اسلام دنیا کا ایسا مذہب ہے جو انسانیت کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے ، جس نے تمام حقوق اس کی حیثیت کے مطابق رکھ دیئے۔
اسلام امن سلامتی و آشتی کا دین ہے جس میں کوئی جبر نہیں، اتنا آسان مذہب کوئی نہیں جتنا اسلام ہے، ہماری روزمرہ زندگی میں جو ہم وقت گزارتے ہیں اسلام ہی ہماری ہر طرح کی رہنمائی کرتا ہے اور ہمیں اچھی زندگی گزارنے کے اصول بتاتا ہے۔ اگر ہم صحیح معنوں میں اسلامی تعلیمات اور سنت نبوی ﷺ پر عمل کریں تو ہماری زندگی جنت بن جائے ۔
جب سے ہم نے اسلامی تعلیمات اور نبی کریمﷺ کے اسوہ حسنہ کو چھوڑا ہے اس وقت سے آسیب، مصائب، مشکلات اور پریشانیوں نے ہمیں آگھیرا ہے ۔ اسلام محض عبادات کا نام نہیں ہے، اسلام انسانی زندگی کے جملہ معمولات اور معاملات کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ واحد الہامی دین ہے جو انسان کو سونے، اٹھنے ، جاگنے ، کاروبار کرنے، دوسروں کے ساتھ معاملات کرنے کی مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
قرآنی انسائیکلو پیڈیا کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ زندگی کو درپیش کوئی معاملہ اور شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں قرآن مجید انسانیت کو رہنمائی مہیا کرتا نظر نہیں آتا ، آج مسلم امہ کا سب سے بڑا مسئلہ قرآن و سنت کے مطالعہ سے دوری ہے ، ہم سنی سنائی باتوں پر جب عمل کرتے ہیں تو یہیں سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں، ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ وہ باقاعدگی کے ساتھ قرآن و سنت کا مطالعہ بھی کرے اور آیات ربانی کے حوالے سے غور و فکر اور تدبر سے کام لے۔
اسلام میں نیکی کا جو جامع تصور پیش کیا گیا ہے اس میں خدمت خلق، حقوق انسانیت، رہن سہن اور معاشرت بھی ایک لازمی حصہ ہے ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اللہ کی محبت میں اپنا مال قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والے(حقیقی ضرورت مندوں) اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے، یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں ۔
سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی متقی ہیں ۔ (البقرۃ 2:177) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ا رشاد فرمایا: کامل مومن وہ ہے جس کی ایذا سے لوگ مامون و محفوظ ہوں ۔ (بخاری) نیز یہ بھی فرمایا: بہترین انسان وہ ہے جس سے دوسرے انسانوں کو فائدہ پہنچے (کنز العمال) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں : ملاقات ہونے پر سلام کرنا ، چھینک آنے پر رحمت کی دعا دینا، بیماری میں عیادت کرنا ، مرنے پر جنازے میں شرکت کرنا ، جو خود کو پسند ہو ، وہی اپنے مسلمان بھائی کے لیے پسند کرنا (ترمذی) ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بنی اسرائیل میں ایک بدکار عورت ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے سے جنت میں چلی گئی جب کہ بنی اسرائیل ہی کی ایک پارسا عورت ایک بلی کو محبوس کر کے بھوک پیاس سے مار دینے کے سبب جہنم رسید ہوئی (ترمذی) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کسی کا کوئی غلام ہو تو اس غلام کو وہی لباس پہنائے جو خود پہنتا ہے ، وہی کھانا کھلائے جو خود کھاتا ہے ۔
اس کے ذمہ اتنا کام نہ لگائے جو اس پرغالب آئے ، (اگر وقتی ضرورت سے) ایسا کیا تو پھر اس کا ہاتھ بٹائے (بخاری و مسلم) مزید فرمایا جب تم میں سے کسی کا خادم اس کو آگ کی گرمی اور دھویں سے بچا کر اس کے لیے کھانا تیار کرے تو اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاؤ! ورنہ کم از کم ایک لقمہ اس کے منہ میں ڈال دو (ترمذی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنے آنے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں: اللہ تعالیٰ سے ڈرے ۔ مسلمانوں کے بڑوں کا احترام کرے ۔ چھوٹوں پر شفقت کرے۔ علماء کی تعظیم کرے۔
کسی کوتکلیف دے کر ذلیل نہ کرے۔ ڈرا ڈرا کر کافر نہ کرے ۔ خصی کر کے نسل کشی نہ کرے ۔ اپنا دروازہ ان کے لیے بند نہ کرے ، یہاں تک کہ کمزوروں پر طاقت ور ظلم کرنے لگ جائیں (سنن کبری للبیہقی) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے حق میں بہترین ہو۔
