رواں برس دنیا کے 78 ممالک میں پارلیمانی یا صدارتی الیکشن منعقد ہوں گے۔ یہ انسانی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی سال اتنے زیادہ ممالک میں الیکشن ہو رہے ہیں۔
مذید براں ان الیکشنوں میں سوا چار ارب سے زائد ووٹروں کو اپنا ووٹنگ حق استعمال کرنے کا موقع ملے گا۔ یہ بھی انسانی تاریخ میں پہلی بار ہے کہ انسانوں کی اتنی بڑی تعداد ووٹ ڈالے گی۔
وجہ یہ ہے کہ بہ لحاظ آبادی دنیا کے دس بڑے ملکوں میں سے سات(بھارت، امریکا، انڈونیشیا ، پاکستان،بنگلہ دیش،روس اور میکسیکو)میں قومی الیکشن ہوں گے۔
علم سیاسیات کی رو سے الیکشن یا انتخاب یا چناؤ ایسا عمل ہے جس میں عوام ووٹ ڈال کر اپنے حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
مورخین لکھتے ہیں کہ اولیّں ایسے الیکشن ڈھائی تین ہزار سال قبل وادی دجلہ وفرات (میسوپوٹمیا)میں مقیم سمیری اور فونیقی اقوام میں منعقد ہوئے تھے۔مگر ان الیکشنوں میں صرف معاشرے کے معزز لوگ ہی ووٹ ڈال سکتے تھے۔
عام لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہ تھی۔700قبل مسیح میں یونان کی ریاست، اسپارٹا میں پہلی بار عوام کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا ۔یہی نہیں انھیں حکومت میں سراری عہدے بھی دئیے جانے لگے جو پہلے صرف جنگی سرداروں اور دولت مندوں کے خاندان والوں کو ملتے تھے۔
طاقت کا سرچشمہ
انسانی تاریخ سے عیاں ہے کہ اکثر ممالک میں طاقت کا سرچشمہ جرنیل اور جنگی سردار تھے۔اسی لیے کئی ملکوں میں بہت سے حکمران اور بادشاہ اصل میں جرنیل رہے۔مثلاً دور جدید کی سپرپاور، امریکا کاپہلا صدرفوجی افسر بھی تھا۔آج بھی میانمار،نائیجر، سوڈان، لیبیا، یمن، چاڈ،گنی،مالی اور برکینافاسو میں جرینلوں یا فوجی افسروں نے اقتدار سنبھال رکھا ہے۔
جدید دنیا کی نگاہ میں ان ملکوں میں آمریت رائج ہے ، گو بعض جرنیل عوامی رہنماؤں المعروف بہ سیاست دانوں سے زیادہ عوام دوست ہو سکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال سائمن بولیور ہے، ایک جرنیل جسے آج جنوبی امریکا کا سب سے بڑا ہیرو اور عوامی رہنما تسلیم کیا جاتا ہے۔
دور جدید میں ایسے ملک بھی موجود ہیں جہاں جرنیل پس ِپشت رہ کر حکومتی معاملات میں کم یا زیادہ دخیل ہوتے ہیں،جیسے شمالی کوریا، تھائی لینڈ، اریٹیریا اور وسطی افریقن جمہوریہ میں۔ایک تازہ مثال بنگلہ دیش کی ہے جہاں اصل حکومت جرنیلوں کی ہے، تاہم بیگم حسینہ واجد ان کی کٹھ پتلی وزیراعظم کے طور پہ 2009ء سے حکومت کر رہی ہے۔
بنگلہ دیشی فوج نے اس دوران حزب اختلاف کو پیس کر رکھ دیا ہے کیونکہ وہ بھارتی ریاست کی مخالف سمجھی جاتی ہے۔جبکہ جرنیل ابھرتی معاشی وعسکری طاقت، بھارت سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔
فوج وبیوروکریسی کے تعاون سے بیگم حسینہ واجد مملکت کو معاشی ترقی دینے میں کامیاب رہی۔ مگر پہلے کوویڈ وبا اور بھر روس یوکرائن جنگ نے بنگلہ دیشی معیشت کو خاصا نقصان پہنچایا۔حتی کہ حالیہ پارلیمانی الیکشن سے قبل بی بی سی نے اُس پہ ایک مضمون شائع کیا تو بنگلہ دیشی شہریوں نے صحافیوں کو بتایا:
