حیدرآباد: حیدرآباد کی سرزمین کو اس خطے میں ایک تاریخی حیثیت حاصل رہی ہے جو اسے بالخصوص مذہبی تنوع اور رواداری کے حوالے سے ایک خاص مقام عطا کرتی ہے۔ یہاں شعوروعلم کے فروغ کے لیے بھی بہترین کوشش بروئے کار لائی جاتی رہیں۔
حیدرآباد زمانۂ قدیم ہی سے علم و ادب اور تہذیب کا گہوارہ رہا ہے۔ حیدرآباد کے عوام کی مہمان نوازی، رواداری اور علم دوستی ساری دنیا میں مشہور ہے۔
اس کو فروغ دینے اور پروان چڑھانے میں نام ور شعرائ، ادیبوں، فن کاروں، علماء اور اہل کمال نے گراں بہا کارنامے انجام دیے، جس کے اجلے نقوش آج بھی موجود ہیں، جن شعراء اور ادبا نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے اردو زبان و ادب اور تہذیب کی خدمت انجام دی ان میں پروفیسر انوار احمد زئی کا نام بھی شامل ہے۔
پروفیسر انوار احمد زئی ممتاز ماہرتعلیم، بیوروکریٹ ادیب ہونے کے ساتھ مذہبی اسکالر، شاعر محقق، نقاد، افسانہ نگار اور سفرنامہ نگار بھی تھے۔ وہ بھارت کے شہر جے پور میں 18 ستمبر1944ء کو پیدا ہوئے۔ ہجرت کے بعد حیدرآباد سندھ ان کا مسکن ٹھہرا۔ ان کی ابتدائی تعلیم کا بڑا حصہ حیدرآباد ہی میں مکمل ہوا۔
آپ نے ایک ذی علم گھرانے میں پرورش پائی۔ آپ کے گھر کا ماحول خاصا ادبی تھا۔ آپ کے ماموں شاعر تھے، نانا کو بھی علم و ادب سے گہری دل چسپی تھی۔ آپ نے علامہ شبلی نعمانی کی ’’سیرت النبیؐ‘‘ اور قاضی عبدالغفار کی بیشتر تحریریں دور طالب علمی ہی میں پڑھ لی تھیں۔ آپ نے سندھ یونیورسٹی جامشورو سے ایم اے اردو، ایم اے سوشیالوجی، ایم اے انگلش کے علاوہ ایل ایل بی اور ایم ایڈ امتحانات میں گولڈ میڈل حاصل کیے۔ تعلیم اور قانون کی اسناد حاصل ہونے کے باعث ان کے موضوعات کا تنوع حیران کن ہے۔
پھر اپنے وسعت مطالعہ کے سبب مذہب اور متعلقات مذہب کے بارے میں اس قدر مہارت کے حامل تھے کہ ہر ایک موضوع پر گھنٹوں بے تکان بولتے۔ انتہائی درجے کے فاضل ہونے کے باوجود حددرجے کا انکسار اور ہر نوعیت کے کارخیر کے لیے ہمہ وقت ان کی آمادگی ایسے اوصاف ہیں جن پر بڑی سے بڑی کم زوری بھی قربان کی جاسکتی ہے، اور ہمارے معاشرے سے تیزی سے مفقود ہوتی ہوئی یہ صفات وہ ہیں جن کا متبادل دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔
پروفیسر انوار احمد زئی کی گفتگو انتہائی مربوط، موضوع کے مطابق اور دل چسپ ہوتی تھی۔ وہ وضع داری، رواداری، محبت اور اخلاقی قدروں کا بھرپور خیال رکھتے تھے۔ ملازمت کا آغاز والد صاحب کے قائم کردہ مسلم ہائی اسکول لطیف آباد سے کیا جہاں آپ پہلے ہیڈ ماسٹر تھے۔ آپ کو حیدرآباد کا سب سے کم عمر ہیڈ ماسٹر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
بعد میں یہ اسکول قومیا لیا گیا۔ راقم کو بھی بطور ہائی اسکول ٹیچر (HST) اس اسکول میں پندرہ سال پڑھانے کا اعزاز حاصل ہے۔ آپ 1971ء میں کمیشن پاس کرکے سٹی کالج میں لیکچرار ہوئے اور ترقی کرتے ہوئے شعبۂ تعلیم کے کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے، جن میں DEO میرپور خاص تھرپارکر، DEO کراچی، ڈائریکٹر اسکولز کراچی، ایڈیشنل پلاننگ اینڈ کوآرڈی نیشن سیکریٹری، چیئرمین سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ، پہلے چیئرمین میرپورخاص تعلیمی بورڈ، چیئرمین انٹرمیڈیٹ تعلیم بورڈ کراچی، چیئرمین میٹرک تعلیمی بورڈ کراچی کے مناصب شامل ہیں۔
