سہیل احمد صدیقی: ابھی چند روز قبل کسی صاحب نے واٹس ایپ پر ایک ’مضمونچہ‘ (چھوٹا سا مضمون) ارسال کیا جس کا لُبِ لُباب یہ تھا کہ یخنی کا کچھ نہ کچھ تعلق، پشتو میں مستعمل فارسی لفظ ’ےَخ‘ سے ضرورہوگا۔
یہ نقطہ آغاز یقینا اُس مضمون نگار کے لیے ’حرفِ مزاح‘ ہوگا، مگر ہمارے ’نِیم خواندہ‘ یا بقول کسے ’ناخواندہ‘ معاشرے میں گمراہ کُن ثابت ہوسکتاہے۔ لکھنے والے کو چاہیے تھا کہ پہلے فارسی کا حوالہ لاتا، پھر پشتو کا;بہرحال اس تحریر کا آغاز اس طرح ہوا کہ”پشتو میں کہتے ہیں، ’ڈیر ےَخنی دے‘یعنی بہت سردی ہے۔اردومیں گوشت سے بنے ہوئے شوربے کو یخنی کہتے ہیں۔دونوں کا کچھ خا ص تعلق ہے۔آج کل سردی اپنے عروج پر ہے یعنی ’ڈیر ےَخنی دے‘، یہی وقت ہے، ڈھیر ساری یخنی بنالیں“۔
اب یہاں سے بات شروع ہوتی ہے اس ’زباں فہم‘ یعنی سہیل کی۔ کسی بھی زبان میں کسی دوسری زبان کے الفاظ،تراکیب، فقرہ جات، محاورہ جات و ضرب الامثال کا پایاجانا تو عام سی بات ہے، لیکن بعض اوقات کوئی مماثل لفظ یا ترکیب یکسر مختلف معنیٰ دیتی ہے اور اُسے بلاتحقیق نقل کرنا یا ذکر کرناہرگز مناسب نہیں ہوتا۔اب آپ کو اگر معلوم ہوکہ انگریزی کا Ice پہلے فارسی کا ” ےَخ“ تھا تو کیسا لگے گا؟ (فارسی جدید میں ’خیلی(خیلے) خُنک‘بھی مستعمل ہے)۔
یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ بقول ہمارے فاضل دوست دکتور اسحق وَردَگ، پشتو میں یخنی کا لفظ مُرغی کی یخنی کے لیے بھی مستعمل ہے۔
فارسی لفظ ” ےَخ“ اردو میں سرد، بہت سرد، ٹھنڈا، بہت ٹھنڈا، ٹھنڈ، ٹھنڈک،برف۔یا۔برف جیسا ٹھنڈا۔ یا۔ برف کے مانندکے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔قدرتی برف یا ٹھنڈ سے جم جانے والے پانی، نیز اولے یا پالے (فارسی میں ژالہ) کو بھی یہی نام دیا جاتا ہے۔(بہت سے نئے قارئین کو شاید ’پالا مارگیا‘ یاد نہ ہو)۔پانی کو مصنوعی طریقے سے جماکر بنائی گئی برف بھی یخ کہلاتی ہے، جبکہ قدیم دورمیں موسم سرما کو بھی یخ کہاجاتاتھا۔براہوئی، پشتو، سرائیکی اور سندھی میں بھی یخ بمعنی ٹھنڈا موجود ہے، جبکہ سرائیکی میں ا س کے لیے ٹھڈا اور سندھی میں ”تمام تھدھو“بھی مستعمل ہے۔
اردو میں فارسی ترکیب ’یخ بَستہ‘ رائج اور مشہور ہے جس سے مراد کسی بھی چیز کا بہت زیادہ سرد ہونا ہے جیسے یخ بستہ ہَوا۔خاکسار نے کسی زمانے میں کراچی کے موسم میں ہونے والی انتہائی انوکھی تبدیلی(یعنی سردموسم کے ساتھ گردآلودہوا) کو دیکھتے ہوئے بے اختیار شعر کہا تھا:
یخ بستہ گرد باد میں سوچا ہے بار بار
تیرے بغیر زِیست بھی ممکن ہے گل عِذار؟
(سہیل احمدصدیقی)
تلاش کرنے پرمعلوم ہواکہ لفظ ’یخ‘ کا استعمال قدیم (صاحبِ دیوان اردو وفارسی)شاعر شیخ ولی اللہ محبؔ، درباری شاعر ِ شاہ عالم ثانی و میرزا سلیمان شکِوہ(المتوفیٰ 1792ء) کے یہاں اوّل اوّل ملتا ہے:
شب نہ یہ سردی سے یخ بستہ زمیں ہر طرف ہے
مہ پکارے ہے فلک پروردگی تو برف ہے
(اُن کا مختصر تعارف وحوالہ دیوان مطبوعہ 1999ء ریختہ ڈاٹ آرگ پر منقول ہے)
ہمارے معتبرشاعرو نقاد محترم سلیم احمد کہہ گئے ہیں:
زمیں یخ بستہ ہو جاتی ہے جب جاڑوں کی راتوں میں
میں اپنے دل کو سلگاتا ہوں، انگارے بناتا ہوں
ایک بالکل جدیدشاعر جناب عاطف ملک کاشعرہے:
مجھ کو یخ بستہ ہواؤں سے ڈرا مت واعظ!
