ایک وقت تھا جب اس ملک میں پہاڑوں کا عالمی دن آتا تھا اور گزر جاتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ جیسے جیسے پھیلتی گئی ویسے ویسے عوام الناس خصوصاً سیاح برادری میں اس دن کو جوش وخروش سے منانے کا رجحان بڑھتا رہا اور اب ماشاء اللہ، ہر سال ہی یہ دن پہاڑی مقامات پر جا کر منایا جا رہا ہے۔
ہم نے بھی گذشتہ دو سال متواتر یہ دن ٹلہ جوگیاں پر جا کر منایا اور اس سال اسی کے قریب واقع ’’نندنہ‘‘ کا پروگرام بنایا جو قدیم بھی ہے اور خوب صورت بھی۔
خان پور سے ہوکر یہ مسافر گوجرانوالہ پہنچا جہاں ہمارے دوست تھویر ملک صاحب نے ہمیں خوش آمدید کہا جو ایک استاد اور فوٹوگرافر ہیں۔
شہرمحبت، گوجرانوالا
گوجرانوالا میں ہم نے درزیاں والی کوٹھی، گھنٹہ گھر، گوردوارہ گرو سنگھ سبہا اور گرونانک خالصہ کالج دیکھا جس کی تفصیل عن قریب گوجرانوالہ پر ایک مفصل مضمون میں بیان کی ’’جاوے‘‘ گی۔ اس کے بعد بعد گھنٹہ گھر بازار میں ’’امرتسری ہریسہ‘‘ کا رخ کیا جو گوجرانوالا میں ہریسے کی ایک قدیم دوکان ہے۔ بھئی مجھے تو لاہور سے زیادہ گوجرانوالا کا ہریسہ پسند آیا باقی سب کی اپنی اپنی پسند ہے۔
اس کے بعد ہم نے جِگرعمران احسان مغل کے گھر کا رخ کیا جو انگریزی کے استاد ہونے کے ساتھ ایک بہترین منظرباز بھی ہیں۔ اُن کے ہاں کافی پینے کے بعد کچھ دیر آرام کیا تب تک باقی احباب بھی یہیں جمع ہوگئے اور یوں سات لوگوں پر مشتمل یہ چھوٹا سا کارواں گجرات کے لیے روانہ ہوا جس میں ہم تینوں سمیت ہمارے سالار، ذیشان رشید (معلم، مبصر، سیاح)، ہمارے علمی مرشد جناب شہزاد اسلم صاحب، پیارے مُرید عدنان اقبال بھائی (گرافک ڈیزائنر، شاعر) اور ذیشان صاحب کے صاحب زادے مجتبیٰ شامل تھے۔
گجرات پہنچ کے دو سواریوں کو اٹھایا جن میں فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ یونیورسٹی آف گجرات کے اسسٹنٹ پروفیسر اور سیاح، واجد علی ڈہرکی والا اور ان کے صاحب زادے محسن شامل تھے۔ ایک بولان میں اتنے لوگ سامان سمیت کِس طرح بیٹھے، اس پر مؤرخ خاموش ہے اور خاموشی ہی بہتر ہے۔
گجرات سے باغانوالا
گجرات سے ڈنگہ، چیلیانوالا اور پھر رسول بیراج سے ہو کر ہم پہنچے اس سڑک پر جو جلال پورشریف کی طرف جاتی تھی اور جس پر ہماری زندگی کا ایک کڑا امتحان لکھا تھا۔ انتہائی خستہ حال اور ادھ مری سڑک جس پر جابجا پانی کے جوہڑ اور اڑتی ہوئی مٹی تھی۔ جب باغانوالا میں رات کے کھانے کی بریک لگی تو ہم سب اپنی کمر اور اس سے ملحقہ لوازمات کو سہلاتے ہوئے فرید بھائی کے ٹرک ہوٹل کی چارپائیوں پر ڈھے گئے۔ اگرچہ راستے میں سنگھاڑے، چائے اور گجک کا دور چلتا رہا تھا لیکن بھوک پھر بھی زوروں پر تھی۔
