو بھی کھیل رہے تھے۔ ایک ٹیبل پر شطرنج بھی رکھی تھی مگر زیادہ تر میزوں پر لوگ لوڈو جیسا کوئی اور کھیل کھیل رہے تھے۔ یہ راستہ بھی اترائی کی طرف جارہا تھا۔ ہم گلی کے اختتام پر پہنچے جہاں مسجد کا پچھلا دروازہ تھا، لیکن یہ کوئی چھوٹی سی مسجد نہ تھی سامنے ایک شان دار مسجد تھی، جس کے احاطے میں کئی قسم کے پھل دار درخت لگے تھے اور مسجد کا دروازہ مکمل کھلا ہوا تھا۔
اوپر جانے والی پتھریلی سیڑھیوں پر لوگ بیٹھے تھے، جن میں نوجوان لڑکے لڑکیاں زیادہ تھے کچھ کے ہاتھوں میں سگریٹ بھی تھے۔ درختوں کی وجہ سے تھوڑی خنکی بھی تھی۔ ہم نے سامنے ایک بورڈ لگا دیکھا تو پڑھنے کی کوشش کی لیکن وہی مسئلہ کہ ’’من ترکی نمی دانم۔‘‘ عبدالعزیز نے اس کی تصویر اتار لی اسی وقت ایک صاحب ہمارے پاس آکھڑے ہوئے۔ سرخ و سپید رنگ، چاق وچوبند عمر پچھتر سال سے زیادہ ہوگی۔ خوشی ان کے چہرے سے پھوٹی پڑرہی تھی۔ انہوں نے جو کچھ کہا اس سے ہم نے سمجھ لیا کہ وہ کہہ رہے ہیں تم لوگ یہاں رکو میں ابھی آتا ہوں۔
وہ جس تیزی سے گئے تھے اسی تیزی سے واپس آگئے۔ اس دوران ہم نے جائزہ لیا پچھلی طرف واش روم بنے ہوئے تھے اور ایک دفتر نما کمرا تھا، جس پر سبز رنگ کیا ہوا تھا۔ وہ صاحب وہیں گئے تھے۔ مسجد کے صحن میں وضوخانہ تھا جہاں دو تین لوگ وضو کررہے تھے۔
جب وہ صاحب دفتر سے نکل کر ہمارے پاس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک بڑی سی چابی تھی جس سے انہوں نے مسجد کا دروازہ کھول کر ہم سے کہا کہ اندر جاؤ اور دعا کرو۔ اس شخص کے چہرے پر ایسا نور تھا کہ ایک نظر کے بعد دوسری نظر ڈالنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی۔ وہ ہمارے ساتھ ساتھ تھے اور چاہتے تھے کہ ہم مسجد کے متعلق سب کچھ جان لیں۔ عبدالعزیز نے گوگل سے اس تحریر کا ترجمہ کیا تو معلوم ہوا کہ:
یہ خلافت عثمانیہ کے فرماںروا سلطان کی بنائی ہوئی ہے اور وہ خود اس مسجد میں نماز ادا کیا کرتے تھے۔ وہ صاحب بار بار ہم سے کہہ رہے تھے کہ نماز ادا کرو دعا کرو ایک طرف خواتین کا حصّہ بنا ہوا تھا۔ میں نے وہاں دو رکعت نماز ادا کی اور عبدالعزیز نے مردانے حصے میں نماز ادا کی۔
جب ہم نماز سے فارغ ہوئے اور باہر آنے لگے تو ان صاحب کے ساتھ ایک ان کے ہم عمرصاحب اور موجود تھے۔ انہوں نے انگریزی میں ہمیں بتایا کہ یہ چابی ان صاحب کے دادا پردادا کو شہزادہ ولید سلطان نے اپنے ہاتھوں سے عطا کی تھی اور ان کی نسلوں کو اس مسجد کے لیے مامور کیا تھا اور جمہوریہ ترکیہ نے یہ اعزاز ان کے پاس رہنے دیا ہے۔ یہ بہت خوش ہوتے ہیں جب کوئی مسلمان سیاح آکر اس مسجد میں نماز ادا کرتا ہے۔
ہم نے انہیں بتایا کہ ہم پاکستانی ہیں تو وہ کہنے لگے میں آپ لوگوں کو دیکھتے ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ لوگ مسلمان اور پاکستانی ہیں۔ کچھ الفاظ میری سمجھ میں آرہے تھے۔ میں بہت خوش ہوں کہ انہوں نے یہاں آکر نماز ادا کی۔ پھر انہوں نے باری باری ہم کو وہ چابی دیکھنے کو دی، اچھی خاصی بھاری تھی۔