آپ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان تعلیمی بورڈز کے چیئرمینوں کے چیئرمین رہے۔ ڈاکٹر ضیاء الدین تعلیمی بورڈ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کی حیثیت سے مصروف عمل رہے۔ یہ بورڈ بھی ان ہی کی کاوشوں سے منظور اور فعال ہوا۔
اس کے بھی بانی ڈائریکٹر کی حیثیت آپ کو حاصل ہے۔ انتقال سے قبل پروفیسر انوار احمد زئی ضیاء الدین یونیورسٹی کے ایگزامیشن بورڈ کے چیئرمین کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ وہ نعت ریسرچ سینٹر کراچی کے چیئرمین بھی تھے۔ انھوں نے حکومت پاکستان کے مختلف سطح کے وفود کی سربراہی کرتے ہوئے ہندوستان، بنگلادیش، امریکا، جنوبی کوریا، سعودی عرب، برطانیہ اور دیگر ممالک کے دورے کیے۔
پروفیسر انوار احمد زئی نے ادبی میدان میں شروعات کہانیوں سے کی، پھر افسانے لکھے، آپ کا پہلا افسانہ 1963ء میں ’’بیسویں صدی‘‘ دہلی میں چھپا تھا۔ آپ ان دنوں سٹی کالج حیدرآباد میں زیرتعلیم تھے۔ اس زمانے میں ’’بیسویں صدی‘‘ میں کسی نئے لکھنے والے کی تحریر کا شائع ہوجانا بہت بڑی بات تھی۔ اس افسانے کا عنوان تھا ’’درد کا رشتہ‘‘ آپ کے افسانوی مجموعے کا نام بھی یہی تھا، جو 1968ء میں شائع ہوا۔ اس وقت حیدرآباد میں ادبی مسابقت کا دل کش ماحول تھا۔
مجلس مصنفین، جلیسان ادب، بزم تخلیق، بزم فروغ ادب اور بزم اسعدی وغیرہ ادب کے فروغ کے لیے سرگرم عمل تھیں۔ اس کے علاوہ کالجوں میں بھی ادبی حلقے کام کررہے تھے۔ مجلس مصنفین کے تحت منعقدہ ہونے والی پندرہ روزہ ادبی نشستوں نے نئے لکھنے والوں کے لیے ’’نرسری‘‘ کا کام انجام دیا۔ سٹی کالج اور سندھ کالج آف کامرس میں پندرہ روزہ توسیعی لیکچرز کا سلسلہ اور بُک اسٹڈی سرکل کے زیراہتمام کتابوں کے مطالعے کا جو سلسلہ تھا، اس نے حیدرآباد کی فضا کو ادبی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
مجلس مصنفین میں مرزاعابد عباس، پروفیسر سید قوی احمد، سید کاظم رضا، رضوان صدیقی، ڈاکٹر خالد وہاب، ڈاکٹر الیاس عشقی، ڈاکٹر حسن منظر، محمود صدیقی، نور اظہر جعفری اور دیگر احباب نے بڑا کام کیا۔ اس طرح تصنیف و تالیف کے حوالے سے بھی ان ادبی تنظیموں نے نئے لکھنے والوں کی بڑی حوصلہ افزائی کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں جو نوجوان ان ادبی محفلوں سے وابستہ رہے آج وہ بھرپور تخلیقی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بیرون حیدرآباد بھی اس وقت کے لوگ ترویج ادب کے لیے کام کررہے تھے۔
پروفیسر انوار احمد زئی نے بھی علم و ادب کی ڈھیروں شمعیں روشن کی تھیں۔ آپ نے بہت کچھ لکھا ہے اور لکھے ہوئے حروف کبھی نہیں مٹتے۔ پروفیسر انوار احمد زئی کا شمار ان قلم کاروں میں ہوتا تھا جنہوں نے حیدرآباد کی ادبی فضا کو فعال اور متحرک بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’درد کا رشتہ‘‘ حیدرآباد کی افسانوی تاریخ میں پہلا افسانوی مجموعہ تھا۔ اس سے پہلے یہاں سے کوئی افسانوی مجموعہ شائع نہیں ہوا۔ آپ کے اساتذہ میں اکثریت افسانہ نگاروں کی تھی۔ آپ کے کالج میں استاد مرزا عابد عباس تھے۔