مِرے گھر میں ہیں بہت آگ لگانے والے
اچھا شعرہے کہ جس میں کلاسیک سے عطر کشید کرنے کی کوشش کی گئی۔
نثر کی بات کی جائے تواردوافسانہ نگار، ڈراما نگار،شاعراورمحقق ڈاکٹر سید زبیر شاہ کے افسانوں کا مجموعہ ’یخ بستہ دہلیز‘ کے عنوان سے منصہ شہودپرآچکا ہے۔
فارسی کی بہن تاجیک یا تاجِک(نیز تا ژیک) زبان میں لفظ ’یخ‘، بہ اختلاف ِ املا ء، ژَخ [Jax]بن جاتا ہے۔المانی یا المانوی یعنی Germanزبان میں یہی لفظ Eich(ایخ)اورپھر Eis بنا جوولندیزی یعنی [Dutch]زبان میں جاکر Ijis (آئیژس) ہوااور آگے چل کر اِنگریزی میں Iceہوگیا۔برّ اعظم افریقہ کی بڑی زبان افریکانس[Afrikaans] میں یہی لفظ تبدیل ہوکر ’ےَس‘ [Ys]ہوا۔
’یخ’بہ اختلافِ املاء دنیا کی کئی زبانوں میں آئس ہوگیا جو اِنگریزی کا Iceبمعنی برف یا اُس سے مماثل ہجے والا نام ہے۔دنیا کی کئی زبانوں میں لفظ ’برف‘ بھی موجودہے، گلاس بھی کسی نہ کسی شکل میں موجودہے جو اِنگریزی میں شیشے کے معنیٰ دیتا ہے۔اب دیکھیے کیسے کیسے لفظ بنتے، بگڑتے، بدلتے اور معانی ومفاہیم میں بھی تغیر کا سبب بنتے جاتے ہیں۔آج ہم دوہی طرح کے گلاس سے واقف ہیں، ایک تو شیشہ، دوسرے پانی پینے کے لیے استعمال ہونے والا برتن یا آب خورہ، جسے کبھی جام بھی کہاجاتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اب ہم اردو گو، اردو داں پاکستانی ہر گلاس کو جام نہیں کہتے، بلکہ محض شراب کے جام کی شکل والے گلاس[Wine glass] ہی کو جام کہتے ہیں۔اس پوری کتھا کا خلاصہ یوں بیان کیاجاتاہے کہ برف، شیشے اور آب خورے عرف گلاس میں تعلق خِلقی [By birth]ہے۔
فارسی میں یہی لفظ یعنی یخ،بے لطف اور بے مزہ کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے،جیسے اردومیں معیاری زبان اور عوامی بولی ٹھولی [Slang]،خصوصاً مُبتذل یا سُوقیانہ بولی میں موقع محل کی مناسبت سے کہتے ہیں کہ ایک دم ٹھنڈا ہے یا ٹھنڈا پڑگیا۔یہ محلِ استعمال غیراہل ِزبان کے لیے سمجھنا مشکل ہے۔فارسی میں مجازاً اس سے مراد، افسردہ ہونا بھی ہے یعنی یخ بستگی بمعنی افسُردگی۔یہ معنیٰ (نیز اُداسی، اضمحلال،بُجھا بُجھا ہونا) اردومیں برتنے کی کوشش کی گئی ہے۔
تُرکی زبان میں برف کو ’ بَز‘ کہتے ہیں، جبکہ ٹھنڈ اور ٹھنڈک کے لیے دیگرالفاظ کے ساتھ ساتھ، ایاز بھی مستعمل ہے۔(یعنی سلطان محمودغزنوی کے چہیتے سپہ سالار، حاکم ِ محمودپور(قدیم لاہور) اور مُنہ بولے بیٹے، ملِک ایازکے نام کے معنوں میں ایک یہ بھی ہے)۔
