Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

زباں فہمی نمبر198؛ اردو کی بہن پشتو (حصہ سوم)

$
0
0

گزشتہ سے پیوستہ لکھتے ہوئے ایک وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے۔ بایزیدانصاری کی کتاب ’خیرالبیان‘ کا سن تصنیف، متعدد کتب اور انٹرنیٹ پر دستیاب مواد میں جابجا 1521ء اور 1651ء درج کیا گیا، جو کہ دونوں ہی غلط ہیں۔

(1521ء نقل کرنے کی غلطی کرنے والوں میں ڈاکٹرجمیل جالبی بھی شامل ہیں، جنھوں نے بایزید انصاری کا سن پیدائش نظراَنداز کیا)۔ موصوف کی پیدائش 1525ء میں ہوئی (جامع اردو انسائیکلوپیڈیا، ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز، جلد اوّل میں 1524ء غلط درج ہے اور دیگر مقامات پر 1526ء، جبکہ اسی انسائیکلوپیڈیا میں سن وفات، بعض دیگر مقامات کی طرح 1572ء غلط لکھا گیا; یہی غلط سن وفات شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا میں دُہرایا گیا، البتہ اس میں سن پیدائش درست ہے)۔

جامع اردو انسائیکلوپیڈیا کے بیان کی رُو سے اس متنازعہ فیہ مذہبی شخصیت کا لقب ’پیر روشن ضمیر ‘ تھا۔ ’خیرالبیان‘ کی اشاعت یقیناً صاحبِ تصنیف کی زندگی میں نہیں ہوئی ہوگی، جبھی اس کی بابت ابہام پایا جاتا ہے۔ اس کا قلمی نسخہ 1650ء میں مُلّا بہارتوسی نے بی بی خیرخاتون کے لیے نقل کیا، گویا یہ سبب ہوا کہ لوگوں نے اپنے اندازے سے سن تصنیف ہی 1651ء لکھ دیا۔

اس کتاب کے ابتدائی تیرہ صفحات پر چار زبانوں (عربی، فارسی، پشتو اور اُردوئے قدیم) میں عبارت درج ہے، جبکہ بقیہ مسودے میں اردو شامل نہیں۔ پیر روشان کے شدید مخالف اخون دریوزہ (اخوند درویزہ) کے فتوے کے مطابق، ان کی کتب کا تَلف کردینا باعث ثواب تھا، لہٰذا پیر موصوف کے مریدین نے ایک ایک نسخہ بہت حفاظت سے رکھا۔ ہندوی یعنی قدیم اردو کے نمونے اس کتاب میں پائے جانے کی بنیاد پر یہ تحقیق بھی سامنے آچکی ہے کہ یہ کتاب، موجودہ خیبر پختون خوا میں اُردو کی پہلی کتاب بھی ہے۔

(’’خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع میں نثری ادب کا ارتقاء‘‘ از جناب محمد رشید، پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ اردو، جامعہ پشاور، بحوالہ جناب رضاہمدانی وپروفیسر سہیل احمد)۔ ان کی اردو، ملّا وجہی سے بھی پچاس برس قدیم تھی جس کا نمونہ دعوت تحقیق دیتا ہے: ’’اے بایزید! لکھ وہ اَکھر (لفظ یا حرف)، جسے سب جیب سہن جڑ تھیں، اس کارن (اس کے سبب) جے نفع پاویں۔ آدمیاں کج کا۔ میں نا ہیں جانتا بن قرآن کے اکھر ہے۔