(سنن ترمذی،صحیح ابن حبان) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو دنیا میں کسی مصیبت زدہ سے کسی دنیاوی تکلیف اور مصیبت کو دور کر دے (یا دورکرنے میں مددکردے) تو اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن اْخروی مصیبت کو ہٹا دیں گے نیز جو دنیا میں مشکلات میں گھرے ہوئے کسی شخص کے لیے آسانی پید ا کرنے کی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے (دونوں جہاں کی)آسانیاں پیدا فرما دیں گے اور اللہ تعالیٰ اس بندے کی مسلسل مدد فرماتے ہیں جو کسی اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے (ترمذی) رسول اللہﷺ نے جو مربوط نظام ، انسانی حقوق کا پیش کیا ، وہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔
جن میں احترام انسانیت ، بشری نفسیات و رجحانات اور انسان کے معاشرتی، تعلیمی، شہری، ملکی، ملی، ثقافتی، تمدنی اور معاشی تقاضوں اور ضروریات کا مکمل لحاظ کیا گیا ہے ۔ حقوق کی ادائیگی کو اسلام نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اگر کسی شخص نے دنیا میں کسی کا حق ادا نہیں کیا تو آخرت میں اسے ادا کرنا پڑے گا، ورنہ سزا بھگتنی پڑے گی۔
انسانی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت انسانی حقوق میں سب سے پہلا اور بنیادی حق ہے، اس لیے کہ جان سب سے قیمتی اثاثہ ہے ۔ بعثت نبویﷺ سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی ، سب سے پہلے رسول اللہﷺ نے انسانی جان کا احترام سکھایا ، ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ۔
دہشت گردی ، انتہا پسندی ،بدامنی اور قتل وغارت گری کی بناء پر انسان کا جو حق سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے، وہ اس کی زندگی اور احترام انسانیت کا حق ہے۔ اسی طرح اسلام نے تمام قسم کے امتیازات اور ذات پات، نسل، رنگ، جنس، زبان، حسب و نسب اور مال و دولت پر مبنی تعصبات کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے برابر قرار دیا۔
خواہ وہ امیر ہوں یا غریب ، سفید ہوں یا سیاہ، مشرق میں ہوں یا مغرب میں، مرد ہوں یا عورت اور چاہے وہ کسی بھی لسانی یا جغرافیائی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں ، بیوی شوہر کے حقوق ادا نہ کرے تو شوہر کی زندگی کا سکون غارت ہو جائے گا ، پڑوسی ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کریں تو محبت و امن کی فضا مکدر ہو جائے گی۔ اسی طرح مسلم غیر مسلموں کے حقوق ادا نہ کریں تو دنیا تعصب و عناد اور فتنہ وفساد کے جنگل میں تبدیل ہو جائے گی ، امیر لوگ غریبوں کے حقوق ادا نہ کریں تو غریبوں کی زندگی فاقہ کشی کا شکار ہو جائے گی۔
بالکل اسی طرح ماں باپ اولاد کے حقوق ادا نہ کریں تو اولاد نافرمان ، باغی، دین سے دور اور والدین کے لیے مصیبت و وبال بن جائے گی اور اولاد ماں باپ کے حقوق ادا نہ کرے تو ماں باپ کو بڑھاپے میں سہارا اور سکون نہیں ملے گا ۔ غرض یہ کہ دنیا میں فساد ہی فساد برپا ہو جائے گااور امن قائم نہ رہ سکے گا۔
پس امن کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام انسان ایک دوسرے کے وہ تمام حقوق، جو اللہ تعالیٰ نے لازم کیے ہیں ، ادا کرتے رہیں، یہی اسلام کی اولین تعلیم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد بعثت ہے، حضور نبی اکرمﷺ نے اہل ایمان کو تلقین فرمائی ہے کہ وہ ان فرائض کو ادا کریں جو ان پر ان کے والدین، بچوں، عورتوں، ان کے پڑوسیوں، غلاموں اور ذمیوں وغیرہ کی طرف سے عائد ہوتے ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ آج خود مسلمانوں نے اسلام کی ان پیاری آفاقی تعلیمات کو بھلا دیا ہے ، ریاست اپنی ذمہ داریوں کو نبھا رہی ہے اور نہ ہی فرد واحد اپنے اوپر عائد حقوق کی ادائیگی کر رہا ہے، جس کا نتیجہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ۔آج ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات سے ہم خود بھی آگاہ نہیں ہیں اور دنیا کو بھی ان سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہمیں صحیح طور پر محسوس نہیں ہو رہی ورنہ حقوق کا جو جامع اور متوازن تصور دین اسلام نے دیا ہے دنیا کے کسی نظام میں اس کا کوئی متبادل نہیں ہے، دین اسلام، دین انسانیت ہونے کے اعتبار سے انسانیت کو ایک ناقابل تقسیم اکائی مانتا ہے ۔