ان کے ادبی مرثیے سے کون واقف نہیں، وہ بہترین معلم کے علاوہ ممتاز افسانہ نگار اور فلسفی بھی تھے۔ ڈاکٹر خالد وہاب بھی آپ کے استاد تھے۔
اسی طرح یونیورسٹی میں ڈاکٹر احسن فاروقی آپ کے استاد تھے۔ پاکستان کے علاوہ ہندوستان میں بھی بیشتر ادبی رسائل و جرائد میں آپ کی کہانیاں شائع ہوئیں۔ ’’درد کا رشتہ‘‘ آپ نے افسانوی مجموعے میں ان کہانیوں کا انتخاب کیا جس میں زندگی اور نوجوانی میں سامنے آنے والے معاملات، مسائل، مشکلات اور آسائشیں، وہ کیفیات ہیں جو انسان کو کیف میں مبتلا کردیتی ہیں اور وہ لمحات ہیں جو انسان کو کرب میں مبتلا کردیتے ہیں۔ 1965ء کی جنگ کا حوالہ بھی اس کتاب میں ہے۔ مشرق وسطیٰ کے حالات، بیروت اور کشمیر کی صورت حال پر بھی آپ نے قلم اٹھایا ہے۔ آپ کا ایک افسانوی مجموعہ ’’آنکھ سمندر‘‘ 2001ء میں شائع ہوا تھا۔
اس میں زندگی کے متنوع معاملات موجود ہیں۔ آپ نے کئی ممالک کی سیاحت کی۔ ہجرت کا کرب آپ کے افسانوں میں موجود ہے۔ آپ کی کتاب ’’آنکھ اور سمندر‘‘ کو پوری اردو ادب کی دنیا میں اکیسویں صدی کی پہلی کتاب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ آپ کی اہلیہ پروفیسر نسیم نکہت سیما نے آپ کے مضامین کا ایک انتخاب ’’قلم گوید‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ پروفیسر انوار احمد زئی کا تیسرا افسانوی مجموعہ آپ کے بھائی ڈاکٹر مسرور احمد زئی نے ’’دل دریچے‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ آپ نے پاکستان کی اہم ادبی اور علمی شخصیات پر منفرد خاکے لکھے تھے، لیکن یہ کتاب آپ کی زندگی میں شائع نہیں ہوسکی، بعد میں آپ کے بھائی نے ’’بادل جزیرے‘‘ کے نام سے یہ مجموعہ شائع کیا۔
پروفیسر انوار احمد زئی نے بچوں کے لیے بہت سی تدریسی کتابیں بھی لکھیں اور اپنے مرشد حضرت ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان صاحب کے مضامین کا ایک مجموعہ متفرق مضامین کے نام سے مرتب اور شائع کیا۔ ’’بادل جزیرے‘‘ ان کا آخری تحفہ ہے۔
یہ کتاب خاکہ نگاری کی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہوگی۔ آپ کا سفرنامہ عام سفرناموں کی ڈگر سے بہت ہٹا ہوا ہے۔ آپ کے سفرنامے پر مشتمل کتاب ’’دیس پردیس‘‘ شائع ہوئی تو اس وقت ڈاکٹرغلام مصطفیٰ خان، ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر اسلم فرخی جیسے صاحبان علم و ادب نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے آپ کے سفرناموں کو دوسرے سفرناموں سے مختلف قرار دیا۔ آپ نے اپنے سفرنامے میں سوشل کلچر کو افسانوی انداز میں بیان کیا۔
آپ کا پہلا سفرنامہ ’’دیس پردیس‘‘ تھرپار سے سمندر پار تک کے تناظر میں لکھا گیا۔ اس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ تھرپارکر کی کیفیت کیا ہے؟ اور سمندر پار کی صورت حال کیا ہے۔ بہت سے ادبی پرچوں نے آپ کے سفرناموں کو افسانوں کی حیثیت سے چھاپا۔ ’’دلدار دیکھنا‘‘ افسانے کے طور پر شائع ہوا۔ آپ کا دیس پردیس امریکا کا سفرنامہ ہے جو پہلے قسط وار روزنامہ جنگ میں شائع ہوتا رہا۔