یہاں ہم نے دال ماش اور سالن سے ’’ہاں جھل‘‘ کیا، تب تک عمران بھائی نے گھر سے لائے گئے مسالاجات کو بھونا، راستے سے لیا گیا چکن کا گوشت صاف کرکے مکس کیا اور اپنے چاہت کے تڑکے کے ساتھ گرماگرم چکن کڑاہی دسترخوان پر لا رکھی۔ اگرچہ ایسے ہوٹلوں پر کھانا اچھا ملتا ہے لیکن عمران بھائی جیسے تجربہ کار بندے کی بنائی گئی کڑاہی کے کیا کہنے۔۔۔ مزہ کرا دیا۔
کھانے سے فارغ ہو کے ہم سب ایک بار پھر سے اس بولان ڈبے میں بیٹھ گئے جس میں بیٹھنا اپنے آپ میں ایک آرٹ ہے اور میں سمجھتا ہوں ہماری ٹانگوں اور جوڑوں کو اس پر ایوارڈ ملنا چاہیے۔
نندنہ کی کہکشاں
رات کے آٹھ بجے فرید بھائی کی معیت میں یہاں سے نندنہ کی طرف سفر شروع ہوا۔ وہ بائیک پر ہمارے آگے آگے تھے۔ نندنہ ہائیکنگ ٹریک کے ساتھ قلعہ روہتاس کے ہم شکل، نئے نویلے کنوارے ریزارٹ میں ہم نے اپنا سامان رکھا جس کے اندر صرف چھت اور فرش بنا کے چھوڑ دیا گیا تھا۔ ہمارے ڈرائیور بھائی نے تو فوراً بستر لگایا اور سوگئے جب کہ ہم سب اپنے اپنے خیمے لادے اوپر گئے اور اس عمارت کی کھلی چھت پر اپنے خیمے لگانے شروع کر دیے جس کی دوسری جانب پہاڑ تھے۔
خیمے لگا کے فارغ ہوئے تو آسمان کو بغور دیکھا، ایک وسیع اور چمکتی ہوئی کہکشاں ہمارے سامنے مسکرا رہی تھے۔ یااللہ بچپن میں جب صحن میں سوتے تھے تب اتنے تارے نظر آتے تھے اور پھر ستارے ہمارے شہروں سے روٹھ گئے۔ آج پوٹھوہار کے یہ ستارے اتنے ہی دل کش لگ رہے تھے جتنے کے بچپن میں لگتے تھے۔ اور ان میں گزرتے وہ جہاز، جسے بچپن میں دیو اور جن کہہ کے ہمیں ڈرایا جاتا تھا اور ہم معصوم یہ بات سچ مان کے چادر میں دبک جاتے تھے۔
کیا دور تھا وہ۔
اس خوب صورت منظر کی عکاسی سے فارغ ہوئے تو عدنان بھائی نے ’’کافی تیار ہوگئی ہے‘‘ کی آواز لگائی اور احباب نیچے کی طرف بھاگے جہاں اینٹوں کا عارضی چولھا تیار کر کے کافی بنائی جا رہی تھی۔ کافی کے بعد گپ شپ کا دور چلا اور ایک ایک کرکے احباب نیند کی وادی میں اترتے چلے گئے۔
صبح سویرے جب آنکھ کھلی تو کچھ دوست آسمان پر نظریں جمائے کڑے تھے۔ سورج ابھی برآمد ہونا تھا۔ زبردست قسم کی ٹھنڈ میں ہم بھی خیمے سے باہر نکلے اور سورج کی جھلک پاتے ہی دھڑا دھڑ فوٹوگرافی اور ویڈیوگرافی شروع کردی۔
سورج گرافی کرنے کے بعد سب تازہ دم ہوئے اور ناشتہ کرکے ہم نے نندنہ قلعے کی طرف قدم بڑھا دیے۔
نندنہ تک جانے والا پہاڑی راستہ جو ایک دور میں کچا اور دشوار ہوا کرتا تھا آج ایک خوب صورت ٹریک کی شکل اختیار کرچکا ہے جس کے گرد ریلنگ لگا کر اسے فینسی بنا دیا گیا ہے۔ بیچ بیچ میں آرام کے لیے مصنوعی چھتریاں بھی بنائی گئی ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے اس جگہ پر خصوصی توجہ دی اور سیاحوں کے لیے ریزاٹ تعمیر کروانے سمیت کئی بہترین اقدامات کیے۔ میرے نزدیک دوردراز کے اس پہاڑی علاقے میں جہاں ابھی سیاحوں کا آنا جانا قدرے کم ہے، اسٹیل کی بنی ریلنگ کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس کے بغیر بھی کام چلایا جا سکتا تھا۔