ہرچند کہ لسانی اعتبارسے یخنی کا ’یخ‘ سے کوئی تعلق(کم از کم سرِدست) ثابت نہیں، مگرطبی لحاظ سے یخنی کا استعمال ’یخ‘ یعنی سردموسم ہی میں زیادہ مفید ہے۔لفظ یخنی،پنجابی میں نون غنہ کے ساتھ یخنڑی ہے تو سرائیکی میں سیدھا سیدھا یخنی ہی ہے، جبکہ سندھی میں شوروو اور گوشت جوس ہے (روہیل کھنڈی یا رامپوری اردومیں شُروا کامطلب شوربہ، سالن ہے)، جبکہ فارسی میں اس کے لیے آبِ گوشت مستعمل ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انگریزی میں یخنی کو Soupکہتے ہیں، مگر سُوپ کی متعدداقسام کی ایک طویل فہرست (آنلائن دستیاب بزبان انگریزی) میں یخنی شامل نہیں، اسی لیے کہتے ہیں کہ سب کچھ انٹرنیٹ پر نہیں ملتا۔
یخنی خواہ مُرغی کے گوشت سے بنی ہو، اُس کے پنجوں کی، گائے،بکری،یاکسی بھی دوسرے جانور، حتیٰ کہ مچھلی کے گوشت یا ہڈیوں سے بنی ہو، اُس کے فوائد بے شمار ہیں۔عموما ً تجربے اور مشاہدے میں آتا ہے کہ یخنی گھُٹنوں، جوڑوں،مُہروں کی تکالیف میں مبتلا، ٹھنڈ اور دَمے کے شکار اور غیرمعمولی سردی کے احساس سے بیمار ہونے والے مریضوں کے لیے اکسیر کا کام کرتی ہے۔ہڈیوں کے شوربے یا یخنی میں موجود فاسفورس،گندھک، کیلشئیم، میگنیشیئم جیسی مفید معدنیات انسانی جسم کے لیے انتہائی کارآمد اور نظام انہضام و اخراج کے لیے فائدہ مند ہیں۔اس کے مسلسل استعمال سے وزن قابومیں رہتا ہے،کم ہوجاتا ہے، کولیسٹرول قابومیں رہتا ہے،سینے کی ٹھنڈاورگلے کی سوزش سے نجات ملتی ہے، جسم میں پانی کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے۔یخنی یا ہڈیوں کے شوربے سے جسم میں موجودیاشامل ہونے والے زہریلے مادّے ختم کرنے اور جِلد بہترکرنے میں مددملتی ہے، قوت ِ مدافعت بڑھتی ہے۔
بتاؤں آپ کو مرنے کے بعد کیا ہوگا
پلاؤ کھائیں گے احباب، فاتحا (فاتحہ) ہوگا
(اکبرؔ الہ آبادی)
مندرجہ بالا ساری تقریر تو ہوئی ایک طرف، اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔دستیاب معلومات کی رُو سے ہمیں یہی لگتا ہے کہ یخ سے یخنی کا تعلق بس اتنا ہی ہے کہ یخنی،موسم کی مناسبت سے عموماً سردی میں استعمال ہوتی ہے،(یا کسی طبیب کے مشورے سے کسی اور موسم میں بھی)، مگر مختلف پکوان کی تیاری میں یخنی بہت مزے اورفائدے دیتی ہے،جن میں سرفہرست ہے، پُلاؤ۔یا۔پِلاؤ۔یابقول مولوی تصدق حسین رضوی، صاحبِ لغات ِکشوری (اردو)پَلاؤ۔یہ اردواورسرائیکی میں پُلاؤ ہے، براہوئی میں پلاؤ، پشتومیں پولاؤ،بلوچی میں پُلہ، پنجابی میں پلاء، سندھی میں پُلاءُ (ہمزہ پر پیش)، فارسی میں پلاف[Pilaf] اور پلو، جبکہ ترکی اور دیگرمتعدد زبانوں میں پلاف(Pilav)۔(رومن رسم الخط کا حرف Vدنیا کی متعدد زبانوں میں کسی لفظ کے درمیان یا آخر میں آئے تو Fبولاجاتا ہے)۔