جتنا بڑا اور شان دار لکڑی کا بنا دروازہ تھا اتنی بڑی چابی تھی اور اتنی ہی شان دار مسجد تھی، اتنے ہی شان دار اس کے رکھوالے تھے۔ مسجد میں سرخ رنگ کے دبیز قالین بچھے ہوئے تھے اور لکڑی کے محراب اور منبر اتنے صاف تھے جیسے ابھی پالش کیے گئے ہوں۔ میں نے کسی مسجد میں پہلی بار خواتین کا حصّہ دیکھا تھا۔ ہمارے ملک میں تو خواتین کا مسجد میں جانا بھی ممنوع ہے اور مسجد کو صرف مسلمان مردوں کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے۔
فاتح کا زمانہ ’’فاتح دیوری‘‘ 1453 to1481کہلاتا ہے اور یہ مسجد1469 to1479ء میں تعمیر ہوئی تھی، جو Ue Mihrapli Canli کہلاتی ہے۔ (Aafandi) Hoca hayrehin Eendi سلطان محمود کے استاد بھی تھے اور اس زمانے کے دانش ور بھی۔ بعد میں فاتح سلطان محمود نے اس مسجد کی توسیع کی مگر اصل تعمیر Hoca hayrehin Eendi نے کی تھی۔ جب سلطان محمود نے اس مسجد کی توسیع کی تو اس مسجد کے ایک مینار میں اضافہ کیا۔
شہزادہ ولید سلطان نے بھی اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا تھا۔ ایک روایت اس مسجد سے متعلق اور بھی موجود ہے کہ سلطان محمود کی بہو یعنی ولید سلطان کی بیگم نے اپنے گھر کو بھی مسجد کے لیے وقف کردیا تھا۔ اس حوالے سے مسجد کی تاریخی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ جو دوسرے صاحب وہاں موجود تھے انہوں نے بتایا کہ ان کا خاندان بھی برسوں سے اس مسجد کی خدمت پر مامور ہے اور وہ یہاں کے امام ہیں اور حافظ قرآن ہیں۔
ہم نے مسجد کے امام صاحب سے پوچھا کہ استنبول کارڈ کہاں سے ملے گا تو وہ ہمارے ساتھ گیٹ تک آگئے اور دائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
You can buy Istanbul Card From Eminonu
Eminonu کا ٹرمینل یہاں سے زیادہ دور نہیں تھا۔ یہاں سے پورے استنبول کے لیے بسیں چلتی ہیں۔ وہاں سامنے سے ہی ٹرام گزرتی ہے جس کا اسٹاپ بھی فاتح مسجد کے سامنے والا ہے اور جب سڑک پار کرکے ہم Eminonu آئے تو ٹرمینل سے پہلے اوپر کی طرف جانے والی سیڑھیاں تھیں۔ ساتھ Escalater تھیں جو اوپر اور نیچے کی طرف آ جارہی تھیں۔ یہاں میٹرو ٹرین کا ایک اسٹیشن تھا۔ استنبول میں ٹرام، بسیں اور میٹرو ٹرین، تین طرح کے سسٹم ساتھ چلتے ہیں۔
سارا سسٹم کمپیوٹرائزڈ ہے۔ آپ ایک بار استنبول کارڈ خریدلیں اور تینوں سسٹمز سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ کارڈ خریدنے سے لے کر بس ٹرام یا میٹرو میں سفر کرنے تک ہر جگہ کارڈ استعمال کرنا پڑتا ہے ہر جگہ کمپیوٹر لگے ہیں، ہر ایک ہاتھ میں موبائل ہے جس سے آسانی سے راستہ، کس وقت کہاں سے کس نمبر کی بس جائے گی سب جاننا اتنا آسان ہے کہ عزیز نے کارڈ خریدتے ہی آسانی سے سمجھ لیا، مگر Eminonu پہنچتے ہی عزیز کو لالچ آگیا،’’اماں! پہلے ایک بوٹ رائڈ لے لیتے ہیں، پھر کہیں چلیں گے۔‘‘ جہاں یہ ٹرمینل بنا ہوا تھا وہاں ساتھ ہی باسفورس تھا اور باسفورس کا چمکیلا پانی ہمیں بلارہا تھا۔