کچھ کچی پگڈنڈیوں، ندیوں اور کھجور کے درختوں سے ہوتے ہوئے ہم پہاڑوں کے بیچ جا پہنچے جہاں یہ ٹریک بل کھاتا ہوا گزر رہا تھا۔ یہاں کے پہاڑ عجیب و غریب تھے۔ مختلف ہیئت کے یوں جیسے امریکی ریاست ’’یوتھاہ‘‘ کے نیشنل پارکس میں ہیں۔ سردیوں کی ٹھنڈی صبح میں دوستوں کے ساتھ یہ نظارہ، کیا کہنے۔ آہستہ آہستہ یہ ٹریک اوپر کو اٹھ رہا تھا اور پہاڑ بھی حجم میں بڑے ہوتے جا رہے تھے۔ لگ بھگ چالیس منٹ کے ٹریک کے بعد نندنہ کا قدیم مندر ہمارے سامنے تھا۔
نندنہ قلعہ اور شیومندر
ضلع جہلم میں کوہِ نمک کے شرقی کنارے پر، باغانوالا کے قریب پہاڑی کی چوٹی پر واقع صدیوں پرانا نندنہ کا قلعہ ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے جس کی بنیاد لگ بھگ نویں صدی میں ہندوشاہی خاندان کے ایک شہزادے نے رکھی۔
کہتے ہیں کے اس کا نام ایک ہندو بھگوان کے افسانوی باغ ’’نندنہ‘‘ کے نام پر رکھا گیا تھا۔
پہاڑوں کے درمیان واقع دفاعی نوعیت کا حامل یہ قلعہ نندنہ پاس کی نگرانی اور شمال و مغرب سے حملہ آوروں کی روک تھام کے لیے بنایا گیا تھا۔
نندنہ پاس پتھر کا وہ راستہ تھا جو دہلی کو جدید دور کے افغانستان سے ملاتا تھا۔
مشہور ڈچ اسکالر ’’پی ایچ ایل ایگرمونٹ‘‘ نے اپنی مشہور کتاب ’’الیگزینڈرز کمپین ان سدرن پنجاب‘‘ میں اس درے کا تذکرہ اسی راستے کے طور پر کیا ہے جسے سکندر اعظم نے 326 قبلَ مسیح میں راجاپورس کے خلاف ہائیڈاسپس کی جنگ میں استعمال کیا تھا۔
ایک اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سکندر یونانی کی فوج کے گھوڑوں نے پہلی بار اسی مہم کے دوران پتھر چاٹ کر کھیوڑہ کی نمک کی کانوں کی اصلیت دریافت کی تھی۔
1904 کے جہلم گزیٹئیر کے مطابق
’’مندر تباہ شدہ حالت میں ہے لیکن دیکھا جا سکتا ہے کے اس کی دو منزلیں تھیں اور ایک زینہ بالائی منزل کو جاتا تھا اور دوسری منزل کے گرد بھی ایک راہ داری تھی۔ کٹاس کا بڑا مندر بھی اندر سے اسی طرز پر تعمیرشدہ ہے۔ نندنہ کا مندر کشمیری طرز کا ہے جو بہت قدیم زمانے کے ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہے جو مندر کی نسبت زیادہ پرانا ہو گا۔ قلعے کی باقیات میں سے دو نیم قوسی برج پہاڑی کے رخ پر آج بھی کھڑے ہیں جو سینڈ اسٹون کے بڑے بلاکس کو نفاست ست تراش کے بنائے گئے ہیں۔
بعد کے زمانے میں مندر کے قریب ایک مسجد کا اضافہ کر دیا گیا اور اب یہ بھی تباہ حال ہے۔‘‘
مشہور سیاح اور مصنف سلمان رشید اس حوالے سے یوں رقم طرز ہیں؛
’’غالباً اس خطے کے پُرامن دن وہ تھے جب یہ کشمیریوں کی حکومت میں تھا۔ کرکوٹا خاندان کا بادشاہ للت آدتیہ (جس نے 624ء سے 660ء تک کشمیر پر حکومت کی) پنجاب کے ایک بڑے حصے بشمول ٹیکسلا، کوہِ نمک اور ہزارہ، کو اپنے زیرِتسلط لے آیا۔