سبحان (سبحان اللہ) اے بایزید! لکھنا کہ اکھر کا تجھے ہے۔ دکھلاونا اور سکھلاؤ نا مجھے‘‘۔ محقق موصوف نے اسی کتاب کے پشتو اقتباس مع اردو ترجمہ (لکھ کتاب کے آغاز کے بیان جن کے سارے اکھر سہن بسم اللہ) کی نقل کے بعد برملا کہا کہ’’اس مختصر فقرے (جملے: س اص) میں بھی آغاز، بیان، درست، بسم اللہ جیسے تمام الفاظ اردو اور پشتو کے مشترک تلفظ کا پتا دیتے ہیں۔ بایزید کی اس نثری کوشش کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پشتو اپنی ابتدائی نشوونما میں بھی اردو الفاظِ روزمرّہ کو اَپنارہی تھی۔ وہ محض اس لیے کہ اردو زبان بات چیت کی زبان بن چکی تھی اور اس میں اثرآفرینی کی صلاحیت پیدا ہوگئی تھی۔ اس مثال سے اس بات کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردو کا اثر پشتو اور شمال ہند کی دیگر زبانوں پر پڑنا شروع ہوگیا تھا‘‘۔ (خط نسخ میں کی گئی ٹائپنگ کے الفاظ، مطبوعہ صورت میں کہیں کہیں مبہم ہیں۔ س اص)۔

سن تصنیف کے تعین کی بحث سے قطع نظر بات سامنے کی ہے کہ جب بایزیدانصاری کا انتقال ہی 1585ء میں ہوگیا تو ظاہر ہے کہ زمانہ تصنیف سولھویں صدی کی ابتداء ہی کا ہوگا جب موصوف عین شباب میں سرگرم عمل تھے۔ اس حقیقت کے پیش نظر، خاکسار کا یہ نظریہ بالکل درست معلوم ہوتا ہے کہ اردو کی تشکیل صدیوں پر محیط ایک طویل عہد میں، خطہ ہند (موجودہ پاک وہند) میں دیگر مقامی یا علاقائی زبانوں اور بولیوں کے شانہ بشانہ ہوتی رہی اور اسی وجہ سے اس کی جنم بھومی اور ماخذ کے متعلق اتنے سارے دعوے منظر عام پر آئے۔ ڈاکٹرعبدالستار جوہرؔ پراچہ کے خیال میں علاقائی بُعد کے باوجود، اردو اور پشتو کے درمیان ربط ضبط کی وجہ دونوں زبانوں کا قدیم تہذیبی تعلق ہے جس میں صوفیہ کرام کی ان دونوں زبانوں کی ترویج میں دل چسپی بھی شامل ہے۔

اسی طرح اس خطے میں ہندکو سمیت دیگر زبانوں سے بھی اردو کا جُڑا ہونا اَز ابتداء ثابت ہے تو وجوہ یہی ہیں۔ (پشتو کی بطور زبان تشکیل کا عرصہ تو بظاہر اردو ہی کی طرح، اس کے شانہ بشانہ ہی نظرآتا ہے، مگر بعض محققین اور اہل زبان کا دعویٰ ہے کہ یہ چار ہزار سال قدیم ہے۔ یہ معاملہ بیج بوئے جانے سے درخت بننے تک محیط ہے)۔

یہ سلسلہ دراز ہوا تو بادشاہوں اور نوابوں نے بھی اپنی اپنی ریاستوں میں اردو کے فروغ کا ذمہ لیا اور شروع شروع میں تو پشتو ساتھ ساتھ چلی، پھر اُردو کا رواج بڑھا تو پشتو پسِ پشت ڈال کر فقط اردو ہی کی خدمت کی جانے لگی، البتہ روہیل کھنڈ بشمول رامپور میں بطورِخاص اور ممکن طور پر اس خطے کے دیگر حصوں میں پشتو کے لسانی اثرات اردو اور دیگر مقامی زبانوں نے قبول کیے جن میں محض روہیل کھنڈی اردو ہی نمایاں ہے، دیگر پر باقاعدہ تحقیق کا کام ابھی باقی ہے۔ ابھی دکنی اردو، گوجری، مارواڑی/راجستھانی، گجراتی، بنگلہ، اراکانی، برمی، آسامی، اُڑیا سمیت متعدد زبانوں پر (ممکنہ طور پر پڑنے والے) پشتو کے اثرات کی بابت کوئی مبسوط تحقیق سامنے نہیں آئی۔

آگے چلنے سے پہلے ذرا ایک نظر اس اہم اقتباس پر بھی ڈال لیں:

’’مصطفی آباد عرف رامپور، پٹھانوں کی ایک چھوٹی سی ریاست تھی، لیکن علم وفضل کے اعتبار سے ایک قدآور شہر تھا اور ایک زمانے میں ’بُخارائے ہند‘ کے نام سے مشہور تھا۔ یہ عظیم خطہ علماء، شعراء، اطباء وصوفیہ اور سیاسی لیڈروں کا مولد ومسکن رہا ہے‘‘۔ (مشرقی علوم کے فروغ میں رامپور کا حصہ از نظر علی خاں، مشمولہ روہیل کھنڈ اُردو لغت مؤلفہ رئیس رامپوری)

زباں فہمی نمبر 195’’روہیل کھنڈی/رامپوری اردو‘‘، چوتھی /آخری قسط (آنلائن اشاعت: اتوار 5 نومبر 2023ء) میں خاکسار نے برسبیل تذکرہ لکھا تھا کہ ’’یہاں یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ پشتو کے اثرات نہ صرف روہیل کھنڈی، رامپوری پر نمایاں ہیں، بلکہ پوربی میں بھی پشتو، فارسی، دری وغیرہ کے الفاظ، کسی نہ کسی صورت ملتے ہیں‘‘۔ اس بابت مزید تحقیق کے لیے دیگر اہل علم کو بھی دعوتِ عام ہے۔

مشترکات کی بات کی جائے تو اُردو اور پشتو کے مابین مشترکات کی تین شکلیں ہیں:

ا)۔ عربی، فارسی وترکی کے الفاظ وتراکیب جو پشتو اور اردو دونوں میں یکساں ہیں، خواہ تلفظ کا فرق واقع ہوگیا ہو۔

جدید دور میں، پروفیسر پری شان خٹک جیسے اہل زبان محققین سامنے آئے جن کی تحقیق کے مطابق دونوں زبانوں میں پانچ ہزار بائیس الفاظ مشترک ہیں۔ (’’اردو اور پشتو کے مشترک الفاظ‘‘ از پری شان خٹک، مقتدرہ قومی زبان: 1986ء)۔ اس سے بہت پہلے1932ء کی ’’لغات ِ افغانی‘‘ از سید راحت اللہ راحتؔ زاخیلی (1884ء تا 1962ء) میں تقریباً دس ہزار پشتو الفاظ کا اردو میں ترجمہ دیا گیا ہے۔ جب ہم فہرست دیکھنا شروع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ کی بہت بڑی تعداد مشترک ہے، وجہ ظاہر ہے کہ بنیاد یا مآخذ مشترک ہیں۔

ب)۔ پشتو سے اردو میں درآمد ہونے والے الفاظ، جن کی تحقیق میں محترم امتیاز علی خان عرشی ؔ جیسے جیّد عالم وماہرلسان نے بہت کدوکاوش کی۔

ج)۔ اردو سے پشتو میں دخیل ہونے والے الفاظ، جن کا ابھی تک کوئی باقاعدہ شمار سامنے نہیں آیا۔ اردو سے پشتو میں شامل ہونے والے الفاظ فقط جدید پشتو بول چال ہی میں نمایاں ہیں، شاید اُن پر ابھی کتابی کام نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر اُردو گنتی، ’ہے‘، بھئی، اچھا، ٹھیک ہے جیسے الفاظ وفقرہ جات۔

اردو میں دخیل پشتو الفاظ وتراکیب:

یہاں کوشش یہ کروں گا کہ پہلے وہ الفاظ، تراکیب، فقرے وغیرہ یہاں نقل کروں جو ’زباں فہمی‘ بعنوان ’’روہیل کھنڈی/رامپوری اردو‘‘ میں شامل ہونے سے رہ گئے، پھر دیگر ذرایع سے ان میں مناسب اضافہ کروں۔ یہ وضاحت ایسے احباب کے لیے کی ہے جو کسی وجہ سے ابھی تک اُس مضمون کے مطالعے سے محروم ہیں تو فقط زیرنظر مضمون ہی کو موضوع زیربحث پر محیط نہ سمجھیں۔

پَیزار، پِیزار: ترکی، فارسی، پشتو اور اردو میں مشترک۔ اردو ترکیب جُوتَم پیزار میں شامل بمعنی مارپیٹ، لڑائی جھگڑا۔