’’ہمارے لیے یہ الیکشن کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور نہ ہی ہمیں یہ پروا ہے کہ کون جیتے گا۔اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ بن چکا کہ اگلے وقت کی روٹی کہاں سے آئے گی۔ ملک میں شدید مہنگائی نے بیشتر شہریوں کو پریشان کر دیا ہے اور انھیں دو وقت کا کھانا پانے کے لیے بہت تگ ودو کرنا پڑتی ہے۔‘‘
اس کے بعد ایسے ممالک کا نمبر ہے جہاں بظاہر سیاست دانوں کا زور ہے تاہم جرنیل بھی اچھی خاصی قوت رکھتے ہیں۔ ان ملکوں میں امریکا، چین، جنوبی کوریا،جرمنی، روس، یوکرائن، برطانیہ، فرانس ، اسرائیل، تائیوان، چین، ہالینڈ، بیلجیم، اٹلی وغیرہ شامل ہیں۔ان ملکوں میں جرنیلوں کے مشوروں اور تجاویز کو کافی اہمیت دی جاتی ہے۔
آخر میں ایسے ممالک آتے ہیں جہاں حکومتی معاملات سیاست دانوں، پیشہ ور ماہرین اور بیوروکریسی کے ہاتھ میں ہیں۔
ملکی انتظام بہتر انداز میں چلانے کے لیے جرنیلوں سے مشورے ضرور کیے جاتے ہیں ، لیکن ضروری نہیں کہ اُن کا کہے پہ عمل درآمد بھی ہو۔یہی ممالک حقیقی طور پہ جمہوری ہیں کہ وہاں عوامی نمائندے قوت واختیار رکھتے ہیں۔ایسے ملکوں میں سویڈن، ناروے، کینیڈا، ڈنمارک، فن لینڈ ،آئرلینڈ، آئس لینڈ، سوئٹزرلینڈ وغیرہ شامل ہیں جنھیں فلاحی ریاستیں بھی کہا جاتا ہے۔
٭٭
جمہوریت کو بہترین نظام حکومت تصور کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب ایک نظام کو چلانے والے قابل اور دیانت دار ہوں تب ہی وہ کامیابی سے ہمکنار ہو سکتاہے۔اسی لیے کئی ممالک میں بظاہر جمہوریت نہیں مگر وہاں عوام بہرحال ترقی کر رہے ہیں اور خوشحال بھی ہیں۔
اس امر کی نمایاں مثال چین ہے۔ جمہوری نظام میں ’ایک شخص ایک ووٹ‘ کی بنیاد پر حکومت تو منتخب ہو کر آ جاتی ہے لیکن اس کا انحصار ووٹروں کی اپنی قوت فیصلہ اور امیدواروں کی صلاحیت پر ہے کہ وہ کیسی حکومت بناتے ہیں؟ جمہوری نظام میں غیرتعلیم یافتہ اور قوت فیصلہ سے محروم شخص بھی نہ صرف ووٹر ہوتا بلکہ انتخاب بھی لڑ سکتا ہے۔
جاگیردارانہ معاشرے میں مزارعین اور ہاریوں کی باگ ڈوردیہی خداؤں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔عوام کی اپنی کوئی ذاتی رائے اگر ہو بھی تو اس کی کوئی قدروقیمت نہیں۔
لہٰذا ایسے جمہوری انتخابات طاقت و اثرورسوخ کی بنیاد پر لڑے جاتے ہیں۔اس کا نتیجہ عموماً یہی نکلتا ہے کہ غلط اور نااہل لوگ حکومت پر قابض ہو جائیں۔ اسی قسم کی جمہوریت کے بارے میں علامہ اقبال فرماتے ہیں:
اس راز کو ایک مردِ فرنگی نے کیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اس قسم کی جمہوریت کے عیوب و اثرات اتنے متنوع ہیں کہ ان کا ذکر دلچسپی کا باعث بھی ہے اور سامانِ عبرت بھی۔
٭٭
ہری پور ہزارہ کے ایک گاؤں، پنڈخان خیل میں صدر ایوب خان کے زمانے میں بنیادی جمہوریتوں کے انتخابات ہورہے تھے۔