وہ نہ صرف ایک فاتح تھا بلکہ ایک ماہرتعمیر بھی تھا جس نے سالٹ رینج میں عقیدتی فن تعمیر کا دور شروع کیا۔ اور پھر اگلے دو سو سالوں میں قندھار تک جاتی اونچی سڑک پر قلعہ بند مندروں کا ایک سلسلہ دیکھا گیا۔
یہ عمارتیں، جو شاہیہ مندروں کے نام سے مشہور ہوئیں، اگلی چار صدیوں تک مذہبی سرگرمیوں کا مرکز رہیں۔ اب ان مندروں کے کھنڈرات میں کوئی زائرین نہیں ہیں، صرف تاریخ اور آثار قدیمہ میں دل چسپی رکھنے والے عجیب سیاح ہیں، جن کے لیے سالٹ رینج کی یہ عمارتیں ایک شان دار ماضی کی یاد دہانیاں ہیں۔‘‘
نندنہ میں آج ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ ایک قلعے کے کھنڈرات ہیں جن میں ایک مندر اور ایک مسجد ملتی ہے۔ مندر کو شیو مندر کے نام سے جانا جاتا ہے جو کوہِ نمک کے دیگر مندروں (جیسے کٹاس راج اور ملوٹ) سے مماثلت رکھتا ہے۔
شیو مندر کو ہندو شاہی راج کے بادشاہ ’’جے پال‘‘ کے بیٹے آنند پال نے قرون وسطی کے ابتدائی دور میں تعمیر کیا تھا۔
مخدوش حالت میں کھڑے اس مندر کے بیشتر حصے کو جِدت کے ساتھ مرمت کیا گیا ہے جس سے اوپر کا حصہ قدیم اور نیچے کا نیا نیا لگتا ہے۔ غربی حصہ اور چھت گر چکی ہے جب کہ اندرونی گنبد آدھی گولائی میں اب بھی تاریخ سے کھلواڑ کرنے والوں کا منہ چڑا رہا ہے۔ کھنڈر کے نیچے قدیم قلعہ بندی اب بھی ایک کھردری پتھر کی دیوار کے طور پر دکھائی دیتی ہے۔
مغل سلطنت کے دوران بھی نندنہ ایک اہم تفریح گاہ رہی ہے۔ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر اور جہانگیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کے یہ ان کی پسندیدہ شکارگاہ تھی جہاں وہ پرندوں اور ہرن کے شکار کے لیے آیا کرتے تھے۔
محمود غزنوی کی مسجد
مندر کے قریب مغرب میں واقع مسجد، محمود غزنی نے ہندو شاہی راج سے اس جگہ پر قبضہ کرنے کے بعد تعمیر کی تھی۔
جہلم گزیٹئر کے مطابق
’’تقریباً 1008ء میں محمود نے بالناتھ کے پہاڑوں میں نندنہ کے خلاف چڑھائی کی اور قلعے کو تسخیر کرنے کے بعد جئی پال کے بیٹے آنند پال کے تعاقب میں کشمیر چلا گیا۔ تاریخ اور سال کے فرق سے طبقاتِ اکبری میں بھی یہی کہانی ملتی ہے۔‘‘
پتھر سے بنی یہ مسجد زیادہ بڑی نہیں ہے۔ اس کی محرابیں اب بھی دیکھی جاسکتی ہیں جب کہ چھت غائب ہے۔
البیرونی کی رصدگاہ
شیو مندر کے پاس ہی البیرونی پوائنٹ یا البیرونی کی رصد گاہ واقع ہے جو دور سے بھی نظر آجاتی ہے۔
5 ستمبر 973ء کو موجودہ ازبکستان کے علاقے خوارزم میں پیدا ہونے والے البیرونی کا پورا نام ’’ابوریحان محمد بن احمد‘‘ المعروف البیرونی تھا جو اپنے دور کے بہت بڑے محقق اور سائنس داں تھے۔ وہ خوارزم کے مضافات میں ایک قریہ، ’’بیرون‘‘ میں پیدا ہوئے اور اسی کی نسبت سے البیرونی کہلائے۔ البیرونی بوعلی سینا کے ہم عصر تھے۔
