معاشرت اور اخلاقیات دین اسلام کی بنیاد ہیں ۔ اسلامی تعلیمات میں اخلاقیات کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے کیونکہ انسانی اخلاقیات پر ہی پُر سکون معاشرے کا انحصار ہے، پُر سکون معاشرہ بنانے اور سنوارنے میں اخلاق کو نمایاں حیثیت حاصل ہے، اخلاق دنیا کے ہر معاشرے کا مشترکہ باب ہے کیونکہ اچھے اخلاق و کردار کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، اس سے قومیں بنتی بھی ہیں اور بگڑتی بھی ہیں ۔
اخلاقیات کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں خواہ وہ معاشرہ مسلم ہو یا غیر مسلم ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ کیا میں تمہیں روزہ ، صدقہ اور زکوٰۃ سے بھی افضل چیز بتاؤں؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کیوں نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ ہے باہمی خلش کو دور کرنا اور صلح کرانا ۔ موجودہ دور میں اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔
قرآن مقدس اور سنت رسول اللہ ﷺ نے جا بجا اس کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے ، آج پوری دنیا میں اختلاف و انتشار کی وجہ سے جو حالات پیش آرہے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔ ہمارے آپس کے عدم اتفاق کی وجہ سے مختلف مقامات پر مسلمانوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ، عالمی سطح پر مسلمانوں کی صورتحال کچھ ایسی ہے کہ بیان کرتے ہوئے درد و کرب سے گزرنا پڑتا ہے، اس سب سے بڑا مظلوم مسلمان ہے مگر اسے دہشت گرد کا ’خطاب‘ دیدیا گیا ہے ۔
اس سب کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان تو ضرور ہیں لیکن ہماری زندگی عمل سے خالی ہے اور قرآن و سنت نبوی ﷺ کی تعلیمات سے ہم بہت دور ہیں اور قرآن و سنت ہی وہ ایسا عنصر ہے جو مسلمان کی زندگی کو بدلتا ہے اسے ہر چیلنج سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ اور ہمت عطا کرتا ہے۔ اسی بے عملی کی وجہ سے ہماری صفوں میں اتحاد و اتفاق باقی نہیں رہا، ہم مسلکی و جزوی اختلافات میں منقسم ہو گئے ہیں ۔حالت یہ ہے کہ آج ہم سیاسی و مذہبی انتشار و خلفشار کی وجہ سے دلوں میں نفرت رکھتے ہیں ، ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے روادار بھی نہیں اور یہ نفرت کم ہو نے کا نام ہی نہیں لے رہی بلکہ بڑھتی جا رہی ہے ۔
اس جدید دور میں سیاسی انتہا پسندی و فرقہ واریت نے ہمیں اندر سے کھوکھلا اور کمزور بنا دیا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں آج ہماری عزت نہیں رہی ۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اتحاد و اتفاق کا دامن چھوڑا پھر ہم ادب واحترام کا رشتہ ہی بھول گئے جس کی وجہ سے تنزلی ہمارا مقدر ٹھہری جبکہ مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ اتحاد و اتفاق کا درس دیا ہے، یہ اصول طے ہے کہ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے جب کہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیر ہو جاتی ہے اور یہی اصول دنیا میں نظر بھی آ رہا ہے۔