گاؤں میں ایک مدبر‘ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار شخصیت، علی بہادر خان کی صورت موجود تھی۔وہ کینیا میں محکمہ ڈاک کے ایک عہدے سے ریٹائرڈ ہوکر اب اپنے گاؤں میں مقیم تھے۔ انہیں برطانوی حکومت سے ایم بی ای کا خطاب بھی ملا تھا۔ انھوں نے گاؤں والوں سے کہا ’’مجھے اپنا نمائندہ بنالو‘ میں ہر جگہ تمہاری نمائندگی کر سکوں گا۔‘‘
لیکن چونکہ گاؤں میں خان موصوف کی اپنی برادری کے بہت کم ووٹ تھے، اس لیے ایک ان پڑھ شخص جس کی برادری کے ووٹ زیادہ تھے ‘ کامیاب ہوگیا۔
گاؤں نے ایک نااہل شخص کو اپنا نمائندہ بنانے سے کافی نقصان اٹھایا۔ کچھ عرصے بعد یہ گاؤں تربیلا جھیل کی نذر ہو گیا۔مناسب نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے معاوضے بھی صحیح نہیںملے اور غیرضروری تاخیر بھی ہوئی۔
٭٭
وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے سندھ کے وزیرتعلیم کو فوری طور پر تبدیل کرنے کی ہدایت کی ۔یہ ضرورت اس لیے پیش آئی کہ گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی کے ایک رکن نے جب سوال میں کچھ انگریزی الفاظ بولے تو وزیرتعلیم اس سوال کو نہ سمجھ سکے حتی کہ سپیکر کو سندھی میں ترجمہ کر کے انہیں سوال سمجھانا پڑا۔ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ موجودہ وزیرتعلیم کی جگہ کسی پڑھے لکھے شخص کو وزیرتعلیم مقرر کیا جائے۔
(اخبار کی خبر ‘ 22 نومبر 1994ء )
٭٭
پنجاب اسمبلی کے بارے میں یہ دلچسپ انکشاف سامنے آیا کہ اس کے 25 ارکان بالکل ناخواندہ یا دوسرے لفظوں میں ’چٹے ان پڑھ‘ ہیں جبکہ 75 ارکان میٹرک یا ایف اے پاس ہیں۔ علاوہ ازیں یہ انکشاف بھی ہوا کہ نواز لیگ کے ارکان کی زیادہ تعداد تعلیم یافتہ ہے جبکہ ان پڑھوں کی زیادہ تعداد پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتی ہے۔ (سرراہے‘ 21جولائی 1995ئ)
٭٭
جمہوری نظام کا ایک عجوبہ یہ بھی ہے کہ ووٹروں کی اکثریت جس جماعت کو ووٹ دے‘ ضروری نہیں کہ وہ حکومت بھی بنائے بلکہ جس جماعت کے زیادہ رکن بنیں وہ حکومت بنانے کی حق دار ہوتی ہے۔
مثلاً 1993ء کے قومی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی سے زیادہ ووٹ لیے لیکن چونکہ انتخابات جیتنے والے زیادہ رکن پیپلزپارٹی کے تھے، اس لیے وہ اپنی حلیف جماعتوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔
یہ بھی ضروری نہیں کہ انتخابات میں جو جماعت اکثریت حاصل کر لے اور چاہے اسمبلی کے دو تہائی ممبران اسی کے ہوں‘ اسے حکومت کرنے کا حق ضرور حاصل رہے۔
اسی طرح اگر صدر کسی اکثریتی جماعت کی حکومت کو برطرف کر دے اور عدالت عالیہ اس فیصلے کو غلط قرار دے کر حکومت بحال کرنے کا حکم جاری کر دے تو بھی ضروری نہیں کہ اکثریتی جماعت کی حکومت قائم رہنے دی جائے گی۔