البیرونی کو ’’انڈولوجی‘‘ کا بانی اور جدید جیوڈیسی (سائنس کی وہ شاخ جس میں زمین کی پیمائش اور جغرافیائی مقامات کا تعین کیا جاتا ہے) کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ گیارہویں صدی میں علم کی پیاس البیرونی کو ہندوستان لے آئی جہاں انہوں نے اس خطے کی تاریخ، مذاہب، ثقافت اور سائنس کو ریکارڈ کیا۔
کہتے ہیں کے البیرونی نے سال ہا سال تک پنجاب میں مشہور ہندو مراکز کی سیاحت کی، سنسکرت جیسی مشکل زبان سیکھی اور اس زبان میں دست یاب ادب کا مطالعہ کیا۔ ہندو برہمنوں سے روابط پیدا کیے اور ان سے پرانے علوم سیکھے جو عموماً وہ کسی کو نہیں سکھاتے تھے۔ پھر ہر قسم کی مذہبی، تہذیبی اور معاشرتی معلومات کو قلم بند کر دیا۔
تیار ہونے والے شاہکار کا نام ’’تحقیق ما للھند من مقول مقبول فی العقل او مرذول‘‘ یا ’’کتاب الہند‘‘ رکھا گیا جو عربی زبان میں ہندوؤں پر لکھی گئی پہلی مستند ترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔ اس کتاب کے ذریعے ہندوؤں کی تاریخ سے متعلق جو معلومات وہ بہت کم یاب ہیں۔
ہندوستان میں رہ کر البیرونی نے نندنہ قلعہ میں اپنی ایک رصد گاہ قائم کی اور زمین کے رداس کو قدرے درستی کے ساتھ ناپا۔ انہوں نے نندنہ کو علم حاصل کرنے کے لیے ایک بہترین مقام قرار دیا۔ نندنہ میں کیے گئے تجربات کو انہوں نے اپنی کتاب ’’قانون مسعودی‘‘ میں بیان کیا جس کا نام انہوں نے سلطان محمود غزنوی کے بیٹے اور اس وقت کے حکم راں مسعود کے نام پر رکھا تھا۔ یہ 1030ء میں شائع ہوئی اور اس دور میں ریاضی، نجوم، فلکیات اور سائنسی علوم کے موضوعات پر لکھی گئی دیگر کتب پر بازی لے گئی۔
موجودہ دور میں یہ جگہ ایک چبوترے اور پہاڑی پر مشتمل ہے جس کے بیچ ایک سوراخ ہے جہاں سے غروبِ آفتاب کا دلکش نظارہ دیکھا جا سکتا ہے۔ البیرونی کی وجہ سے ہی اس کمپلیکس کو ’’البیرونی سینٹر‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
گم نام سپاہیوں کا قبرستان
مندر اور مسجد کے کنارے پر کھڑے ہوں تو نیچے کچھ دور پتھر کی بنی چند قبریں نظر آتی ہیں جس کے بارے کہا جاتا ہے کے یہ ان افغانی سپاہیوں کی قبور ہیں جنہوں نے یہاں کے مقامی گکھڑ قبائل کے ساتھ جنگ کی تھی۔ قبریں دیکھنے سے تو کافی پرانی لگتی ہیں لیکن اب ان پہ چونا پھیر دیا گیا ہے۔
کوہِ نمک کے نظارے
قبروں پر فاتحہ پڑھنے کے بعد ہم نے واپسی کے لیے نیا راستہ پکڑا جو پہاڑی کے درے سے ہو کے گزرتا تھا۔ یہاں کوئی ٹریک نہیں تھا، بس پتھر، پہاڑیاں اور مٹی۔
کانٹوں بھری جھاڑیوں اور قدرتی تراش خراش کے حامل پہاڑوں کے خوب صورت درے کو پار کرنے کے بعد ہم ایک تالاب کے کنارے جاٹھہرے جو پہاڑی کے دامن میں تھا۔ سبزی مائل اس تالاب میں ہماری دل چسپی کا خوب سامان تھا، دو کیکڑے، ایک مینڈک اور کئی چھوٹی مچھلیاں۔