اخلاق انسانیت کا زیور ہے کیونکہ یہ وہ وصف ہے جو انسان کو جانوروں سے الگ کرتا ہے ۔ اگر اخلاق نہیں تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں، اسی لیے تو جاہل، اجڈ اور بد اخلاق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تو بالکل جانور ہے اسے تو ذرا بھی تہذیب نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں انسان کو صحیح راستے پر چلانے، اس کی ہدایت ، رہنمائی اور اخلاق کی تعلیم دینے کے لیے انبیاء کرام مبعوث فرمائے ۔
رسول اللہﷺ کو بھی اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ، چنانچہ آپ ﷺ نے عالم انسانیت کو اخلاقیات کا وہ اعلیٰ نمونہ پیش کیا جس کی گواہی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دی ، ایک جگہ خود نبی کریم ﷺ اپنی اخلاقیات کی گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں ’’إنَّما بُعثتُ لأتمِّمَ مکارمَ الأخلاقِ ‘‘ مجھے تو اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ میں نیک خصلتوں اور مَکارمِ اخلاق کی تکمیل کروں (بخاری شریف) ، لیکن آج ہمارے معاشرے کی حالت بہت زیادہ قابل رحم ہے ، ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اب بھی دین سے بے خبر ہے، آج کا مسلمان دنیا پر مر رہا ہے ، افسوس کا مقام ہے کہ آج کا بچہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود دین سے غافل ہے ، ہمیں پتہ نہیں دین کیا ہے ؟ اخلاق کیا ہے ؟ ایمان کیا ہے ؟ حیا کیا ہے ؟ عزت کیا ہے ؟ عزت کی حفاظت کیا ہے ؟ انصاف کیا ہے ؟ ہم بھول چکے ہیں کہ ہمیں اس دنیا میں ایک مقصد کی خاطر اُتارا گیا ہے۔
یہ بات کہہ دی جائے تو شاید غلط نہیں ہو گی کہ آج کے مسلمان بس نام کے مسلمان رہ گئے ہیں ، آج ہم مسلمان کی حیثیت سے زندہ نہیں ہیں ، آج اسلام کا دخل صرف نام کی حد تک رہ گیا ہے ۔ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی تہذیب ، اخلاقیات، ثقافت کا محاسبہ کرے ہم اپنے مذہب کے ساتھ ساتھ تہذیب و ثقافت کو بھی بھول گئے ہیں ، ہم اخلاقی ، اسلامی ، تعلیمی ، معاشی اور سیاسی زوال کا شکار ہو گئے ہیں ۔ آپ خود سوچئے اور اپنے اردگرد کا جائزہ لیں آج ہمارے معاشرے کے لوگ اخلاقیات سے غافل ہیں، جس کی وجہ سے ہم میں اخلاقی زوال، بے حیائی، اخلاقی برائی اور سماجی برائی جیسی برائیاں جنم لیتی ہیں ۔
آج ہمارے معاشرے میں وہ کون سی برائی ہے جو موجود نہیں ، آج ہمارے معاشرے میں یہ برائیاں وائرس کی طرح پھیل چکی ہیں اور ہماری نوجوان نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہیں، ہمارے معاشرے میں اب لڑائی جھگڑا ، گالی گلوچ ، ظلم و زیادتی ، قتل و غارت ، فساد ، عیب جوئی ، حسد ، غرور و تکبر ، مفاد پرستی ، دھوکہ دہی ، دوغلا پن ، ملاوٹ ، حرص ، رشوت خوری ، زنا کاری ، سود و حرام خوری ، ذخیرہ اندوزی ، چوری ، شراب خوری ، تمباکو نوشی ، ناجائز منافع خوری ، جوا کھیلنا عام ہے ۔
ہمارے نوجوان تربیت سے محروم ہیں ، آج مسلم معاشرے کا حال اتنا خراب ہو چکا ہے کہ ہم ایک دوسرے کا حق مارنے کی تلاش میں ایمان کا بھی سودا کر دیتے ہیں ۔ جو تڑپ، جو درد ، بے چینی اور بے قراری ربّ کائنات کے لئے ہونی چاہیے تھی ، وہ پیسوں کے لئے ہونے لگی ہے ۔ ہماری تربیت اس طرح نہیں ہوئی ہے کہ ہم ایک وقت کی نماز چھوٹ جانے پر تڑپ اٹھییں ، ہمیں تو مہینے گزر چکے ہیں نمازوں کو چھوڑے ہوئے ، ہم صبح سویرے اٹھنے کے بجائے گیارہ ، بارہ بجے اٹھتے ہیں ، والدین ، بھائی بہن ، بیوی بچوں کو وقت دینے کے بجائے موبائل فون کے ساتھ مشغول رہتے ہیں ، نوجوان مسجد اور مدرسے کے بجائے پارکوں اور ریسٹورنٹوں میں بیکار گھومتے رہتے ہیں۔