جمہوریت کے اعجوبوں کا ذکر یہیں ختم نہیں ہوتا۔ ایوان نمائندگان کے میدان جنگ میں تبدیل ہو جانے پر بھی جمہوریت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ بقول پاکستانی سیاست کے بعض بزرجمہروں کے‘ مغربی دنیا میں بھی ایسا ہوتا رہتا ہے۔ یعنی ان لوگوں کی اچھی باتوں کو اپنانا ضروری نہیں البتہ برُے پہلو ضرور قابلِ تقلید ہیں۔
قیام پاکستان کو زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر ،شاہد علی اسمبلی کے اندر ہونے والی ہنگامہ آرائی میں مارے گئے۔ارکان اسمبلی ایک دوسرے پہ اشیا پھینک رہے تھے کہ ایک پیپرویٹ شاہد علی کے سر پہ جا لگا۔ وہ شدید زخمی ہو گئے اور دو دن بعد چل بسے۔
اس طرح ایک بار پاکستان کی مرکزی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف اور ان کی جماعت نے صدر غلام اسحاق خان کی تقریر کے دوران ’’گو بابا گو‘‘ (جاؤ بابا جاؤ)کے نعرے لگائے اور میزیں بجا بجا کر تقریر سننے سے انکار کیا۔
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے‘ بعد کو صدر فاروق لغاری کی تقریر کے دوران اسی قسم کے نعرے اس وقت کی حزب اختلاف نے بلند کیے اور اجلاس میں خاصی ہنگامہ آرائی کی خبریں بھی آئیں۔
٭٭
قابل اور تجربے کار امیدواروں کے مقابلے میں نااہل اور غیرتعلیم یافتہ لوگوں کے انتخاب لڑنے کے واقعات بے شمار ملتے ہیں اور بعض اوقات نااہل اشخاص جیت بھی جاتے ہیں۔
لاہور میں تقسیم ہند سے پہلے ارائیں برادری کی اکثریت تھی۔صوبائی اسمبلی میں بھی اسی برادری کا رکن ہوتا تھا۔ میاں عبدالعزیز بیرسٹر اسی برادری سے تھے جو لاہور کے میئر بھی رہے۔ ایک دفعہ انھوں نے اپنے دوست ،علامہ اقبال ؒکو اپنی نشست پر انتخاب لڑنے کی دعوت دی۔
اس کے بعد اپنی برادری کو ترغیب دی کہ کوئی شخص ان کے مقابلے میں کھڑا نہ ہو لیکن میدان خالی پا کر ایک کم علم ارائیں نے مقابلے کی ٹھانی۔ لاہور میں علامہ اقبال کی مقبولیت مسلمہ تھی لیکن ارائیں برادری کے ووٹ تقسیم ہونے کا خدشہ تھا۔
انتخابات کی سرگرمیاں شروع ہوئیں تو علامہ کے حامی میدان میں آگئے۔ لال دین اختر ایک مشہور سیاسی کارکن تھے‘ وہ جلسوں اور جلوسوں میں ایک پنجابی نظم پڑھا کرتے تھے جس میں اس ارائیں امیدوار پر پھبتیاں کسی گئیں۔لاہور میں چونکہ سمجھدار طبقے کی اکثریت تھی، اس لیے علامہ اقبال کامیاب رہے۔
٭٭
یو پی (موجودہ بھارت) میں دو تعلقہ دار ایک دوسرے کے مقابلے پر انتخابات میں کھڑے ہوئے۔ جب ایک امیدوار نے محسوس کیا کہ اس کے حریف کا پلہ بھاری ہے تو اس نے زرضمانت کی قربانی دے کر اپنی جگہ ایک طوائف کو کھڑا کر دیا۔ یہ دیکھ کر اس کے حریف نے پوسٹر چھپوائے جن پر یہ شعر لکھا:
دل تو دیجئے دلبربا کو
ووٹ شمس الدین کو
جیسا کہ متوقع تھا‘ طوائف کی ضمانت ضبط ہو گئی لیکن شمس الدین کے لیے یہ طعنہ ہمیشہ کے لیے رہ گیا کہ ایک طوائف سے جیتے تو کیا کمال کیا۔
٭٭
امریکا اور برطانیہ جمہوریت کے علم بردار شمار ہوتے ہیں لیکن ان کے ہاں کی جمہوریت بھی اعجوبوں سے بھرپور ہے ۔مثلاً جس طرح امریکا کے چیف جسٹس کے لیے قانون داں ہونا ضروری نہیں اسی طرح برطانوی دارالعوام کا اسپیکر واحد رکن ہوتا ہے جسے تقریر کرنے کی اجازت نہیں۔