ہم باسفورس کے ساتھ ہی سڑک پر چلتے ہوئے بوٹ والے حصے تک آگئے جہاں لائین سے دور تک بڑی چھوٹی بے حساب Boats کھڑی تھیں۔ سمندر میں بھی بوٹ اور کروز چل رہے تھے۔ عزیز نے پہلے ہی معلوم کرلیا تھا کہ کروز پر سفر کرنا ہے تو آپ کے پاس کم از کم تین دن ہونے چاہییں ان کو یہ وقت کا ضائع کرنا لگا۔ اس سے اچھا ہے ہم استنبول دیکھ لیں اور Boat میں سمندر کی سیر کرلیں۔ تجویز اچھی تھی اور انکار کی گنجائش کہاں تھی۔ ہم عزیز کے رحم و کرم پر تھے۔ نہ ہم کو کمپیوٹر چلانا آتا ہے، نہ لائین میں لگ کر کارڈ خریدنا اور پیسے ڈلوانا آتا ہے۔
آپ گھبرائے نہیں یہ تو محاورہ ہے یہاں تو لیرا ڈلوایا جاتا ہے۔ ہم کئی ایک Boatsکے پاس سے گزرے مگر ایک بوٹ بہت خوب صورت اور صاف ستھری لگی۔ اس کا ملاح اپنا لنگر اٹھانے ہی والا تھا، ساتھ ہی ایک شخص اور تھا جو اس کی مدد کررہا تھا۔ عزیز نے سلام کرکے ہاتھ ملایا تو اس نے سیڑھی کی طرف اشارہ کیا اور بہترین انگریزی میں کہا Well Come in
عزیز نے ایک رائڈ کی قیمت پوچھی تو اس نے کہا:
Don’t Worry about money its small oman1
But It’s My Pleasure
میں نے عزیز سے کہا ابھی طے کرلو جیسے یہ کم پیسے کہہ رہا ہو وہ جیب ہی خالی کروالے۔ بندہ خاصا سمجھ دار تھا فوری طور پر سمجھ گیا۔
Medem Don’t Worry I already Earn Money for Boking
This Is Axtra Mony You give me only 150 Lira Eaeh
ہمارے پاکستانی روپے کے لحاظ سے سو لیرا ڈیڑھ ہزار اور پچاس لیرا ساڑھے سات سو روپے یعنی ایک بندے کی رائڈ دو ہزار سے سوا دو ہزار تھی جب کہ عزیز نے کروز کا معلوم کیا تو وہ تو ایک بندے کے ہزار لیرا سے بھی زیادہ کی تھی۔ اس میں سوچنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔
ہم نے 300 لیرا ادا کیے۔ اس نے فوری طور پر لنگر اٹھادیا اور ہم بوٹ میں سوار ہوگئے۔ بوٹ کا ایک حصہ مکمل بھرا ہوا تھا مگر جو عرشے کا حصہ تھا اس پر اٹھارہ بیس لوگ سامنے کی طرف بیٹھے تھے جن میں کچھ انڈین تھے، باقی ترک خواتین تھیں۔ وہ لوگ پہلے سے وہاں بیٹھے پینا پلانا کررہے تھے۔
ہم دوسری طرف جاکر بیٹھ گئے۔ وہ ناخدا وہیں آگیا جہاں ایک چھوٹا سا کاؤنٹر بنا ہوا تھا۔ عزیز نے تصویریں اور ویڈیو بنانا شروع کردیں۔ صاف شفاف نیلا آسمان اور اس پر تیرتے ہوئے سفید بادل نیچے شفاف پانی اور اس پر تیرتی ہوئی رنگ برنگی Boats اور کروز، ہم ایک کروز کے پاس سے گزرے اس پر کوئی کنسرٹ ہورہا تھا۔ میوزک کی آوازیں دور تک جارہی تھیں۔ موسیقی کی آواز پر ایک انڈین نے اٹھ کر ناچنا شروع کردیا تھا اور اپنی ساتھی کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلیا تھا۔ اب Boat پر ڈسکو کا سماں تھا، کیوں کہ ان کے دوسرے ساتھی تالیاں بجا رہے تھے اور موبائل پر کوئی دھن بھی لگادی تھی۔
میں نے عزیز سے کہا ان پر نشہ چڑھا ہوا ہے، ان سے کچھ بھی بعید نہیں ہے ہم اور آگے کی طرف آگئے۔ ترکی میں شراب پر پابندی نہیں ہے اس لیے ناخدا کے کاؤنٹر پر کافی، چائے کے ساتھ شراب بھی دست یاب تھی۔ میں نے دیکھا ناخدا نے بوتلیں اٹھاکر کاؤنٹر کے اندر لاک کردیں۔ شاید اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ ضرور وہاں سے کوئی بوتل خریدنے آئے گا اور جیسے ہی ایک آدمی اٹھ کر بوتل لینے آیا تو اس نے کاندھے اچکاتے ہوئے سوری کہہ دیا۔
