ایک گاؤں میں نہر کنارے موجود ہرے بھرے درختوں سے بہت دور ایک خود رو درخت اپنی مستی میں مگن اُگ رہا تھا۔
بے چارے کی بدقسمتی کہ ایک دن ایک کتا سستانے کے لیے اس کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ گیا۔
اس نے بھرپور نیند لی اور انگڑائی لے کر جاگا۔ یہاں تک سب ٹھیک تھا، مگر پھر کتے نے روز کا معمول بنالیا۔ وہ گھنٹوں اس کی چھاؤں میں سوتا رہتا تھا۔ درخت کے لیے یہ بھی کوئی نئی بات نہیں تھی، انسان ہوں کہ جانور، اس کی چھاؤں میں سب ہی بیٹھتے تھے۔ سایہ دینا تو اس کی فطرت تھی، سو وہ بے نیاز ہی رہا، مگر کتا بڑا نیاز مند تھا، اس کی فطرت میں بلا کی اپنائیت تھی۔ اسے یہ درخت اپنا اپنا لگنے لگا اور پھر صرف اپنا لگنے لگا۔
جب اس نے اُسے اپنی ملکیت سمجھ لیا، تو پھر یہ اس کی ذمے داری بھی بن گیا۔ وہ یہ سوچنے لگا تھا کہ یہ درخت بے چارہ نہر سے اتنی دور ہے یہ اپنی پیاس کیسے بجھاتا ہوگا۔ کہیں یہ کئی دن سے پیاسا تو نہیں۔ بس جس دن سے کتے نے درخت کے لیے اچھا سوچنا شروع کیا، درخت کے برے دن شروع ہوگئے۔ کتا قطعی نہیں جانتا تھا کہ درخت کی جڑیں زمین میں کتنی دور تک پھیلی ہوئی ہیں اور وہ بہ آسانی اپنی ضرورت کا پانی حاصل کر رہا ہے۔ اس کے مطابق درخت پیاسا تھا اور اسے اس کی پیاس بجھانی ہی تھی تو وہ روز نہر پر جاتا، پیٹ بھر کر پانی پیتا اور واپس آکر درخت کی جڑوں میں پیشاب کردیتا۔ درخت کتے کی اس حرکت کو پہلے نظر انداز کرتا رہا، مگر پھر اسے اپنی توہین محسوس ہونے لگی، وہ روز کُڑھتا اور ہر دن اذیت محسوس کرتا، دل میں اس کتے کو بددعائیں دیتا، کسی طرح اس سے جان چھڑانے کی تدبیریں سوچتا، مگر سب بے کار تھا، کیوں کہ کتا تو پورے خلوص کے ساتھ ہر دن ویسے ہی اس کی جڑوں میں پیشاب کرتا رہا۔
رفتہ رفتہ درخت کے اندر کی کیفیت اس کے پتوں پر ظاہر ہونے لگی اور وہ ہرے سے زرد ہو کر جھڑنے لگے۔ دیکھتے دیکھتے اس کا سایا سمٹنے لگا اور کتے کی پریشانی بڑھنے لگی۔ اسے لگا کہ یقیناً اس کا پیشاب اب کم پڑ رہا ہے، تو اس نے اپنے ہم خیال کتوں کو ساتھ ملانا شروع کر دیا۔ اب ایک جگہ دو کبھی تین اور کبھی چار کتے اس کی جڑوں میں پیشاب کرنے لگے تھے۔ درخت چیخنا چاہتا تھا، ان کتوں کو دھتکار کر بھگانا چاہتا تھا، مگر یہ سب اس کے لیے ممکن نہیں تھا پھر بھی وہ جو کر سکتا تھا اس نے کیا وہ یہ کہ اپنے سارے پتے گرا دیے کہ سایہ نہیں ہوگا تو کتے بھی نہیں آئیں گے، اسے کیا معلوم تھا کہ کتے تو اس کی ہم دردی میں آتے تھے، وہ ویسے ہی آتے رہے اور اس کی جڑوں کو اپنے پیشاب سے ’’سیراب‘‘ کرتے رہے اور اس لمحے تک آتے رہے کہ جب تک انھیں یقین تھا کہ درخت میں کچھ سانسیں باقی ہیں۔
کئی دن تک جب کوئی نیا پتا اگتا ہوا نظر نہ آیا تو کتوں کو لگا کہ درخت مرگیا ہے۔ وہ ایک ساتھ مل کر رونے لگے۔ ان کی منحوس آوازوں سے تنگ آکر گاؤں کے لوگوں نے انہیں مارمار کر دور بھگا دیا اور مخلصوں کا یہ ٹولا بکھر گیا۔ کوئی سائے کی تلاش میں تو کوئی پیشاب کرنے کے لیے کسی دوسرے درخت کے پاس چلاگیا۔
وہ درخت آج بھی زندہ ہے، مگر کتوں کے خوف سے آج تک اس کی ٹہنیاں ننگی ہیں۔ پتا، نہ پھول نہ پھل کچھ بھی نہیں۔ وہ اپنی ساری صلاحیتیں اپنے اندر سمیٹے مرنے کا انتظار کر رہا ہے۔ کاش، وہ کتوں پر توجہ ہی نہ دیتا۔
اگر آپ بھی ’درخت‘ ہیں اور بدقسمتی سے کوئی ’کتا‘ آپ کے سائے میں سونے لگا ہے، تو اس کی حرکتوں کو سنجیدہ لینا چھوڑ دیں، وہ آپ کا دشمن نہیں وہ تو اپنی فطرت سے مجبور ہے۔ جس دن آپ نے اس کی حرکات پر توجہ دینا شروع کر دی، آپ کی توجہ اپنی صلاحیتوں سے ہٹ جائے گی، بے کار ہوکر رہ جائیں گے اور اس کہانی میں اپنا کردار پہچان کر جو لوگ ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ خدارا کوئی کھمبا دیکھ لیں، درختوں کو آپ کی کوئی ضرورت نہیں ان کے غم میں نہ مریں!
The post درخت اور کُتّا appeared first on ایکسپریس اردو.