مغربی دنیا کی سیاست میں مقبولیت کے انداز بھی نرالے ہیں۔ عوام چاہیں تو مجرموں کو سر پر چڑھائیں‘ چاہیں تو سیاسی تجربہ رکھنے والے صدر کو واٹرگیٹ سکینڈل کی نذر کر دیں۔
لانڈرو فرانس کا ایک بدنام مجرم تھا جس پر گیارہ عورتوں کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ اس پر طویل عرصے تک مقدمات چلتے رہے اور اس دوران وہ اس قدر مشہور ہو گیا کہ اس نے فرانس کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا۔16نومبر 1919ء کو منعقدہ انتخابات میں اسے کئی ہزار ووٹ مل گئے۔
٭٭
عام طور پر انتخابات میں جو شخص اپنے حریفوں سے زیادہ ووٹ لے اسے کامیاب قرار دیا جاتا ہے لیکن برطانیہ میں ایسا بھی ہوا کہ ایک شخص نے صرف ایک ووٹ لیا اور وہ بھی اس کا اپنا تھا… لیکن وہ دارالعوام کا رکن منتخب ہو گیا۔ یہ 1794ء کا واقعہ ہے۔
مشہور اخباری کارٹون سیریز، رپلے، مانو یا نہ مانو(Ripley’s Believe It or Not!) میں درج ہے کہ فریڈرک سٹوارٹ بیوٹ شائر ضلع کا نمائندہ تھا جس کی آبادی چودہ ہزار تھی لیکن صرف تئیس افراد ووٹ دینے کے اہل تھے۔انتخابات کے موقع پر22 آدمی غیر حاضر تھے‘ یوں فریڈرک صرف اپنا ووٹ دے کر دارالعوام برطانیہ کا رکن بن گیا۔
٭٭
ایک بار نیویارک کے ایک کلب کے ارکان نے نئے سال کے عہدے دار منتخب کرتے وقت گزشتہ سال کے عہدے دار دوبارہ اس لیے منتخب کر لیے کیونکہ کلب کے دفتری پیڈ کی دو ہزار جلدیں بچی پڑی تھیں اور ان پر عہدے داروں کے نام چھپے ہوئے تھے۔
٭٭
ست لینڈن لاروش(Lyndon LaRouche) امریکا کی ایک دلچسپ شخصیت رہی ہے۔ اسے فراڈ کے ایک مقدمے میں 15 سال قید ہوئی تھی لیکن صرف ایک تہائی قید کاٹنے کے بعد اسے رہا کر دیا گیا۔ اس کی وجہ شہرت یہ ہے کہ1976ء سے لے کر 2004 ء تک وہ ہر صدارتی انتخاب میں بطور امیدوار حصہ لیتا رہا ۔یہ ریکارڈ ابھی تک کوئی امریکی امیدوار نہیں توڑ سکا۔ 1992ء میں بھی وہ صدارتی امیدوار تھا اور جیل کے اندر سے اپنی انتخابی مہم چلاتا رہا۔
1996ء میں ہونے والے انتخابات میں وہ پھر کھڑا ہوا۔ عدالت نے اسے انتخاب لڑنے کی اجازت تو دے دی لیکن اس پر پابندی لگا دی کہ وہ خود کو یا کسی دوسرے امیدوار کو ووٹ نہیں دے سکے گا۔
٭٭
امریکا کی دو مشہور سیاسی جماعتوں سے کون واقف نہیں یعنی ڈیموکریٹک اور ریپبلکن! ان دونوں جماعتوں کے لیڈروں کے درمیان مستقل جھڑپ رہتی ہے۔ ایک دوسرے پر طنز و مذاق کے چھینٹے ڈالے جاتے ہیں اور پھبتی کے ایسے ایسے شاہکار مرتب ہوتے ہیں کہ باید و شاید۔
پروفیسر جولیس ایچ میلوے1876ء میں امریکی کانگرس کا رکن منتخب ہوا۔ اس نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے ریپبلکن اور ڈیموکریٹک امیدواروں کو شکست دے کر یہ بلند رتبہ حاصل کیا تھا۔ لیکن اس کی انتخابی مہم کا کل خرچ صرف تین سینٹ تھا جو اس نے اپنی درخواست پر ٹکٹ لگانے کی صورت میں ادا کیا۔آج اتنے کم بلکہ برائے نام خرچ پر انتخاب میں حصہ لینے کا تصور بھی محال ہے۔
٭٭