پروفیسر انوار احمد زئی محبتوں کے سفیر تھے۔ ان کی کتابیں اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ حیدرآباد میں ادبی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں آپ کا کلیدی کردار رہا۔ یہاں آپ نے بزم تخلیق ادب قائم کی اور ایک ادبی رسالہ عشرت کے نام سے جاری کیا۔
بزم مصنفین اور انجمن شیدائیان رسولؐؐ کے عہدے دار رہے۔ پروفیسر انوار احمد زئی دینی و دنیاوی علم پر دسترس رکھتے تھے۔ وہ کثیرالمطالعہ انسان تھے۔ ’’چہاربیت‘‘ ایک قدیم فن ہے جو ایک زمانے تک خواص تک محدود رہا، اسے عوامی پذیرائی کبھی نہیں ملی، اس فن کو عوامی بنانے میں پروفیسر انوار احمد زئی نے تاریخی کردار ادا کیا۔
آپ نے محمد شفیع چندریگر اور ڈاکٹر مسرور احمد زئی کی معاونت سے ’’دیال داس کلب‘‘ حیدرآباد میں سالانہ محفل چہار بیت کا ڈول ڈالا تھا۔
اس کا دائرہ اتنا وسیع کیا کہ ’’میلے‘‘ کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ شائقین چہار بیت کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا۔ شائقین چہار بیت ہندوستان کے مخصوص خطوں تک محدود تھا جیسے ٹونک، رام پور، بھوپال، امروہہ اور مراد آباد اور مراد آباد ہیں، لیکن انہوں نے اس فن کو پاکستانیوں کے دلوں کی آواز بنادیا۔ وہ محفل چہار بیت میں ہر زبان اور ہر طبقے کے لوگوں کو مدعو کرتے اور انہیں اس فن کی تاریخی اور تہذیبی اہمیت بھی بتاتے تھے۔ یہ ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ پروفیسر انوار احمد زئی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اس روایت کو جاری رہنا چاہیے۔
پروفیسر انوار احمد زئی کی سربراہی میں 1995ء میں ایک فعال ادبی ادارہ انوار ادب کے نام سے قائم ہوا جس کے تحت بے شمار ادبی تقریبات منعقد ہوئیں اور اسی ادارے کے تحت سہ ماہی ادبی رسالہ عبارت کا اجرا ہوا جس کے کئی ضخیم نمبر شائع ہوئے جن میں ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان نمبر، احمد ندیم قاسمی نمبر، اقبال نمبر پاک چین اور ادب نمبر، حسرت موہانی نمبر حیدرآباد ادب نمبر قابل ذکر ہیں۔ انوار احمد زئی کی تخلیقی صلاحیتوں کا ہر شخص معترف ہے۔
آپ نے ریڈیو کے لیے 1962ء سے لکھنا شروع کیا۔ شیخ سعدی کی حکایات پر مشتمل سیریز ’’ایک حکایت ایک تمثیل‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ وتایوفقیر کی کہاوتوں پر مبنی سیریز ’’پٹاری‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ اس کے علاوہ بیسیوں ڈرامے اور فیچرز لکھے۔ ان کے ڈرامے رومانوی، مزاحیہ، تاریخی، تمثیلی تھے صبح کا پروگرام ’’ہمارا پاکستان‘‘ کے عنوان سے کئی سال تک لکھا، اخبار میں کالم لکھے۔ وہ ریڈیو کے علاوہ ٹی وی کے مذہبی ٹاک شوز میں حصہ لیتے تھے۔
