ملبے پہ پڑی وہ شے اس نے فوراً پہچان لی۔
خاکی پتھروں پر موجود وہ نیلا اور سفید کپڑا دور ہی سے دکھائی دے جاتا تھا۔چھتیس سالہ خلیل خضر نے لپک کر اسے تھام لیا۔ ہاتھ میں آتے ہی خلیل ماضی کی سہانی یادوں میں کھو گیا۔
یہ خاندان کی سب سے ننھی بچی، اس کی اٹھارہ ماہی بیٹی ، روزا کے شبینہ لباس کا ایک حصہ تھا۔
آنسوؤں سے لبریز آنکھیں لیے خلیل نے ساتھ کھڑے صحافیوں کو اپنے موبائل پہ ایک وڈیو دکھائی۔ اس میں پیاری سی روزا نے بڑی شان سے یہی نیلا و سفید لباس زیب تن کر رکھا تھا۔وہ اپنے دو کزنز کے ساتھ کھیل رہی تھی۔تینوں نے دائرے میں ایک خوبصورت رقص بھی کیا۔
یہ وڈیو سلو موشن میں چل رہی تھی۔ اسی لیے لگتا تھا کہ تینوں بچے سہانی ہوا میں مزے سے ہلکورے لے رہے ہیں۔وہ خوب مسکرا رہے تھے۔ یہ ان کے کھیلنے کا وقت جو تھا۔ان کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ ایک عظیم تباہی سروں پر نازل ہونے والی ہے۔
خلیل خضر ایک سنجیدہ و متین انسان ہے۔ کمپیوٹر انجئنیر ہے۔ غزہ کے النجار ہسپتال میں کام کرتا ہے۔وہ چار معصوم بچوں …نو سالہ ابراہیم، پانچ سالہ امل، ڈھائی سالہ کنعان اور اٹھارہ ماہی روزا کا فخرمند باپ تھا۔
اس وقت وہ بڑے احتیاط سے ملبے پہ چل رہا تھا۔ یہ کسی ویران و اجڑی عمارت نہیں اسی کے ہنستے بستے گھر کا ملبہ تھا۔خلیل کا گھر ہسپتال سے کچھ ہی دور واقع ہے۔
وہ پیدل آتا جاتا تھا۔اس کی رہائش گاہ مگر اب ملبے، ٹوٹی پھوٹی گھریلو اشیا اور بچوں کے جلے کھلونوں میں تبدیل ہو چکی تھی۔کھلونے اِدھر اُدھر بکھرے پڑے تھے۔ وہ بھالو اوندھا پڑا ہے تو یہاں ڈھول بجاتا بندر!
20 اکتوبر کی رات خلیل ہسپتال میں کام کر رہا تھا کہ قرب وجوار کا علاقہ زوردار دہماکے سے لرز اٹھا۔سبھی جان گئے کہ اسرائیلی فوج نے علاقے میں کسی مقام کو میزائیل یا بم سے نشانہ بنایا ہے۔
چونکہ خلیل کا گھر اسی علاقے میں تھا لہذا وہ گھبرا کر ہسپتال سے باہر نکل آیا۔ دیکھا کہ اس کے پڑوسی ایک زخمی کو لیے آ رہے ہیں۔ ان سے یہ روح فرسا اسے ملی کہ دہماکا اس کے گھر کے قریب ہی ہوا ہے۔ وہ پریشان ہو کے گھر کی جانب دوڑ پڑا۔
اس گھر میں صرف وہی مقیم نہ تھا بلکہ وہاں اس کے والد، ایک شادی شدہ بھائی اور دو بہنیں بھی رہائش پذیر تھیں۔ یہ بھرا پُرگھرانہ صبر شکر سے زندگی گذار رہا تھا۔خلیل نے گھر کی سمت جاتے ہوئے والد اور بھائی کو فون کیا مگر اسے کوئی جواب نہ ملا۔ اس ناکامی نے خلیل کی تشویش میں اضافہ کر ڈالا۔
گھر پہنچا تو ملبے کا ڈھیر اس کی راہ تک رہا تھا۔ خلیل کی دنیا اندھیر ہو گئی۔ آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ دل غم سے پھٹا جا رہا تھا۔ وہ کچھ دیر کے لیے ہوش وحواس کھو بیٹھا۔ پڑوسیوں نے اسے پانی پلایا اور دلاسا دیا تو جان میں جان آئی۔
اب اپنے یاروں کی تلاش شروع ہوئی۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر اسے معلوم ہو گیا کہ وہ اپنے گیارہ پیاروں سے محروم ہو چکا۔ اس کے چاروں چہیتے بچے، ستر سالہ والد، دونوں بہنیں، بھائی، اس کی بیگم اور ان کی دونوں بیٹیوں کو اسرائیلی میزائیل نگل گیا۔ یوں اس نے ایک ہنستا بستا گھر تباہ و برباد کر ڈالا۔