پلاؤ نہ صرف وسطِ ایشیا، شمالی قفقاز (کو ہ قاف)،بلکہ جنوبی ایشیا میں بھی بہت مقبول پکوان ہے جسے دنیا بھر میں نام کے تھوڑے بہت فرق سے سبھی جانتے ہیں اور آپ براعظم ایشیا، یورپ، شمالی وجنوبی امریکا، افریقہ وآسٹریلیامیں پلاؤ یا اس سے مماثل پکوان سے لطف اندوزہوسکتے ہیں۔تفصیل میں جائے بغیر وِکی پیڈیا سے نقل کریں تو یہ نام اِن شکلوں میں دستیاب ہے:
Polao, Pulao, plao, pela, pilav, pilov, pallao, pilau, pelau, pulao, palau, pulaav, palaw, palavu, plov, plovas, palov, polov, polo, polu, kurysh, fulao, fulaaw, fulav, fulab, osh, as, paloo, kürüch.
لطف کی بات یہ ہے کہ جمہوریہ چیک (Czech Republic) میں واقع ایک علاقے کا نام بھی Plav(پلاف) ہے جسے شاید اپنے پلاؤ سے کوئی نسبت نہیں۔
حیرت انگیز طورپر پلاؤ کے اجزائے ترکیبی میں علاقے اور خطے کے فرق سے بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔انٹرنیٹ کی سیر کرتے ہوئے ایک جگہ دیکھا کہ ایران میں پلاؤ تیار کرنے کا نسخہ کچھ یوں ہے۔اس نسخے کی ناقل ایک باورچی خاتون ” مھسا“ یعنی مہ سا(چاند کی طرح روشن اور خوبصورت) ہیں:
”پلاف: یہ غذای بسیار خوشمزہ است۔مواد مورد نیاز؛برنج ابکش۔ترجیحاً برنج عنبر بو ک خیلی خوش عطر و طعمہ۔ نخود فرنگی۔ہویج رندہ شدہ۔گوشت چرخ کردہ۔پیاز تف دادہ شدہ عسلی۔با زعفران دم کردہ و کمی زرد چوبہ و نمک“۔(sarashpazpapion.com)
(ترجمہ : یہ بہت مزے دار پکوان ہے۔اس کی تیاری کے لیے درکار اجزاء یہ ہیں: چاول،بھِگوئے ہوئے ;ترجیحاً عنبر نامی چاول جو بہت خوشبودار اور لذیذ ہوتا ہے، گاجر کٹی ہوئی، قِیمہ، شہدمیں بھیگی ہوئی پیاز مع زعفرانی بگھار نیز تھوڑی سی ہلدی اور نمک۔)
اب ہماری پاکستانی، ہندوستانی اور بنگلہ دیشی خاتون قارئین کرام یہ فرمائیں کہ آیا کبھی اس طرح کا پلاؤ بنایا، کھایا یا دیکھا؟ فرق تو بہرحال اصل اُزبک پلاؤ اور ہمارے یہاں پکنے والے پلاؤ میں بھی ہوسکتا ہے، اس لیے کہ پانچ سو سال سے زائد عرصہ ہوا،جب مغل تاجدار بابُر نے فرغانہ (اُزبکستان) سے یہاں براستہ افغانستان تشریف لاکر،دیگر چند نعمتوں کے ساتھ ساتھ، پلاؤ بھی اِس خطے میں متعارف کروایا تھا۔
ازبک زبان درحقیقت ترکی کی شاخ ہے اور اس کی بول چال میں بوجوہ فارسی کا غلبہ ہے جبکہ آذری زبان، علاقے کے فرق سے دونوں زبانوں سے ہم رشتہ ہوتے ہوئے بھی ترکی سے قریب سمجھی جاتی ہے، مگر اس کی موجودہ شکل میں روسی ذخیرہ الفاظ کا غلبہ ہے۔شمالی ہند میں اوّل اوّل رائج ہونے والے پلاؤ میں بکری کے گوشت کی یخنی ہی استعمال ہوتی رہی ہے، اب شاید اِس میں بھی فرق پایا جاتا ہو۔کسی بقرا ط قسم کے باورچی نے،انٹرنیٹ پر ایک جگہ یہ سُرّی چھوڑی ہے کہ پلاف کے برعکس،پلاؤ میں یخنی یا ذائقے دار شوربے کی آمیزش نہیں ہوتی….حدہوگئی، تُکّے لگانے کی!