مارگن بلکلے (Morgan Bulkeley )چار سال تک کنکٹی کٹ ریاست (امریکا) کا گورنر رہا حالانکہ نہ وہ امیدوار تھا نہ ہی منتخب ہوا۔ وہ جنوری 1889 ء میں عبوری گورنر بنا۔اس کے بعد ریاستی اسمبلی1890ء میں گورنر کے انتخاب میں جیتنے والے امیدوار پر متفق نہ ہو سکی چنانچہ نارمن 1893ء تک اسی عہدے پر کام کرتا رہا۔
٭٭
پاکستان میں بھی جنرل یحییٰ کئی سال تک منصب صدارت پر فائز رہے حالانکہ وہ منتخب ہوئے نہ صدارت کا حلف اٹھایا۔پاکستان میں غیرمنتخب صدور کی معقول تعداد پائی جاتی ہے۔
٭٭
میجر جنرل ایرل شیرون اسرائیل کا وزیراعظم رہا ہے۔ 1973 ء میں اسرائیلی پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا۔فلسطینی عرب اسے ’’بیروت کا قصائی ‘‘کہتے ہیں۔ اس کا قول ہے’’میں سیاست کے میدان میں ابھی داخل ہوا ہوں اور یہ مجھے جنگ کے میدان سے زیادہ خطرناک معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ میدان جنگ میں آپ کو صرف دشمن سے لڑنا پڑتا ہے لیکن سیاست میں آپ کو چومکھی لڑائی لڑنی پڑتی ہے حتی کہ اپنے ساتھیوں سے بھی۔‘‘
٭٭
عام انتخابات جس قسم کے بھی ہوں ،بڑی دلچسپی کے حامل ہوتے ہیں۔ امریکا کی ریاست نیوجرسی کے شہر کیمڈن میں ۱۹۷۳ء میں میئر بننے کے لیے آٹھ امیدواروں نے انتخاب میں حصہ لیا۔ ان میں ایک امیدوار قتل کے جرم میں پندرہ سال قید کی سزا بھگت چکا تھا۔ ایک دوسرے امیدوار پرقاتلانہ حملے کاالزام تھا۔ تیسرے امیدوار نے ایک بار کسی کو قتل کی دہمکی دی تھی اور گرفتار بھی ہوا تھا۔ چوتھے امیدوار کے خلاف دھوکہ دہی سے لے کر چوری تک کے مقدمے درج تھے۔ (اخبارکی خبر …2 جنوری 1981ء )
٭٭
پھولن دیوی بھارت میں ’’ڈاکوؤں کی ملکہ‘‘ کے خطاب سے مشہور تھی۔ اس نے گیارہ سال جیل میں گزارے۔ 1994 ء میں اتر پردیش(بھارت ) کے وزیراعلیٰ ملائم سنگھ یادیو نے اس پر عائد کیے ہوئے الزامات ختم کر کے اسے رہا کرادیا۔ بعد کو وہ بھارت کی لوک سبھا کے انتخاب میں کامیاب ہو کر رکن پارلیمنٹ بن گئی۔
اس پر پھر فلم بنائی گئی جس سے اس کی شہرت دنیا بھر میں ہوئی۔ برطانوی دارالعوام میں حزب اختلاف کی مس ملڈرڈگورؤن ین نے اسے1998ء کے امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا۔
٭٭
دنیا کے اکثر جمہوری ممالک کی مجالس قانون ساز پرامن اور خاموش شمار کی جائیں گی اگر ان کا موازانہ فرانس کی مجلس نمائندگان سے کیا جائے۔ اس کا 1951ء کا ریکارڈ یہ ہے:
سوشلسٹ پارٹی کے ارکان سب سے زیادہ پرامن اور شریف ثابت ہوئے ‘ انہوں نے لفظ ’’جھوٹا‘‘ صرف 97 دفعہ استعمال کیا۔ اس کے علاوہ کیمونسٹ ممبران نے لفظ ’بدمعاش‘ سو دفعہ‘ قاتل 179 دفعہ ‘خنزیر204 دفعہ‘ فاشسٹ 274 دفعہ‘ گورکن 18 دفعہ اور پدار 8 دفعہ استعمال کیا۔113 دفعہ ایسے الفاظ استعمال کیے جو اشاعت کے قابل نہیں۔
برسراقتدار جماعت کے ارکان نے یہ خطابات استعمال کیے:سٹالن کے چمچے32دفعہ‘ گندے مچھلی فروش17 دفعہ‘ پاگل21 دفعہ‘ غدار19 دفعہ‘ بدمعاش128 دفعہ‘ غنڈے120 دفعہ۔کیمونسٹوں اور ان کے مخالفین میں سینتیس مواقع پر ہاتھا پائی بھی ہوئی۔