تَماخُو: تمباکو کا بِگاڑ۔

ٹَیٹ کرنا: انگریزی لفظ Tightکا بِگاڑ جو رامپوری اردو اور پشتو میں مشترک ہے۔ رامپوری میں مراد ہے سخت کرنے، بہت ڈانٹنے اور بُرا بھلا کہنے سے۔

ٹَیم : انگریزی لفظ Timeیعنی وقت کا بِگاڑجو رامپوری اردو اور پشتو میں مشترک ہے۔

چَرپائی: چارپائی کا بِگاڑ

حقیقہ: عقیقہ کا بِگاڑ

خِذمَت: خدمت کا بِگاڑ

خوارے: (زنانہ بولی)’خواہر‘ بمعنی بہن کا بِگاڑ۔ پشتو میں عورتوں کا آپس میں طرزِ خطاب۔

دوغاڑے: پشتو ’دوغاڑہ‘ کا بِگاڑ۔ کانچ کے اَنٹوں یعنی کنچوں کا کھیل کھیلا جاتا ہے تو نشانہ لگاکر کہتے ہیں، دوغاڑے یعنی جتنے بھی اَنٹے باہر نکلے، وہ نشانہ باز کے ہوئے۔

دِیوال: دیوار کا بِگاڑ۔

ڈَزّیں مارنا: پشتو کے ’ڈوزے بَلَل ‘ کا بِگاڑ یعنی شیخی بھگارنا۔

ڈلیور: ڈرائیور [Driver] کا بِگاڑ۔ نیز ڈلے وری بمعنی ڈرائیوری [Driving]۔

رامے خورے: افغان پشتو ’’رازہ خورے راغ زوی‘‘ (بہنو ! آؤ بیٹا آیا)۔ یہ قدیم افغان رسم تھی کہ کسی شخص کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے، جب اُس کے یہاں مابعد بچہ ہو تو چھت پر کوئی عورت چڑھ کر دوسروں کو پکارتی تھی۔ رسم کی نوعیت بدلی، پھر رفتہ رفتہ (غالباً) یہ دم توڑگئی، ویسے یہ رامپور میں ہوا کرتی تھی۔

رکابی، رکیبی (رکابی کا بِگاڑ): صحنک، تھالی، چھوٹا طباق، چھوٹی پلیٹ۔ پشتو میں رکیبئی۔

سَحار: سحر یعنی صبح کا بِگاڑ۔

سَیڈ: انگریزی Sideکا بِگاڑ۔

غَپینڈ، غَپینڈا: بہت موٹی چیز۔ فُحش معنوں میں مستعمل۔ اصل پشتو بمعنی اعضائے تناسل۔

غٹاغٹ: کسی رقیق /مایع چیز کو متواتر، تیزی سے (گویا ایک ہی سانس میں) پینا، نیز بڑے مزے سے، بہ آسانی، جلدی جلدی پینا۔ ذاتی معلومات کی بِناء پر عرض کرتا ہوں کہ پشتو بول چال میں ’غٹ غٹ‘ کا مطلب ہے: بہت بہت یا بہت زیادہ، جیسے ’’غٹ غٹ مہربانی‘‘۔

غَڑَپ: (اردواِسم مؤنث) یعنی ایک دم کھاجانا، گھونٹ لینے کی آواز، ڈوبنے کی آواز

قَتلا: (فارسی اسم مذکر) یعنی قاش، پھانک اور قتلی یعنی چھوٹا ٹکڑا۔ پشتو میں ’قترہ‘۔

قلماقنی: روس کی قلماق قوم کی عورت، بیگمات کی بارگاہوں اور محلات کی مسلح محافظ عورتیں، سدا کنواری رہنے پر مجبور، نیز فوجی قسم اور تیزطرّار عورت۔ راقم کا لسانی قیاس ہے کہ یہ لفظ رامپوری اردو میں کہیں اور سے نہیں، پشتو ہی سے آیا ہوگا۔