اس وقت تک ہم دوسری طرف یعنی استنبول کے مشرقی حصے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ ناخدا نے ہم سے کہا ان لوگوں کو مجھے دوسری طرف اتارنا ہے پھر میں آپ کو کھلے سمندر میں لے کر چلوں گا۔ اس نے ان لوگوں کو دوسری طرف اتارکر Boat کو موڑلیا ہم اس طرف آگئے وہ بھی ہمارے پاس آکر بیٹھ گیا۔
میرا نام نوراﷲ ہے۔ اس نے اپنا تعارف کروایا۔ اس کی عمر پچاس سال کے قریب ہوگی۔ مزاج سے سخت لگ رہا تھا مگر اب اس کا مزاج بالکل بدلا ہوا تھا۔ میرے بیٹے سے اس کی پڑھائی، جاب اور کراچی کے متعلق باتیں کرنے لگا۔ ساتھ ساتھ وہ نظر آنے والی عمارتوں کے متعلق بھی بتاتا رہا۔
اس نے بتایا کہ وہ ’خلافت عثمانیہ کے آخری فرماں روا کا پڑپوتا ہے اور اس کے ابا کا عہدہ خلافت کے عہد میں امیربحر کا تھا اور اس کے خاندان کے لوگ اب بھی جہازوں پر نوکریاں کرتے ہیں، صرف وہ ہے جس نے اپنی بوٹ خریدی ہے۔ ہم اس کی تعلیم کا سن کر حیران رہ گئے۔ اس نے امریکا سے فائنانس میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہوئی تھی۔ اس کی معلومات حیران کن تھیں۔ ترکی میں خلافت عثمانیہ کے تعلق سے آج بھی لوگوں کو معزز مانا جاتا ہے۔ وہ فخریہ بتارہا تھا۔
ناخدا نوراﷲ کو تاریخ کا بہت علم تھا۔ اسے برصغیر کے مسلمانوں اور خلافت عثمانیہ کے تعلق کا بھی علم تھا۔ اس نے ہم کو بتایا کہ استنبول سات پہاڑیوں پر قائم ہے اور مسلمانوں کو مغربی حصہ فتح کرنے میں بہت مشکلات پیش آئی تھیں۔
ہم تقریباً ایک گھنٹہ باسفورس میں رہے جو ایک خوب صورت سفر تھا۔ ہمارے سفر کی ابتدا بہت بہترین ہوئی تھی جب ہم واپس آکر کنارے پر اتر رہے تھے تو وہ سیڑھی کے نچلی طرف کھڑا تھا۔
یک دم اس نے مجھے روک دیا اور جھک کر میرے شولیز باندھنے لگا جن کے کھلے ہونے پر میری نظر نہیں پڑی تھی۔
جب ہم ایک دوسرے کو الوداع کہہ رہے تھے تو میں نے اس سے کہا مجھے یقین ہوگیا کہ تم امیربحر کے پڑپوتے ہو وہ اور جھک گیا اور کہا میم مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ ایک رائٹر ہیں۔ آپ کے بیٹے عبدالعزیز نے بتایا تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا تو میں آپ سے یہ رقم نہ لیتا اس نے رقم واپس کرتے ہوئے کہا۔
میں نے کہا یہ تمہارا بزنس ہے تم نے جو احترام اور محبت ہم کو دی ہے یہ اس رقم سے بہت زیادہ ہے اس لیے تم واپس رکھو۔
اس نے کہا پھر میم وعدہ رہا۔ آپ جب بھی سمندر پر جانا چاہییں صرف میرے ساتھ جائیے گا اور جب بھی آپ ترکی کے متعلق کچھ لکھیے گا تو میرا ذکر کیجیے گا۔
پھر اس نے اپنا موبائل کھولا اور اپنے بیٹے بیٹی اور بیوی کی تصویریں ہمیں دکھاتے ہوئے کہا آج رات جب میری فیملی اکٹھی ہوگی تو میں ان کو بتاؤں گا کہ آج میری ایک پاکستانی رائٹر اور ان کی فیملی سے ملاقات ہوئی تھی۔ پھر اس نے ہمارے ساتھ سیلفی بنائی تاکہ وہ اپنے گھروالوں کو دکھاسکے۔
نوراﷲ میں نے اپنا وعدہ پورا کردیا ہم اب اپنے اگلے پڑاؤ کی سمت چلتے ہیں اور وہ اگلا پڑاؤ ہے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا مزار مبارک۔
The post شہر دِلوں میں بس جاتے ہیں ؛ کشتی کا ناخدا خلافت عثمانیہ کے آخری فرماں روا کا پڑپوتا appeared first on ایکسپریس اردو.