ویسے یہ بات تو سولہ آنے درست ہے کہ چاہے کسی نے کبھی پلاؤ پکایا ہو نہ پکایا ہو، ’خیالی پلاؤ‘ تقریباً سبھی پکالیتے ہیں۔بعض لوگ سولہ آنے سچ بھی کہتے ہیں جیسے ڈاکٹر م۔ق۔سلیم صاحب کی کتاب ”سولہ آنے سچ“، 2006ء میں حیدرآباد، سندھ (پاکستان) سے شایع ہوئی تھی۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ پلاؤ بکری کے گوشت کا اچھا یا بچھیا کا، مگر جب خاندانی باورچی ہی نہ رہے تو اَب سب چلتا ہے۔گائے کے گوشت اور مرغی کے گوشت سے بنے ہوئے پلاؤ سے لے کر،بازار میں گرم مصالحے کے بکثرت استعمال سے تیار ہونے والے پلاؤ تک اسی طرح تحریف کے نمونے ہیں جیسے کوئی شعری صنف، کسی غیر اہلِ زبان کے ہاتھوں مجروح ہوگئی ہو۔
چنا پلاؤ یا چھولے پلاؤ، ہولے (بونٹ)پلاؤ، مٹر پلاؤ،سبزی پلاؤسمیت متعدد پکوان اسی شاہی پکوان سے نسبت کے سبب، مشہورومقبول ہیں،حالانکہ ان سب کے اجزائے ترکیبی اور طریق تیاری میں فرق ہے، البتہ ہمارے گھروں میں کبھی کبھی مٹرپلاؤ بھی یخنی ملا کر بنایا جاتاہے۔اب خاتو ن قارئین یہ نہ کہیں کہ یہ ”زباں فہم“ ہمیں باورچی خانے کے نسخے بھی سکھانے کی سعی نامشکور کرنے لگا ہے۔
ایک ضمنی نکتہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں اکثر پلاؤ (نیز چاول کے دیگر پلاؤ نُما پکوان) کے ساتھ کباب، وہ بھی ”شامی کباب“ کا استعمال بصدشوق کیا جاتا ہے۔کباب کی مشہور قسم ”چُلّو“ کباب ترکی، ایران ودیگر ہمسایہ ممالک سے ہوتے ہوئے یہاں بھی آپہنچی ہے، مگربقول ہماری ترک (فیس بک دوست) محترمہ طاہرے گونیش،ترکی میں ہرطرح کے بھُنے ہوئے گوشت کو ”کباب“ کہاجاتا ہے، لہٰذا ”قازان کباب“ کا مطلب ہو ا، دیگ میں پکا ہوا گوشت۔
اسی طرح قِیمے کی ہر شکل کوفتہ کہلاتی ہے۔(اب بتائیے کہ Minced Meet Ballکس حد تک اصل کوفتہ ہوسکتا ہے)۔اُن کے انکشاف کے مطابق، ترکی اورہم رشتہ ممالک میں،پلاؤ اور گوشت کے سالن میں شاہ بلوط [Chestnut]کا روایتی،لازمی استعمال بہت شوق سے کیا جاتا ہے۔ہمارے یہاں تو ایسا کوئی تصور نہیں! اُن کے یہاں تو یہی پھل بھون کر بھی کھایاجاتاہے،ہماری اکثریت نے تو اِس کی شکل بھی نہیں دیکھی۔
The post زباں فہمی نمبر201؛ یخ، یخنی اوریخنی پلاؤ appeared first on ایکسپریس اردو.