صبح سویرے گیارہ شہدا کی لاشیں سفید کفن میں لپیٹ کر ہسپتال کے صحن میں رکھ دی گئیں۔ خلیل کی بیوی دہماکے اور پھر ملبہ گرنے سے شدید زخمی ہو گئی تھی۔ اب وہ ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھی۔اس کا بدن زخموں سے چور چور تھا۔
خلیل غزہ ہی میں پیدا ہوا تھا۔ وہ پہلے بھی اہل غزہ پہ اسرائیلی فوج کی تباہ کن بمباری اور لرزہ خیز کارروائیوں کا مشاہدہ کر چکا تھا۔اسرائیلی حکمران طبقے نے زمین، فضا اور سمندر سے غزہ کی ناکابندی کرکے اس ساحلی پٹی کو دنیا کے سب سے بڑے قید خانے میں تبدیل کر دیا تھا۔یہ علاقہ کئی برس سے آگ و خون میں لت پت ہے اور جنگ یہاں کے مکینوں کے لیے کوئی عجوبہ نہیں رہی۔
لیکن سات اکتوبر سے اسرائیلی فوج نے جو حملہ شروع کیا تھا، اس کی شدت و تیزی ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔دشمن کو اس بار ایسے کاری زخم لگے تھے کہ انھیں چاٹتے ہوئے اسرائیلی افواج نے اہل غزہ پہ میزائیلوں اور بموں کی بارش کر دی تھی۔
خلیل جب نوجوان اور غیر شادی شدہ تھا، تو اس کی تمنا تھی کہ وہ بیرون ملک چلا جائے۔ مگر وہ اپنے پیاروں کو چھوڑ کر نہیں جا سکا۔
اس نے پھر کمپیوٹر انجئیرئنگ کی تعلیم پائی اور النجار ہسپتال میں کام کرنے لگا۔برسرروزگار ہوتے ہی باپ نے اس کی شادی کر دی۔ چند برس میں چار پھولوں نے کھل کر اس کے آنگن کو مہکا دیا۔ خلیل کو محسوس ہو اکہ زندگی اتنی بھی ظالم ، کٹھن اور کٹھور نہیں۔
خلیل بتاتا ہے:’’میں نے اپنے ہر بچے کے لیے خواب دیکھ رکھے تھے۔ابراہیم میرا پہلا بچہ ہے جو اسکول میں داخل ہوا۔ میں تصوّر میں اسے ڈاکٹر بنا دیکھتا تھا۔امل بہت تخلیقی ذہن کی مالک تھی۔ ڈرائنگ بہت خوبصورت بناتی۔اکثر میں بھی اس کے ساتھ ڈرائنگیں بنایا کرتا۔یہ اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
’’کنعان بہت خوش مزاج تھا۔ سبھی اسے چاہتے تھے۔ پھر وہ اپنی چھوٹی بہن، روزا کا بہت خیال رکھتا تھا۔جب وہ کسی وجہ سے روتی تو اسے گود میں اٹھا لیتا اور چپ کرنے کی کوشش کرتا…مگر پھر اسرائیلی ڈراؤنا خواب بن کر نمودار ہو ئے اور میرے سارے خواب چکناچور ہو چکے۔‘‘
خلیل کی ایک بہن کی لاش ابھی تک نہیں مل سکی۔ غز ہ میں اسرائیلی بم باری کی وجہ سے ہزارہا گھر اور عمارتیں تباہ ہو چکیں۔ اور اہل غزہ کے پاس اتنی مشینری نہیں کہ سبھی منہدم عمارتوں کا ملبہ صاف کیا جا سکے۔پھر خلیل کو ہسپتال میں زیرعلاج اپنی بیگم کی بھی تیمارداری کرنا ہے۔ ان کے بچے تو اللہ تعالی کے پاس جا چکے۔
آج بھی خلیل ملنے والوں کو اپنے راج دلاروں …ابراہیم، امل، کنعان اور روزا کی تصاویر دکھاتا ہے تو اس کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ وہ تاعمر انھیں فراموش نہیں کر سکتا۔
٭٭
غزہ میں یہ صرف ایک خاندان کی دردناک اور لرزہ خیز داستان نہیں بلکہ وہاں چپے چپے پر ایسی ہی خون کے آنسو رُلا دینی والی کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔منقم مزاج اسرائیلیوں نے فلسطینی مسلمانوں پہ بم باری کرتے ہوئے تمام انسانی ، اخلاقی اور قانونی ضابطوں کو فراموش کر دیا اور غزہ میں تباہی و بربادی کا ایسا خوفناک باب رقم کیاجو تاریخ انسانیت میں کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ اسرائیلی حکمران چنگیز خان اور ہلاکو بن بیٹھے اور وحشت و ظلم کی نئی تاریخ لکھ ڈالی۔