ان کی تحریر و تقریر میں جاذبیت پائی جاتی تھی۔ پروفیسر انوار احمد زئی کو تحریر و تقریر میں اﷲ تعالٰی نے ان دونوں صفات سے بہرہ مند کیا تھا۔ تقریر میں نکتہ رسی ان کا کمال تھا۔ ان کی تقریر اتنی مربوط ہوتی تھی جیسے کوئی مقالہ، ان کی تحریروں میں بھی لفظوں کی صورت گری نمایاں نظر آتی ہے۔ انہیں دنیا کے ہر موضوع پر گفتگو کرنے کا ملکہ حاصل تھا لیکن انہوں نے دینی موضوعات کو زیادہ اہمیت دی۔ تصوف سے بھی انہیں غیرمعمولی لگاؤ تھا۔ انہوں نے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کے دست حق پرست پر بیعت کی تھی۔
انہوں نے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان سے بہت کچھ حاصل کیا۔ انہیں اس نسبت پر فخر تھا۔ ادبی محافل ہوں، سیرت النبیﷺ کے جلسے ہوں یا ٹی وی چینل پر کسی بھی موضوع پر گفتگو ہر جگہ وہ علم و ادب کے موتی بکھیرتے نظر آتے۔ ان کی گفتگو کا انداز عالمانہ تھا، ان کی تحریروں میں دانش وری جھلکتی تھی۔ وہ زبان و بیان کے معاملے میں بہت محتاط دکھائی دیتے تھے، وہ محفل کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا فن جانتے تھے۔
پروفیسر انوار احمد زئی کی نشست میں ہر خاص و عام کو اس لیے بھی لطف آتا کہ وہ اچھے جملے باز اور جملہ شناس تھے۔ وہ چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا تھے۔ وہ ایک وقت تھا جب سندھ میں اسکاؤٹس تحریک ختم ہورہی تھی لیکن جب پروفیسر انوار احمد زئی کمشنر سندھ اسکاؤٹس بنائے گئے تو انہوں نے اسکاؤٹنگ کو سندھ بھر میں پھر سے زندہ کردیا تھا۔
پروفیسر انوار احمد زئی نے درجنوں کتب پر دیباچے اور تبصرے بھی تحریر کیے۔ اپنے آخری برسوں میں نعت رسول مقبولﷺ پر بھی خوب لکھا۔ آپ سچے عاشق رسولﷺ تھے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ خاص طور پر تعلیم اور نعت کے حوالے سے ان کے مضامین یک جا کرکے انہیں کتابی صورت دینے کا اہتمام کیا جائے۔ معروف ماہر تعلیم، بے لاگ مقرر، شفیق اور علم دوست شخصیت پروفیسر انوار احمد زئی31 مئی 2020ء بروز اتوار رضائے الہی سے انتقال فرماگئے۔ پروفیسر انوار احمد زئی کی وفات پر معروف ادبی علمی شخصیات کا کہنا تھا کہ علم و ادب کا شعبہ ایک عظیم عہد سے محروم ہوگیا۔
پروفیسر انوار احمد زئی کے علمی و ادبی کاوشوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی علمی شخصیت ہمارے لیے کسی سرمائے سے کم نہیں تھی۔ انہوں نے تعلیم کی ترقی و ترویج اور بہتری کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کیا، جسے کسی بھی طور پر فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے سوگواران میں ایک بیٹا اور بیٹی چھوڑے ہیں۔
ان کا بیٹا سول سروس پاکستان (سی ایس پی) افسر ہیں جب کہ بیٹی ڈاکٹر ہیں۔ انوار احمد زئی کے صاحبزادے عزیز احمد زئی ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہیں لیکن انہیں علم و ادب کا ذوق اپنے والد سے ورثے میں ملا ہے۔ وہ شعر کہتے اور علم عروض سے واقفیت رکھتے ہیں۔
حیدرآباد شہر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے قابل ترین خداداد صلاحیتوں کے ماہر پروفیسر انوار احمد زئی جیسا بیٹا جنم دیا۔
The post پروفیسر انوار احمد زئی appeared first on ایکسپریس اردو.