عمران بھائی کی طرف سے فوٹو گرافی اور ویڈیوگرافی میں مہارت کے کئی ثبوت دیے گئے جس کے بعد ہم یہاں سے چل پڑے۔ راستے میں مقامی افراد ایک پہاڑ کو توڑ رہے تھے جس سے پتھر، نیچے لڑھکتے اور راستہ بند کردیتے۔ ہمیں دیکھ کے انہوں نے تھوڑی دیر وقفہ کیا تاکہ ہم آرام سے گزر جائیں۔ اور میں سوچنے لگا کہ کتنی مشکل زندگی ہے ان کی۔ کم مزدوری کے عوض پہاڑوں کے بیچ جان ہتھیلی پہ رکھ کے کام کرنا۔
یہ جگہ جہاں سے ہم واپس باغانوالہ کی طرف ٹریک کر رہے تھے پوٹھوہار کی خوب صورتی کا حسین امتزاج تھی۔ نباتات سے عاری منفرد شکل کے پہاڑ، چھوٹے چھوٹے ندی نالے، جھاڑیاں، بڑے پتھر اور سرخی مائل مٹی۔
طبعی خصوصیات، حیوانات و معدنیات
خاص کوہِ نمک کی سطح مرتفع زیادہ تر تحصیل پنڈ دادن خان میں ہے جو کٹے پھٹے پہاڑوں اور بیچ میں زرخیز زمین پر مشتمل ہے۔ یہاں کے زیادہ ندی نالے ریتیلے اور بارانی ہیں اس لیے پانی کو سوچ سمجھ کے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ نالے پہاڑیوں سے گرتے ہیں یا گھاٹیوں سے نکلتے ہیں جنہیں ’’کَس‘‘ یا کَسی کہتے ہیں۔ طوفانی بارشوں کے بعد یہ کئی گھنٹوں تک ناقابلِ عبور رہتے ہیں۔ البتہ کچھ جگہوں پر باریک سا دھارا سارا سال جاری رہتا ہے اور متعدد نالوں کی گزرگاہوں میں جوہڑ بن جاتے ہیں جو انسانوں سمیت مویشیوں کے لیے بھی فائدہ مند ہیں انہیں ’’ترِمکن‘‘ یا دھن کہتے ہیں۔
اسی طرح پانی میں نمک کی زیادتی کی وجہ سے کوہِ نمک کے نباتات بھی زیادہ اہمیت کے حامل نہیں سوائے دریائی علاقوں کی زرخیز مٹی میں اگنے والے درختوں کے۔
حیوانات کا ذکر کریں تو یہ علاقہ اپنے قدرتی خدوخال کی بدولت مختلف حیوانات کو پناہ دیے ہوئے ہے جن میں جنگلی بلے، لگڑ بگڑ، چند اڑیال، چنکارا، باگھ، جنگلی خرگوش، نیولے اور پرندوں میں گدھ، کوے، سنہری زاغ، عقاب اور فلائی کیچر شامل ہیں۔
معدنیات میں یہ علاقہ خود کفیل ہے جہاں سے نمک اور جپسم کے علاوہ تعمیراتی پتھر بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ پلاسٹر آف پیرس کے لیے مختلف قسم کی سرخ مٹی بھی وافر ہے جب کہ کوہِ نمک کے کئی مقامات سے لوہا، تانبا، سلفر اور سیسہ بھی نکالا جا رہا ہے۔
باتیں کرتے اور علاقے کی خوب صورتی کو سموئے ہم نندنہ ریزاٹ تک آ پہنچے جہاں ہماری سواری تیار کھڑی تھی۔ باغانوالہ میں پھر فرید بھائی کے ہوٹل پہ طعام سے لطف اندوز ہوئے اور واپسی پر نیا راستہ پکڑا۔ ہمارا ارادہ ہَرن پور سے وکٹوریہ پل کو کراس کرنے کے بعد منڈی بہاؤالدین، اور پھر آگے جانے کا تھا۔ وکٹوریہ پل تک پہنچے تو معلوم ہوا کے یہاں چلنے والا دریائی بیڑہ آج بند ہے۔ وقت اور انرجی سب ضائع۔ چلیں تب تک آپ کو اس کی تاریخ بتاتا ہوں۔
وکٹوریہ پل اور سندھ ساگر ریلوے؛
ہرن پور کا یہ ریلوے پل برطانوی دور حکومت میں بنائے گئے ریلوے پلوں میں ایک شان دار اضافہ تھا۔ لوہے سے بنا یہ پل موجودہ ضلع جہلم کے ہرن پور اسٹیشن اور منڈی بہاؤالدین کے چک نظام ریلوے اسٹیشن کو ملانے کے لی?ے غالباً 1890 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا، جسے پھر 1936 میں مرمت کر کے بہتر کیا گیا تھا۔