٭٭
کیمونسٹ دور میں روس میں جو سویت یونین کہلاتا تھا، جمہوریت کا یہ عالم رہا کہ صدر کا انتخاب صرف پولٹ بیورو کے چودہ ارکان کرتے تھے۔
٭٭
یہ امریکا کے قیام کے ابتدائی دنوں کا قصہ ہے۔فلاڈیلفیا (امریکا) میں آئینی کنونشن کے موقع پر ایک رکن نے یہ تجویز پیش کی کہ امریکا کی باقاعدہ فوج پانچ ہزار فوجیوں تک محدود کر دی جائے۔ جارج واشنگٹن جو صدارت کررہا تھا اور بطور صدر تحریک پیش نہیں کر سکتا تھا‘ اس نے اپنے قریب بیٹھے ایک رکن کو آہستگی سے کہا’’تم تحریک پیش کرو کہ کوئی بیرونی دشمن تین ہزار فوجیوں سے زیادہ تعداد سے ہم پر حملہ نہ کرے۔‘‘
٭٭
ایک بھارتی سکھ‘ کاکا جوگندر سنگھ نے 1962ء سے لے کر 1998 تک تین سو سے زیادہ مرتبہ انتخابات لڑ ے مگر ہر دفعہ ناکام رہا ۔ اس کا تعلق ایک کاروباری گھرانے سے تھا۔ وہ صوبائی اسمبلی کی220 اور مرکزی اسمبلی کی100 نشستوں سے انتخاب لڑا۔ ایک دفعہ وہ ترانوے نشستوں سے بطور امیدوار کھڑا ہوا۔ وہ ہر دفعہ ہارتا مگر انتخاب لڑنے کو مشغلے کے طور پر اختیار کیے رکھا۔ وہ نہ ووٹ مانگنے جاتا نہ کسی کو اپنا پولنگ ایجنٹ بناتا ۔ وہ عمرانیات اور فلسفے میں ایم اے تھا اور ایک دفعہ بھارت کے صدارتی انتخاب میں بھی حصہ لے چکا ۔
٭٭
تمام جمہوری ممالک میں مجلس قانون ساز سے باقاعدہ منظور کیا ہوا آئین نافذ ہے۔ برطانیہ میں گو آئینی بادشاہت ہے اورنظام جمہوری شمار ہوتا ہے پھر بھی وہاں کوئی تحریر شدہ آئین نہیں۔ وکٹوریا ٹاور میں1497ء سے لے کر اب تک کے پارلیمنٹ کے منظور شدہ ایکٹ محفوظ ہیں اور وہ ہی برطانیہ کے قانون کا درجہ رکھتے ہیں۔
عوام نے گدھے کو اپنا لیڈر بنا لیا
1994ء میں میکسکیو میں سینیٹ کاالیکشن ہوا۔میکسکین سینٹ میں ہر ریاست سے تین سینیٹر منتخب ہو کر جاتے ہیں۔ ریاست،گیریرو کے علاقے چلپا ڈی الوریز(Chilapa de Álvarez) میں عوام اپنے سینٹر، سیزر مینڈوزا (cesar mendoza) سے بہت ناخوش تھے۔اس نے پچھلے چھ سال میں عوام کی فلاح وبہبود کے لیے ایک ٹکے کا کام نہیں کیا تھا۔مگر وہ دوبارہ الیکشن میں کھڑا ہو گیا۔
چلپا ڈی الوریز کے عوام نے تبھی متفقہ طور پہ دیابلو(diablo) نامی ایک آٹھ سالہ گدھے کو اس کے مقابلے پر کھڑا کر دیا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کے مانند علاقے میں پھیل گئی۔ الیکشن والے دن لوگ جوق در جوق ووٹ ڈالنے آئے …صرف اس لیے کہ دیابلو کو جتوا سکیں۔اس طرح ایک گدھا سیزر مینڈوزا کے مقابلے میں بھاری اکثریت سے جیت گیا۔
اس عجیب وغریب الیکشن کو پورے میکسیکو میں شہرت ملی۔ بعد ازاں میکسیکن سپریم کورٹ نے علاقے میں ہوا الیکشن کالعدم قرار دے ڈالا، تاہم چلپا ڈی الوریز علاقے کے عوام کا مطلب پورا ہو گیا۔ قومی تحقیقاتی ادارے سیزر مینڈوزا کے خلاف تحقیق کرنے لگے۔ اسے سیاست کے میدان سے باہر نکال دیا گیا اور وہ پھر کبھی سینٹر نہیں بن سکا۔
The post الیکشن کا میلہ سج گیا appeared first on ایکسپریس اردو.