لڑکیاں بن سنور کر بے پردہ پارکوں اور بازاروں میں گھومتی پھرتی ہیں ، سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے سے ناجائز رشتے جوڑنے لگے ہیں ، زندگی کے مسائل میں الجھے ہوئے لوگ ذکر الٰہی کرنے کے بجائے میوزک سن کر محسوس کرتے ہے کہ وہ تھوڑی دیر کے لئے اپنی پریشانیوں کو بھول جائیں گے پھر سکون کی نیند سو جائیں گے ۔ افسوس آج اولاد کی تربیت نہ ہونے کے باعث ہمارا مسلم معاشرہ غیر مسلم معاشرے کا نظارہ پیش کرتا ہے۔
کبھی فلمیں بنا کر ، کبھی ڈراما بنا کر کرتے ہیں ،کبھی سوشل میڈیا پر ر یلز کر کے تو کبھی ٹک ٹاک بنا کر ، آج کل کے نوجوان مکتب جانے کے بجائے جم سینٹر جانا ضروری سمجھتے ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ اسلام جدت اپنانے پر معترض ہے بلکہ اسلام تو جدید ترین الہامی مذہب ہے جو آگے بڑھنے کی دعوت دیتا ہے مگر حدود کے اندر رہتے ہوئے ۔ افسوس صد افسوس کہ یورپی کلچر کا پھیلایا ہوا جال آج ہمارے معاشرے کی پہچان بنتیا جا رہا ہے ۔ نشے کی لت جو ہمارے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیل چکی ہے دن بہ دن پروان چڑھتی ہوئی برائیوں کی بنیاد ہے۔ آج ہمارے دلوں میں سکون نہیں ہے، ہم ڈپریشن کے شکار ہو چکے ہیں۔
معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ساری مصیبتوں اور پریشانیوں کے ذمہ دار ہم خود ہیں ، آج ہماری نسل نو کا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی آخرت کو سنوارنے کے بجائے دنیا سنوارنے کی فکر میں لگے ہیں اور یہی ہمارے لئے دنیا و آخرت کا خسارہ ہے ، آج مسلمان اپنے آپ پر غور کریں، کیا ہم با اخلاق اور باتہذیب معاشرے کے باسی کہلائے جانے کے قابل ہیں ؟ ہمارے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم خود اپنی نسلوں کے دشمن ثابت ہو رہے ہیں ، اپنے معاشرے میں اخلاقی بگاڑ لا کر دنیا کی سب سے بہترین اور خوبصورت اسلامی تہذیب کو پامال کرنے میں ہم ہی سب سے آگے ہیں ۔
جاگو جاگو ! اب بھی وقت ہے اپنے معاشرے اور اخلاقیات کو سنوارنے کی فکر کرو ، سوشل میڈیا کے مقابلے میں اپنے گھر والوں کو ترجیح دو ، قرآن و حدیث کو مضبوطی سے پکڑ کر اس پر عمل کرو ، آخرت کو سنوارنے کی فکر کریں ، عمل صالح سے اپنے ایمان کو مضبوط کریں ، اپنے بچوں کی تربیت دین اسلام کے مطابق کریں ، انہیں بچپن سے ہی اسلام کے بارے میں بتائیں اور مکارم اخلاق و کردار کے حامل بنائیں ، ارشاد باری تعالیٰ ہے یقیناً اللہ بدلتا نہیں اس حالت کو جو کسی قوم کے ساتھ ہے یہاں تک کہ وہ خود نہ بدلیں ‘‘ ۔ (سورۃ الرعد:۱۱) والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ سے بھی گزارش ہے کہ تعلیمی امور کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی اور روحانی تربیت بھی کی جائے ۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں مکارمِ اخلاق سے مزین و آراستہ ہونے اور ہماری آنے والی نسلوں کو دین اسلام پر چلنے اور عمل کرنے کی توفیق بخشے ۔ آمین
The post اچھے اخلاق قومی ترقی کا زینہ appeared first on ایکسپریس اردو.