دریائے جہلم پر بنا یہ خوب صورت لوہے کا شاہ کار دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جس کے آس پاس سرسبز کھیت کھلیان ہیں۔
اگرچہ یہ پل ٹرینوں کے لیے ہے لیکن پیدل مسافر اور موٹرسائیکل سوار بھی اسے پار کرتے ہیں، جب کہ گاڑیوں اور دیگر سامان کو بیڑے کے ذریعے پار لگایا جاتا ہے۔
یہ ریلوے لائن، اپنے ’’ڈائمنڈ کراس ریلوے کراسنگ‘‘ کی وجہ سے پورے پاکستان میں مشہور ملکوال جنکشن (جو شورکوٹ-لالہ موسیٰ برانچ لائن پر واقع ہے) سے خوشاب تک جاتی ہے جو ملکوال خوشاب برانچ لائن کہلاتی ہے۔
ملک وال سے خوشاب تک اس برانچ لائن کی تعمیر 1884ء سے 1939ء کے درمیان ’’سندھ ساگر ریلوے‘‘ کے ایک حصے کے طور پر گئی تھی۔ یاد رہے کے دریائے جہلم اور دریائے سندھ کے درمیان کے علاقے کو سندھ ساگر دوآب کہا جاتا ہے۔
مئی 1887ء میں وکٹوریہ پل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد ملکوال سے خوشاب تک جو ریل کی پٹڑی بچھائی گئی۔ اس کا مقصد معدنیات سے مالا مال اس خِطے کو ریل کے ذریعے بقیہ ملک سے جوڑنا اور مال برداری کے لیے سہولت پیدا کرنا تھا۔
اسی لائن کی بدولت مشہور معدنیاتی ذخائر کے حامل شہر جیسے ڈنڈوت، کھیوڑہ اور غریبوال بھی ریلوے کے نظام سے منسلک ہوئے جس سے نمک، جپسم اور سیمنٹ کی ترسیل میں آسان ہوگئی۔
دس کلومیٹر لمبی ’’ڈنڈوٹ لائٹ ریلوے‘‘، تنگ گیج کی پٹڑی پر مشتمل تھی جو 1905 میں ڈنڈوٹ ریلوے اسٹیشن سے چلیسا جنکشن ریلوے اسٹیشن تک چالو کی گئی۔ اسے خاص کھیوڑہ کی کانوں سے نمک کی ترسیل کے لیے بچھایا گیا تھا۔ یہ 1996 میں بند کردی گئی۔
1939 میں جب یہ پل ریلوے ٹریفک کو سنبھالنے جوگا نہ رہا تو اسے پرانے گھاٹوں پر مکمل طور پر دوبارہ گرڈ کرنا پڑا۔ آج کل ملکوال سے پنڈ دادن خان تک یہ ٹریک آپریشنل حالت میں ہے جب کہ آگے کے اسٹیشن ویران پڑے ہیں۔
دریائی بیڑا نہ ملنے پر ہم نے ہمت کی اور لمبا روٹ پکڑا۔ ہرن پور سے براستہ پنڈ دادن خان انٹرچینج پہنچے اور وہاں سے سالم تک موٹروے پر۔ سالَم انٹرچینج سے اتر کے ہم نے گوجرہ (ایک قصبہ) اور کٹھیالہ شیخان سے ہوتے ہوئے منڈی بہاؤ الدین چائے کی بریک لگائی۔ آدھ گھنٹے میں تازہ دم ہو کر ہم منڈی سے پھالیہ، کنجاہ اور گجرات پہنچ گئے۔ آپ بھی اگر آج کل میں نندنہ جانا چاہتے ہیں تو یہی راستہ لیجیے گا۔ کچھ لمبا ہے پر آرام دہ ہے۔
گجرات میں واجد بھائی کو چھوڑتے ہوئے ہم گوجرانوالہ پہنچے جہاں عین وقت پہ رات گئے مجھے بہاول پور کی بس مل گئی۔ بہاول پور سے خان پور کا راستہ بھی طے ہوا اور اگلے دن ہم ڈیوٹی پر۔
کیسے پہنچے؟؟ یہ ہم ہی جانتے ہیں۔
رہے نام اللہ کا۔
The post نندنہ ؛ پوٹھوہار کی بہت سی کہانیوں کا رازدار appeared first on ایکسپریس اردو.