قلماق[Kalmak] درحقیقت سائبیریا کے برف زار میں مقیم تاتار نسل کے مسلمان ہوتے ہیں۔ یہ اسم ترکی الاصل ہے۔ اس کا ایک مطلب ہے، ران کی ہڈی۔ فارسی لغت دہخدا، آبادِیس اور واژہ یاب کی رُو سے یہ اصل میں سابق مشرقی ترکستان یعنی مسلم چین کے علاقوں خطا (ختا) اور خُتَن ، چین، ماچین، قلماق اور تبت سمیت مختلف علاقوں میں منتشر ہونے والی قوم تھی۔ (خطا۔یا۔ ختاوہی ہے اپنے نان خطائی کا وطن اور خُتَن کا نافہ مُشک مشہور ہے جس کی خوشبو کا ذکر، گلوکار سلیم رضا کی گائی ہوئی مقبول فلمی غزل ’جانِ بہاراں، رشکِ چمن‘ میں بھی ہے: ’’زلفیں تیری مشک ِخُتَن‘‘)۔ اب یہاں ایک انتہائی عجیب انکشاف سامنے آیا۔

تاجیک یا تاجک زبان کی ایک مستند آنلائن لغت میں قلماق کے معانی درج ہیں: ترکی اسم یعنی مچھلی پکڑنے کی سلاخ، کھانے کے عمل میں مستعمل کانٹا اور پہلوانی کا ایک داؤ۔ یہاں ایک اور دل چسپ انکشاف یہ کہ ہمارے یہاں، خصوصاً رامپوری اردو میں کسی پیڑ کی پتلی سی لچکیلی شاخ کو قمچی کہتے ہیں (وہاں تو شنٹی اور چھنٹی بھی ) جو اکثر مارپیٹ میں کام آتی ہے۔ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ تاجیک زبان والے معانی میں شامل مفاہیم اس کے وہاں سے یہاں آنے کا سبب بنے ہوں گے۔ آگے بڑھتے ہیں تو مزید انکشاف ہوتا ہے کہ قلماق سے ایک لفظ قَلچماق یا قُل چُماق بنا جس کے معانی ہیں: شہوت پرست اور اوباش آدمی، طاقتور، پنجہ آزمائی میں قوی۔ اِسے کہتے ہیں ’بال کی کھال نکالنا‘ جس کے لیے یہ خاکسار بدنام ہے۔

ناپڑ، نابڑ: پشتو میں بمعنی موٹے اور بھدّے اعضاء والا، رامپوری اردو میں بمعنی زیادہ کھانے والا، پیٹو، اَناپ شناپ یا الابلا کھانے والا۔

ہُوش: رامپوری اردو میں اُجڈ، بے وقوف اور بے ڈھنگے شخص کو کہتے ہیں جو مزاج میں جارح بھی ہو۔ اس بابت ایک شاعرہ طوائف عصمتؔ نے کہا تھا:

حسیں بھی ہیں، کڑے بھی ہیں، مگر کچھ ہُوش ہوتے ہیں

عجب اِک بات عصمتؔ ہے یہ کابل کے پٹھانوں میں

راقم کا لسانی قیاس ہے کہ یہ لفظ بھی غالباً پشتو کی دین ہے۔

{’’روہیل کھنڈی/رامپوری اردو‘‘، چار اقساط میں آنلائن اشاعت: اتوار 8اکتوبر 2023ء تا 5 نومبر 2023ء ۔ ان ویب سائٹ ربط پر ملاحظہ فرمائیں:

1.https://www.express.pk/story/2548633/1/

2.https://www.express.pk/story/2551879/1/

3.https://www.express.pk/story/2554851/1/

{4.https://www.express.pk/story/2561886/1/

پشتو اور اردو میں مشترک (عربی، ترکی وفارسی الاصل) الفاظ:

آباد، آبادی، آبادکاری،آتشک، آخر، آخرت، آخرکار، آخری، آڈٹ [Audit]، آڈیٹر [Auditor]، آرام، آرام طلب، آرام طلبی، آرٹسٹ[Artiste]، آرڈر[Order]، آرکسٹرا[Orchestra] ،آڑھت، آڑھتی، آزاد، آزادی، آزار، آزاری۔

جاری۔

The post زباں فہمی نمبر198؛ اردو کی بہن پشتو (حصہ سوم) appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>