سات اکتوبر کے بعد غزہ کے تئیس لاکھ مکین جس قیامت ارضی سے گذرے، شاید اس کا تصوّر بھی وہ لوگ نہیں کر سکتے جو اپنے گھروں میں آرام دہ اور پُرآسائش زندگی گذار رہے ہیں۔
زیادہ تکلیف دہ اور کربناک امر یہ ہے کہ دنیا والے بھرپور کوشش کے باوجود اسرائیلی مشینری کو فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام سے نہ روک سکے۔ اسرائیل کی دیدہ دلیری اور ہٹ دھرمی نے ثابت کر دیا کہ عالمی سطح پہ صرف طاقت کا اصول وقانون چلتا ہے ۔ جس کی لاٹھی ، اس کی بھینس کا نظریہ وفلسفہ کارفرما ہے۔
اسرائیل مست بیل بن کر اہل غزہ پہ ٹوٹ پڑا اور کوئی نہ تھا جو اس غرور وتکبر سے بھرے حیوان کو نکیل ڈال پاتا۔ اس نے انسانیت ، محبت، رحم دلی، بھائی چارے کے تمام اعلی آدرش، تمام پاکیزہ جذبے پیروں تلے کچل ڈالے اور حقیقتاً انسانیت پر سے اعتماد اٹھا دیا۔
سائنس و ٹکنالوجی نے انسانوں کو بیش بہا سہولیات مہیا کی ہیں مگر ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جدید انسان روحانی اقدار کو تج کر مادیت پسندی کی طرف مائل ہو گیا۔
اسی لیے آج بھی زمانہ قدیم کی طرح انسان محبت کی نسبت وحشت وحیوانیت کے زیادہ قریب ہے۔ اسرائیلی حکمران طبقے کا غزہ میں طرزعمل اس دعوی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔اقوام متحدہ کا بیان ہے کہ اسرائیل نے غزہ کو بچوں کا قبرستان بنا دیا۔ اس اعلان کے پس پشت انتہائی دردناک ، لہو بار اور خوفناک کہانیاں پوشیدہ ہیں۔
بعض مسلم ماہرین غزہ میںفلسطینی مسلمانوں کے قتل عام کا ذمے دار فلسطینی تنظیم، حماس کو بھی ٹھہراتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ شدت پسند تنظیم ہے جس نے قیام اسرائیل کو قبول نہیں کیا۔ وہ بذریعہ جنگ اسرائیل کو نیست ونابود کر دینا چاہتی ہے۔ یہ ماہرین سمجھتے ہیں کہ حقائق مدنظر رکھتے ہوئے حماس کو اسرائیل کا قیام تسلیم کر لینا چاہیے۔
اسرائیل نہ صرف ایٹمی طاقت ہے بلکہ اسے امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین جیسی سپرپاورز کا تعاون بھی حاصل ہے۔جبکہ حماس کی مدد چند ہی اسلامی ممالک چوری چھپے کر پاتے ہیں۔ وہ کبھی اسرائیلی افواج کو شکست نہیں دے سکتی۔ حماس کی مسلسل مزاحمت کا منفی پہلو یہ ہے کہ دونوں فریقوں کی لڑائی میں شہریوں کو جانی ومالی نقصان ہو گا اور وہ امن وامان سے زندگی گذارنے کے اپنے حق سے محروم رہیں گے۔
گویا ان ماہرین کی نظر میں ارض فلسطین میں جنگ وجدل ختم کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ وہاں دو ریاستیں…فلسطین اور اسرائیل وجود میں آ جائیں۔
اس کے بعد یہ دونوں ریاستوں کے مکین امن سے خوشحال و مطمئن زندگی بسر کر سکیں گے۔ اگر دونوں فریق ایک دوسرے کو ختم کرنے کے درپے رہے تو علاقے میں کبھی امن نہیں آ ئے گا۔ وہاں دشمنی کی آگ بھڑکتی رہے گی اور خون کی ندیاں بہتی رہیں گی۔
The post صرف ایک میزائیل نے ہنستا بستا گھر اجاڑ دیا appeared first on ایکسپریس اردو.