ثقلین کاظمی (فرزندِ مشیرکاظمی)
آج مشیر کاظمی کا خواب پورا ہوا اور ان کا مجموعۂ کلام بعنوان ’’کلیاتِ مشیر کاظمی‘‘ حال ہی میں شائع ہوگیا۔ الحمداللہ۔
عرصۂ عرصہ دراز سے والدگرامی میری خواب میں نہیں آئے تھے، مگر پچھلے دِنوں اُن سے خواب میں شرفِ ملاقات حاصل ہوا، کم سے کم ’’کلیاتِ مشیرکاظمی‘‘ پر دل و جان سے محنت کرنے کا صِلا تو مِلا کہ ’’دیدار پدرِجانم‘‘ نصیب ہوا۔
ویسے تو ہر سال مشیر کاظمی کی برسی روایتی انداز میں منائی جاتی ہے مگر اس برس کچھ کیفیت مختلف ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’کلیاتِ مشیرکاظمی‘‘ کی شکل میں مشیر کاظمی کے خواب کی تکمیل ہوئی ہے۔ ایک شاعر کی اس سے بڑھ کر اور کیا حسرت ہوسکتی ہے کہ اُس کا کلام ایک دن کتاب کی شکل میں سامنے آئے۔ مشیرکاظمی تاحیات مختلف اخبارات سے اپنی چھپی ہوئی نظموں کی کٹنگز جمع کرتے رہے، انھیں اخبارات کی کٹنگز کے ساتھ ساتھ وہ اپنی حسرتوں کو بھی اسی فائل میں جمع کرتے رہے جو ان کی حیات میں کبھی پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکیں کہ ایک دن وہ اپنا مجموعہِ کلام چھپوائیں گے!
گو مشیرکاظمی کو زندگی میں بہت سے مواقع ملے کہ وہ اپنے معاشی حالات کو بہتر بنا سکیں مگر انھوں نے اپنے اصولوں سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا اور ایک باوقار اور باعزم انسان کی طرح اپنی زندگی اور شاعری نبھاتے رہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مشیرکاظمی کو ان کی سچی لگن کی وجہ سے خداوند نے ایک منفرد مقام عطا کیا۔
مثلاً جب وہ گیت نگاری کے میدان میں آئے تو انھوں نے شان دار گیت لکھے جو آج بھی دلوں کی دھڑکنوں کو تیز کردیتے ہیں، جن میں مشہورِزمانہ گیت چاندنی راتیں، لال مری پت، شکوہ نہ کر گلہ نہ، ہم چلے اس جہاں سے، مُرجھائے ہوئے پھولوں کی قسم اس دیس میں پھر نہ آؤں گا، شامل ہیں۔
گیت نگاری کے دور ہی میں مشیر کاظمی کے دل میں حب الوطنی کا جذبہ جاگا اور انھوں نے معرکۃ الارا نظمیں لکھیں جو اپنی مثال آپ ہیں، چاہے وہ پینسٹھ کی جنگ کے حوالے سے ہوں یا سقوطِ ڈھاکا پر کہی گئی باکمال نظمیں ہوں، یا پھر حالات حاضرہ کی ستم ظریفیوں پر اک نظر ہو، مشیر کاظمی اپنے دور کے متحرک محبِ وطن شعرا میں شمار ہونے لگے۔
انھوں نے پینسٹھ کی جنگ کے دوران جوش و ولولے سے بھرپور نظمیں لکھیں، جن میں سے ایک نظم میں وہ قوم کی بیٹیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں:
میں تو سمجھا تھا کہ تم اِک مغربی تصویر ہو
شاعروں کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر ہو
میں تو سمجھا تھا مسلماں تم برائے نام ہو
تم نے ثابت کردیا تم دخترِ اسلام ہو
زندہ باد اے انقلابِ قوم کی زندہ مثال
زندہ باد اے ملتِ بیضا کی شانِ لازوال
تُونے فرزندوں کو سِکھلائے شہادت کے چلن
خون سے اپنے لکھی ہے تُو نے تاریخِ وطن
اسی جذبۂ حُب الوطنی نے مشیر کاظمی کے قلم کو جرأت عطا فرمائی کہ انھوں نے تاریخِ پاکستان کے ورق پر اپنا دل سوز قومی ترانہ رقم کر دیا:
اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو
تمھیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
ہماری نسلیں اس قومی نغمے کو کبھی فراموش نہیں کر سکتیں، کیوںکہ اس ترانے میں شہدائے وطنِ عزیز کے لہو کی بُو آتی ہے اور کتنی ہی باوقار و عظیم ماؤں کے جذبات اس نغمے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ یہ اِعزاز مشیر کاظمی کو حاصل ہے کہ آج تک اُن کے قلم سے لکھے اشعار دِلوں کی حرارت بنے ہوئے ہیں۔
قومی شاعری کے حوالے سے مشیر کاظمی کی زندگی میں ایک اور دور آتا ہے جس کا تعلق ’’سقوطِ ڈھاکا‘‘ سے ہے۔ اسی سانحے کو دل میں لیے کبھی وہ ’’ تُربتِ قائداعظم‘‘ پر یہ کہہ کر آنسو بہاتے نظر آتے ہیں:
قائداعظم کی تُربت سے ابھی آیا ہوں میں
نظم کی لڑیوں میں کچھ آنسو پِرو لایا ہوں میں
اور کبھی ’’قبرِاقبال پر‘‘ اپنے دل کے دکھڑے یوں سناتے ہیں:
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبرِاقبال سے آرہی تھی صدا یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
جس طرح مشیرکاظمی نے گیت نگاری اور قومی شاعری میں عروج پایا اسی طرح وہ اپنے دور کے مشہور شاعرِاہلبیت کہلائے، سیدالشہدا امام حسینؑ اور واقعہ کربلا کا اثر تھا کہ اُن کی شاعری میں نغمگی، جوشِ روانی، کے ساتھ ساتھ استدلال، مناظرہ اور جذباتی جدت کے حسین نقش بن بن کر اُبھرے۔
اُن کی نظم میں اس قدر کشِش ہے کہ کوئی نظم پوری پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حُسینیت کو اُنھوں نے اس سُرخ پھول کی طرح دیکھا ہے جس کی تازگی نے پورے چمنستان کو تازہ حیات دے دی ہے، وہ اپنی نظم ’’حسینؑ سب کا‘‘ میں بتانا چاہتے ہیں کہ:
حُسینؑ عرفان و آگہی ہے حُسینؑ تکمیلِ بندگی ہے
کیے ہیں جس نے دماغ روشن لہو سے اپنے چراغ روشن
امید ہے کہ احبابِ ذوق مشیر کاظمی کے کلام سے مستفید ہوتے رہیں گے، آج اگر مشیر کاظمی زندہ ہوتے تو یہ جان کر بے حد خوش ہوتے کہ ان کی کتاب ’’کلیاتِ مشیرکاظمی‘‘ پاکستان کی تمام اہم لائبریریوں، یونیورسٹیوں، کالجوں اور ادبی حلقوں کی زینت ہے اور اس کتاب کو ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے طلبا کے لیے یونیورسٹیوں نے منتخب کیا ہے۔
میں خُداوند کریم کا شُکر گزار ہوں کہ اُس نے مجھے توفیق عطا فرمائی کہ میں اپنے والدِگرامی کا خواب مکمل کرسکا۔
ذیل میں مشیر کاظمی کے دوست جناب جعفر رضا ترمذی مرحوم کے چند محبت بھرے اشعار پیش ہیں جو انھوں نے مشیر کاظمی کے لیے کہے:
تُو قلم کی آبرو تھا لوح کی تُو جان تھا
عِلم کی بارہ دری میں عِلم کی پہچان تھا
تُو زمیں پر چلتا پھرتا فقر کا تھا آسماں
عظمتوں کے نوری دریا کا تھا تُو آبِ رواں
تُو اکیلا وقت کے دامن میں تھا اِک انجمن
تیرا ہر اِک لفظ پوری شاعری کا تھا چمن
مطلعِ شعر و ادب پر تُو تھا مثلِ آفتاب
لا نہیں سکتا زمانہ فِکر کا تیری جواب
کوئی پا سکتا نہیں ہے تیرا اندازِبیاں
بے زباں حرفوں کو تُو نے ذکر سے بخشی زباں
اللہ مشیر کاظمی کے درجات بلند فرمائے، آمین۔
The post مشیر کاظمی ؛ مقبول گیتوں اور نغموں کے خالق appeared first on ایکسپریس اردو.