حدیث مبارکہ میں مخلوق کو اللہ کا کنبہ قرار دیا گیا ہے (یہاں کنبے سے لفظی معنی مراد نہیں ، یہ لفظ حقوق کی بجاآوری کے اعتبار سے ہے)۔ اس لیے انسانی زندگی کی ضرورتوں سے جڑا ہر عمل، خواہ وہ قدرتی وسائل سے استفادہ ہو یا ایک باسہولت اور پرآسائش زندگی گزارنا ، یہ ہر انسان کا بنیادی حق قرار پاتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے انسان جسمانی و باطنی اعتبار سے ایک جیسے ہیں ۔
کوئی انسان گورا ہو یا کالا، کوئی بھی زبان بولنے والا یا کسی بھی جغرافیے سے تعلق رکھنے والا ہو، بھوک، پیاس، آرام دہ زندگی، اپنی جان ومال اور عزت کا تحفظ اور یکساں حقوق پہ مبنی طرز زندگی چاہتا ہے۔ اسی طرح اس کائنات میں اللہ نے جتنے بھی وسائل پیدا کیے، خواہ وہ اناج ہو یا معدنی ذخائر ، ان کو کام میں لا کر انسانی احتیاجات کی تکمیل ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اسی طرح جسم انسانی کے طبعی عوامل مثلاً خوراک سے استفادہ، جسم کا بدلتے موسموں کے مطابق ردعمل، یہاں تک کہ مختلف مسائل و مشکلات کو حل کرنے کے طریقے ڈھونڈنے وغیرہ میں بھی، ظاہری اختلافات کے باوجود کم وبیش یکسانیت پائی جاتی ہے۔
یہی وجہ کہ اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں نے ہر دور میں اْن شیطان صفت اور انسانیت دشمن گروہوں کے قائم کردہ نظاموں کے خلاف بھرپور جدوجہد کی ، جنھوں نے مختلف ادوار میں اپنی نفسانی خواہشات کے تابع ہو کرتمام وسائل پر قبضہ کر لیا تھااور دیگر انسانوں کو ان وسائل سے محروم کر کے انھیں اپنا غلام بنا لیا تھا ۔ اسی لیے انبیائؑ نے اپنے اپنے دور میں اس محروم انسانیت کو وقت کے فرعونوں اور نمرودوں کے غاصبانہ قبضے سے نجات دلائی۔
خود حضور نبی اکرمﷺ نے خالصتاً انسانی بنیادوں پر تشکیل معاشرہ کا عمل اختیار فرمایا ۔ آپﷺ کی جدوجہد کے نتیجے میں جو پہلی سوسائٹی مدینہ منورہ میں قائم ہوئی، اس کا بنیادی مقصد ہی بلا تفریق، رنگ، نسل اور مذہب تکریم انسانیت اور انھیں معاشی حقوق کی فراہمی تھا۔ یہی وجہ ہے اس ریاستی نظام کی تشکیل اور اس کے سیاسی و معاشی ثمرات کے حصول میں مہاجرین وانصار کے ساتھ ساتھ مدینہ کے غیر مسلم قبائل بھی یکساں طور پر شریک رہے۔ یاد رہنا چاہیے کہ قرآن حکیم کی انسانیت نواز فکر پر جو انقلاب آپﷺ نے برپا کیا تھا، دنیائے انسانیت اس کے ثمرات سے کم و بیش چودہ سوسال تک بلا تفریق رنگ، نسل اور مذہب یکساں طور پر مستفید ہوتی رہی ۔آج دنیا میں وسائل کی ہرگز کمی نہیں لیکن دنیا پر ایک دفعہ پھر نفسانی خواہشات کے اسیر اور انسان نما شیطانوں کے قائم کردہ عالمی سرمایہ داری نظام کا تسلط ہے ۔
ان سامراجی طاقتوں نے، ہمارے جیسے معاشروں میں، اپنے آلہ کار طبقات کے ذریعے نفرت و انتشار کی تخم ریزی بھی اسی لیے کی ہے کہ انسانیت ظاہری اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے سے الجھتی رہے اور ان ظالمانہ طبقات کی سفلی خواہشات کی تکمیل ہوتی رہے ۔
آج کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ دین اسلام کا تعارف دنیا کے سامنے رکھا جائے جو حقیقی معنوں میں دین ِانسانیت بھی ہے اور انسانی تقاضوں کی تکمیل کی ایک شاندار تاریخ کا حامل بھی۔ اس لیے آج سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ دین اسلام کی انسانیت دوست تعلیمات کا شعور عام کیا جائے اور اس کے مطابق عملی سوسائٹی کی تشکیل کے لیے اسوہ پیغمبرﷺ کو مشعل راہ بنا کر دین کا عادلانہ نظام عملی طور پر قائم کیا جائے تاکہ انسانیت پر ظلم و بربریت اور انسانیت دشمنی کی مسلط اس تاریک رات کاخاتمہ ہو اور انسانیت، دین اسلام کی حقیقی سلامتی سے منور ہو سکے ۔
آئیے! اسلام کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں ان شاء اللہ ہماری زندگی سہل ہو جائے گی اور مشکلات و پریشانیاں ختم ہو جائیں گی اور زندگی جنت نظیر بن جا ئے گی ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین اسلام کی آفاقی تعلیمات اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہء حسنہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین
The post دین اسلام میں انسانیت کی قدر واہمیت appeared first on ایکسپریس اردو.